فریب
محفلین
فرزانہ نیناں
“میری شاعری“ کو پڑھنے سے پہلے تک تو مجھے ایسا لگا تھا کہ فرزانہ صاحبہ بہت اچھی شاعرہ ہیں مگر “ میری شاعری“ کو پڑھنے کے بعد احساس ہو کہ وہ ایک بہت اچھی نثر لکھنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں
اور زبردست قیصرانی کہ آپ نے بہت محنت سے یہ سب کچھ جمع کیا ہے اور کر رہے ہیں
قیصرانی نے کہا:میری شاعری
میری شاعری میرے بچپن اور جوانی کی کائنات کےرنگوں میں ڈھلی ہے، یادیں طلسمَاتی منظروں کو لیئےچلی آتی ہیں۔۔۔
وہ منظرجو دیو مالائی کہانیوں کی طرح، الف لیلوی داستانوں کی طرح،مجھےشہرزاد بننےپر مجبور کردیتےہیں،عمر و عیار کی زنبیل سےہر بار کچھ نہ کچھ نکل آتا ہے، شہر بغداد کی گلیاں اجڑ چکی ہیں،نیل کےپانیوں میں جلتےچراغ،دھواں بن کر اوپر ہی اوپر کسی انجانےدیس میں جاچکےہیں،دجلہ کےدھاروں سا جلترنگ کہیں سنائی نہیں دیتا۔۔۔
گلی کےآخری کنارےپر بہنےوالا پرنالہ، بنجر ہوچکا ہےجہاں اسکول سےواپس آتےہوئےمیں،بر کھا رت میں اپنی کاپیاں پھاڑ کر کاغذ کی کشتیوں میں تبدیل کر دیا کر تی تھی۔۔۔
گھر کےپچھواڑےوالا سوہانجنےکا درخت اپنےپھولوں اور پھلیوں سمیت وقت کا لقمہ بن چکا ہے، جس کی مٹی سےمجھےکبھی کبھی کبھار چونی اٹھنی مل جاتی تھی۔۔۔۔
پیپل کےدرخت کےوہ پتےجن کی پیپی بنا کر میں شہنائی کی آواز سنا کرتی تھی،اس کی لٹکتی ہوئی جڑیں جو مجھےسادھو بن کر ڈراتی تھیں، مہاتما بدھ کےنروان کو تلاش کرتےکرتےپچھلی صدی کی گپھا میں ہی رہ گئےہیں۔۔۔
میری شاعری نیلگوں وسیع و عریض، شفاف آسمان کا کینوس ہے،جہاں میں اپنی مرضی کی تصویریں پینٹ کرتی ہوں۔۔۔۔
رابن ہڈ کےاس شہر کی سرنگیں،نجانےکس طرح میڈ میرین کو لےکر مغلیہ دور کےقلعوں میں جا نکلتی ہیں۔۔۔
لارڈ بائرن کا یہ شہر،دھیرےدھیرےمجھےجکڑ تا رہا،ولیم ورڈز ورتھ کےڈیفوڈل اپنی زرد زرد پلکوں سےسرسوں کےکھیت یاددلاتےرہے۔۔۔
نوٹنگھم شہر کی چوک کےوسط میں لہراتا یونین جیک، نجانےکس طرح سبز پاکستانی پرچم کےچاند تارےمیں بدل جاتا ہے۔۔۔
پرانی کیسٹوں میں ریکارڈ کئےہوئےگیت اور دوہے، کسی نہ کسی طرح پائلوں میں رمبھا، سمبھا اور لیٹن کی تھرک پیدا کردیتےہیں۔۔۔
شیلےاور کیٹس کا رومانوی انداز،غالب اور چغتائی کےآرٹ کا مرقع بننےلگتا ہے۔۔۔
شیلنگ کیHymns مجھےہندی بھجن سننےپر مجبور کرکےجوگن بنادیتےہیں۔۔۔
سائنسی حقیقتیں،میرےدرد کو نیلی رگوں میں بدلنےکی وجوہات تلاش کرتی ہیں۔۔۔
کریم کافی،مٹی کی سوندھی سوندھی پیالیوں میں جمی چاندی کےورق جیسی کھیر بن کر مسجدوں سےآنےوالی اذاں کی طرح رونگھٹےکھڑےکر دیتی ہے۔۔۔۔
سونےکےنقش و نگار سےمزین کتھیڈرل، اونچےاونچےبلند و بالا گرجا گھر،مشرق کےسورج چاچا اور چندا ماما کا چہرہ چومتےہیں۔۔۔
وینس کی گلیوں میں گھومتےہوئی،پانی میں کھڑی عمارتوں کی دیواروں پر کائی کاسبز رنگ ،مجھےسپارہ پڑھانےوالی استانی جی کےآنگن میں لگی ترئی کی بیلوں کی طرح لپٹا۔۔۔
جولیٹ کےگھر کی بالکنی میں کھڑےہوکر،مجھےاپنےگلی محلوں کےلڑ کوں کی سیٹیاں سنائی دیں۔۔۔
شاہ عبدالطیف بھٹائی کےمزار اور سہون شریف سےلائی ہوئی کچےکانچ کی چوڑیاں، مٹی کےرنگین گگھو گھوڑےجب میں تحفتا اپنےانگریز دوستوں کےلئےلائی تو میری سانس کی مالا فقیروں کےگلوں میں پڑےمنکوں کی مانند بکھر کر کاغذپر قلم کی آنکھ سےٹپک گئی۔۔۔
شاعری مجھےاپنی ہواؤں میں،پروین شاکر کی خوشبو کی طرح اڑانےلگتی ہے، موتئےکی وہ کلیاں یاد دلاتی ہےجنھیں میں قبل از وقت کھلاکر گجرا بنانے کیلئے، کچا کچا توڑ کر بھیگےبھیگےسفید ململ میں لپیٹ دیا کر تی تھی،اور وہ رات کی رانی جو میری خوابگاہ کی کھڑکی کےپاس تھی ،آج بھی یادوں کی بین پر لہراتی رہتی ہے۔۔۔۔
شاعری ایک نیلا نیلا گہرا سمندر بن کر ان لہروں کےچھینٹےاڑانےپر مجبور کردیتی ہے،جہاں میں اتوار کو گھر والوں کےساتھ جاکر اونٹوں کےگلےمیں بجتی گھنٹیوں کےسحر میں مبتلا ،سیپیاں چنتےچنتی، ریت میں سسی کےآنچل کا کنارہ،ڈھونڈنےلگتی تھی۔۔۔
سنہری دھوپ کےساتھ بچپن کےاس گاؤں کی طرف لےجاتی ہےجہاں ہم گرمیوں کی چھٹیاں گزارنےجاتےتھی،معصوم سہیلیوں کےپراندوں میں الجھا دیتی ہےجن میں وہ موتی پرو کر نشانی کےطور پر مجھےدیتی تھیں،تاکہ میں انھیں شہر جاکر بھول نہ جاؤں۔۔۔
شاعری وہ نیل کنٹھ ہےجو صرف گاؤں میں نظر آتا تھا،جس کےبارےمیں اپنی کلاس فیلوز کو بتاتےہوئےمیں ان کی آنکھوں کی حیرت سےلطف اندوز ہوتی اورصوفی شعرا کےکلام جیسا سرور محسوس کرتی۔۔۔
شاعری ان گلابی گلابوں کےساتھ بہتی ہےجنھیں میں اپنےابو کےگلقند بنانےوالےباغوں سےتوڑ کر اپنی جھولی میں بھرکر،ندیا میں ڈالتی اوراس پل پرجو اس وقت بھی مجھےچینی اور جاپانی دیو مالائی کہانیوں کےدیس میں لےجاتا تھا گھنٹوں کھڑی اپنی سہیلیوں کےساتھ اس بات پر جھگڑتی کہ میرےگلاب زیادہ دور گئےہیں۔۔۔۔
صفورےکےاس درخت کی گھنی چھاؤں میں بٹھادیتی ہےجو ہمارےباغیچےمیں تھا اور جس کےنیلےاودے پھول جھڑ کر زمین پر اک غالیچہ بنتی،جس پر سفر کرتےہوئےمجھےکسی کنکورڈ کی چنگھاڑ نہیں سنائی دیتی تھی۔۔۔
شاعری بڑےبھائی کی محبتوں کی وسعتوں کا وہ نیلا آسمانی حصار ہے،جوکبھی کسی محرومی کےاحساس سےنہیں ٹوٹا۔۔۔۔
کڑوےنیم تلےجھلنےوالا وہ پنکھا ہےجس کےجھونکےبڑی باجی کی بانہوں کی طرح میرےگرد لپٹ جاتےہیں۔۔۔
شاعری سڑکوں پر چھوٹےبھائی کی موٹر سائیکل کی طرح فراٹےبھرتی ہےجس پر میں اس کےساتھ سند باد جیسی انگریزی فلمیں دیکھنےجاتی اور واپسی پر جادوگر کےسونگھائےہوئےنیلےگلاب کےاثر میں واپس آتی۔۔۔
ان تتلیوں اور مورنیوں کےپاس لےجاتی ہےجو چھوٹی بہنوں کی صورت، آپی آپی کہہ کر میرےگرد منڈلاتی رہتی تھیں۔۔۔۔
ان چڑیوں کی چوں چوں سنواتی ہےجن کو میں دادی کی آنکھ بچاکر باسمتی چاول، مٹھیاں بھر بھر کےچپکےسےچھت پرکھلاتی اور ان کی پیار بھری ڈانٹ سنا کرتی تھی۔۔۔
میرےطوطےکی گردن کےگرد پڑا ہوا سرخ کنٹھا بن جاتی ہے، جس سےٹپکنےوالےسرخ لہو کےقطرےیادوں کےدریا میں گرتےہی لعل و یاقوت بن کر راجکماری کےمحل کو جانےوالی سمت بہتےہیں، انار کی نارنجی کچی کلیاں ہیں جو نگہت اور شاہین،اپنی امی سےچھپ کر میرےساتھ توڑلیتیں، جس کےبعد بقیہ انار پکنےتک گھر سےنکلنا بند ہوجا یا کرتا تھا۔۔۔۔
مولسری کی ان شاخوں میں چھپادیتی ہےجن پر میں اور شہنازتپتی دوپہروں میں مولسریاں کھا کر ان کی گٹھلیاں راہگیروں کو مارتےاور اپنےآپ کو ماورا ئی شخصیت سمجھتے۔۔۔
شیریں کےگھر میں لگےہوئےشہتوت کےکالےکالےرسیلےگچھوں جیسی ہےجن کا ارغوانی رنگ سفید یو نیفارم سےچھٹائےنہیں چھٹتا ۔۔۔۔
شاعری مجھےان اونچی اونچی محرابوں میں لےجاتی ہےجہاں میں اپنی حسین پھپھیوں کو کہانیوں کی شہَزادیاں سمجھا کرتی ،جن کےپائیں باغ میں لگا جامن کا درخت آج بھی یادوں پر نمک مرچ چھڑک کر کوئلوں اور پپیہوں کی طرح کوکتا ہے، شاعری بلقیس خالہ کا وہ پاندان یاد دلاتی ہےجس میں سپاری کےطرح ان لمحوں کےکٹےہوئےٹکڑےرکھےہیں جن میں ،میں ابن صفی صاحب سےحمیدی ،فریدی اور عمران کےآنےوالےنئےناول کی چھان بین کرتی ، خالہ کےہاتھ سےلگےہوئےپان کا سفید چونا،صفی صاحب کی سفید شیور لیٹ کار کی طرح اندر سےکاٹ کر تیز رفتاری سےاب بھی گزرتا ہے۔۔۔
یہ کبھی کبھی مجھےموہنجو دڑو جیسےقبرستان میں کھڑا کر دیتی ہے ، جہاں میں اپنےماں ،باپ کےلئےفاتحہ پڑھتےہوئےکورےکانچ کی وقت گھڑی میں ریت کی مانند بکھرنےلگتی ہوں،مصری ممیوں کی طرح حنوط چہروں کو جگانےکی کوشش کرتی ہوں،نیلگوں اداسیاں مجھےگھیر لیتی ہیں،درد کی نیلی رگیں میرےتن بدن پر ابھرنےلگتی ہیں،شب کےنیلگوں اندھیرےمیں سر سراتی دھنیں،سایوں کی مانند ارد گرد ناچنےلگتی ہیں،ان کی نیلاہٹ ،پر اسرارطمانیت کےساتھ چھن چھن کر دریچوں کا پٹ کھولتی ہے، چکوری کی مانند ،چاند ستاروں کےبتاشےسمیٹنےکی خواہشیں کاغذ کےلبوں پر آجاتی ہیں ،سقراط کےزہریلےپیالےمیں چاشنی ملانےکی کوشش تیز ہو جاتی ہے، ہری ہری گھاس کی باریک پتیوں پہ شبنم کی بوندیں جمتی ہی نہیں،والدین جنت الفردوس کو سدھارے،پردیس نےبہن بھائی اور ہمجولیاں چھین لیں،درد بھرےگیت روح چھیلنےلگی،حساسیت بڑھ گئی ، ڈائری کے صفحے کالے ہوتے گئے، دل میں کسک کی کرچیاں چبھتی رہیں،کتابیں اور موسیقی ساتھی بن گئی، بےتحاشہ مطالعہ کیا،جس لائیبریری سےجو بھی مل جاتا پیاسی ندی کی مانندپی جاتی،رات گئےتک مطالعہ کرتی، دنیا کےمختلف ممالک کےادب سےبھی شناسائی ہوئی،یوں رفتہ رفتہ اس نیلےساگر میں پوری طرح ڈوب گئی، شاعری ایک اپنی دنیا ہےجہاں کچھ پل کےلئےاچانک سب کی نظر سےاوجھل ہو کر میں شہرِ سبا کی سیڑھیاں چڑھتی ہوں،اسی لیئےمیری شاعری سماجی اور انقلابی مسائل کےبجائےمیری اپنی راہ فرار کی جانب جاتی ہے، ورنہ اس دنیا میں کون ہےجس کو ان سےمفر ہے!
شاعری کےرموز واوقاف، اوزان، بحور وغیرہ پر مہارت کا مجھےکوئی دعویٰ نہیں ،استاد شعرا کی برابری میرا شیوہ نہیں،میری تشبیہات اور استعارے کسی سےمستعار نہیں لئےگئے، مجھےاپنی مرضی کےالفاظ کا تانا بانا بننا اچھا لگتا ہے، استاد شعراءنےکمال محبت سےمجھےسمجھایا کہ بی بی اپنےہنر کو تراش کر ہیرا بناؤ ،ابھی جن پابندیوں پر چیخ پڑتی ہو، کل یہی کام آئیں گی،سو میں ایک سعادت مند بچی کی طرح پابندیوں والی کڑوی گولیاں نگلنےکی کوشش کر رہی ہوں ،کوہ نور ہیرےکی جستجو کب تک رہےگی ،کچھ خبر نہیں!
اس کتاب اور کلام کےلئےہر اس شخص کی ممنون ہوں جس نےایک چھوٹا سا بھی مشورےکا موتی میری نذر کیا۔۔۔
یہی شاعری مجھےنیلےنیلےآسمان کی وسعتوں سےبادلوں کےچھوٹےچھوٹےسپید ٹکروں کی مانند، خواب وخیال کی دنیا سےنکال کر ، سرخ سرخ اینٹوں سےبنےہوئےگھروں کی اس سرزمین پراتار دیتی ہےجہاں میں زندگی کےکٹھن رستوں پر چل رہی ہوں، دیکھیں انجام کون سی منزل تک لےجاتا ہے۔
فرزانہ نیناں
انگلینڈ
بے بی ہاتھی
“میری شاعری“ کو پڑھنے سے پہلے تک تو مجھے ایسا لگا تھا کہ فرزانہ صاحبہ بہت اچھی شاعرہ ہیں مگر “ میری شاعری“ کو پڑھنے کے بعد احساس ہو کہ وہ ایک بہت اچھی نثر لکھنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں
اور زبردست قیصرانی کہ آپ نے بہت محنت سے یہ سب کچھ جمع کیا ہے اور کر رہے ہیں