یوں

عیشل

محفلین
لوگ ٹکرا کے در و بام سے مرتے نہ اگر
دیکھ لیتے وہ تیری سمندر آنکھیں
یہ شرارت بھرا لہجہ تو میری عادت ہے
تُو ہر بات پہ یوں نم نہ کیا کر آنکھیں
 

شمشاد

لائبریرین
ہمارا حال کچھ یوں ہے ترے دربان کے آگے
کہ یخ بستہ مسافر جیسے آتشدان کے آگے
(اعتبار ساجد)
 

شمشاد

لائبریرین
’فراز‘ اب کوئی سودا کوئی جنوں بھی نہیں
مگر قرار سے دن کٹ رہے ہوں یوں بھی نہیں
(احمد فراز)
 

عیشل

محفلین
یوں بھی نہیں کہ شہر کو ویران چھوڑ آئے
لوگوں میں اس کے عشق کے امکان چھوڑ آئے
لہجے کے بعد اب وہ بدلتا نگاہ بھی
رستہ بدل کے ہم اسے حیران چھوڑ آئے
 

شمشاد

لائبریرین
یوں تو کہنے کو ہمارا ساتھ ہے اک عمر کا
لیکن اپنا ساتھ بھی جیسے کوئی زنجیر ہے؟
(ناہید ورک)
 

شمشاد

لائبریرین
تعارف یوں ہے سرور دیکھئے اس شام محفل میں
وطن اندور ہے ان کا تخلص ان کا راحت ہے
(سرور)
 

عمر سیف

محفلین
یوں حوصلہ دل نے ہارا کب تھا
سرطان میرا ستارا کب تھا
لازم تھا گزرنا زندگی سے
بِن زہر پیئے گزارا کب تھا
 

خرم

محفلین
رات یوں‌دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحراؤں میں‌چلے ہولے سے بادِنسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
 

شمشاد

لائبریرین
سدِّ اسکندر ہو از بہرِ نگاہِ گُل رخاں
گر کرے یوں امر نہئیِ بو تراب آئینے پر
(چچا)
 
Top