یہ بھی غلط ہے

ماسوائے افسوس کے اور کچھ نہیں لکھنے کے لئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم کہاں جا رہے ہیں۔۔۔۔۔ ایک بے نشاں‌ منزل کی طرف ۔۔۔۔۔ کاش اب بھی کوئی اس بات کو سمجھ لے کہ سب کچھ غلط ہو رہا ہے۔۔۔۔
 
کراچی میں‌بالخصوص بہت عرصہ سے بہت کچھ غلط ہورہا ہے۔
بھتہ خوری، نسل پرستی، بھتہ کی لندن باقاعدگی سے روانگی، غنڈہ گردی، دھشت گردی اور حال ہی میں‌متحدہ نے جو وکلا کے دفاتر میں‌انسانوں‌کوجلایا ہے اس سے ایک اور راہ لوگوں‌کو ملی ہے۔ یہ ڈکیتیاں کون کررہا ہے؟ اور ان کو کون جلارہا ہے؟
سب غلط ہے۔ اور اس کا ذمہ دار لندن میں‌ہے۔
 
فاروق بھائی وہاں ابھی قانون کی پاسداری ہوتی ہے۔۔۔ یہاں ڈاکو پالے جاتے ہیں جیسے فارمنگ ہوتی ہے۔۔۔ اور اس میں پولیس اور رنجرز کے اعلی عہدے دار ملوث ہیں۔۔۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہم ان کی طرف رخ کر کے سوچتے نہیں ہیں۔۔۔۔ ایک انڈین فلم ہے "اپھارن" وہ ایسا لگتا ہے جیسے ہماری معاشرے کی عکاس ہو
 
فاروق بھائی، ان لوگوں نے اپنے دفاع میں کوئی ہتھیار نہیں اٹھایا تھا بلکہ قابو کیے گیے لوگوں کو نذر آتش کیا تھا۔ جہاں وارداتیں روزانہ کا معمول ہوں وہاں لوگوں کے پاس ذاتی دفاع کے لیے اجازت یافتہ اسلحہ ہونا اچھا آئیڈیا ہے لیکن ہاتھ آئے مجرموں کو ہجوم از خود سزا نہیں دے سکتا۔ کیا ٹیکساس میں ڈاکے مارنے والوں کو کبھی عوام نے زندہ جلا کر مارا ہے؟

ٹیکساس میں عموماَ یہاں‌ تک نوبت نہیں آتی کہ زندہ پکڑ لیا جائے۔ ڈاکہ ڈالنے والے یا بچ کر بھاگ جاتے ہیں یا موقع پر مارے جاتے ہیں یا مالکان کو مار دیتے ہیں۔ پیٹرول پمپوں‌پر بہت ڈاکے پڑتے ہیں یہاں۔ دوسرے قسم کے ڈاکے کم ہیں۔ جو بھاگتے ہوئے پکڑ‌ لیے جائیں ان پر مقدمہ چلتا ہے ، قید ہوتی ہے باہر آتے ہیں اور عموماً کسی دوسرے ڈاکہ میں مارے جاتے ہیں۔

سوال میرا یہ تھا کہ اگر اسلحہ کے لائسنس نہ جاری کئے جائیں کے مسلح عوام سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خطرہ ہے تو پھر نہتے افراد کا اسلحہ - ڈاکہ ڈالنے والوں کے خلاف - کیا ہوگا؟ تلوار، چاقو، چھری، ڈنڈا ، آگ؟

کراچی میں ڈاکہ جس قدر عام ہوگئے ہیں اتنے ابھی دوسرے شہروں میں نہیں ہیں۔ اس کی ایک وجہ کسی قسم کی مزاحمت کی کمی ہے۔ روزانہ موٹر سائیکلیں ، کاریں ، سیل فون چھینے جاتے ہیں ۔ ڈاکو پکڑ بھی لئے جائیں تو سزا پانا مشکل ہوتا ہے۔

جب لوگوں کی ماؤں ، نانیوں ، بہنوں کے کانوں سے بالیاں اور ہاتھوں سے چوڑیاں اتاری جائیں گی تو کسی نہ کسی قسم کی مزاحمت تو ہوگی۔ البتہ قانون شکنی کس مقام سے شروع ہوئی ، اس کے لیے کوئی کلئیر لائین نہیں ہے۔ جن لوگوں نے ڈاکہ ڈالا وہاں سے تو قانون شکنی واضح ہے۔

آپ کا نکتہ نظر بھی درست ہے، کہ قانون ہاتھ میں نہ لیا جائے، لیکن اس کے لئے ایک بہت ہی بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ پولیس کی تطہیر، معاشی تبدیلیاں ، سیاسی تبدیلیاں ، انصاف کے نظام کی درستگی۔ جو جلد ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس وقت تک جب تک جنگل کا قانون نافذ ہے، اس قسم کی قابل مذمت صورتحال لازم ہے۔

بہت سے ڈاکو پکڑے جاتے ہیں لیکن بہت جلد چھوڑ دئے جاتے ہیں ۔ یہ شائد وجہ ہے اس لا قانونیت کے پیچھے۔ بلاشبہ اس لاقانونیت کو درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ دوسری طرف اپنے دفاع یا کسی کو دفاع میں مدد کرنے کو بھی صریح جرم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پکڑ کر بے قابو کر کے مارنے اور بناء‌پکڑے ماردینے پر جب معاملہ گرم ہو، جذبات بے قابو ہوں ، مجمع میں سے ہر فرد اس قسم کی خوفزدہ صورت حال سے بے بسی کے عالم میں گذر چکا ہو تو پھر بہت مشکل ہے کہ اس بات پر بحث کا وقت ہو لوگوں کے پاس۔
 

زینب

محفلین
کراچی کا ہی ایک علاقہ جہاں "رحمان ڈکیت اور دوسرے گروپ کی گینگ وار معمول کی بات تھی اس علاقے کا چارج یعنی سیکورٹی کی نگرانی اب رحمان ڈکیت کو دے دی گئی ہے۔۔۔۔اور وہاں اب لڑائی اور ڈاکے رک گئے ہیں یہ ایم کیو ایم اور پی پی پی نے مل کے کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس پے حامد میر نے"کیپیٹل ٹاک" میں بھی بات کی کہ ایسا بھی وقت انا تھا جب کراچی میں امن قائم کرنے کی زہمہداری ایک ڈکیت کی ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔کل بھی کراچی میں بس لوٹتے ہوئے 2 ڈاکووں کو زندہ جلا دیا گیا ایک موقعے پے مر گیا اور ایک ہسپتال میں زخمی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کوئی انسانیت ہے ۔۔۔۔۔۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
فاروق بھائی ڈاکوؤں کا مقابلہ کرکے انہیں مار دینا سمجھ آتی ہے لیکن پکڑے گئے مجرمان کو جلا کر مار دینا اور سب لوگوں کا یہ اطمینان کے ساتھ دیکھنا محض یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم پتھر کے زمانے میں پہنچ چکے ہیں۔

جہاں تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کا تعلق ہے تو یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ ہر علاقے میں چوری اور ڈکیتی خود پولیس کی نگرانی میں ہی ہو رہی ہوتی ہے۔ کراچی میں تو ایک سیاسی جماعت کے رکن اسی ذریعے سے اپنے لندن میں مقیم لیڈر کا خرچہ اکٹھا کرتے ہیں۔

مجھے آپ کی اسلحہ لائسنسوں کی کمی والی بات سمجھ میں نہیں آ رہی۔ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی بہتر ہونی چاہیے نہ کہ معاشرے میں اسلحہ کی بھرمار۔ امریکہ میں اسلحہ کی فراوانی سے وہاں جرائم میں کمی تو واقع نہیں ہوئی ہے۔ اس کے مقابلے میں اکثر یورپی ممالک میں جرائم کی شرح بہت کم ہے جبکہ عوام کے پاس اسلحہ کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔

جب قانون نافذ کرنے والے ادارے خود جرائم میں ملوث ہوں اور عوام کے حقوق کے دعوے دار ڈاکو بن جائیں تو اس کا ردعمل سامنے آتا ہے۔ لیکن اسے طریقے سے بھی ہینڈل کیا جا سکتا ہے۔ کراچی میں سٹیزن پولیس اس کی مثال ہے۔ سٹیزن پولیس خود صنعت کاروں نے تشکیل دی تھی جس نے اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کا خاتمہ کر دیا تھا۔
 
نبیل کی بات سے میں‌متفق ہوں۔ اسلحہ کی بھرمار مزید جرائم کو ہوا دے گی۔ یہاں‌کوریا میں کسی کے پاس گن نہیں اور جرائم کی شرح دنیا میں‌سب سے کم ہے۔
 

جہانزیب

محفلین
نبیل امریکہ میں گن کنٹرول ایک اچھی خاصی بحث ہے، امریکی آئین کے تحت ہر شخص کو اسلحہ رکھنے کی اجازت ہے مگر عملی طور پر بڑے شہروں میں قانونی طور پر اسلحہ حاصل کرنا نا ممکنات میں سے ہے ۔
قدامت پرست یا دائیں بازو والے اس میں نرمی کرنا چاہتے ہیں، جبکہ لبرل اس کے بارے میں بات کرنے کو تیار نہیں ۔
اس ساری بحث میں سے ایک نکتہ یہ ہے کہ پولیس کا کام جرم ہونے سے پہلے نہیں ہوتا، بلکہ جب کوئی جرم سرزد ہو جاتا ہے تو اس کی تحقیق اور تفتیش کرنا اور مجرموں کو پکڑنا پولیس کا کام ہے، دوسرے الفاظ میں پولیس کا کام جرم کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اس حالت میں مجرموں کے پاس ایک تو غیر قانونی اسلحہ ہوتا ہے دوسرا ان کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ مقابل کے پاس اسلحہ ہو ہی نہیں سکتا تو جرائم کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ اس لئے اگر تمام لوگوں کی دسترس میں اسلحہ ہو تو بہت سے جرائم ہونے سے ہی روکے جا سکتے ہیں ۔
لیکن کراچی میں ہونے والا واقعہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ ڈاکو قابو میں کر کے اُن کو مارا گیا ہے، حالانکہ ایسی صورت میں انہیں قانون کے حوالہ کرنا چاہیے تھا۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
جہانزیب، امریکہ میں کچھ ریاستوں میں stray bullets سے اسی لیے اموات ہوتی ہیں کہ وہاں اسلحے پر کنٹرول نہیں ہے۔ میں نے سنا ہے کہ امریکہ میں ویپن لابی بہت مضبوط ہے اور یہ ری پبلیکن پارٹی کی بھرپور سپورٹ کرتی ہے۔

کسی کے پاس اسلحہ ہونا ہی اس کے موثر دفاع کو یقینی نہیں بناتا، بلکہ اس کے لیے مخصوص صورت حال سے نمٹنے کی تربیت بھی ضروری ہے۔

میں اس بات سے بھی اختلاف کرتا ہوں کہ پولیس کا کام جرم ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو intelligence gathering کے ذریعے جرائم کا پیشگی سد باب کرنا چاہیے۔ یہاں لوگوں کی پرائیویسی پر زد نہیں آنی چاہیے لیکن یہ علیحدہ بحث ہے۔
 

جہانزیب

محفلین
جہانزیب، امریکہ میں کچھ ریاستوں میں stray bullets سے اسی لیے اموات ہوتی ہیں کہ وہاں اسلحے پر کنٹرول نہیں ہے۔ میں نے سنا ہے کہ امریکہ میں ویپن لابی بہت مضبوط ہے اور یہ ری پبلیکن پارٹی کی بھرپور سپورٹ کرتی ہے۔

کسی کے پاس اسلحہ ہونا ہی اس کے موثر دفاع کو یقینی نہیں بناتا، بلکہ اس کے لیے مخصوص صورت حال سے نمٹنے کی تربیت بھی ضروری ہے۔

میں اس بات سے بھی اختلاف کرتا ہوں کہ پولیس کا کام جرم ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو intelligence gathering کے ذریعے جرائم کا پیشگی سد باب کرنا چاہیے۔ یہاں لوگوں کی پرائیویسی پر زد نہیں آنی چاہیے لیکن یہ علیحدہ بحث ہے۔

ریپبلکن ہی کو دائیں بازو کی جماعت کہا جاتا ہے، اور کھلے عام اسلحے پر پابندی کا مطلب امریکہ کی جنوبی ریاستوں سے حمایت سے محروم ہونا ہے ۔
 
سوال میرا یہ تھا کہ اگر اسلحہ کے لائسنس نہ جاری کئے جائیں کے مسلح عوام سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خطرہ ہے تو پھر نہتے افراد کا اسلحہ - ڈاکہ ڈالنے والوں کے خلاف - کیا ہوگا؟ تلوار، چاقو، چھری، ڈنڈا ، آگ؟

کراچی میں ڈاکہ جس قدر عام ہوگئے ہیں اتنے ابھی دوسرے شہروں میں نہیں ہیں۔ اس کی ایک وجہ کسی قسم کی مزاحمت کی کمی ہے۔ روزانہ موٹر سائیکلیں ، کاریں ، سیل فون چھینے جاتے ہیں ۔ ڈاکو پکڑ بھی لئے جائیں تو سزا پانا مشکل ہوتا ہے۔

جب لوگوں کی ماؤں ، نانیوں ، بہنوں کے کانوں سے بالیاں اور ہاتھوں سے چوڑیاں اتاری جائیں گی تو کسی نہ کسی قسم کی مزاحمت تو ہوگی۔ البتہ قانون شکنی کس مقام سے شروع ہوئی ، اس کے لیے کوئی کلئیر لائین نہیں ہے۔ جن لوگوں نے ڈاکہ ڈالا وہاں سے تو قانون شکنی واضح ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت سے ڈاکو پکڑے جاتے ہیں لیکن بہت جلد چھوڑ دئے جاتے ہیں ۔ یہ شائد وجہ ہے اس لا قانونیت کے پیچھے۔ بلاشبہ اس لاقانونیت کو درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ دوسری طرف اپنے دفاع یا کسی کو دفاع میں مدد کرنے کو بھی صریح جرم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پکڑ کر بے قابو کر کے مارنے اور بناء‌پکڑے ماردینے پر جب معاملہ گرم ہو، جذبات بے قابو ہوں ، مجمع میں سے ہر فرد اس قسم کی خوفزدہ صورت حال سے بے بسی کے عالم میں گذر چکا ہو تو پھر بہت مشکل ہے کہ اس بات پر بحث کا وقت ہو لوگوں کے پاس۔
فاروق بھائی کی بات سے متفق ہوں۔


کل بھی کراچی میں بس لوٹتے ہوئے 2 ڈاکووں کو زندہ جلا دیا گیا ایک موقعے پے مر گیا اور ایک ہسپتال میں زخمی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کوئی انسانیت ہے ۔۔۔۔۔۔
جن لوگوں کو ڈکیتی میں مزاحمت کے وقت گولی ماری گئی یا جن کی ماؤں بہنوں کی بے حرمتی کی گئی، کیا وہ انسانیت تھی؟ جب ایسے واقعات حد سے بڑھ جائیں اور لوگوں کو انصاف فراہم نہ کیا جائے اور غنڈہ گردی کرنے والے کھلے عام گھومتے اپنی کاروائیاں کرتے پھریں تو اس طرح کا رد عمل ہی سامنے آتا ہے۔

کراچی کی تو پوری عملدارہی کافی عرصہ سے ڈکیت کے ہاتھ میں‌ہے
ہماری نظر میں تو پیپلز ی پارٹی کا سربراہ بھی کوئی شریف نہیں، بہت بڑا ڈکیت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔
تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ لاہور میں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا ہے اور لوگوں نے دو ڈاکوؤں کو پکڑ کر جلانے کی کوشش کی لیکن پولیس ڈاکوؤں کو گرفتار کرکے لے گئی۔ اس کے علاوہ آج فیڈرل بی ایریا، کراچی میں بھی ڈاکوؤں کو جلانے کی کوشش کی گئی۔ آج ہی لانڈھی، کراچی میں بھی چار ڈاکو پکڑے گئے اور ان کو جلانے کی کوشش کی گئی تاہم پولیس ڈاکوؤں کو گرفتار کرکے لے گئی۔ علاقہ کے لوگوں نے تھانہ کا گھیراؤ کیا اور احتجاج کیا۔

اندازہ لگایئے کہ لوگ کتنے بپھرے ہوئے تھے اور ایک واقعہ نے انہیں کیسی راہ دکھادی ہے کہ ہر طرف ایسے واقعات رونما ہونے لگے ہیں۔ آج کراچی کے سی سی پی او بابر خٹک اور ڈی آئی جی نے اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ عوام کو پولیس کے بارے میں شدید تحفات ہیں، عوام سے اپیل کی ہے کہ قانون ہاتھ میں لینے کے بجائے پولیس پر بھروسہ کرتے ہوئے مجرموں کو پولیس کے حوالے کریں۔ اب یہ پولیس کے محکمہ کی بھی ذمہ داری ہے وہ لوگوں کا اعتماد بحال کرے تاکہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام ہوسکے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
عمار، آج تو شاید اس پر کچھ لوگ خوش ہو رہے ہیں کہ ڈاکوؤں کو آگ لگائی جا رہی ہے، لیکن کل یہی mob rule ہر گلی اور بازار میں نظر آنے لگے گا تو لوگوں کا جینا حرام ہو جائے گا۔ ایک غلط رویے کو شروع میں نہ روکا جائے تو یہ بڑی آفت بن کر بے قابو ہو جاتا ہے۔
 
میرے ذاتی علم میں 5 واقعات ہیں۔ دو ڈاکے میرے والدین کے گھر میں پڑے، میری والدہ اور نانی کے ہاتھوں اور کانوں سے عام طور پر پہنا جانے والا زیور اتار کر لے گئے اور زنانہ کپڑے لے گئے۔ بعد میں پولیس والوں نے کچھ لوگوں کی شناخت کروائی، کم از کم ایک ان میں‌موجود تھا، لیکن ان کو چھوڑ دیا گیا۔ دوسرے ڈاکہ میں گھر سے سامان لوٹا اور جیبوں میں موجود نقد رقم۔ تیسرا ڈاکہ بھائی کے ساتھ ہماری والدہ ، بھابی اور اسکی تین سالہ پچی کے ساتھ پڑا، نقد رقم ، سیل فونز اور پرس اور نظر آنے والا زیور لے گئے، سیٹ بیلٹ‌کو پرس یا بیگ کا پٹہ سمجھ کر کھینچھا اور دھمکایا کہ باہر اترو، بیگ ہمارے حوالے کرو، تیسرے ڈاکے میں میرے والدین کے گھر کے سامنے سے کار چھین کر لے گئے، چھوتھے ڈاکے میں‌ ہیرے ایک پروگرامر سے فون عینک اور کیش چھین کر لے گئے، پانچویں ڈاکے میں‌ میرے ایک اور بھتیجے سے موٹر سائیکل چھین کر لے گئے۔ یہ تو تھے ہمارے آبائی کراچی کے گھر کے ڈاکہ۔ جاننے والوں میں ایک دوست کا صبح صبح جب وہ ڈبل روٹی لینے اپنی ویسپا پر نکلا تو ڈاکہ کے دوران قتل ہو گیا۔ اس کی دو عدد 8 اور دس سالہ پچیاں تھیں۔

کراچی والے تصدیق کریں گے کہ یہ ہی تقریباً‌ ہر شخص کے واقعات ہیں۔ لہذا ایک شدید طوفان جو پل رہا تھا اس کو اب راہ ملی ہے۔ کسی بھی مدافعت کی غیر موجودگی میں ڈاکہ زنی کی یہ وباء بہت ہی عام تھی۔ لوگوں کو مدافعت کے لئے اب یہ راستہ نظر آیا ہے۔ گو کہ یہ بھی کوئی قابل قبول راستہ نہیں ہے۔ پستول سے ڈرانا ، دہشت زدہ کرنا ایک بھیانک جرم ہے، ڈاکہ کے جو واقعات اب ایک سرسری خبر بن چکے تھے اب اور نمایاں‌ہو کر سامنے آئیں‌گے۔ ان لوگوں کو جو ڈاکہ کو ایڈونچر سمجھتے تھے ان کو کم از کم کچھ خوف تو ہوگا۔۔۔۔

کراچی کی صورتحال کچھ ایسی ہے کہ جیسے ایک شہر کو بھیڑیوں کے حوالہ کردیا گیا ہو۔ ڈاکہ ایک ایسا عام جرم ہے کہ بیک وقت ایک سے زیاد جگہ پر روزانہ وقع پذیر ہورا ہوتا ہے۔ اور یہ ایک عام سننے میں آنے والی بات ہے کہ پولیس اس جرم کو کوئی اہمیت نہیں دیتی۔ اس کی وجہ چاہے ان کا اس جرم میں‌شریک ہونا ہو یا نہ ہو۔ لیکن گن پواینٹ پر دہلانے کے جواب میں پولیس صرف بہلانے اور پھسلانے سے کام لیتی ہے۔

ایک ایسے شہر میں جہاں نہتے ہونے کی سزا لٹ جانا یا موت ہے۔ غیر قانونی اسلحہ عام طور پر مل جاتا ہو، وہاں مناسب لائسنس پر اسلحہ کا اجرا تحفظ کی ضمانت ہے۔ ایک بازار میں کچھ نہ کچھ لوگ مسلح ہونے چاہیئے۔ بہرحال یہ میرا خیال ہے،
 

نبیل

تکنیکی معاون
آپ کی بات کسی حد تک درست ہے فاروق بھائی، لیکن دوسری جانب یہ بھی دیکھیں کہ جو لوگ ہاتھ آنے والے لوگوں کو نذر آتش کرکے انہیں راکھ کا ڈھیر بنتے ہوئے دیکھیں گے اور اس کے باوجود قانون کی گرفت سے بچے رہیں گے، وہ آگے جا کر معاشرے کے لیے کتنا بڑا خطرہ بن سکتے ہیں؟
 
سب سے بڑی مشکل کسی ملک میں قانوں کا نا ہونا ہے۔۔ بد قسمتی سے ہمارا ملک انہیں ممالک میں شامل ہے جہان قانوں محض لفظوان کا ہیر پھیر ہے۔۔۔
 

mfdarvesh

محفلین
کراچی کا شائد کوئی بندہ ڈاکے سے محفوظ‌ رہا ہو۔ ضرورت ا س چیز کی ہے کہ قانون کو مضوط کیا جائے جو گورنمنٹ چاہتی نہیں ہے۔ اس لیے اس قسم کے واقعات ہوں گے تازہ ترین اطلاعات کے مطابق لاہور میں بھی ایسا واقع ہو چکا ہے۔
 
Top