یوں تو انکارِ خدا اکثر ہوا

La Alma

لائبریرین
یوں تو انکارِ خدا اکثر ہوا
عبد سے معبود کب منکر ہوا

ایک انہونی تھی ہونی کی دلیل
غیب ہر امکان کا محضر ہوا

کب بدلتا ہے مقدر کا لکھا
جو نہ ہونا تھا وہی آخر ہوا

دل رہینِ کیف تھا پہلے پہل
رفتہ رفتہ درد کا خوگر ہوا

اُس بیاں میں کچھ عجب تاثیر تھی
بھولنا تھا جو سبق ازبر ہوا

طاقِ جاں میں شمعِ غم جلتی رہی
پیکرِ خاکی تھا، خاکستر ہوا

رک گئی جب نبض اُس بیمار کی
دستِ چارہ ساز بھی پتھر ہوا

خواب پیہم چاک پر ڈھلنے لگے
اک حسیں احساس کوزہ گر ہوا

رہنما کس کو کریں اس دور میں
جو بھی بھٹکا راہ سے، رہبر ہوا

پھر نہ ابھرا تھا وہ منظر ڈوب کر
دیدۂ تر بھی ہمیں ساگر ہوا

معجزہ المٰیؔ اسی کا نام ہے
جانتا کوئی نہیں کیونکر ہوا​
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
یوں تو انکارِ خدا اکثر ہوا
عبد سے معبود کب منکر ہوا

ایک انہونی تھی ہونی کی دلیل
غیب ہر امکان کا محضر ہوا

کب بدلتا ہے مقدر کا لکھا
جو نہ ہونا تھا وہی آخر ہوا

دل رہینِ کیف تھا پہلے پہل
رفتہ رفتہ درد کا خوگر ہوا

اُس بیاں میں کچھ عجب تاثیر تھی
بھولنا تھا جو سبق ازبر ہوا

طاقِ جاں میں شمعِ غم جلتی رہی
پیکرِ خاکی تھا، خاکستر ہوا

رک گئی جب نبض اُس بیمار کی
دستِ چارہ ساز بھی پتھر ہوا

خواب پیہم چاک پر ڈھلنے لگے
اک حسیں احساس کوزہ گر ہوا

رہنما کس کو کریں اس دور میں
جو بھی بھٹکا راہ سے، رہبر ہوا

پھر نہ ابھرا تھا وہ منظر ڈوب کر
دیدۂ تر بھی ہمیں ساگر ہوا

معجزہ المٰیؔ اسی کا نام ہے
جانتا کوئی نہیں کیونکر ہوا
بہت اعلٰی ۔لاجواب۔
بہت سی داد قبول کیجیے۔
سلامت رہیئے۔آمین۔
 

La Alma

لائبریرین
واہ! بہت خوب ، اچھی غزل ہے ۔ کئی اچھے اشعار ہیں ، لاالمیٰ!
آخِر کا قافیہ ٹھیک نہیں لگا۔ آخَر کا یہاں محل نہیں ۔ اسے دیکھ لیجیے۔
اسی طرح منکَر (ممنوعہ) بھی ہے ۔جو یہاں منکِر (انکاری) کے معنی میں لیا گیا ہے ۔
نشاندہی کا بہت شکریہ۔
اصل میں کسی لفظ کے ساکن اور متحرک حروف کی صحیح ادائیگی کا تو زیادہ تر التزام کیا ہی جاتا ہے تاکہ بحر اور اوزان درست رہیں۔ لیکن زیر زبر کی اغلاط سے اکثر صرفِ نظر ہو جاتا ہے۔
کچھ مثالیں تو شاید مستند شعراء کے ہاں بھی مل جائیں۔ جیسے کہ غالب کی ذیل کی غزل میں لفظ کافر میں ف حرفِ مکسور ہے۔ یا پھر یہ فتحہ کے ساتھ بھی مستعمل ہے۔ واللہ اعلم

‎کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جاے دل
‎انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں
‎یارب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے
‎لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں
‎حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
‎آخر گناہ گار ہوں کافر نہیں ہوں میں

بہرحال سقم تو سقم ہے۔ مطلع میں خیال بچتا تھا یا قافیہ، اس لیے قدرے مختلف مضمون کے ساتھ قافیہ بدل دیا ہے۔
عبد کا معبود ہی محور ہوا
یوں تو انکارِ خدا اکثر ہوا
“ آخر “ قافیے والے شعر کو حذف سمجھا جائے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کچھ مثالیں تو شاید مستند شعراء کے ہاں بھی مل جائیں۔ جیسے کہ غالب کی ذیل کی غزل میں لفظ کافر میں ف حرفِ مکسور ہے۔ یا پھر یہ فتحہ کے ساتھ بھی مستعمل ہے۔ واللہ اعلم
کافر کا لفظ اردو میں دونوں تلفظات کے ساتھ مستعمل ہے ۔ یعنی فائے مکسور اور مفتوح دونوں تلفظ درست ہیں ۔ غالب نے فائے مفتوح کا تلفظ استعمال کیا ہے ۔
لیکن اس مثال کو دیگر الفاظ پر لاگونہیں کیا جاسکتا۔ اعتبار چلن اور استعمال کا ہے ۔ جو لفظ اردو میں جس طرح مستعمل ہے اسی طرح برتا جائے گا۔
 
یوں تو انکارِ خدا اکثر ہوا
عبد سے معبود کب منکر ہوا

ایک انہونی تھی ہونی کی دلیل
غیب ہر امکان کا محضر ہوا

کب بدلتا ہے مقدر کا لکھا
جو نہ ہونا تھا وہی آخر ہوا

دل رہینِ کیف تھا پہلے پہل
رفتہ رفتہ درد کا خوگر ہوا

اُس بیاں میں کچھ عجب تاثیر تھی
بھولنا تھا جو سبق ازبر ہوا

طاقِ جاں میں شمعِ غم جلتی رہی
پیکرِ خاکی تھا، خاکستر ہوا

رک گئی جب نبض اُس بیمار کی
دستِ چارہ ساز بھی پتھر ہوا

خواب پیہم چاک پر ڈھلنے لگے
اک حسیں احساس کوزہ گر ہوا

رہنما کس کو کریں اس دور میں
جو بھی بھٹکا راہ سے، رہبر ہوا

پھر نہ ابھرا تھا وہ منظر ڈوب کر
دیدۂ تر بھی ہمیں ساگر ہوا

معجزہ المٰیؔ اسی کا نام ہے
جانتا کوئی نہیں کیونکر ہوا​
عمدہ غزل ہے لا المیٰ صاحبہ ! داد حاضر ہے .
 

جاسمن

لائبریرین
خوبصورت غزل ہے۔
بہت سی داد۔
اُس بیاں میں کچھ عجب تاثیر تھی
بھولنا تھا جو سبق ازبر ہوا

خواب پیہم چاک پر ڈھلنے لگے
اک حسیں احساس کوزہ گر ہوا

رہنما کس کو کریں اس دور میں
جو بھی بھٹکا راہ سے، رہبر ہوا
یہ اشعار خاص کر زیادہ پسند آئے ۔:):):)
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
مزرا غالب کو بہت کم پڑھتی ہوں کیوں کہ ان کی شاعری میں مشکل الفاظ سر کے اوپر سے گزر جاتے :)
(آپ کی شاعری میں بھی مشکل الفاظ پائے جاتے ہیں)
 
Top