الف عین
عظیم
محمد عبدالرؤوف
سید عاطف علی
------------
مَفاعلاتن مَفاعلاتن
------------------
یہ دھیان تیرا جو منتشر ہے
کسی کا جیسے تُو منتظر ہے
----------
جہاں میں ہم نے نہ جی لگایا
حیات اپنی جو مختصر ہے
-----------
رکی نہیں ہے ، نہ رک سکے گی
حیات اپنی تو اک سفر ہے
------
چلے کسی کا نہ زور اس پر
یہاں جو انسان با اثر ہے
-------------
غریب دنیا میں ہر جگہ پر
جہاں بھی دیکھو وہ دربد ر ہے
-----------
کرو جو پرچار نیکیوں کا
تو سوچ لینا یہ بے اثر ہے
-----------
جہاں میں انصاف ہے بکاؤ
یہاں پہ ظالم جو معتبر ہے
-------
خبر نہیں ہے جسے تو خود کی
نظر میں دنیا کی وہ با خبر ہے
------
یہاں جو ظالم ہے سب سے بڑھ کر
وہی زمانے میں تاجور ہے
-----------
سزا ملے گی ، جزا ملے گی
عمل پہ تیرے یہ منحصر ہے
-----------
کہاں پہ آئے گی موت اس کو
کسی کو اس کی نہ کچھ خبر ہے
--------------
جو مل گیا ہے وہی ہے کافی
مجھے تو محشر کی بس فکر ہے
------------
وہ مال تیرا نہیں ہے ارشد
نظر میں تیری جو سیم و زر ہے
--------------
 

الف عین

لائبریرین
الف عین
عظیم
محمد عبدالرؤوف
سید عاطف علی
------------
مَفاعلاتن مَفاعلاتن
------------------
یہ دھیان تیرا جو منتشر ہے
کسی کا جیسے تُو منتظر ہے
----------
اردو میں قافیے کے دونوں الفاظ زیر کے ساتھ بولے جاتے ہیں جس سے لگتا ہے کہ قافیہ منتشِر، منتظِر ہے لیکن آگے سارے فتحہ والے قوافی ہیں مختصر، در، خبر وغیرہ
جہاں میں ہم نے نہ جی لگایا
حیات اپنی جو مختصر ہے
-----------
دو لخت ہے،
رکی نہیں ہے ، نہ رک سکے گی
حیات اپنی تو اک سفر ہے
------
سفر کی مناسبت سے صیغہ مذکر کا ہونا تھا پہلے مصرع میں
چلے کسی کا نہ زور اس پر
یہاں جو انسان با اثر ہے
-------------
ٹھیک
غریب دنیا میں ہر جگہ پر
جہاں بھی دیکھو وہ دربد ر ہے
-----------
ہر جگہ اور جہاں بھی دیکھو ایک ہی بات ہے
کرو جو پرچار نیکیوں کا
تو سوچ لینا یہ بے اثر ہے
-----------
اسے نکال ہی دیں ،
جہاں میں انصاف ہے بکاؤ
یہاں پہ ظالم جو معتبر ہے
-------
یہاں بھی دو لختی ہے
خبر نہیں ہے جسے تو خود کی
نظر میں دنیا کی وہ با خبر ہے
------
خبر نہیں ہے جسے خود اپنی
نظر میں دنیا کی با خبر ہے
بہتر نہیں؟ دوسرا مصرع بحر سے خارج ہو رہا تھا آپ کا!
یہاں جو ظالم ہے سب سے بڑھ کر
وہی زمانے میں تاجور ہے
-----------
درست
سزا ملے گی ، جزا ملے گی
عمل پہ تیرے یہ منحصر ہے
-----------
درست
کہاں پہ آئے گی موت اس کو
کسی کو اس کی نہ کچھ خبر ہے
--------------
نہ کی جگہ نہیں استعمال کیا جائے دوسرے مصرعے میں
جو مل گیا ہے وہی ہے کافی
مجھے تو محشر کی بس فکر ہے
------------
فکر قافیہ نہیں بن سکتا درست تلفظ میں
وہ مال تیرا نہیں ہے ارشد
نظر میں تیری جو سیم و زر ہے
--------------
ٹھیک، مگر کیا کہنا چاہ رہے ہیں؟
 
الف عین
(اصلاح)
-----------
مفاعلاتن مفاعلاتن
---------------
مرا تو ہر کام بے ثمر ہے
کلام میرا بھی بے اثر ہے
-------------
تُو دیکھتا جو ادھر اُدھر ہے
یہ دھیان تیرا بتا کدھر ہے
------------
امیر حاکم بنے جہاں میں
غریب دنیا میں در بدر ہے
------
رکا نہیں ہے نہ رک سکے گا
حیات اپنی تو اک سفر ہے
----------
چلے کسی کا نہ زور اس پر
یہاں جو انسان با اثر ہے
------------
یہاں جو ظالم ہے سب سے بڑھ کر
وہی زمانے میں تاجور ہے
-----
سزا ملے گی ، جزا ملے گی
عمل پہ تیرے یہ منحصر ہے
-----------
کہاں پہ آئے گی موت اس کو
کسی کو اس کی نہیں خبر ہے
-----------
خبر نہیں ہے جسے خود اپنی
نظر میں دنیا کی با خبر ہے
------------
نحیف ہوتا ہی جا رہا ہوں
کمان جیسی مری کمر ہے
-----------
اسے تُو اپنا نہ جان ارشد
نظر میں تیری جو سیم و زر ہے
 

الف عین

لائبریرین
الف عین
(اصلاح)
-----------
مفاعلاتن مفاعلاتن
---------------
مرا تو ہر کام بے ثمر ہے
کلام میرا بھی بے اثر ہے
-------------
دوسرے مصرعے میں بھی بھرتی لگتا ہے
نہ کچھ زباں میں مری اثر ہے
تُو دیکھتا جو ادھر اُدھر ہے
یہ دھیان تیرا بتا کدھر ہے
------------
ٹھیک
امیر حاکم بنے جہاں میں
غریب دنیا میں در بدر ہے
------
رکا نہیں ہے نہ رک سکے گا
حیات اپنی تو اک سفر ہے
----------
چلے کسی کا نہ زور اس پر
یہاں جو انسان با اثر ہے
------------
یہاں جو ظالم ہے سب سے بڑھ کر
وہی زمانے میں تاجور ہے
-----
سزا ملے گی ، جزا ملے گی
عمل پہ تیرے یہ منحصر ہے
-----------
کہاں پہ آئے گی موت اس کو
کسی کو اس کی نہیں خبر ہے
-----------
خبر نہیں ہے جسے خود اپنی
نظر میں دنیا کی با خبر ہے
------------
سب درست
نحیف ہوتا ہی جا رہا ہوں
کمان جیسی مری کمر ہے
-----------
کمان کی طرح تنی ہوئی؟ مزاحیہ لگتا ہے، اسے نکال ہی دیں
اسے تُو اپنا نہ جان ارشد
نظر میں تیری جو سیم و زر ہے
تکنیکی طور پر درست ہے بلکہ تھا بھی، اعتراض مفہوم پر تھا جو اب بھی قائم ہے۔ چوری کرنا چاہتے ہیں؟
 
Top