یہ بستی کیسی بستی ہے از کرنل اشفاق حسین

خاور بلال

محفلین
ایک تعلیم گاہ، ایک مادرِ علمی کا فسانہ جہاں ہر طرح کا مزاج رکھنے والے لوگ حصول علم کیلئے آتے ہیں۔ سابق لیفٹینٹ کرنل اشفاق حسین کے تاثرات۔

یہ بستی کیسی بستی ہے، ہر ملک کی اس میں ہستی ہے
کوئی ای۔ایم۔ای کا میجر ہے کوئی کیپٹن ہے سپلائی کا
کوئی صاحب ایجوکیشن کا کوئی لڑکا پیر ودھائی کا
کچھ آرٹلری کے افسر ہیں کچھ ایف ایف آر کے شہزادے
کچھ نیوی کے سیلرز ہیں یہاں کچھ پاک فضائیہ کے بانکے
ہیں بھانت بھانت کے لوگ یہاں اور شہر شہر کے باشندے
کچھ لڑکیاں ہیں پنجاب کی تو، کچھ کوہستان کے پاوندے
کچھ نازک نام سحر جیسے، شمع جیسے، افشاں جیسے
کچھ روشن نام چمکتے ہیں مہتاب ہو ضو افشاں جیسے
کچھ نازک نازک سے پاؤں جو فرشِ گل پہ زخمی ہوں
کلیاں راہوں میں بکھری ہوں تو کلیاں جنکو چبھتی ہوں
ان نازک نازک چہروں میں کچھ چہرے ایسے چہرے ہیں
مجنوں کے لگیں جو پردادے، جو ہیر کے چاچے کھیڑے ہیں
کچھ خود کو کہتے ہیں فرہاد، وحشت سے بال بکھیرے ہیں
کچھ جیمز بانڈ کے ہمسائے، کچھ ہیڈلے چیز کے چیلے ہیں
کوئی مجنوں ہے ، کوئی رانجھا ہے، کوئی پاٹے خان کا سالا ہے
کوئی ہیرو ہے کوئی ولن ہے، کوئی آفت کا پرکالا ہے
ان چہروں کو میں دیکھوں تو میری وحشت اور بھی بڑھتی ہے
یہ بستی کیسی بستی ہے، ہر ملک کی اس میں ہستی ہے
پنڈ دادن خان سے اک لڑکی فرانسیسی پڑھنے آئی ہے
ماں باپ کی ہے وہ لاڈلی اور اکلوتا اس کا بھائی ہے
اب بال کٹاکے فیشن کے اک ناز سے وہ چلتی پھرتی ہے
کبھی جین پہن کر آتی ہے کبھی لمبی سی اک کُرتی ہے
پنجابی اسکو بھول گئی، اردو سے وہ شرماتی ہے
انگریزی بولے فر فر فر، فرانسیسی بھی کچھ آتی ہے
میں اس لڑکی کو دیکھتا ہوں، روپ یہ کیسے بھرتی ہے
کبھی چھوڑتی ہے بالوں کو کھلا ، کبھی جوڑا باندھ کے رکھتی ہے
یہ بستی کیسی بستی ہے، ہر ملک کی اس میں ہستی ہے
کچھ دوشیزائیں ایسی ہیں، جو شرم و حیاء کا پیکر ہیں
ان کے جسموں پر جیکٹ ہیں، نہ بکنی ہیں، نہ نیکر ہیں
وہ لان میں بیٹھ کے چلائیں نہ چلتے چلتے اترائیں
وہ بات کریں تو پھول جھڑیں اور حُسن میں چاند کو شرمائیں
ان کے ہونٹوں پر سرخی ہے نہ گالوں پر کوئی غازہ ہے
بس اک سادہ سی چادر ہے یا لمبا ایک عبادہ ہے
چادر میں لپٹی لپٹائی اک آن سے آتی جاتی ہیں
سچ بات تو یہ ہے چادر میں، ہر لڑکی اور بھی سجتی ہے
کچھ لڑکیاں ایسی لڑکیاں ہیں، اک ناز سے جو اتراتی ہیں
جیسے گلشن میں تیتریاں، جو پھولوں پر منڈلاتی ہیں
بس ہردم اڑتی پھرتی ہیں، بلبل کی طرح چہکتی ہیں
کبھی اس لڑکے کو چھیڑتی ہیں، کبھی اُس کو دیکھ کر ہنستی ہیں
ان کی اس آنکھ مچولی کی یہ تان کبھی تو ٹوٹے گی
جانے کس کے پلے پڑیں گی، کس کی قسمت پھوٹے گی
فی الحال تو ان میں سے ہر لڑکی بلاوجہ ہی ہنستی ہے
 
Top