یہ ہے قادیانی مذہب

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
ہندوستان میں برٹش شہنشاہیت سے وفاداری اور جہاد کی موقوفی​

’تریاق القلوب‘ کے صفحہ 15 پر غلام احمد کہتا ہے : میں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ درحقیقت برٹش حکومت کی تائید و حمایت میں گزارا ہے۔ وہ کتابیں جو میں نے جہاد کی موقوفی اور انگریزی حکام کی اطاعت کی فرضیت پر لکھی ہیں وہ 50 الماریاں بھرنے کے لئے کافی ہیں۔ یہ سبھی کتابیں مصر، شام، کابل اور یونان وغیرہ اور عرب ممالک میں شائع ہوئی ہیں۔"

ایک دوسری جگہ وہ کہتا ہے، " اپنی نوجوانی کے زمانے سے، اور اب میں ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ رہا ہوں، میں اپنی زبان اور قلم کے ذریعہ مسلمانوں کو مطمئن کرنے کی کوشش میں لگا ہوں تا کہ وہ انگریزی حکومت کے وفادار اور ہمدرد رہیں۔ میں ’جہاد‘ کے تصور کو رد کرتا رہا ہوں جس پر ان میں سے کچھ جاہل ایمان رکھتے ہیں اور جو انہیں اس حکومت کے تئیں وفاداری سے روکتا ہے۔" (ضمیمہ کتاب شہادۃ القرآن مصنفہ غلام احمد قادیانی، طبع ششم، صفحہ 10)۔

اسی کتاب میں وہ لکھتا ہے : " مجھے یقین ہے کہ جیسے جیسے میرے پیروؤں کی تعداد بڑھیگی جہاد پر ایمان رکھنے والوں کی تعداد میں کمی ہو گی کیوں کہ میرے مسیح اور مہدی ہونے پر ایمان لانے کے بعد جہاد سے انکار لازمی ہے۔" صفحہ 17)۔

ایک دوسرے عبارت میں وہ کہتا ہے : " میں نے عربی، فارسی اور اردو میں درجنوں کتابیں لکھی ہیں جن میں میں نے وضاحت کی ہے کہ انگریزی حکومت کے خلاف، جو ہماری محسن و مربی ہے، جہاد بنیادی طور پر ناجائز ہے۔ اس کے برخلاف ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ پوری وفاداری کے ساتھ اس حکومت کی اطاعت کرئے۔ ان کتابوں کی چھپائی پر میں نے بڑی بڑی رقمیں خرچ کی ہیں اور انہیں اسلامی ممالک میں بھجوایا ہے۔ اور مجھے معلوم ہے کہ ان کتابوں نے اس ملک (ہندوستان) کے باشندوں پر نمایاں اثر چھوڑا ہے۔ میرے پیروؤں نے حقیقتاً ایک ایسے فرقے کی تشکیل کی ہے جس کے دل اس حکومت کے تئیں اخلاص اور وفاداری سے معمور ہیں۔ وہ انتہائی طور سے وفادار ہیں اور مجھے یقین ہے کہ وہ اس ملک کے لئے ایک برکت ہیں اور اس حکومت کے وفادار ہیں اور اس کی خدمت میں کوئی کمی نہیں چھوڑتے۔" (انگریزی حکومت کے نام غلام احمد کے تحریر کردہ ایک خط سے۔)
 

شمشاد

لائبریرین
غلام کہتا ہے : " حقیقت میں یہ حکومت (یعنی انگریزی حکومت) ہم پر بڑی فیاض رہی ہے اور ہم اس کے شرمندہ احسان ہیں کیوں کہ اگر ہم یہاں سے چلے جائیں (یعنی اگر ہم اس ملک سے باہر چلے جائیں) تو ہم مکہ یا قسطنطنیہ میں پناہ نہیں لے سکتے۔ پھر ہم اس حکومت کے بارے میں کوئی بدخواہی کیسے کر سکتے ہیں؟" (ملفوظاتِ احمدیہ، جلد اول صفحہ 146)۔

وہ یہ بھی کہتا ہے : " میں اپنا یہ کام مکہ یا مدینہ میں ٹھیک طور سے نہیں کر سکتا، نہ ہی یونان، شام، ایران یا کابل میں۔ لیکن میں یہ اس حکومت کے تحت کر سکتا ہوں جس کی عظمت و نصرت کے لئے میں ہمیشہ دعا کرتا ہوں۔" (’تبلیغ رسالت‘ مصنفہ مرزا غلام احمد، جلد چہارم صفحہ 69)۔

وہ آگے کہتا ہے : " سو تھوڑا غوروفکر کرو، اگر تم اس حکومت کے سائے کو چھوڑ دو گے تو روئے زمین پر کون سی جگہ تمہیں پناہ ملے گی؟ کسی ایک حکومت کا نام بتاؤ جو تمہیں اپنی حفاظت میں لینا قبول کرے۔ اسلامی حکومتوں میں سے ہر ایک تمہارے وجود پر سخت غضبناک ہے، تمہارے خاتمہ کے لئے منصوبہ بنا رہا ہے اور بیخبری میں حملہ کرنے کے لیے منتظر ہے کیوں کہ ان کی نظر میں تم کافرو مرتد ہو گئے ہو۔ لہٰذا اس نعمت الٰہیئہ (انگریزی حکومت کا وجود) کو قبول کرو اور اس کی قدر کرو۔ اور یقینی طور سے جان لو کہ اللہ تعالٰی نے اس ملک میں انگریزی حکومت صرف تمہاری بھلائی اور تمہارے مفاد کے لیے قائم کی ہے اگر اس حکومت پر کوئی آفت آتی ہے تو وہ آفت تم پر بھی نازل ہو گی۔ اگر تم میرے قول کی صداقت کا ثبوت چاہتے ہو تو کسی دوسری حکومت کے زیرِ سایہ رہ کر دیکھ لو۔ تب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کون سی بدقسمتی تمہارے انتظار میں ہے۔ لیکن انگریزی حکومت اللہ کی رحمت اور برکت کا ایک پہلو ہے۔ یہ ایک ایسا قلعہ ہے جو خدا نے تمہاری حفاظت کے لئے تعمیر کیا ہے۔ لہٰذا اپنے دلوں اور روح کی گہرائی میں اس کی قدر و قیمت کو تسلیم کرو۔ انگریز تمہارے لئے ان مسلمانوں کے مقابلے میں ہزار درجہ بہتر ہیں جو تم سے اختلاف رکھتے ہیں کیوں کہ انگریز تمہیں ذلیل کرنا نہیں چاہتے اور نہ ہی وہ تمہیں قتل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔" (فرقہ کے لئے ایک قیمتی نصیحت – ’تبلیغ رسالت‘ از مرزا احمد میں جلد اول صفحہ 123 پر مندرجہ)۔
 

شمشاد

لائبریرین
اپنی کتاب ’تریاق القلوب‘ مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس، قادیان 28 اکتوبر 1902 عیسوی، ضمیمہ 3 میں حکومت عالیہ کے حضور میں ایک عاجزانہ التماس، کے عنوان سے مرزا لکھتا ہے : "عرصہ بیس سال سے میں نے دلی سرگرمی کے ساتھ فارسی، عربی، اردو اور انگریزی میں کتابیں شائع کرنا کبھی ترک نہیں کیا، جن میں میں نے بار بار دہرایا ہے کہ مسلمانوں کا یہ فریضہ ہے کہ خدا کی نظروں میں گنہگار بننے کے خوف سے اس حکومت کی تابعدار اور وفادار رعایا بنیں۔ ’جہاد‘ میں کوئی حصہ نہ لیں، خون کے پیاسے مہدی کا انتظار نہ کریں اور نہ ایسے واہموں پر یقین کریں جنہیں قرآنی ثبوتوں کی تائید کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔ میں نے انہیں تنبیہ کی کہ اگر وہ اس غلطی کو رد کرنے سے انکار کرتے ہیں تو کم سے کم یہ تو ان کا فرض ہے کہ اس حکومت کے ناشکر گزرا نہ بنیں کیوں کہ اس حکومت سے غداری کر کے خدائی نظروں میں گنہگار نہ بننا ان کا فرض ہے۔" (صفحہ 307)

اسی عاجزانہ التماس میں آگے کہا گیا ہے : "اب اپنی فیاض طبع حکومت سے پوری جراءتمندی کے ساتھ یہ کہنے کا وقت آ گیا ہے کہ گزشتہ بیس سالوں میں میں نے یہ خدمات انجام دی ہیں اور ان کا مقابلہ انگریزی ہندوستان میں کسی بھی مسلم خاندان کی خدمات سے نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ لوگوں کو بیس سال جتنی طویل مدت تک یہ سبق پڑھانے میں ایسا استقلال کسی منافق یا خود غرض انسان کا کام نہیں ہو سکتا۔ بلکہ یہ ایسے انسان کا کام ہے جس کا دل اس حکومت کی سچی وفاداری سے معمور ہے۔"

صفحہ 309 اور 310 پر وہ کہتا ہے : "میں حقیقت میں کہتا ہوں اور اس کا دعوی کرتا ہوں کہ میں مسلمانوں میں سرکار انگریزی کی رعایا میں سب سے زیادہ تابعدار اور وفادار ہوں کیوں کہ تین چیزیں ایسی ہیں جنہوں نے انگریزی حکومت کے تئیں میری وفاداری کو اس درجہ بلندی تک پہنچانے میں میری رہبری کی ہے (1) میرے والد مرحوم کا اثر (2) اس فیاض حکومت کی مہربانیاں (3) خدائی الہام۔"
 

شمشاد

لائبریرین
مرزا نے ’شہادۃ القرآن‘ کے ایک ضمیمہ میں " حکومت کی ہمدردانہ توجہ کے قابل ایک کلمہ " کے عنوان سے لکھا، جس میں اس نے کہا :

"درحقیقت میرا مذہب جس کا میں لوگوں پر بار بار اظہار کر رہا ہوں یہ ہے کہ اسلام دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلا اللہ تعالٰی کی اطاعت کرنا اور دوسرا اس حکومت کی اطاعت کرنا جس نے امن و امان اور قانون قائم کیا اور اپنے بازو ہم پر پھیلائے اور ناانصافی سے ہماری حفاظت کی۔ اور یہ حکومت انگریزی حکومت ہے۔" (صفحہ 3)

آگے وہ کہتا ہے : " وہ اہم کام جس کے لئے اپنی نوجوانی سے لیکر زمانہ حال تک جبکہ میری عمر ساٹھ سال کی ہو چکی ہے، میں خود اپنی ذات، اپنی زبان اور اپنے قلم کو وقف کئے ہوئے ہوں یہ ہے کہ مسلمانوں کے دلوں کو محبت، خلوص اور انگریزی حکومت کے تئیں وفاداری کے راستے کر طرف رجوع کر دوں۔ اور کچھ بیوقوف مسلمانوں کے دلوں سے جہاد جیسے ان دوسرے واہموں کو دور کر دوں جو انہیں خلوص پر مبنی دوستی اور اچھے تعلقات سے دور کرتے ہیں۔" (صفحہ 10)۔

کچھ آگے چل کر وہ لکھتا ہے : " میں نے نہ صرف انگریزی ہندوستان کے مسلمانوں کے دلوں کو انگریزی حکومت کی اطاعت سے بھرنے کی کوشش کی، بلکہ میں نے عربی، فارسی اور اردو میں بہت سی کتابیں بھی لکھی ہیں جن میں میں نے اسلامی ملکوں کے باشندوں کے سامنے وضاحت کی کہ ہم انگریزی حکومت کی سرپرستی میں اور اس کے خنک سائے میں کس طرح اپنی زندگی گزار رہے ہیں اور تحفظ، مسرت، فلاح و بہبود اور آزادی کا لطف اٹھا رہے ہیں۔" (صفحہ 10)۔
 

شمشاد

لائبریرین
آگے وہ کہتا ہے : " مجھے پورا یقین ہے کہ جیسے جیسے میرے پیروؤں کی تعداد میں اضافہ ہو گا، ان لوگوں کی تعداد کم ہو گی جو جہاد پر ایمان رکھتے ہیں کیوں کہ صرف مجھ پر ایمان لانا ہی جہاد سے انکار کرنا ہے۔" (صفحہ 17)

وہ یہ بھی کہتا ہے : " حالانکہ میں احمدیت کی تبلیغ کے لئے روس گیا تھا۔ لیکن احمدیہ فرقہ اور انگریزی حکومت کے مفادات یکساں ہونے کی وجہ سے میں نے جہاں کہیں بھی لوگوں کو اپنے فرقہ میں شمولیت کی دعوت دی، وہاں انگریزی حکومت کی خدمت کو بھی اپنا فرض سمجھا۔" (الفضل، مورخہ 28 ستمبر 1922 عیسوی میں شائع شدہ محمد امین قادیانی مبلغ کے ایک بیان کا اقتباس)۔

ایک اور جگہ اس نے کہا : " درحقیقت انگریزی حکومت ہمارے لئے ایک جنت ہے اور احمدی فرقہ اس کی سرپرستی میں مسلسل ترقی کر رہا ہے۔ اگر تم اس جنت کوکچھ عرصے کے لئے الگ کر دو تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ تمہارے سروں پر زہریلے تیروں کی کیسی زبردست بارش ہوتی ہے۔ ہم اس حکومت کے کیوں نہ مشکور ہوں جس کے ساتھ ہمارے مفاد مشترک ہیں۔ جس کی بربادی کا مطلب ہماری بربادی ہے اور جس کی ترقی سے ہمارے مقصد کی ترقی میں مدد ملتی ہے۔ اس لئے جب کبھی اس حکومت کا دائرہ اثر وسیع ہوتا ہے، ہمارے لئے اپنی دعوت کی تبلیغ کا ایک نیا میدان ظاہر ہوتا ہے۔" (الفضل مورخہ 19 اکتوبر 1915 عیسوی)۔

وہ یہ بھی کہتا ہے : " احمدیہ فرقہ اور انگریزی حکومت کے درمیان تعلقات اس حکومت اور دوسرے فرقوں کے درمیان موجود تعلقات کی مانند نہیں ہیں۔ ہمارے حالات کے مقتضیات دوسروں سے مختلف ہیں۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ حکومت کے لئے سود مند ہے، وہ ہمارے لئے بھی سود مند اور جوں جوں انگریزی عملداری وسیع ہوتی ہے ہمیں بھی ترقی کے مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ اگر حکومت کو نقصان پہنچتا ہے، خدا نہ کرئے، تو ہم بھی امن و امان کے ساتھ زندگی گزارنے کے قابل نہ رہیں گے۔" (الفضل، موخہ 27 جولائی 1918 عیسوی میں شائع شدہ قادیانی خلیفہ کے بیان سے)۔

’استفتا‘ کے صفحہ 59 پر وہ کہتا ہے : "حکومت کی تلوار اگر نہ ہوتی تو تمہارے ہاتھوں میں بھی اسی انجام کو پہنچتا جس انجام کو عیسیٰ کافروں کے ہاتھوں سے پہنچا۔ اسی لئے ہم حکومت کے شکرگزار ہیں، خوشامد کے طور پر یا ریاکاری کے طور پر نہیں بلکہ حقیقی طور پر مشکور ہیں۔ ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے اس کے زیر سایہ اس سے بھی زیادہ تحفظ کا لطف اٹھایا جس کی ہم آجکل اسلام کی حکومت کے تحت امید کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے مذہب میں انگریزوں کے خلاف جہاد میں تلوار اُٹھانا ناجائز ہے۔ اسی لئے تمام مسلمانوں کو ان کے خلاف لڑنے اور ناانصافی اور بداطواری کے حمایت کرنے سے منع کیا گیا ہے، کیوں کہ انہوں نے ہمارے ساتھ حسنِ سلوک سے کام لیا اور ہر طور سے کریم النفسی سے پیش آئے۔ کیا مہربانیوں کا جواب مہربانی سے ہی نہیں دینا چاہیے۔ اس سلسلہ میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ان کی حکومت ہمارے لئے جائے امن اور ہمعصروں کے ظلم و ناانصافی سے حفاظت کے لئے پناہ گاہ ہے۔"
 

شمشاد

لائبریرین
پھر وہ کہتا ہے : "ان کی سرپرستی میں شب کی سیاہی ہمارے لئے اس دن سے بہتر ہے جو ہم اصنام پرستوں کے زیرِ سایہ گزاریں۔ لہٰذا یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے شکر گزار ہوں۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہم گنہگار ہوں گے۔"

"خلاصہء کلام یہ ہے کہ ہم نے حکومت کو اپنے خیر خواہوں میں پایا اور کلام مقدس نے واجب قرار دیا ہے کہ ہم اس کا شکریہ ادا کریں۔ لہٰذا ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور ان کی خیر خواہی کرتے ہیں۔"

اسی کتاب کے صفحہ 76 پر وہ لکھتا ہے : " پھر انگریزوں کے عہد میں خدا نے میرے والد کو کچھ گاؤں واپس کر دیئے۔"

’حمامتہ البشریٰ‘ کے صفحہ 56 پر وہ کہتا ہے : " ہم اس کی سرپرستی میں حفاظت و عافیت اور مکمل آزادی کے ساتھ رہتے ہیں۔"

اسی کتاب میں وہ یہ بھی لکھتا ہے : " اور میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر ہم مسلم بادشاہوں کے ملک کو ہجرت کر جائیں تو بھی ہم اس سے زیادہ تحفظات اور اطمینان نہیں پا سکتے۔ یہ (انگریزی حکومت) ہمارے ساتھ اور ہمارے آباؤ اجداد کے ساتھ اتنی فیاض رہی ہے کہ ہم اس کی برکات کے لئے قرار واقعی شکریہ ادا نہیں کر سکتے۔"

وہ یہ بھی کہتا ہے : " میں یہ خیال رکھتا ہوں کہ مسلم ہندوستانیوں کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ غلط راہ پر چلیں اور اس خیر خواہ حکومت کے خلاف ہتھیار اُٹھائیں۔ نہ ہی ان کا اس معاملہ میں کسی دوسرے کی مدد کرنا نہ ہی مخالفوں کی بدکاریوں کی الفاظ، عمل، مشورہ، زر یا معاندانہ تدبیروں سے اعانت کرنا درست ہے۔ حقیقت میں یہ تمام کام قطعی ممنوع ہیں اور وہ جو ان کی حمایت کرتا ہے، خدا اور رسول کی نافرمانی کرتا ہے اور صریحاً غلطی پر ہے۔ بجائے اس کے شکر بجا لانا واجب ہے۔ اور جو انسانوں کا مشکور نہیں وہ خدا کا شکر بھی نہیں بجا لائے گا۔ محسن کو ایذا پہنچانا خباثت ہے۔ انصاف اور اسلام کے راستے سے انحراف کو وجود میں لاتا ہے اور خدا حملہ آور سے محبت نہیں کرتا۔"

غلام قرآن میں موجود جہاد کے بارے میں تمام آیات کو نظرانداز کر گیا ہے۔ اس نے جہاد اور اس کی فضیلت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر احادیث بھی نظر انداز کر دیں اور یہ حقیقت مسلمہ بھی کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
قادیان کا حج اور یہ دعویٰ کہ اس کی مسجد، مسجد اقصیٰ ہے اور وہ خود حجر اسود ہے​

اخبار ’الفضل‘ کے شمارہ نمبر 1848 جلد نمبر 10، دسمبر 1922 عیسوی میں محکمہ تعلیم قادیان کا ایک اشتہار چھپا۔ اس کا مضمون یہ تھا : " وہ شخص جو کہ مسیح موعود کے قبہء سفید کی زیارت کرتا ہے وہ مدینہ میں رسول اللہ کے قبہء خضرا سے متعلق برکات میں شرکت پاتا ہے۔ وہ شخص کتنا بدنصیب ہے جو قادیان کے حج اکبر کے دوران خود کو اس نعمت سے محروم رکھتا ہے۔"

قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ قادیان تیسرا مقام مقدس ہے۔ اس بارے میں خلیفہ محمود کہتا ہے : " درحقیقت خدا نے ان تین مقامات کو مقدس قرار دیا ہے (مکہ، مدینہ اور قادیان) اور اپنی تجلیات کے ظہور کے لئے ان تین مقامات کا انتخاب کیا ہے۔" (الفضل 3 ستمبر 1935 عسیوی)۔

قادیانی مذہب ایک قدم اور آگے بڑھ کر ان آیات کو جو خدا کے شہر الحرام اور مسجد اقصیٰ (یروشلم) کے بارے میں نازل ہوئیں، قادیان پر منطبق کرتا ہے۔ غلام احمد نے ’براہین احمدیہ‘ کے حاشیہ پر تحریر کیا : "خدا کے یہ الفاظ – اور وہ جو اس میں داخل ہوا، مامون رہے گا – مسجد قادیان کے بارے میں صادق ہیں۔" صفحہ 558)۔

اپنے ایک شعر میں وہ کہتا ہے : "قادیان کی زمین عزت کی مستحق ہے۔ یہ کائنات کے آغاز سے ہی مقدس سرزمین ہے۔" (’درثمین‘ – غلام احمد کے اقوال کا مجموعہ، صفحہ 52)۔

’الفضل‘ شمارہ 23، جلد 20 میں ہم پڑھتے ہیں : "آیتِ خداوندی – پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندہ کو شب کے وقت لے گئی مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک، جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں – میں مسجد اقصی سے مراد مسجد قادیان ہے۔ اور اگر قادیان کا مرتبہ شہر مقدس کے برابر اور ہو سکتا ہے کہ اس سے بھی افضل ہے تو اس کا سفر بھی سفر حج کے برابر ہونا چاہیے یا ہو سکتا ہے اس سے بھی افضل ہو۔"

’الفضل‘ کے شمارہ 26 جلد 20 میں ہم پڑھتے ہیں : "حج قادیان فی الواقع بیت الحرام (یعنی کعبہ) کے حج کے برابر ہے۔" ’پیغام صلح‘ نامی صحیفہ، جو لاہوری قادیانیوں کا ترجمان ہے، یہ اضافہ کرتا ہے : "قادیان کے حج کے بغیر مکہ کا حج روکھا سوکھا حج ہے۔ کیوں کہ آج کل حج مکہ نہ اپنا مشن پورا کرتا ہے اور نہ اپنا مقصد حاصل کرتا ہے۔" (شمارہ 33 جلد 21)۔

’استفتا‘ کے صفحہ 42 پر غلام کہتا ہے : "میں ہی حقیقت میں حجرِ اسود ہوں جس کی طرف منہ کر کے ’زمین پر‘ نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا۔ اور جس کے لمس سے لوگ برکت حاصل کرتے ہیں۔"
 

شمشاد

لائبریرین
الہام کے دعویٰ کی بنیاد پر قرآن میں تحریف اور اس کی مثالیں​

’حمامتہ البشریٰ‘ کے صفحہ 10 پر غلام کہتا ہے : "اس نے کہا : اے احمد تم پر خدا کی برکت ہو، کیوں کہ جب تم نے پھینکا، تو یہ تم نہ تھے، بلکہ خدا تھا جس نے لوگوں کو خبردار کرنے کے لئے پھینکا، جن کے آباء کو خبردار نہیں کیا گیا تھا تا کہ مجرموں کی تدابیر ظاہر ہو جائیں۔ اور اس نے کہا : کہو، اگر یہ میری اختراع ہے تو میرا گناہ مجھ پر ہے۔ یہ وہ ہی ہے جس نے اپنے رسولوں کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اُسے تمام (دوسرے) مذاہب سے ممتاز کر سکے۔ خدا کے الفاظ کوئی نہیں بد سکتا اور تمہاری طرف سے مضحکہ اُڑانے والوں سے نمٹنا ہمارا ذمہ ہے۔ اور اس نے کہا : تم نے اپنے رب سے اس کی رحمت کی نشانی کے لئے اصرار کیا۔ اور اس کی فیاضی کے باعث تم مجنون میں سے نہیں ہو۔ وہ تمہیں دوسرے معبودوں سے ڈراتے ہیں۔ تم ہماری نگاہوں میں ہو۔ میں نے تمہیں المتوکل کہہ کر پکارا ہے (یعنی وہ جو خدا پر بھروسہ رکھتا ہے) اور خدا نے عرش سے تمہاری تعریف کی۔ نہ ہی یہود اور نہ ہی نصاریٰ تم سے مطمئن ہوں گے۔ انہوں نے سازش کی اور خدا نے سازش کی لیکن سازش کرنے والوں میں خدا بہترین ہے۔"

’استفتا‘ کے صفحہ 77 پر وہ کہتا ہے : "اور اس نے ان الفاظ میں مجھ سے کلام کیا جن میں سے کچھ کا بیان ہم یہاں کریں گے۔ اور ہم ان پر ایمان رکھتے ہیں، جس طرح ہم اللہ خالق الانام کی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ وہ کلمات یہ ہیں :

"اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور رحیم ہے۔ اے احمد تم پر خدا کی برکت ہو۔ جب تم نے پھینکا، تو یہ تم نہ تھے بلکہ خدا تھا جس نے پھینکا۔ اس مہربان نے قرآن پڑھایا تا کہ تم ان لوگوں کو خبردار کر سکو جن کے آباء کو خبردار نہیں کیا گیا تھا۔ اور مجرموں کی تدابیر ظاہر ہو جائیں۔ کہو، کہ مجھے حکم دیا گیا ہے، اور میں ایمان لانے والوں میں سب سے پہلا ہوں۔ کہو کہ حق ظاہر ہو گیا اور باطل مٹ گیا۔ یقیناً باطل کو مٹنا ہی ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تمام برکتیں۔ مبارک ہے وہ جو سکھاتا ہے اور سیکھتا ہے اور انہوں نے کہا کہ یہ جعلسازی ہے۔ تو پھر اللہ کا نام لو انہیں ان کے مباحث میں کھیلتے ہوئے ان کے حال پر چھوڑ دو۔ کہو، اگر یہ میرا اختراع ہے تو مجھ پر سخت گناہ ہے۔ اور اس سے زیادہ غلطی پر اور کون ہو گا جو اللہ کے بارے میں غلط بیانی کرئے۔ یہ وہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اسے تمام (دوسرے) مذہبوں سے ممتاز کر سکے۔ اس کے الفاظ کوئی نہیں بدل سکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ تم نے اُسے کہاں سے حاصل کیا؟ یہ انسانی کلمات کے سوا کچھ بھی نہیں اور دوسروں نے اِس میں اُس کی مدد کی۔ پھر کیا تم اپنی کھلی آنکھوں کے ساتھ خود کو جادو کے پاس لے جاؤ گے۔ دور ہو جاؤ، شئے موعودہ کو لے جاؤ! کون ہے یہ جو ذلیل، جاہل یا مجنوں ہے؟ کہو، میرے پاس خدا کی تصدیق ہے۔ کیا تم مسلمان ہو؟"

صفحہ 79 پر وہ کہتا ہے : "خدا تمہیں نہیں چھوڑے گا جب تک کہ برائی اور بھلائی میں تمیز نہ ہو جائے، جب خدا کی مدد اور فتح آئے اور تمہارے رب کا وعدہ پورا ہو جائے۔ یہی تو ہے وہ جس کے لئے تم جلدی میں تھے۔ میں نے ارادہ کیا کہ (زمین پر) میرا خلیفہ ہو۔ اس لئے میں نے آدم کی تخلیق کی۔ پھر وہ نزدیک آیا اور اپنے آپ کو اتنا جھکایا کہ دو کمان کے برابر دُور یا نزدیک تھا۔ اس نے دین کا احیا کیا اور شریعت کو قائم کیا۔ اے آدم، تم اور تمہاری زوجہ جنت میں سکون پذیر ہو۔ اے ابنِ مریم، تم اور تمہاری زوجہ جنت میں سکونت پذیر ہو۔ اے احمد، تم اور تمہاری زوجہ جنت میں سکونت پذیر ہو۔ تمہیں فتح دی گئی اور انہوں نے کہا کہ لیت و لعل کے لئے وقت نہیں یقیناً وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستہ سے پِھر گئے، ان کو فارس کے ایک شخص نے جواب دیا۔ خدا اپنی عنایت سے اس کی مساعی قبول کرے۔ یا وہ کہتے ہیں کہ وہ ایک فتحمند جماعت ہیں۔ (اُن کی) پوری جماعت کو جڑ سے اُکھاڑ دیا جائے گا اور پشت موڑ دی جائے گی۔ تم ہمارے پہلو میں ہو، مضبوطی کے ساتھ قائم اور معتبر۔"

صفحہ 80 پر وہ کہتا ہے : "کہو،کہ خدا کا نور تم تک آ گیا ہے۔ اس لئے کفر نہ کرو، اگر تم ایمان والے ہو۔ یا تم اُن سے انعام مانگتے ہو اور اس لئے وہ قرض کے وزن سے دب گئے ہیں۔ ہم نے اُن تک حق پہنچا دیا ہے۔ لیکن وہ حق کے مخالف ہیں۔ لوگوں سے لطف کے ساتھ پیش آؤ اور ان پر رحم کھاؤ۔ تم ان کے درمیان بمنزلہ موسیٰ کے ہو۔ صبر سے کوشش کئے جاؤ وہ جو کچھ کہیں، کہنے دو۔ شاید تم اپنے آپ کو تھکانے جا رہے ہو مبادا وہ منکر ہو جائیں۔ اس کی پیروی نہ کرو جس کا تمہیں علم نہ ہو۔ مجھے ان کے بارے میں مخاطب نہ کرو جنہوں نے گناہ کئے۔ وہ یقیناً غرق ہونے والے ہیں۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری تجویزوں کے مطابق پناہ گاہ بناؤ۔ یقیناً جو تمہاری اطاعت کا عہد کرتے ہیں وہ واقع میں خدا کی اطاعت کا عہد کرتے ہیں۔ خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں سے افضل ہے۔ جبکہ وہ جو کافر تھا، تمہارے خلاف سازش کر رہا تھا، اے ہامان میرے لئے آگ روشن کرو۔ شاید میں موسیٰ کے خدا کو دیکھ سکوں۔ درحقیقت میں اُسے ان میں سے سمجھتا ہوں جو جھوٹ بولتے ہیں۔ ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ برباد ہو۔ اس کے لئے نہیں تھا کہ اس میں داخل ہو سوائے خوف کے۔ اور جو کچھ تم پر گزری وہ خدا کی طرف سے تھا۔"
 

شمشاد

لائبریرین
کچھ دوسری مثالیں ’تحفہ بغداد‘ میں صفحہ 21 سے 31 تک ملتی ہیں۔

غلام کہتا ہے : "میں تم پر ایک برکت نازل کروں گا اور اس کے انوار ظاہر کروں گا تا کہ ملوک و سلطان تمہارے لباس کو چھو کر اس سے برکت کے طالب ہوں۔" اور اس (خدا) نے کہا : "میں ان پر قابو رکھتا ہوں جنہوں نے تمہیں ذلیل کرنا چاہا۔ اور یقیناً تمہاری طرف سے مضحکہ اُڑانے والوں سے نمٹنا ہمارا ذمہ ہے۔ اے احمد، تم پر خدا کی برکت ہے کیوں کہ جب تم نے پھینکا یہ تم نہیں تھے بلکہ خدا تھا جس نے پھینکا۔ وہ جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اُسے تمام (دوسرے) مذاہب سے ممتاز کر سکے۔ کہو، کہ مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں ایمان لانے والوں میں سب سے پہلا ہوں۔ کہو، کہ حق آ پہنچا اور باطل مٹ گیا۔ یقیناً باطل کو مٹنا ہی ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے سبھی برکتیں۔ مبارک ہے وہ جو علم رکھتا ہے اور جو سیکھتا ہے۔ اور کہو، اگر یہ میری اختراع ہے تو میرا گناہ مجھ پر ہے۔ اور انہوں نے سازش کی اور خدا نے سازش کی لیکن سازش کرنے والوں میں خدا بہترین ہے۔ وہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اُسے تمام (دوسرے) مذاہب سے ممتاز کر سکے۔ خدا کے الفاظ کوئی نہیں بدل سکتا۔ میں تمہارے ساتھ ہوں، لہٰذا میرے ساتھ ہو۔ خدا کا ساتھ پکڑے رہو چاہے کہیں بھی ہو، تم جہاں ہو گے وہاں خدا کا چہرہ ہو گا۔"

"تم انسانوں میں بہترین امت ہو اور مومنین کا فخر ہو۔ خدا کی تشفی سے مایوس نہ ہو۔ کیوں کہ خدا کی تشفی قریب ہی ہے اور خدا کی نصرت قریب ہے۔ وہ ہر ایک تنگ گھاٹی سے تمہاری طرف آئیں گے، خدا تمہاری مدد کرے گا۔ تمہیں میری مدد ملے گی، جسے آسمان سے ہمارا الہام حاصل ہو گا۔ خدا کے الفاظ کوئی نہیں بدل سکتا۔ تم آج ہمارے پہلو میں ہو، مضبوطی کے ساتھ قائم اور معتبر۔ انہوں نے کہا کہ یہ جعل سازی کے سوا کچھ نہیں۔ اللہ کا نام لو اور انہیں ان کے مباحث میں کھیلتے ہوئے ان کے حال پر چھوڑ دو۔ یقیناً تم پر میری رحمت ہے اس دنیا میں اور آخرت میں۔ اور تم ان میں سے ہو جن کے لئے نصرت بخشی گئی۔ اے احمد، تمہارے لئے بشارت ہے۔ تم میرے محبوب ہو اور میری معیت میں ہو۔ میں نے تمہاری عظمت کا پودا اپنے ہاتھ سے لگایا ہے۔ اگر لوگ تعجب کریں تو کہہ دو کہ وہ خدا ہے اور وہ عجیب ہے وہ جس سے بھی خوش ہوتا ہے اس کے ساتھ فیاضی کا برتاؤ کرتا ہے۔ جو کچھ وہ کرتا اس کے بارے میں اس سے پوچھ گچھ نہیں ہو سکتی۔ مگر ان سے پوچھ گچھ ہو گی۔ ان کی ہم عوام الناس میں تشہیر کریں گے۔ جب خدا ایمان والوں کی مدد کرتا ہے تو ان سے رشک کرنے والے بھی ہوتے ہیں۔ لوگوں سے لطف و کرم سے پیش آؤ۔ اور ان پر رحم کرو۔ تم ان کے درمیان بمنزلہ موسیٰ کے ہو ناانصاف لوگوں کا ظلم صبر کے ساتھ برداشت کرو۔ لوگ ایسی حالت میں چھوڑ دیا جانا پسند کرتے ہیں جہاں وہ کہہ سکیں "ہم ان پر بغیر آزمائش کئے ایمان لائے۔" سو آزمائش یہی ہے۔ لہٰذا مستقل مزاج لوگوں کی طرح صبر کے ساتھ برداشت کرو۔ لیکن یہ آزمائش خدا کی طرف سے ہے، اسی کی عظیم محبت کے لئے۔ تمہارا انعام خدا کے یہاں ہے، اور تمہارا رب تم سے راضی ہو گا اور تمہارے نام کو مکمل کرے گا۔ اور اگر وہ تم کو صرف نامعقولیت کا کُندا سمجھتے ہیں تو کہو کہ میں صادق ہوں اور کچھ دیر میری نشانی کا انتظار کرو۔"

"تعریف ہو اس خدا کی جس نے تمہیں مسیح ابن مریم بنایا۔ کہو، کہ یہ خدا کا فضل ہے، اور میں خطاب کرنے کی تمام شکلوں سے عاری ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہی ایک ہوں۔ وہ اپنی پھونکوں سے اللہ کے نور کے بجھانے کی کوشش کریں گے۔ لیکن خدا اپنے نور کی تکمیل کرتا ہے اپنے دین کا احیا کرتا ہے۔ تم چاہتے ہو کہ ہم آسمان سے تم پر آیتیں نازل کریں اور تم دشمنوں کا قلع قمع ک دو۔ اللہ الرحمٰن نے اپنا حکم اپنے نمائندوں کو عطا کیا ہے۔ اس لئے خدا پر بھروسہ رکھو اور ہماری نظر کے سامنے اور ہماری وحی کے مطابق پناہ گاہ تعمیر کرو۔ جو تمہاری اطاعت کا عہد کرتے ہیں وہ حقیقت میں اللہ سے اپنی اطاعت کا عہد کرتے ہیں۔ اللہ یا ہاتھ ان کے ہاتھوں سے افضل ہے۔ اور وہ لوگ جو عذاب کے مستحق ہیں وہ سازش کرتے ہیں اور اللہ سازش کرنے والوں میں بہترین ہے۔ کہو، میرے پاس اللہ کی تصدیق ہے۔ پھر کیا تم مسلمان ہو؟ میرے ساتھ میرا رب ہے وہ میرے رہبری کرے گا۔ میرے رب نے مجھے دکھایا کہ تم کس طرح مردوں کو زندہ کر دیتے ہو۔ میرے رب معاف کر اور آسمانوں پر سے رحم کر مجھے تنہا نہ چھوڑ، حالانکہ تم خیر الوارثین ہو اے رب، محمد کی امت کی اصلاح کر۔ اے ہمارے رب ہمیں اور ہماری قوم کے جو لوگ حق پر ہیں انہیں ایک جگہ اکٹھا کر۔ کیوں کہ تم ان سب میں بہترین ہو جو (نزاعی معاملوں میں) صلح صفائی کراتے ہیں۔ وہ تمہیں دوسرے معبودوں سے ڈراتے ہیں۔ تم ہماری نگاہوں میں ہو۔ میں نے تمہیں المتوکل کہہ کر پکارا ہے۔ خدا اپنے عرش سے تمہاری تعریف کرتا ہے۔ اے احمد، ہم تمہاری تعریف کرتے ہیں اور تم پر برکت بھیجتے ہیں۔ تمہارا نام مکمل کیا جائے گا۔ لیکن میرا نہیں۔ اس دنیا میں ایک اجنبی یا مسافر کی طرح رہو، راستباز اور نیک چلن لوگوں کے درمیان رہو۔ میں نے تمہیں چنا اور تمہاری طرف اپنی محبت پھینکی ہے۔ اے ابنائے فارس توحید اختیار کرو اور ان کے لئے خوش خبر لاؤ جو ایمان لائے اس امر پر کہ وہ اپنے کے ساتھ یقینی تعلقات رکھتے ہیں۔ خدا کی مخلوق کے سامنے منہ نہ بناؤ۔ لوگو سے بیزار نہ ہو نہ مسلمانوں پر اپنے بازو نیچے کرو۔"
 

شمشاد

لائبریرین
"اے وہ لوگو جو سوال جواب کرتے ہو! تمہیں ان کے بارے میں کس ذریعہ نے بتایا جو سوال جواب کرتے ہیں تم ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی دیکھو گے اور وہ تم پر اللہ کی برکتیں بھیجیں گے۔ اے ہمارے رب ہم نے ایک شخص کو سنا ہے ایمان کی طرف بلاتے ہوئے۔ اے رب ہم ایمان لائے لہٰذا ہمارا نام شاہدین میں لکھ لے، تم عجیب ہو، تمہارا انعام قریب ہے اور تمہارے ساتھ آسمان اور زمین کے سپاہی ہیں۔ میں تمہیں اپنی وحدانیت اور انفرادیت کے بمنزلہ سمجھتا ہوں۔ وقت آ گیا ہے کہ تمہاری مدد کی جائے اور تم عوام الناس میں متعارف ہو۔ اے احمد تم پر خدا کی برکت ہو۔ جو برکت خدا نے تم پر کی، وہ تمہیں حقیقت میں پہلے حاصل تھی۔ تم میری حضوری میں عالی رتبہ ہو۔ میں نے تمہیں خود اپنے لئے منتخت کیا اور تمہیں ایسے رتبہ پر فائز کیا جو مخلوق کے لئے نامعلوم ہے۔ یقیناً خدا تمہیں اس وقت تک نہیں چھوڑے گا جب تک برائی اور بھلائی میں تمیز نہ ہو جائے۔ یوسف اور اس کی کامیابی پر نظر رکھو۔ اللہ اس کے معاملات کا مالک ہے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت اس سے ناواقف ہے۔ میں نے ارادہ کیا کہ (زمین پر) میرا خلیفہ ہو۔ اس لئے میں نے آدم کی تخلیق کی تا کہ وہ دین کا احیاء کر سکے اور شریعت کو قائم کر سکے۔

کتاب ذالفقار علی ولی : اگر ایمان کو ثریا کے ساتھ باندھ دیا گیا ہوتا تو بھی اہل فارس اس تک پہنچ جاتے۔ اس کا روغن روشنی پھیلاتا حالانکہ اسے آگ نے ذرا بھی نہ چھوڑا ہوتا۔ خدا رسولوں کے حلیہ میں تھا۔ کہو، اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو، میری پیروی کرو اور خدا تم سے محبت کرئے گا۔ اور محمد اور اس کی آل پر درود بھیجو وہ تمام ابنِ آدم کے سردار اور خاتم النبیین ہیں۔ تمہارا رب تم پر مہربان ہے اور خدا تمہارا دفاع مہیا کرئے گا۔ اور اگر لوگ تمہارا دفاع نہیں کرتے، خدا تمہارا دفاع مہیا کرئے گا اگرچہ کہ دنیا کے لوگوں میں سے ایک شخص بھی تمہارا دفاع نہ کرئے۔ ابولہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور اس کی بربادی ہو۔ اس کے لئے نہیں تھا کہ وہ اس میں داخل ہو سوائے خوف کے۔ اور جو کچھ تم پر گزری وہ خدا کی طرف سے تھا اور جان لو کہ انعام متقیوں کے لئے ہے۔ اور اگر تم ہم خاندان اور اہلِ قرابت ہوتے، یقیناً ہم انہیں ایک نشانی اس عورت میں دکھائیں گے جو پہلے سے شادی شدہ ہے، اور اسے تمہاری طرف واپس بھیج دیں گے، اپنی طرف سے رحم کے طور پر۔ یقیناً ہم باعمل ہو گئے ہیں۔ اور انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور ان میں شامل ہوئے جنہوں نے میرا مضحکہ اُڑایا۔ تمہارے رب کی طرف سے بشارت ہو تمہیں نکاح الحق کی۔ لہٰذا میری احسان فراموشی نہ کرو۔ ہم نے اس کا نکاح تم سے کیا۔ خدا کے الفاظ کوئی بدل نہیں سکتا۔ اور ہم اُسے تمہارے لئے بحال کرنے جا رہے ہیں۔ یقیناً تمہارا رب جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔ یہ ہماری فیاضی ہے تا کہ یہ ایک نشانی ہو دیکھنے والوں کے لئے۔ دو آنکھیں قربان کر دی جائیں گی، تمام ذی روح چیزوں کو فنا ہونا ہے۔ اور ہم انہیں نشانیاں آسمانوں میں، خود ان میں دکھائیں گے، اور ہم انہیں فاسقین کی سزا دکھائیں گے۔

"جب خدا کی نصرت اور فتح آتی ہے اور زمانہ کی تقدیر ہمارے ہاتھ میں آتی ہے، تو کیا یہ ہمارا حق نہیں ہے۔ لیکن جنہوں نے اس پر یقین نہیں کیا انہوں نے واضح غلطی کی۔ تم ایک پوشیدہ خزانہ تھے، اس لئے میں نے اسے ظاہر کرنا چاہا۔ آسمان اور زمین آپس میں ملے ہوئے تھے اور ہم نے اُنہیں چاک کر کے کھول دیا۔ کہو، کہ میں ایک بشر ہوں جس پر وحی آتی ہے۔ لیکن یقیناً تمہارا خدا ایک ہے اور تمام نیکی قرآن میں ہے جسے صرف انہیں ہی چھونا چاہیے جو پاک ہوں۔ حقیقت میں میں ایک طویل عرصہ تمہارے درمیان رہ چکا ہوں قبل اِس کے (آنے کے) پھر کیا تم میں ذرا بھی عقل نہیں۔

"کہو، کہ اللہ کی ہدایت، ہدایت ہے اور میرا رب میری معیت میں ہے۔ اے رب، میری مغفرت کر اور آسمان سے مجھ پر مہربان رہ۔ اے رب میں مغلوب ہوں، لیکن فاتح ہوں گا۔ ایلی، ایلی تم نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔ اے اللہ القادر کے بندے، میں تیرے ساتھ ہوں، میں تمہیں سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں۔ میں نے تمہارے لئے اپنی مہربانی اور اپنی قدرت کا پودا اپنے ہاتھ سے لگایا ہے، اور تم آج میرے ساتھ ہو، مضبوطی سے قائم اور معتبر۔ میں تمہارا ہمیشہ حاضر رہنے والا ہاتھ ہوں، میں تمہارا خالق ہوں۔ میں نے تمہارے اندر صدق کی روح پھونکی اور اپنی محبت تمہاری طرف پھینکی ہے۔ تا کہ تم میری نظروں کے سامنے ایک تخم کی طرح اپنی نشوونما کرو جیسے پہلے اس کا انکوا پھوٹتا ہے۔ پھر اس میں مضبوطی آتی ہے اور یہ توانائی کے ساتھ بڑھ کر اپنے ڈنٹھل پر سیدھا کھڑا ہوتا ہے۔ حقیقت میں ہم نے تمہیں فتح مبین عطا کی۔ تا کہ خدا تمہارے وہ گناہ معاف کر دے جو پہلے سرزد ہوئے۔ اور جو ہنوز ہونے والے ہیں۔ لہٰذا شکریہ ادا کرو۔ خدا نے اپنے بندہ کو قبول کیا اور اُسے اس سے بری کیا جو لوگ کہتے ہیں اور وہ خدا کی نگاہوں میں ایک مقبول بندہ تھا، لیکن جب خدا نے اپنی تجلی پہاڑ پر بے نقاب کی تو وہ سفوف بن گیا۔ خدا کمزور کو کافروں کی مکاری بنا دیتا ہے، تا کہ ہم اُسے اپنی رحمت کے خیال سے لوگوں کے لئے ایک نشانی بنا دیں اور اس لئے بھی کہ اُسے ہم سے عظمت مِلے۔ اس طرح ہم انہیں انعام دیتے ہیں جو بخوبی کام کرتے ہیں۔ تم میرے ساتھ ہو اور میں تمہارے ساتھ ہوں۔ میرا راز تمہارا راز ہے۔ اولیا کے اسرار ظاہر نہیں کئے جائیں گے۔ تم حق مبین پر ہو، اس دنیا میں اور آخرت میں ممتاز، اور مقربین میں ہو۔ بے شرم شخص صرف اپنی موت کے وقت یقین کرئے گا۔ وہ میرا دشمن ہے اور تمہارا دشمن ہے، ایک گئو سالہ، ایک مجسم واہمہ، ذلیل و خوار۔ کہو، میں خدا کا حکم ہوں اور عجلت کرنے والوں میں سے نہ ہو۔"

"نبیوں کا چاند تمہارے پاس آئے گا اور تمہارا حکم خوب چلے گا اور ہم نے ایمان والوں کی نصرت کا وعدہ کیا ہے۔ وہ دن جب حق آئے گا اور حقیقت ظاہر ہو گی اور کھونے والے کھوئیں گے تو تم دیکھو گے کہ ناعاقب اندیش مسجد میں جھکے ہوئے کہتے ہوں گے : اے رب ہمیں معاف کر دے کیونکہ ہم غلطی پر تھے۔ آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں، خدا تمہیں معاف کر دے گا۔ وہ الرحم الرحیمن ہے۔ تمہاری موت جب آئے گی تو میں تم سے مطمئن ہوں گا اور تم پر سلامتی ہو گی اس لئے بیخوف ہو کر اس میں داخل ہو۔"
 

شمشاد

لائبریرین
قادیانی فرقہ کی ہندوؤں میں منظورِ نظر بننے کی کوشش اور اس پر ہندوؤں کو مسرت​

’اعلان‘ کے صفحہ 14 پر وہ کہتا ہے : "دینی مسئلوں پر مسلمان، ہندو، آریہ، عیسائی اور سکھ مقرروں کی تقریریں ہوتی ہیں۔ ہر ایک مقرر اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرتا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ دوسروں کے مذہب پر تنقید نہ کرئے اپنے دین کی تائید میں وہ جو کچھ بھی کہنا چاہے، کہہ سکتا ہے۔ مگر تہذیب و اخلاق کا خیال کرتے ہوئے۔"

یہ بات جاننے لائق ہے کہ ہندوستان میں قومی لیڈروں نے قادیانی مذہت کے تصور کا خیر مقدم کیا ہے کیوں کہ یہ ہندوستان کو تقدس عطا کرتا ہے اور بطور قبلہ اور روحانی مرکز حجار کے بجائے ہندوستان کی طرف منہ کرنے کے لئے مسلمانوں کی ہمت افزائی کرتا ہے، اور چونکہ یہ مسلمانوں میں ہندوستان سے متعلق حب الوطنی کو فروغ دیتا ہے، یا وہ ایسا سوچتے ہیں، پاکستان میں قادیانیوں کے خلاف ہنگاموں کے دوران کچھ بڑے ہندو اخباروں نے قادیانیوں کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار کیا اور ان کی حمایت میں مضامین شائع کئے اور اپنے قارئین سے کہا کہ بقیہ مسلم فرقہ کے خلاف قادیانیوں کی حمایت و تائید ایک فرض تھا اور یہ کہ پاکستان میں قادیانیوں اور مسلمانوں کے درمیان نزاع اصل میں ایک طرف عرب رسالت اور اس کے پیروؤں اور دوسری جانب ہندوستانی رسالت اور اس کے پیروؤں کے درمیان آویزش اور رقابت تھی۔ ہندوستان میں انگریزی کے ایک مقتدر اخبار (سٹیٹسمین) کے نام، جس نے یہ مسئلہ اُٹھایا تھا، ایک خط میں ڈاکٹر اقبال نے کہا، " قادیانیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی حریف رسالت کی بنیاد پر ایک نئے فرقے کی تشکیل کی ایک منظم کوشش ہے۔"
 

شمشاد

لائبریرین
ہندوستان کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو جواب دیتے ہوئے، جنہوں نے اپنی ایک تقریر میں تعجب ظاہر کیا تھا کہ مسلمان قادیانیت کو اسلام سے جدا قرار دینے کے لئے کیوں اصرار کرتے ہیں جبکہ وہ بہت سے مسلم فرقوں میں سے ایک فرقہ ہے، ڈاکٹر اقبال نے کہا : " قادیانیت نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے ہندوستانی نبی کے لئے ایک نیا فرقہ تراشنا چاہتی ہے۔"

انہوں نے یہ بھی کہا : "قادیانی مذہب ہندوستان میں مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے لئے یہودی فلسفی، اسینوزا کے عقائد سے زیادہ خطرناک ہے جو یہودی نظام کے خلاف بغاوت کر رہا ہے۔"

ڈاکٹر محمد اقبال عقیدہء ختم نبوت کی اہمیت کے، اسلام کے اجتماعی ڈھانچے اور امت مسلمہ کے اتحاد کے محافظ کے طور پر، قائل تھے۔ وہ اس کے بھی قائل تھے کہ اس عقیدہ کے خلاف کوئی بھی بغاوت کسی بھی رواداری یا صبر و تحمل کی مستحق نہیں تھی کیونکہ یہ اسلام کی رفیع الشان عمارت کی بنیاد پر ضرب پہنچا کر مہندم کرنے والی کلہاڑی کا کام کرتی ہے۔ ’اسٹیٹسمین‘ کے نام اپنے مذکورہ بالا خط میں انہوں نے لکھا :

"یہ عقیدہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں ایک بالکل صحیح خطِ فاضل ہے اسلام اور ان دیگر مذاہت کے درمیان جن میں خدا کی وحدانیت کا عقیدہ مشترک ہے اور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر متفق ہیں مگر سلسلہ وحی جاری رہنے اور رسالت کے قیام پر ایمان رکھتے ہیں جیسے ہندوستان میں برہمو سماج۔ اس خط فاضل کے ذریعہ یہ طے کیا جا سکتا ہے کہ کون سا فرقہ اسلام سے متعلق ہے اور کون سا اس سے جدا ہے۔ میں تاریخ میں کسی ایسے مسلم فرقے سے ناواقف ہوں جس نے اس خط کو پار کرنے کی جراءت کی۔"

مرزا بشیر الدین ابنِ غلام احمد اور موجودہ قادیانی خلیفہ نے اپنی کتاب "آئینہ صدقات" میں کہا ہے :

"ہر وہ مسلمان جس نے مسیح موعود کی بیعت نہیں کی، خواہ اس نے ان کے بارے میں سنا یا نہیں، کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔" (صفحہ 25)۔

یہی بیان اس نے عدالت کے سامنے دیا اور کہا : "ہم مرزا غلام احمد کی نبوت پر ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن غیر احمدی (یعنی غیر قادیانی) ان کی نبوت پر ایمان نہیں رکھتے۔ قرآن کہتا ہے کہ جو کوئی بھی نبیوں میں سے کسی نبی کی نبوت سے انکار کرتا ہے وہ کافر ہے۔ چنانچہ غیر احمدی کافر ہیں۔"

خود غلام احمد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے کہا تھا :

"ہم ہر معاملے میں مسلمانوں سے اختلاف رکھتے ہیں۔ اللہ میں، رسول میں، قرآن میں، نماز میں، روزہ میں، حج میں اور زکاۃ میں۔ ان سبھی معاملوں میں ہمارے درمیان لازمی اختلاف ہے۔" (الفضل 30 جولائی 1931 عیسوی)

ڈاکٹر اقبال کے مطابق قادیانی اسلام سے سکھوں کی بہ نسبت زیادہ دور ہیں، جو کہ کٹر ہندو ہیں۔ انگریزی حکومت نے سکھوں کو ہندوؤں سے جداگانہ فرقہ (غیر ہندو اقلیت) تسلیم کیا ہے۔ حالانکہ اس اقلیت اور ہندوؤں میں سماجی، مذہبی اور تہذیبی رشتے موجود ہیں اور دونوں فرقے کے لوگ آپس میں شادی بیاہ کرتے ہیں جبکہ قادیانیت مسلمانوں کے ساتھ شادی ممنوع قرار دیتی ہے اور ان کے بانی نے مسلمانوں کے ساتھ کوئی تعلق نہ رکھنے کا بڑی سختی سے حکم دیتے ہوئے کہا : "مسلمان حقیقت میں کھٹا دودھ ہیں اور ہم تازہ دودھ ہیں۔"
 

شمشاد

لائبریرین
لاہوری جماعت اور اسکے باطل عقائد​

غلام احمد اور اس کے جانشین نور الدین کے زمانے میں قادیانی مذہب میں صرف ایک فرقہ تھا۔ لیکن نور الدین کے آخری زمانہ حیات میں قادیانیوں میں کچھ اختلاف پیدا ہوئے۔ نور الدین کے مرنے کے بعد یہ لوگ دو جماعتوں میں منقسم ہو گئے۔ قادیانی جماعت جس کا صدر محمود غلام احمد ہے اور لاہوری جماعت جس کا صدر اور لیڈر محمد علی ہے جس نے قرآن کا انگریزی ترجمہ کیا ہے۔ قادیان کی جماعت کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ غلام احمد نبی اور رسول تھا۔ جبکہ لاہوری جماعت بظاہر غلام احمد کی نبوت کا اقرار نہیں کرتی، لیکن غلام احمد کی کتابیں اس کے دعوی نبوت و رسالت سے بھری پڑی ہیں۔ اس لئے وہ کیا کر سکتے ہیں؟

لاہوری جماعت کے اپنے مخصوص عقائد ہیں جن کی وہ اپنی کتابوں کے ذریعہ تبلیغ کرتے ہیں۔ وہ اس پر ایمان نہیں رکھتے کہ عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے۔ محمد علی کے مطابقِ جو اس جماعت کا لیڈر ہے، عیسیٰ علیہ السلام یوسف نجار کے بیٹے تھے۔ محمد علی نے اپنے عقیدہ کی موافقت میں آیات میں تحریف بھی کی ہے۔ (دیکھئے اس کی کتاب عیسیٰ اور محمد، صفحہ 76)۔

’مجلہ اسلامیہ‘ (دی اسلامک ریویو) جو انگلینڈ میں ووکنگ سے شائع ہونے والا اس جماعت کا رسالہ ہے، میں ایک بار ڈاکٹر مارکوس کا مضمون شامل تھا، جس میں لکھا تھا : "محمد علیہ السلام اعلان کرتے ہیں کہ یوسف عیسیٰ علیہ السلام کے باپ تھے۔" اس رسالہ نے اس جملہ پر کبھی رائے زنی نہیں کی کیونکہ یہ ان کے مذہبی عقیدہ کے مطابق تھا۔

اپنے ترجمہ قرآن میں محمد علی نے لفظی ترجمہ کے قاعدہ کی تقلید کی۔ لیکن اپنے کئے ہوئے لفظی ترجمہ کی تفسیر صفحے کے نیچے حاشیہ پر کی۔ اپنی تفسیر میں اس نے اسی تاویل کی پابندی کی جو اس کے اپنے مذہبی عقیدہ کے مطابق تھی۔ جیسا کہ اس نے مندرجہ ذیل قرآنی آیت کے ساتھ کیا :

" میں تمہارے لئے مٹی سے، جیسی کہ وہ تھی، ایک چڑیا بناتا ہوں اور اس میں پھونک مارتا ہوں اور یہ خدا کی اجازت سے چڑیا بن جاتی ہے۔ اور میں انہیں اچھا کرتا ہوں جو پیدائشی اندھے اور کوڑھی تھے۔ اور میں خدا کی اجازت سے مُردوں کو زندہ کر دیتا ہوں۔"

اس نے اس آیت کی تاویل میں ان کا طریقہ اختیار کیا جو معجزات میں ایمان نہیں رکھتے اور اس کے معنی میں ان کے طریقہ پر تصرف کیا جو نہیں جانتے کہ قرآن نہایت شستہ عربی زبان میں نازل ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ختم شد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

Dilkash

محفلین
بہت خوب شمشاد بھائی۔۔۔اللہ تعالی اپکو جزائے خیر دیں۔۔میں انشااللہ اسے پشتو میں ترجمہ کرکے اپنی سائٹ دستار پر لگاونگا۔۔
ترجمہ کے لئے اجازت کی شائد ضرورت تو نہیں ہوگی؟؟؟

مطلع فرمائیے گا۔
شکریہ
 

شمشاد

لائبریرین
ہمت افزائی کا بہت شکریہ۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس کو ترجمہ کر کے شائع کرنے کے لیے اجازت درکار ہو گی۔ اسی بہانے اس کی پروف ریڈنگ بھی ہو جائے گی۔

اگر کہیں تو میں آپ کو اس کو تصویری ورژن بھیج دوں گا۔
 

Dilkash

محفلین
جی شمشاد بھائی۔۔میرے ایمیل پر بھیج دیجئے گا،،،،ہو سکتا ہے ہم دونوں کےلئے یہی باعث معفرت ہو جائے۔


شکریہ ۔۔۔۔ ایمیل ایڈریس پر تصویری ورژن مل گیاہے شمشاد بھائی۔۔۔اب ایمیل ایڈریس مٹا دیتا ہوں ۔۔۔ایک بار شکریہ
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top