یہ کیسے مسلمان ہیں؟

آج ایک خبر نشر ہوئی ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں ہسپتال میں دھماکہ اور 25 لوگ شہید ہوگئے ہیں اس سے پہلے بھی ڈیرہ اسماعیل ایک مخصوص مسلک کے 500 لوگوں کو قتل کیا کا چکا ہے۔ پارا چنار میں ایمبولینس پر حملہ کرکہ بچوں اور عورتوں کو مارا گیا یہ کیسے مسلمان ہیں جو ایمبولینس کو نہیں چھوڑتے حتی کہ یہودی بھی ایمبولینس پر حملہ نہیں کرتے مزید افسوس کی بات کہ ایک قافلہ جس میں چار ٹرک شامل تھے اور ہیلی کاپٹر کی زیر نگرانی جا رہا تھا اس قافلے کو پہلے لوٹا گیا اور پھر ٹرکوں کے ساتھ چار ڈرائیوروں کو زندہ جلایا گیا۔ کیا یہ سب کچھ کرنے والے مسلمان ہیں۔ یہ کیوں ہو رہا ہے کہ ہسپتالوں، ایمبولنسوں پر حملہ کیا جاتا ہے لوگوں کو زندہ جلایا جاتا ہے، کیا انسانیت مرتی جا رہی ہے۔ یہ آخر سب کون کررہا ہے گورنمنٹ کی رٹ کہاں ہے؟
 

مغزل

محفلین
یہ لوگ ( جن میں ایجنسی کے لوگ بھی شامل ہیں) دین کے نام پر غارت گری کو ہی جہاد خیال کرتے ہیں۔
 

خرم

محفلین
یہی ہے ظالمانہ وحشیانہ رویہ / طرزِ عمل۔ اور ہم کب ایجنسی ایجنسی کی رٹ چھوڑ کر اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دیں گے؟ اگر سب کچھ ایجنسیاں کروا رہی ہیں تو پھر ہم آپ کیا کر رہے ہیں؟ جب ہم ان "ظالمان" کی حمایت میں تحریر و تقریر کی توانائیاں صرف کرتے ہیں تو ہم ان کاروائیوں کو جلا بخش رہے ہوتے ہیں۔ یہ بات سب سےپہلے توجہ کی طالب ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
اللہ رحم فرمائے۔
فرقہ وارانہ تشدد ختم کرنے کے سلسلہ میں تمام مسالک کے علما کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
 
پارا چنار میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ خالصتا فرقہ ورانہ فسادات ہیں جو اس سے پہلے بھی ملک کے دیگر علاقوں میں ہو چکے ہیں تازہ ترین اطلاعات کے مطابق مقامی طالبان اور مہدی ملیشیا دونوں ہی اس سلسلے میں قصور وار ہیں اور مظالم دونوں ہی طرف سے ہورہے کبھی ایک گروہ دوسرے کے افراد کو مارتا ہے تو بعد ازاں دوسرا گروہ بھی پیچھے نہیہں رہتا اور وہ بھی پہلے گروہ کے افراد کو قتل کرتا ہے بہر کیف اللہ پاک دونوں گروہ کو یہ خون آشام جنگ ختم کرنے کی توفیق دیں
 
پارا چنار میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ خالصتا فرقہ ورانہ فسادات ہیں جو اس سے پہلے بھی ملک کے دیگر علاقوں میں ہو چکے ہیں تازہ ترین اطلاعات کے مطابق مقامی طالبان اور مہدی ملیشیا دونوں ہی اس سلسلے میں قصور وار ہیں اور مظالم دونوں ہی طرف سے ہورہے کبھی ایک گروہ دوسرے کے افراد کو مارتا ہے تو بعد ازاں دوسرا گروہ بھی پیچھے نہیہں رہتا اور وہ بھی پہلے گروہ کے افراد کو قتل کرتا ہے بہر کیف اللہ پاک دونوں گروہ کو یہ خون آشام جنگ ختم کرنے کی توفیق دیں
یہ غیر ملکی پاراچنار میں فسادات کررہے ہیں اور کرنل مجید جیسے ٹٹو لوگ مقامی طالبان کی حمایت و نصرت کررہے ہیں، وہاں پر غیر ملکی جہادیوں کے ٹھوس ثبوت ہیں۔
 
ہ غیر ملکی پاراچنار میں فسادات کررہے ہیں اور کرنل مجید جیسے ٹٹو لوگ مقامی طالبان کی حمایت و نصرت کررہے ہیں، وہاں پر غیر ملکی جہادیوں کے ٹھوس ثبوت ہیں۔
مقامی طلبان کی تو مدد غیر ملکی کر رہے ہیں تاہم ان غیر ملکیوں کی مدد کے باوجود مقامی طالبان اچھے خاصے پٹ بھی رہے ہیں اب اللہ جانے مہدی ملیشیا کی مدد کون کر رہا ہے ۔ میں ایک بار پھر عرض کروں گا کہ دونوں فرقے ان فسادات میں ملوث ہیں اور دونوں ہی قابل مذمت بھی ہیں۔مظلوم کوئی نہیں ہے ۔اور یہ بات کہ کر میں محض ہوا میں تیر نہیں چلا رہا ہوں۔بہر کیف اللہ ان دونوں گروہوں کو عقل دے۔
 

شمشاد

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
اللہ رحم فرمائے۔
فرقہ وارانہ تشدد ختم کرنے کے سلسلہ میں تمام مسالک کے علما کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

وہی تو کر رہے ہیں لیکن فرقہ وارانہ تشدد ختم کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس کو مزید ہوا دینے کے لیے۔
 
ذرا اس مہدی ملیشیا کے بارے میں مجھے تفصیل سے بتائیں اور یہ بھی بتائیں کہ کیا کسی انسان کے جلانا، ہسپتالوں پر حملہ کرنا، ایمبولینس میں سوار مریض بچوں اور عورتوں قتل کرنا کیا اسلام ہے، کیا آپ کو پتہ ہے کہ ان فسادات کی شروعات کیسے ہوئی تھی؟
طالبان نے تو مزار شریف میں ایک دن میں 5000 لوگوں کو ذبح کیا تھا اور اسلام کا چہرہ پیش دنیا کے سامنے وہ سب کے سامنے ہے اور جب یہ نام نہاد نظام تباہ ہوا تو عورتوں نے اسی روز برقعے اتاردیے لوگوں نے ناعیوں کا رخ کیا یہ وہ رسول اللہ والا اسلام ہے جب طائف میں پتھر لگے تو بددعا نہیں دی؟
 
جناب من دیانت کا ہمیشہ سے تقاضہ یہی ہوتا ہے کہ تصویر کے دونوں رخ سامنے رکھیں جائیں میں اس بحث کو پھیلانا تو چاہتا نہیں ہوں اور ویسے بھی ایک گزشتہ تھریڈ مین کی گئی پوسٹ کے بعد میں شیعہ سنی مسئلے کو اچھالنا نہیں چاہتا ہوں۔ تاہم میں پھر یہ درخواست کروں گا کہ موجودہ حالات کے پورے کینوس کو مد نظر رکھتے ہوئے طالبان اور دیگر گرہوں پر کوئی حکم لگا یا جائے نیز ایک بار پھر یاد دلاوں گا کہ مقامی طالبان افغان طالبان سے الگ ایک گروہ ہے جس کی کچھ زیادہ حمایت خود افغان طالبان بھی نہیں کرتے۔ اس سلسلے میں‌ یہ بات میں پہلے بھی اس فورم پر عرض کر چکا ہوں آپ بھی دیکھیے
http://www.dawn.com/2008/01/29/top18.htm
آپ نے جو سوالات آٹھا ئے ہیں ان کے جوابات میں ایک ایک کر کے دے رہا ہوں

ا
س مہدی ملیشیا کے بارے میں مجھے تفصیل سے بتائیں اور یہ بھی بتائیں کہ کیا کسی انسان کے جلانا، ہسپتالوں پر حملہ کرنا، ایمبولینس میں سوار مریض بچوں اور عورتوں قتل کرنا کیا اسلام ہے، کیا آپ کو پتہ ہے کہ ان فسادات کی شروعات کیسے ہوئی تھی؟
اس بارے میں اور کرم ایجنسی کی تازہ ترین صورت حال کے بار میں اور ساتھ ہی مقامی طالبان اور مہدی ملیشیا کے بارے میں بی بی سی کی یہ رپورٹ دیکھئے
کرم ایجنسی میں فسادات کیوں؟
پاکستان کے قبائلی علاقے کُرم ایجنسی میں شیعہ سُنی فسادات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت آ رہی ہے مگر حکومت اس سے روکنے میں بظاہر نا کام نظر آرہی ہے۔

باوثوق سرکاری ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ کُرم ایجنسی کے پولٹیکل ایجنٹ اعظم خان گزشتہ دس روز سے فسادات روکنے کےلیے مرکزی حکومت سے گن شپ ہیلی کاپٹر مہیا کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تاہم حکام بالا کا کہنا ہے کہ باجوڑ ایجنسی میں طالبان کے خلاف جاری آپریشن کی وجہ سے گن شپ ہیلی کاپٹر پولٹیکل انتظامیہ کو فراہم نہیں کیے جا سکتے۔

سات اگست کو ایک ٹریکٹر کے جلائے جانے کے بعد شیعہ سنی فسادات میں اب تک سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پچھتر افراد ہلاک اور دو سو ایک زخمی ہیں۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ بقول ان کے لوئر کُرم میں سُنیوں کے گاؤں کو جلائے جانے کے دوران جن افراد کو ہلاک کیاگیا ہے ان کی لاشیں اب بھی جگہ جگہ پڑی ہیں۔

تازہ جھڑپیں سات اگست کو لوئر کُرم میں اس وقت شروع ہوئیں جب حکومتی ذرائع کے مطابق صدر مقام پاڑہ چنار سے تقریباً چار ہزار شیعوں پر مشتمل ایک لشکر نے سُنیوں کے گھروں پر حملہ کر کے ان میں موجود سامان کو لوٹ کر کئی گاؤں کو نذرِ آتش کردیا۔

اس لشکر نے منڈا، اسماعیل، حیدر خان، گالہ، مندری اور مدوخیل کلی اورمخیزئی کے چار چھوٹے چھوٹے دیہات کو آگ لگا دی اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان تمام گاؤں میں تقریباً دو سو مکانات کو نذرِ آتش کردیا گیا ہے۔

اس دوران سُنیوں نے تین شیعہ دیہات چار دیوار، جلمئی اور سیدان پر قبضہ کرکے سامان کولوٹنے کے بعد اس سے نذرِ آتش کردیا ہے۔

اگرچہ اس لڑائی میں دونوں طرف سے عام قبائل ایک دوسرے کے ساتھ برسرِ پیکار ہیں لیکن جنگ میں شدت لانے اور اس سے مزید بھڑکانے میں شیعہ اور سُنی مسلک کےماننے والے نظریاتی اور حربی لحاظ سے تربیت یافتہ دو مخالف گروپوں کا ہمیشہ سے بہت بڑا کردار رہا ہے۔

ان دو گروپوں میں سُنی طالبان جنگجؤ اور شیعہ مہدی ملیشاء شامل ہے۔

کُرم ایجنسی میں اگرچہ سنی اور شیعہ فسادات مغل بادشاہ بابر کے دور ، انگریزوں اور پاکستان کے قیام کے بعد وقتا فوقتاً ہوتے آ رہے ہیں لیکن پاکستان میں طالبانائزیشن کے ظہور نے فرقہ ورانہ فسادات کو ایک نئی جہت دی ہے۔

حالیہ فسادات نو نومبر دوہزار سات سے اس وقت شروع ہوگئے جب علاقے میں نو وارد طالبان نے شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے ایک سپاہی امجد حسین کو ضلع ہنگو کے دوآبہ کے علاقے سے مبینہ طور پر اغواء کرکے ان کا سرقلم کردیا۔

مقتول کی لاش کے پاس جو خط ملا تھا اس پرطالبان کی جانب سے لکھا گیا تھا کہ انہوں نے سپاہی کو جاسوس سمجھ کر قتل کردیا ہے۔ اس انداز سے قتل کرنے کے عمل نے کُرم ایجنسی میں موجود شیعہ آبادی کو مشتعل کردیا اور انہوں نے سُنیوں پر حملہ کر دیا۔

اگلے دن لوئر کُرم میں سنیوں نے پندرہ شیعوں کو ہلاک کردیا اور یوں فسادات کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا۔اس دوران تقریباً دو سو سُنی خاندانوں نے شیعہ اکثریتی صدر مقام پاڑہ چنار سے نقل مکانی کی جبکہ جواب میں سُنیوں نے پاڑہ چنار جانے والی واحد اہم شاہراہ کو بند کردیا۔

اس راستے کے بند ہونے سے شیعوں کے آمد ورفت کے تمام راستے بند ہوگئے، بازار میں خوردنی اشیا اور دیگر ضروریات زندگی کی قلت پیدا ہوگئی۔ ہسپتال میں ادویات ختم ہوگئیں اور ضرورت کو پورا کرنے کے لیے افغان حکومت نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہسپتال کو کئی ملین روپے کی ادویات فراہم کیں۔

اس کے علاوہ پاڑہ چنار کے لوگ افغانستان سے ہوتے ہوئے پشاور آتے جبکہ تورخم بارڈر کے ذریعے افغانستا ن سے گزرتے ہوئے واپس پاڑہ چنار پہنچتے تاہم اس دوران طالبان کے خلاف آپریشن میں مصروف اتحادی افواج نے پاڑہ چنار جانے والے افراد کو مشکوک سمجھ کر ان پرحملہ کردیا جس میں بعض افراد ہلاک بھی ہوئے۔

شیعہ اور سنی مسلک سے تعلق رکھنے والا اعتدال پسند طبقہ خود کو طالبان اور مہدی ملیشاء کی ہاتھوں میں یرغمال پاتے ہیں۔ ان میں درجنوں افراد نے بات چیت کے دوران بتایا ہے کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس جنگ کا حصہ بن رہے ہیں۔

اس طبقے کا خیال ہے کہ اس میں بیرونی ہاتھ نظر آرہا ہے۔ تاہم ان کے پاس اس بارے میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔

اس وقت سرکاری اعداد شمار کے مطابق ایک ہزار کے قریب طالبان جنگجو علاقے میں جاری فسادات میں حصہ لے رہے ہیں جن میں صرف ایک سو بیس کے قریب جنگجؤوں کا تعلق کُرم ایجنسی سے بتایا جاتا ہے جبکہ باقی تمام کا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے جو طالبان کمانڈر بیت اللہ محسود کے دست راست حکیم اللہ کے زیر کمان لڑ رہے ہیں۔

حکومت کا کہنا ہے کہ طالبان کے مدمقابل شیعہ مہدی ملیشاء ہے جن کے تربیت یافتہ جنگجؤوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق سات سو ہے جن میں امامیہ سٹو ڈنٹس آرگنائزیشن کے تین سو نوجوان بھی شامل ہیں۔اس گروپ کی سربراہی کالعدم تحریکِ جعفریہ پاکستان کے مقامی رہنماء عا بد حسین الحسینی کر رہے ہیں۔

تاہم امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اس بات کی تردید کرتی ہے کہ ان کی مسلح تنظیم نہیں ہے اور نہ ہی ان کے کارکن کرم ایجنسی کے فسادات میں ملوث ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم ایک فلاحی اور سیاسی تنظیم ہے جو محض سیاسی جدوجہد میں یقین رکھتی ہے۔

یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس گھمبیر صورتحال میں پولٹیکل انتظامیہ کیا کر رہی ہے۔ پولٹیکل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ عارضی جنگ بندی کےلیے مؤثر طریقہ فوج کی اضافی نفری کی تعیناتی اور فریقن کے مورچوں پرگن شپ ہیلی کاپٹر کی فائرنگ ہے تاہم ان کے بقول بار بار کے رابطے کے باوجود مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ باجوڑ میں جاری آپریشن کی وجہ سے اضافی گن شپ ہیلی کاپٹر دستیاب نہیں ہیں۔

تاہم ان تمام حکومتی وضاحتوں کے باوجود حالات دن بدن خرابی کی طرف جارہے ہیں اور مبصرین کے بقول حکومت کو خاموشی توڑ کر کوئی نہ کوئی قدم اٹھانا چاہیے۔دو روز قبل پشاور میں مشیرِ داخلہ رحمان ملک نےجنگ بندی کے لیے فریقین کو بہتر گھنٹے کا وقت دیا تھا جس پر کافی تنقید کی گئی کہ ان کے اس بیان سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ حکومت فریقین کو تین دنوں تک مزید لڑنے کی اجازت دے رہی ہے۔

مشیرِ داخلہ کے اعلان کے بعد دو دنوں میں چالیس کے قریب افراد ہلاک اور پچاس گھروں کو نذرِ آتش کیا گیا ہے اور مقامی لوگ سوال کرتے ہیں کہ مشیرِ داخلہ کی جانب سے حالات کی سنگینی کی حقیقت تسلیم کیے جانے کے بعد ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کا ذمہ دار کس کو ٹہرایا جائے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/08/080817_kurram_analysis_ra.shtml
طالبان نے تو مزار شریف میں ایک دن میں 5000 لوگوں کو ذبح کیا تھا اور اسلام کا چہرہ پیش دنیا کے سامنے وہ سب کے سامنے ہے اور جب یہ نام نہاد نظام تباہ ہوا تو عورتوں نے اسی روز برقعے اتاردیے لوگوں نے ناعیوں کا رخ کیا یہ وہ رسول اللہ والا اسلام ہے جب طائف میں پتھر لگے تو بددعا نہیں دی؟
اس کا جواب یہاں دیکھیئے

ایک بار پھر میری اللہ سے دعا ہے کہ یہ بدامنی ختم ہو اور کم از کم شیعہ سنی اختلافات ایک علمی سطح سے آگے نہ بڑھئیں۔
 

خرم

محفلین
جو بھی کہتا ہے کہ افغانی ظالمان پاکستانی ظالمان سے لاتعلق ہیں یا ان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں وہ یا تو انتہائی معصوم ہے یا ۔۔۔۔۔ اگر کوئی تعلق نہیں تو یہ پاکستانی ظالمان سرحد پار کرکے کن کی مدد کرنے جاتے ہیں؟
 
خرم بھائی یہ ظالمان انسانیت کے نام پر دھبہ ہیں۔

اور اب حسن اب تو حکومت نے بھی نام نہاد ظالمان کو بین کردیا ہے، میرے چچا جو سوات آپریشن میں شامل تھے بتایا تھا پچھلے ہم نے 100 سو لوگوں کو واصل جہنم کیا اور جب لاشیں دیکھیں گئیں تو جو جسمانی ساخت بتائی اللہ امان الحفیظ یہ تو انسانیت سے گرے ہوئے لوگ تھے۔
اب ایک بڑا آپریشن ہوناچاہیے۔
اور آپ کو یاد ہوگا جب کچھ روز پہلے ایک خود کش حملہ آور نے خود تو واصل جہنم کیا اسلام آباد میں اور اپنی پولیس کے جوانوں کو شہید کیا اور عین اسی وقت لال مسجد سے برسی جو شرکاء واپس آرہے تھے وہ ان پولیس کے لاشوں کو دیکھ کر ہنستے ہوئے جارہے تھے۔
 
اس واقعے میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے لیکچرر جناب سید عمران حیدر کے 20 فیملی میمبرس شہید ہو چکے ہیں اللہ تعالٰی مرحومین کی مغفرت فرمائے اور نام تحریک طالبان کو نامراد و ناکام کردے۔
آمین ثم آمین۔
 

الف نظامی

لائبریرین
80 کی دہائی سے یہ واقعات رونما ہونا شروع ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے یہ کیفیت نہیں تھی۔
سنی شیعہ اختلاف بہت پرانا ہے ، لیکن اس بات پر قتل و غارت پہلے نہیں تھی۔
میری نظر میں اس مسلہ کا حل یہ کہ تمام مسالک کے بالغ نظر اور معتدل علمائے کرام آپس میں مل بیٹھیں اور تلخیوں کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
کسی زمانے میں ملی یکجہتی کونسل بھی بنی تھی۔

ایک مثال: ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی مجالس میں دوسرے مسالک کے لوگ بھی شرکت کرتے ہیں تو کیا تمام مکاتب فکر اس روایت کو نہیں اپنا سکتے تاکہ امت مسلمہ میں افتراق و انتشار کو ختم کیا جاسکے؟
 

مغزل

محفلین
جی ہاں۔۔ ایسا ہوسکتا ہے ۔۔ اور ہونا بھی چاہیئے۔۔۔
دعا ہے ہم فروعی اختلاف بھلا کر ۔۔ ایک ہوں۔
 
Top