یہ شادی نہیں ہو سکتی؟۔

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
ہندو آپس میں کزن میرج نہیں کرتے۔ بلکہ ان میں اتنے کٹر ہیں کہ جس خاندان میں ایک خاندان کی لڑکی بیاہی ہوئی ہو تو اس خاندان میں بھی شادی نہیں کرتے۔ اور بعض اتنے کٹر ہیں کہ جس گاؤں میں ایک گاؤں کی لڑکی بیاہی ہوئی ہو تو اس گاؤں میں شادی نہیں کرتے۔ یہ معلومات مجھے ایک کٹر قسم کے ہندو سے ملی تھیں۔
 

footprints

محفلین
چونکہ آپ نے پوچھا لہذا میرا فرض بنتا ہے کہ اس آیت کو مناسب مقامات پر توڑ کر دکھایا جائے۔

ايَاأَيُّهَا النَّبِيُّ
إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ
وَ بَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا
خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ
قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا

پہلا جملہ ۔۔ رسول اکرم صلعم سے خطاب
دوسرا جملہ ۔۔۔ ماضی میں جو رسول اکرم کرچکے ہیں ، اس کے درست ہونے کا بیان ہے۔ پاسٹ پرفیکٹ ٹینس ہے
تیسرا جملہ ۔۔۔ ۔ مستقبل میں جس کام کی خاص اجازت دی گئی۔ مکہ سے آئی ہوئی کزنزسے شادی اور وہ عورتیں جو اپنے آپکو رسول اکرم کے لئے تحفتہ پیش کردیں۔ یہ پریزینٹ اندڈیفینیٹ اور پریزینٹ کنٹینیؤس ٹینس میں ہے۔لہذا الگ جملہ ہے
چوتھا جملہ --- اس کا اطلاق صرف مستقبل کے لئے خاص اجازت یعنی تیسرے جملے پر ہو سکتا ہے جو کہ صرف مستقبل میں ممکن ہے۔۔ اس میں دوسرے مسلمانوں کو اپنی کزنز سے شادی کی ممانعت اور عورتوں کو تحفتہ کے طور پر قبول کرنے کے ممانعت دونوں آگئیں۔
پانچواں جملہ۔ ماضی میں دئے گئے حکم کو دہرایا گیا کہ ان مومنین کے لئے ان کی ازواج اور ملکت ایمانھم کے لئے کیا کیا حکم دیا گیا اس کا اعادہ۔

تجزیہ حاضر ہے ۔ سمجھنا آپ کا کام ہے۔تجزیہ کا لنک

جناب والا!
مزید وضاحت کے لیے لگے ہاتھوں درج ذیل عبارت کی وضاحت فرما دیجیے جو آپ کی فراہم کردہ ویب سائیٹ سے ہے ۔
«اللاتي» نعت أزواجك، «ما» موصول معطوف على أزواجك، الجار «مما» متعلق بحال من «ما»، المصدر «أن يستنكحها» مفعول أراد، «خالصة» حال من الهاء في «يستنكحها»، الجار «لك» متعلق بخالصة، الجار «من دون» متعلق بحال من الضمير في «خالصة». جملة «وهبت» نعت ثان لامرأة، وجواب الشرط محذوف أي: فهي حِلٌّ له. وجملة «إن أراد النبي» حال من الضمير في «وهبت»، وجملة «قد علمنا» اعتراضية بين الجارّ ومتعلَّقه، والمصدر المؤول «لكيلا يكون» مجرور متعلق ب۔«خالصة»، الجار «عليك» متعلق بخبر «يكون»، وجملة «وكان الله غفورا» مستأنفة.
ربط :
 

عاطف بٹ

محفلین
عربوں اور ایرانیوں کا تو مجھے علم نہیں لیکن برصغیر میں کزن میرجز عام ہیں اور شائد یہ ہندو افلونس ہو۔
ہندوؤں میں کزن میرج کا رواج نہیں ہے بھائی بلکہ سندھ میں رہنے والے ہندو تو اس سلسلے میں اس حد تک محتاط ہیں کہ اگر کوئی دور پار سے بھی رشتہ نکل آئے تو وہ شادی نہیں کرتے۔
 

سید ذیشان

محفلین
ہندوؤں میں کزن میرج کا رواج نہیں ہے بھائی بلکہ سندھ میں رہنے والے ہندو تو اس سلسلے میں اس حد تک محتاط ہیں کہ اگر کوئی دور پار سے بھی رشتہ نکل آئے تو وہ شادی نہیں کرتے۔
جیسے میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ شمالی اور جنوبی ہندوستان میں رواج کا فرق ہے۔ جنوبی ہندوستان میں یہ عام رواج ہے۔
 
جناب والا!
مزید وضاحت کے لیے لگے ہاتھوں درج ذیل عبارت کی وضاحت فرما دیجیے جو آپ کی فراہم کردہ ویب سائیٹ سے ہے ۔
«اللاتي» نعت أزواجك، «ما» موصول معطوف على أزواجك، الجار «مما» متعلق بحال من «ما»، المصدر «أن يستنكحها» مفعول أراد، «خالصة» حال من الهاء في «يستنكحها»، الجار «لك» متعلق بخالصة، الجار «من دون» متعلق بحال من الضمير في «خالصة». جملة «وهبت» نعت ثان لامرأة، وجواب الشرط محذوف أي: فهي حِلٌّ له. وجملة «إن أراد النبي» حال من الضمير في «وهبت»، وجملة «قد علمنا» اعتراضية بين الجارّ ومتعلَّقه، والمصدر المؤول «لكيلا يكون» مجرور متعلق ب۔«خالصة»، الجار «عليك» متعلق بخبر «يكون»، وجملة «وكان الله غفورا» مستأنفة.
ربط :

آیت کے اس حصے میں دو عدد ممنوع ہیں جن کی خاص اجازت رسول اکرم صلعم کو دی گئی ہے۔
"فرسٹ کزن سسٹرز" سے نکاح کی خاص اجازت
"خود کو تحفہ کرنے والی مومنات" سے نکاح کی خاص اجازت۔

سوال یہ ہے کہ باقی مومنین کو کس "ممنوع" سے روکا گیا ہے؟

کچھ لوگوں کا یہ نظریہ بھی ہے کہ -- اس خاص اجازت کا اطلاق صرف اور صرف دوسرے نمبر کے "ممنوع" ---- وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا --- پر ہوتا ہے
ایسا ممکن نہیں ۔ اس کے دو عدد جواز ہیں۔
1۔ یہ تو بالکل سامنے کی بات ہے اور درست ہے کہ کم از کم دوسرا "ممنوع" عام مومنین کے لئے نہیں ہے ۔ لیکن اس جملے میں رسول اکرم صلعم کو دو قسم کی عورتوں سے شادی کی اجازت دی گئی ہے جس کی شرط ہے کہ اگر نبی اکرم چاہیں۔ وہ دو قسمیں ہیں "فرسٹ کزن سسٹرز" اور "خود کو تحفہ کرنے والی مومنات" ان دونوں کو زمانہء حال میں اجازت دی جارہی ہے تو کیا وجہ ہے کہ نبی کے لئے اس خاص اجازت کو ان دونوں میں سے صرف ایک قسم "خود کو تحفہ کرنے والی مومنات" تک محدود رکھا جائے

2۔ یہ بات بہت واضح ہے کہ 4:23 میں حرام کی جانے والی "بہنوں" میں "فرسٹ کزن سسٹرز" شامل ہیں۔ ورنہ 33:50 میں خاص طور نبی اکرم صلعم کو اس اجازت کو دینے کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی ۔ اسی طرح بناء مہر کے اپنے آپ کو تحفہ کرنے والی بھی منع تھیں، نبی اکرم کے لئے خاص طور پر ان دو ممنوع کردہ خواتین کو جائز قرار دیا گیا جبکہ باقی مسلمانوں کو یہ خاص اجازت نہیں دی گئی۔

نکتہ نمبر 1 اور 2 کی روشنی میں یہ بات بہت واضح ہے کہ صرف ایک عدد "ممنوع" کی جگہ دو عدد "ممنوع" کی خاص اجازت رسول اکرم صلعم کو دی گئی جبکہ باقی مسلمانوں کے لئے دونوں "ممنوع" کو برقرار رکھا گیا ۔۔

سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس دو طرح کی شادیوں کی اجازت ہوتی تو پھر اس آیت میں خاص طور پر اجازت دینے کی ضرورت ہی کیا تھی؟

یہ نکات ایسی صورت حال پیدا کرتے ہیں کہ اس کے بعد کیا یہ ضروری رہ جاتا ہے کہ صرف اور صرف "فرسٹ کزن سسٹرز " سے ہی شادی کی جائے؟؟؟


والسلام
 

نایاب

لائبریرین
آیت کے اس حصے میں دو عدد ممنوع ہیں جن کی خاص اجازت رسول اکرم صلعم کو دی گئی ہے۔
"فرسٹ کزن سسٹرز" سے نکاح کی خاص اجازت
"خود کو تحفہ کرنے والی مومنات" سے نکاح کی خاص اجازت۔

سوال یہ ہے کہ باقی مومنین کو کس "ممنوع" سے روکا گیا ہے؟

کچھ لوگوں کا یہ نظریہ بھی ہے کہ -- اس خاص اجازت کا اطلاق صرف اور صرف دوسرے نمبر کے "ممنوع" ---- وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا --- پر ہوتا ہے
ایسا ممکن نہیں ۔ اس کے دو عدد جواز ہیں۔
1۔ یہ تو بالکل سامنے کی بات ہے اور درست ہے کہ کم از کم دوسرا "ممنوع" عام مومنین کے لئے نہیں ہے ۔ لیکن اس جملے میں رسول اکرم صلعم کو دو قسم کی عورتوں سے شادی کی اجازت دی گئی ہے جس کی شرط ہے کہ اگر نبی اکرم چاہیں۔ وہ دو قسمیں ہیں "فرسٹ کزن سسٹرز" اور "خود کو تحفہ کرنے والی مومنات" ان دونوں کو زمانہء حال میں اجازت دی جارہی ہے تو کیا وجہ ہے کہ نبی کے لئے اس خاص اجازت کو ان دونوں میں سے صرف ایک قسم "خود کو تحفہ کرنے والی مومنات" تک محدود رکھا جائے

2۔ یہ بات بہت واضح ہے کہ 4:23 میں حرام کی جانے والی "بہنوں" میں "فرسٹ کزن سسٹرز" شامل ہیں۔ ورنہ 33:50 میں خاص طور نبی اکرم صلعم کو اس اجازت کو دینے کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی ۔ اسی طرح بناء مہر کے اپنے آپ کو تحفہ کرنے والی بھی منع تھیں، نبی اکرم کے لئے خاص طور پر ان دو ممنوع کردہ خواتین کو جائز قرار دیا گیا جبکہ باقی مسلمانوں کو یہ خاص اجازت نہیں دی گئی۔

نکتہ نمبر 1 اور 2 کی روشنی میں یہ بات بہت واضح ہے کہ صرف ایک عدد "ممنوع" کی جگہ دو عدد "ممنوع" کی خاص اجازت رسول اکرم صلعم کو دی گئی جبکہ باقی مسلمانوں کے لئے دونوں "ممنوع" کو برقرار رکھا گیا ۔۔

سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس دو طرح کی شادیوں کی اجازت ہوتی تو پھر اس آیت میں خاص طور پر اجازت دینے کی ضرورت ہی کیا تھی؟

یہ نکات ایسی صورت حال پیدا کرتے ہیں کہ اس کے بعد کیا یہ ضروری رہ جاتا ہے کہ صرف اور صرف "فرسٹ کزن سسٹرز " سے ہی شادی کی جائے؟؟؟


والسلام
اس دھاگے کو پڑھتے اپنی گمراہی کا زمانہ پوری کاملیت کے ساتھ نگاہوں کے سامنے گھومنے لگا ۔ جب بزعم خود اپنی عقل کو اپنا رہنما رکھتے قران کی تلاوت کرتے قیاس کی گھوڑے دوڑایا کرتا تھا ۔ اردو ترجمے میں ملی ہر مذہب کی کتاب کو چاٹ جایا کرتا تھا ۔ اس دور گمراہی میں کچھ آیات قرانی جو کہ " متشابہات " میں ہیں ۔ اور کچھ وہ جو کہ " تعارض " کو قیاسی طور ثابت کرتی ہیں ۔ یاد آگئیں ۔
سب سے پہلے محترم بھائی کی پیش کردہ آیت قرانی پر ملعون " راج پال " کی لکھی شیطانی کتاب کے مندرجات یاد آ ئے جو کہ اسی موضوع پر استوار کیئے گئے تھے ۔ اور " نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم " کی شخصیت و کردار پر جنس کا گند اچھالا گیا تھا ۔ نقل کفر کفر نہ باشد اپنی جگہ اک حقیقت ہے مگر اس شیطانی کتاب میں جس طرح ان آیات کو انتہا درجے مذموم انداز میں بیان کیا گیا تھا ۔ وہ نقل کرتے دل کانپتا ہے اور ان آیات میں دی گئی چھوٹ کو اک خاص نکتہ نظر سے اچھالا گیا تھا ۔
پھر " سلیمان رشدی " ملعون نمودار ہوا اور اس نے " سورہ احزاب " آیت نمبر 37 کو اک مخصوص نظریئے کے مطابق اچھالا ۔ اور نبی پاک علیہ السلام کی شخصیت و کردار پر زبان دراز کی ۔
جانے میرے محترم بھائی کے مقصود نظر کیا ہے جو وہ ان آیات کو 2010 میں پاک نیٹ پر بحث کا موضوع بنا کر اور پھر اس بحث سے نکلنے والے نتیجے سے متفق ہو کر 2012 میں دوبارہ اس بحث کو یہاں شروع کر دیا ہے ۔
میرے محترم بھائی عاجزانہ التجا ہے کہ اس فرمان الہی پر غور فرمائیں ۔

(ھو الّذی انزل علیک الکتاب منہ آیات محکمات ھن امُّ الکتاب و أُخَرُ متشابھات فامّا الّذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ما تشابہ منہ ابتغاء الفتنة و ابتغاء تاویلہ وما یعلم تاویلہ اّلا اللّٰہ و الرّاسخون فی العلم یقولون آمنا بہ کل من عند ربنا و ما یذکر الا اولوا الالباب ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ہدیتنا و ھب لنا من لدنک رحمة انک انت الوھاب) (١)
وہ خدا وہی ہے جس نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس کی آیتیں محکم اور واضح ہیں جو اصل کتاب ہے اور کچھ متشابہہ ہیں، جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ انہیں متشابہات کی پیروی کرتے ہیں تاکہ فتنے بھڑکائیں اور من مانی تاویلیں کریں حالانکہ اس کی تاویل کا علم خدا اور ان لوگوں کو ہے جو علم میں رسوخ رکھتے ہیں وہ تو یہی کہتے ہیں: ہم اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں یہ سب آیتیں تو خدا ہی کی طرف سے آئی ہیں، (لیکن)نصیحت تو صاحبان عقل ہی اخذ کرتے ہیں، پروردگارا ہم سب کو ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کو کج نہ ہونے دے اور اپنے پاس سے ہمیں رحمت عطا کر بیشک تو بڑا فیاّض ہے ۔
آل عمران
{ 7 - 9 }
اللہ تعالی ہم سب کو قران فہمی کی توفیق عطا فرماتے ہمیں گمراہیوں سے دور رکھے آمین
s2.png
 

حسان خان

لائبریرین
فاروق بھائی، اگر آپ معاشرے سے اس رسم کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو بجائے اس کے کہ دینی ماخذ میں تاویل کے گھوڑے دوڑائے جائیں، کیا یہ روش بہتر نہیں کہ معاشرے کے سامنے عقلی دلائل سے یہ ثابت کر دیا جائے کہ یہ رسم بری اور مضرِ صحت ہے؟
 

footprints

محفلین
آیت کے اس حصے میں دو عدد ممنوع ہیں جن کی خاص اجازت رسول اکرم صلعم کو دی گئی ہے۔
"فرسٹ کزن سسٹرز" سے نکاح کی خاص اجازت
"خود کو تحفہ کرنے والی مومنات" سے نکاح کی خاص اجازت۔

سوال یہ ہے کہ باقی مومنین کو کس "ممنوع" سے روکا گیا ہے؟

کچھ لوگوں کا یہ نظریہ بھی ہے کہ -- اس خاص اجازت کا اطلاق صرف اور صرف دوسرے نمبر کے "ممنوع" ---- وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا --- پر ہوتا ہے
ایسا ممکن نہیں ۔ اس کے دو عدد جواز ہیں۔
1۔ یہ تو بالکل سامنے کی بات ہے اور درست ہے کہ کم از کم دوسرا "ممنوع" عام مومنین کے لئے نہیں ہے ۔ لیکن اس جملے میں رسول اکرم صلعم کو دو قسم کی عورتوں سے شادی کی اجازت دی گئی ہے جس کی شرط ہے کہ اگر نبی اکرم چاہیں۔ وہ دو قسمیں ہیں "فرسٹ کزن سسٹرز" اور "خود کو تحفہ کرنے والی مومنات" ان دونوں کو زمانہء حال میں اجازت دی جارہی ہے تو کیا وجہ ہے کہ نبی کے لئے اس خاص اجازت کو ان دونوں میں سے صرف ایک قسم "خود کو تحفہ کرنے والی مومنات" تک محدود رکھا جائے

2۔ یہ بات بہت واضح ہے کہ 4:23 میں حرام کی جانے والی "بہنوں" میں "فرسٹ کزن سسٹرز" شامل ہیں۔ ورنہ 33:50 میں خاص طور نبی اکرم صلعم کو اس اجازت کو دینے کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی ۔ اسی طرح بناء مہر کے اپنے آپ کو تحفہ کرنے والی بھی منع تھیں، نبی اکرم کے لئے خاص طور پر ان دو ممنوع کردہ خواتین کو جائز قرار دیا گیا جبکہ باقی مسلمانوں کو یہ خاص اجازت نہیں دی گئی۔

نکتہ نمبر 1 اور 2 کی روشنی میں یہ بات بہت واضح ہے کہ صرف ایک عدد "ممنوع" کی جگہ دو عدد "ممنوع" کی خاص اجازت رسول اکرم صلعم کو دی گئی جبکہ باقی مسلمانوں کے لئے دونوں "ممنوع" کو برقرار رکھا گیا ۔۔

سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس دو طرح کی شادیوں کی اجازت ہوتی تو پھر اس آیت میں خاص طور پر اجازت دینے کی ضرورت ہی کیا تھی؟

یہ نکات ایسی صورت حال پیدا کرتے ہیں کہ اس کے بعد کیا یہ ضروری رہ جاتا ہے کہ صرف اور صرف "فرسٹ کزن سسٹرز " سے ہی شادی کی جائے؟؟؟


والسلام

جناب فاروق سرور صاحب !
مجھے تو وضاحت اس عبارت کی مطلوب تھی جو آپ کی محولہ ویب سائیٹ سے پیش کی گئی تھی لیکن آپ نے ا س سے تو گریز کیا اور مزید کچھ اور ہی سمجھانا شروع کر دیا ، ویسے آپ نے فاتح بھائی کے سوال کا جواب بھی نہیں دیا۔ آپ تو آیت کی شرح فرما رہے ہیں یہ تو بعد کی بات ہے آپ ذرا اپنے پیش کردہ ترجمہ کی سند یا حوالہ ہی فراہم کردیجیے یا عربی قواعد کی رو سے اپنا پیش کردہ ترجمہ کی وضاحت کیجیے ۔
اور مناسب تو یہی ہو گا کہ آپ خود ایسا کریں بصورت دیگر مجھے االلہ کے کلام کی اس خدمت پر یقینا خوشی حاصل ہوگی ۔
والسلام
 
چونکہ آپ نے پوچھا لہذا میرا فرض بنتا ہے کہ اس آیت کو مناسب مقامات پر توڑ کر دکھایا جائے۔

ايَاأَيُّهَا النَّبِيُّ
إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ
وَ بَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا
خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ
قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا

پہلا جملہ ۔۔ رسول اکرم صلعم سے خطاب
دوسرا جملہ ۔۔۔ ماضی میں جو رسول اکرم کرچکے ہیں ، اس کے درست ہونے کا بیان ہے۔ پاسٹ پرفیکٹ ٹینس ہے
تیسرا جملہ ۔۔۔ ۔ مستقبل میں جس کام کی خاص اجازت دی گئی۔ مکہ سے آئی ہوئی کزنزسے شادی اور وہ عورتیں جو اپنے آپکو رسول اکرم کے لئے تحفتہ پیش کردیں۔ یہ پریزینٹ اندڈیفینیٹ اور پریزینٹ کنٹینیؤس ٹینس میں ہے۔لہذا الگ جملہ ہے
چوتھا جملہ --- اس کا اطلاق صرف مستقبل کے لئے خاص اجازت یعنی تیسرے جملے پر ہو سکتا ہے جو کہ صرف مستقبل میں ممکن ہے۔۔ اس میں دوسرے مسلمانوں کو اپنی کزنز سے شادی کی ممانعت اور عورتوں کو تحفتہ کے طور پر قبول کرنے کے ممانعت دونوں آگئیں۔
پانچواں جملہ۔ ماضی میں دئے گئے حکم کو دہرایا گیا کہ ان مومنین کے لئے ان کی ازواج اور ملکت ایمانھم کے لئے کیا کیا حکم دیا گیا اس کا اعادہ۔

تجزیہ حاضر ہے ۔ سمجھنا آپ کا کام ہے۔تجزیہ کا لنک
فاروق صاحب مجھے نہیں معلوم آپکا مذہب کیا ہے مگر کم از کم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو پورا لکھ لیا کرو۔
اس چیز سے آپکی اسلامی تعلیمات ظاہر ہورہی ہیں
اب یہ مت کہہ دینا صلعم لکھنا جائز ہے
 
ہندو آپس میں کزن میرج نہیں کرتے۔ بلکہ ان میں اتنے کٹر ہیں کہ جس خاندان میں ایک خاندان کی لڑکی بیاہی ہوئی ہو تو اس خاندان میں بھی شادی نہیں کرتے۔ اور بعض اتنے کٹر ہیں کہ جس گاؤں میں ایک گاؤں کی لڑکی بیاہی ہوئی ہو تو اس گاؤں میں شادی نہیں کرتے۔ یہ معلومات مجھے ایک کٹر قسم کے ہندو سے ملی تھیں۔
ہندؤوں کو چھوڑیں۔پاکستان میں مئیو برادری بھی کچھ اسی طرح کی رسمیں ہیں۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top