غالب یونہی افزائشِ وحشت کے جو ساماں ہوں گے۔۔۔۔۔۔ غالبؔ

یونہی افزائشِ وحشت کے جو ساماں ہوں گے​
دل کے سب زخم بھی ہم شکلِ گریباں ہوں گے​
وجہِ مایوسیِ عاشق ہے تغافل ان کا​
نہ کبھی قتل کریں گے، نہ پشیماں ہوں گے​
دل سلامت ہے تو صدموں کی کمی کیا ہم کو​
بے شک ان سے تو بہت جان کے خواہاں ہوں گے​
منتشر ہو کے بھی دل جمع رکھیں گے یعنی​
ہم بھی اب پیروئے گیسو ئے پریشاں ہوں گے​
گردشِ بخت نے مایوس کیا ہے لیکن​
اب بھی ہر گوشۂ دل میں کئی ارماں ہوں گے​
ہے ابھی خوں سے فقط گرمیِ ہنگامۂ اشک​
پر یہ حالت ہے تو نالے شرر افشاں ہوں گے​
باندھ کر عہدِ وفا اتنا تنفّر، ہے ہے​
تجھ سے بے مہر کم اے عمرِ گریزاں! ہوں گے​
اس قدر بھی دلِ سوزاں کو نہ جان افسردہ​
ابھی کچھ داغ تو اے شمع! فروزاں ہوں گے​
عہد میں تیرے کہاں گرمیِ ہنگامۂ عیش​
گل میری قسمت واژونہ پہ خنداں ہوں گے​
خوگرِ عیش نہیں ہیں ترے برگشتہ نصیب​
اُن کو دشوار ہیں وہ کام جو آساں ہوں گے​
موت پھر زیست نہ ہو جائے یہ ڈر ہے غالبؔ​
وہ مری نعش پہ انگشت بہ دنداں ہوں گے
غالبؔ​
 

طارق شاہ

محفلین
گیلانی صاحبہ !
آپ کی چسپاں کردہ غزل سے، مومن خاں مومن کی غزل
"ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے"
یاد آگئی۔
اسی زمین میں یہ آپ کی لگائی غزل مرزا اسداللہ خاں غالب کی تو نہیں لگ رہی ہے، یا یوں کہ میری نظر سے نہیں گزری۔
کیا کوئی اور غالب صاحب ہیں یہ کیا؟
جواب کے لئے ممنوں ہُوں گا
بہت خوش رہیں
 
ہے ابھی خوں سے فقط گرمیِ ہنگامۂ اشک​
پر یہ حالت ہے تو نالے شرر افشاں ہوں گے​
کیا کہنے بہت دلکش غزل :)
حیرت ہے کہ آٹھویں کلاس سے غالب کو پڑھنے کے باوجود یہ غزل میری نظروں سے نہیں گزری​
شریک محفل کرنے کا شکریہ​
شاد و آباد رہیں​
 
گیلانی صاحبہ !
آپ کی چسپاں کردہ غزل سے، مومن خاں مومن کی غزل
"ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے"
یاد آگئی۔
اسی زمین میں یہ آپ کی لگائی غزل مرزا اسداللہ خاں غالب کی تو نہیں لگ رہی ہے، یا یوں کہ میری نظر سے نہیں گزری۔
کیا کوئی اور غالب صاحب ہیں یہ کیا؟
جواب کے لئے ممنوں ہُوں گا
بہت خوش رہیں
محترم طارق شاہ صاحب ! انتخاب کی پذیرائی پر تہہ دل سے ممنون ہوں ۔
اور ہمیں آپ کے اس مراسلے سے مہدی حسن کی گائی ہوئی یہ خوبصورت غزل یاد آ گئی ۔۔اُنہوں نے ہی گائی ہےیہ غزل اور کیا ہی خوب گائی ہے ۔
غالب تو بس ایک ہی ہیں شاہ صاحب جو سب پہ غالب ہیں ۔ :)
مذکورہ غزل یقیناً غالب ہی کی ہے اور حوالے کے لیے دیوان غالب نسخۂ اردو ویب ملاحظہ کیجیے جو اردو ویب ڈیجیٹل لائبریری میں استفادۂ عام (و خاص:) ) کے لیے موجود ہے
http://www.urdulibrary.org/books/37-deevan-e-ghalib-nuskha-e-urduweb
 
ہے ابھی خوں سے فقط گرمیِ ہنگامۂ اشک​
پر یہ حالت ہے تو نالے شرر افشاں ہوں گے​
کیا کہنے بہت دلکش غزل :)
حیرت ہے کہ آٹھویں کلاس سے غالب کو پڑھنے کے باوجود یہ غزل میری نظروں سے نہیں گزری​
شریک محفل کرنے کا شکریہ​
شاد و آباد رہیں​
جی بالکل بے انتہا دلکش غزل ہے ۔
بہت شکریہ انتخاب کو سراہنے کا
سلامت رہیں ۔:)
 

طارق شاہ

محفلین
گیلانی صاحبہ !
آپ کی چسپاں کردہ غزل سے، مومن خاں مومن کی غزل
"ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے"
یاد آگئی۔
اسی زمین میں یہ آپ کی لگائی غزل مرزا اسداللہ خاں غالب کی تو نہیں لگ رہی ہے، یا یوں کہ میری نظر سے نہیں گزری۔
کیا کوئی اور غالب صاحب ہیں یہ کیا؟
جواب کے لئے ممنوں ہُوں گا
بہت خوش رہیں
محترم طارق شاہ صاحب ! انتخاب کی پذیرائی پر تہہ دل سے ممنون ہوں ۔
اور ہمیں آپ کے اس مراسلے سے مہدی حسن کی گائی ہوئی یہ خوبصورت غزل یاد آ گئی ۔۔اُنہوں نے ہی گائی ہےیہ غزل اور کیا ہی خوب گائی ہے ۔
غالب تو بس ایک ہی ہیں شاہ صاحب جو سب پہ غالب ہیں ۔ :)
مذکورہ غزل یقیناً غالب ہی کی ہے اور حوالے کے لیے دیوان غالب نسخۂ اردو ویب ملاحظہ کیجیے جو اردو ویب ڈیجیٹل لائبریری میں استفادۂ عام (و خاص:) ) کے لیے موجود ہے
http://www.urdulibrary.org/books/37-deevan-e-ghalib-nuskha-e-urduweb
محترمہ گیلانی صاحبہ
جواب کے لئے تشکّر اور زحمت کے لئے معذرت خواہی قبول کیجئے
آپ اس غزل کی جواب دہی یا کسی قسم کی تشویش و تصدیق سے مبّرا ہوئیں :)

میرے پاس مطبوعہ دیوان غالب کے جو دو ایڈیشن ہیں ان دونوں میں بالا غزل نہیں :-(
ایک دیوان " قومی کتاب مرکز پاکستان"National Book Center of Pakistan کے ماہنامہ کتاب لاہورنے غالب کی صد سالہ برسی پر ١٩٦٩ میں شائع کی
اُس وقت ماہنامہ کتاب کے نگراں ابن انشا صاحب، مدیر سید قاسم محمود اور نائب مدیر سید عزیز ہمدانی جبکہ انتظامی مدیر صفدر ادیب صاحبان تھے
یہ مطبوعہ دیوان، "مکمل نسخۂ طاہر" مکتوبہ ١٩٣٦ ، پر مشتمل بلکہ ہو بہو کاپی ہے جوآغا محمد طاہر کو اپنے پرنانا مولانا محمد حسین آزاد کی کتابوں یا لائبریری سے حاصل ہوئی اور ١٩٣٦ میں انہوں نے آزاد بک ڈپو ، کوچہ چیلان دہلی سے شائع کیا، جس کے مالک وہ خود تھے
آزاد صاحب کو یہ نسخہ یا مکمل دیوان،١٨٦٠ میں خود مرزا غالب نے دستخط اور مہر ثبت کر کے دیا تھا ۔
١٩٣٦اور ١٩٦٩ والی دونوں مطبوعہ دیوان میں دستخط اور مہر کا عکس شامل کیا گیا ہے

دوسرا دیوان "نسخہ اکیڈمی " غالب اکیڈمی بستی حضرت نظام الدین دہلی سے١٩٩١ میں دستخطِ عبدالحمید صاحب صدر غالب اکیڈمی سے اس دعوے
کے ساتھ جاری کیا گیا ہے کہ اس کی تیاری کے تمام مرحلے ماہر غالبیات مالک رام صاحب کی نگرانی میں طے کئے ہیں

دوسرے دیوان میں بھی، جو کہ غالب اکیڈمی دہلی نے شائع کروائی۔ یہ غزل نہیں ہے

اب یہ کہ غزل کون سے نسخہ سے حاصل کی گئی ہے؟ اس کے لئے عبید صاحب سے مدد لینی پڑے گی

ایک بار پھر سے جواب کے لئے تشکّر
بہت خوش رہیں
 

فرحت کیانی

لائبریرین
دل سلامت ہے تو صدموں کی کمی کیا ہم کو​
بے شک ان سے تو بہت جان کے خواہاں ہوں گے​
گردشِ بخت نے مایوس کیا ہے لیکن​
اب بھی ہر گوشۂ دل میں کئی ارماں ہوں گے​
ہے ابھی خوں سے فقط گرمیِ ہنگامۂ اشک​
پر یہ حالت ہے تو نالے شرر افشاں ہوں گے​
واہ۔ بہت شکریہ مدیحہ گیلانی :) حسبِ روایت بہترین انتخاب :)
 

فاتح

لائبریرین
کل ہم نے اس غزل کو سراہنا چاہا لیکن پایا کہ یہاں تو کانفرنس بین السیدین جاری تھی اور گو کہ والدہ کی جانب سے ہم بھی ہاشمی ٹھہرے لیکن جرات نہ ہوئی پیران و مرشدان (مدیحہ گیلانی صاحبہ، طارق شاہ صاحب، اور سید شہزاد ناصر صاحب) کی گفتگو میں ٹانگ اڑانے کی اور چپ سادھ کر بیٹھ گئے۔۔۔مگر آج دیکھا تو غیر اہلِ بیت یعنی مریدین (شوکت پرویز اور فرحت کیانی) بھی مرشدوں کی اس محفل میں گویا ہیں تو کچھ حوصلہ ہوا اور ہم داد دینے پہنچ گئے۔ :laughing:
واہ واہ واہ کیا ہی خوب غزل ہے مدیحہ صاحبہ
 

شوکت پرویز

محفلین
کل ہم نے اس غزل کو سراہنا چاہا لیکن پایا کہ یہاں تو کانفرنس بین السیدین جاری تھی اور گو کہ والدہ کی جانب سے ہم بھی ہاشمی ٹھہرے لیکن جرات نہ ہوئی پیران و مرشدان (مدیحہ گیلانی صاحبہ، طارق شاہ صاحب، اور سید شہزاد ناصر صاحب) کی گفتگو میں ٹانگ اڑانے کی اور چپ سادھ کر بیٹھ گئے۔۔۔ مگر آج دیکھا تو غیر اہلِ بیت یعنی مریدین (شوکت پرویز اور فرحت کیانی) بھی مرشدوں کی اس محفل میں گویا ہیں تو کچھ حوصلہ ہوا اور ہم داد دینے پہنچ گئے۔ :laughing:
واہ واہ واہ کیا ہی خوب غزل ہے مدیحہ صاحبہ
اس کے جواب میں وہی سلیمان خطیب کی ایک نظم "لکھنوی شاعر کی دکنی بیوی" کا دو اشعار کچھ ترمیم کے ساتھ:

یہ بھی اندازِ بیاں کتنا ہے پیارا فاتح
اِسی اندازِ بیاں نے ہمیں مارا فاتح
تم پہ قربان سمر قند و بخارا فاتح
واہ کیا خوب، مکرّر ہو دوبارہ فاتح
:)
 

فاتح

لائبریرین
محترمہ گیلانی صاحبہ
جواب کے لئے تشکّر اور زحمت کے لئے معذرت خواہی قبول کیجئے
آپ اس غزل کی جواب دہی یا کسی قسم کی تشویش و تصدیق سے مبّرا ہوئیں :)

میرے پاس مطبوعہ دیوان غالب کے جو دو ایڈیشن ہیں ان دونوں میں بالا غزل نہیں :-(
ایک دیوان " قومی کتاب مرکز پاکستان"National Book Center of Pakistan کے ماہنامہ کتاب لاہورنے غالب کی صد سالہ برسی پر ١٩٦٩ میں شائع کی
اُس وقت ماہنامہ کتاب کے نگراں ابن انشا صاحب، مدیر سید قاسم محمود اور نائب مدیر سید عزیز ہمدانی جبکہ انتظامی مدیر صفدر ادیب صاحبان تھے
یہ مطبوعہ دیوان، "مکمل نسخۂ طاہر" مکتوبہ ١٩٣٦ ، پر مشتمل بلکہ ہو بہو کاپی ہے جوآغا محمد طاہر کو اپنے پرنانا مولانا محمد حسین آزاد کی کتابوں یا لائبریری سے حاصل ہوئی اور ١٩٣٦ میں انہوں نے آزاد بک ڈپو ، کوچہ چیلان دہلی سے شائع کیا، جس کے مالک وہ خود تھے
آزاد صاحب کو یہ نسخہ یا مکمل دیوان،١٨٦٠ میں خود مرزا غالب نے دستخط اور مہر ثبت کر کے دیا تھا ۔
١٩٣٦اور ١٩٦٩ والی دونوں مطبوعہ دیوان میں دستخط اور مہر کا عکس شامل کیا گیا ہے
دوسرا دیوان "نسخہ اکیڈمی " غالب اکیڈمی بستی حضرت نظام الدین دہلی سے١٩٩١ میں دستخطِ عبدالحمید صاحب صدر غالب اکیڈمی سے اس دعوے
کے ساتھ جاری کیا گیا ہے کہ اس کی تیاری کے تمام مرحلے ماہر غالبیات مالک رام صاحب کی نگرانی میں طے کئے ہیں

دوسرے دیوان میں بھی، جو کہ غالب اکیڈمی دہلی نے شائع کروائی۔ یہ غزل نہیں ہے

اب یہ کہ غزل کون سے نسخہ سے حاصل کی گئی ہے؟ اس کے لئے عبید صاحب سے مدد لینی پڑے گی

ایک بار پھر سے جواب کے لئے تشکّر
بہت خوش رہیں
جناب طارق شاہ صاحب، یہ غزل دیوانِ غالب نسخۂ اردو ویب کے ضمیمۂ اول میں ذیل کے نوٹ کے ساتھ موجود ہے:
از نوائے سروش (نسخۂ مہر)
نوٹ از مولانا مہر:​
یہ غزلیں مولانا عبد الباری آسی کی کتاب سے منقول ہیں لیکن اہلِ نظر مجموعۂ آسی میں شائع شدہ پورے غیر مطبوعہ کلام کا انتساب صحیح نہیں سمجھتے​
 

سید زبیر

محفلین
لا جواب کلام ۔۔۔ بہت خوبصورت انتخاب
دل سلامت ہے تو صدموں کی کمی کیا ہم کو
بے شک ان سے تو بہت جان کے خواہاں ہوں گے
 

انجانا

محفلین
محترم طارق شاہ صاحب ! انتخاب کی پذیرائی پر تہہ دل سے ممنون ہوں ۔
اور ہمیں آپ کے اس مراسلے سے مہدی حسن کی گائی ہوئی یہ خوبصورت غزل یاد آ گئی ۔۔اُنہوں نے ہی گائی ہےیہ غزل اور کیا ہی خوب گائی ہے ۔
غالب تو بس ایک ہی ہیں شاہ صاحب جو سب پہ غالب ہیں ۔ :)
مذکورہ غزل یقیناً غالب ہی کی ہے اور حوالے کے لیے دیوان غالب نسخۂ اردو ویب ملاحظہ کیجیے جو اردو ویب ڈیجیٹل لائبریری میں استفادۂ عام (و خاص:) ) کے لیے موجود ہے
http://www.urdulibrary.org/books/37-deevan-e-ghalib-nuskha-e-urduweb

آپ نےجو حوالہ دیا ہے وہاں یہ نوٹ قابل ملاحظہ ہے

یہ غزلیں مولانا عبد الباری آسی کی کتاب سے منقول ہیں لیکن اہلِ نظر مجموعۂ آسی میں شائع شدہ پورے غیر مطبوعہ کلام کا انتساب صحیح نہیں سمجھتے
 

طارق شاہ

محفلین
محترمہ گیلانی صاحبہ
جواب کے لئے تشکّر اور زحمت کے لئے معذرت خواہی قبول کیجئے
آپ اس غزل کی جواب دہی یا کسی قسم کی تشویش و تصدیق سے مبّرا ہوئیں :)

میرے پاس مطبوعہ دیوان غالب کے جو دو ایڈیشن ہیں ان دونوں میں بالا غزل نہیں :-(
ایک دیوان " قومی کتاب مرکز پاکستان"National Book Center of Pakistan کے ماہنامہ کتاب لاہورنے غالب کی صد سالہ برسی پر ١٩٦٩ میں شائع کی
اُس وقت ماہنامہ کتاب کے نگراں ابن انشا صاحب، مدیر سید قاسم محمود اور نائب مدیر سید عزیز ہمدانی جبکہ انتظامی مدیر صفدر ادیب صاحبان تھے
یہ مطبوعہ دیوان، "مکمل نسخۂ طاہر" مکتوبہ ١٩٣٦ ، پر مشتمل بلکہ ہو بہو کاپی ہے جوآغا محمد طاہر کو اپنے پرنانا مولانا محمد حسین آزاد کی کتابوں یا لائبریری سے حاصل ہوئی اور ١٩٣٦ میں انہوں نے آزاد بک ڈپو ، کوچہ چیلان دہلی سے شائع کیا، جس کے مالک وہ خود تھے
آزاد صاحب کو یہ نسخہ یا مکمل دیوان،١٨٦٠ میں خود مرزا غالب نے دستخط اور مہر ثبت کر کے دیا تھا ۔
١٩٣٦اور ١٩٦٩ والی دونوں مطبوعہ دیوان میں دستخط اور مہر کا عکس شامل کیا گیا ہے

دوسرا دیوان "نسخہ اکیڈمی " غالب اکیڈمی بستی حضرت نظام الدین دہلی سے١٩٩١ میں دستخطِ عبدالحمید صاحب صدر غالب اکیڈمی سے اس دعوے
کے ساتھ جاری کیا گیا ہے کہ اس کی تیاری کے تمام مرحلے ماہر غالبیات مالک رام صاحب کی نگرانی میں طے کئے ہیں

دوسرے دیوان میں بھی، جو کہ غالب اکیڈمی دہلی نے شائع کروائی۔ یہ غزل نہیں ہے

اب یہ کہ غزل کون سے نسخہ سے حاصل کی گئی ہے؟ اس کے لئے عبید صاحب سے مدد لینی پڑے گی

ایک بار پھر سے جواب کے لئے تشکّر
بہت خوش رہیں
جناب طارق شاہ صاحب، یہ غزل دیوانِ غالب نسخۂ اردو ویب کے ضمیمۂ اول میں ذیل کے نوٹ کے ساتھ موجود ہے:
از نوائے سروش (نسخۂ مہر)
نوٹ از مولانا مہر:​
یہ غزلیں مولانا عبد الباری آسی کی کتاب سے منقول ہیں لیکن اہلِ نظر مجموعۂ آسی میں شائع شدہ پورے غیر مطبوعہ کلام کا انتساب صحیح نہیں سمجھتے​
جناب فاتح صاحب !
معلومات کے لئے ممنون ہیں ۔
مگر ایک اورصورتحال پیش ہےاب ، کہ ہمیں
آپ کی اِس دیے لنک میں مولانا مہرکی نسبت سے پیش کردہ سرخ نوٹ نے،
ہمارے، ہمیشہ کے لاحق شک کو تقویت دیتے ہوئے، ہمیں اور مخمصے میں ڈال دیا ہے، کہ آیا
ہم خود کو اہلِ نظر میں شمار کریں یا نہ کریں :)

بہت تشکّر
بہت خوش رہیں
 

فاتح

لائبریرین
جناب فاتح صاحب !
معلومات کے لئے ممنون ہیں ۔
مگر ایک اورصورتحال پیش ہےاب ، کہ ہمیں
آپ کی اِس دیے لنک میں مولانا مہرکی نسبت سے پیش کردہ سرخ نوٹ نے،
ہمارے، ہمیشہ کے لاحق شک کو تقویت دیتے ہوئے، ہمیں اور مخمصے میں ڈال دیا ہے، کہ آیا
ہم خود کو اہلِ نظر میں شمار کریں یا نہ کریں :)

بہت تشکّر
بہت خوش رہیں
جناب طارق شاہ صاحب! دروغ بر گردنِ مولانا عبد الباری آسی صاحب :)
ہم اور آپ آزاد ہیں
 
غالب نے اپنے بہت سے اشعار دیوان میں شامل نہیں کئے تھے کیونکہ وہ اشعار غالب کے معیار پر پورے نہیں اترتے تھے کچھ غزلیں وہ مشاعروں میں پڑھ چکے تھے مگر دیوان کی طباعت کے وقت بہت سے اشعار تبدیل کر دئے یا ان کی تدوین کر دی مثال کے طورایک شعر ہے جو مستند اور آخری مطبوعہ دیوان میں اس طرح ہے
بسکہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
درج بالا شعر کچھ مشاعروں میں غالب یوں بھی پڑھ چکے ہیں
آتشیں پا ہوں گداز وحشت زنداں نہ پوچھ
موئے آتش دیدہ ہے ہر حلقہ یاں زنجیر کا
یہ وضاحت نسخہ حمیدیہ میں بھی درج ہے
 

طارق شاہ

محفلین
غالب نے اپنے بہت سے اشعار دیوان میں شامل نہیں کئے تھے کیونکہ وہ اشعار غالب کے معیار پر پورے نہیں اترتے تھے کچھ غزلیں وہ مشاعروں میں پڑھ چکے تھے مگر دیوان کی طباعت کے وقت بہت سے اشعار تبدیل کر دئے یا ان کی تدوین کر دی مثال کے طورایک شعر ہے جو مستند اور آخری مطبوعہ دیوان میں اس طرح ہے
بسکہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
درج بالا شعر کچھ مشاعروں میں غالب یوں بھی پڑھ چکے ہیں
آتشیں پا ہوں گداز وحشت زنداں نہ پوچھ
موئے آتش دیدہ ہے ہر حلقہ یاں زنجیر کا
یہ وضاحت نسخہ حمیدیہ میں بھی درج ہے

ناصر صاحب!
اشعار میں ترمیم کرنا یا کسی غزل سے کسی شعر کو نکال باہر کرنا اکثریتی شعراء کا وطیرہ رہا ہے، اور میں سمجھتا ہوں حق بھی
غالب اس سے مبّرا نہیں، لیکن بعد مرگِ شاعر، اُس کی کسی غزل کا، یا کسی شعر کا، ایک سے زیادہ جگہ ہونا یا کسی کے پاس پایا جانا، اُس وقت ہی قابلِ شمولیت دیوان یا مستند برائے اشاعت قرار دیا جاسکتا ہے جب وہ غزل یا شعر، شاعر کی زندگی میں مرتّب دیوان، یا کتابِ مکتوبہ یا مطبوعہ کے بعد کے زمانے کی ہو،یعنی کتاب چھپ جانے
کے بعد لکھی گئی
اگر کلام اشاعتِ کتاب یا کتاب مرتب کرنے سے پہلے کا ہے تو،اِس سے یہ مطلب لیا جانا چاہئے کے صاحبِ تخلیق اس سے مطمئن نہیں
یا اسے شمولِ کتاب، یا اُسکی اشاعت نہ کرنا چاہتے تھے
مولانا عبدالباری آسی صاحب کے فراہم کردہ یا طبع کردہ غالب کے کلام سے، دوسروں کا صرف اُس کلام کی اشاعت سے انحراف، جو کسی اور جگہ نہیں چھپا یا پڑھا گیا ہو کا سبب بھی شاید اُس کے وقت کا تعین نہ ہوسکنا ہو کہ آیا یہ کتاب سے پہلے کا کلام ہے یا بعد کا ، یا یہ کہ اسکا کسی اور کے پاس نہ ہونے سے، اسکی صحت پر شبہ ۔

واللہ عالم ! بقول فاتح : دروغ بہ گردن راوی یا بہ گردن آں کہ نمشتست

(عموماََ بعد میں کہا گیا یا اختیار کیا گیا(ترمیم کردہ) شعر پہلے سے اچھا ہوتا ہے ، غالب کا آپ کا دیا شعر ہی دیکھ لیں:)

تشکّر اظہار خیال کے لئے

بہت خوش رہیں
 
Top