یومِ اقبال :: نظم از:: محمد خلیل الرحمٰن

یومِ اقبال

از محمد خلیل الرحمٰن


آج اخبار اُٹھایا تو یہ معلوم ہوا
آج ہی شاعرِ مشرق کا جنم دِن گزرا

یومِ اقبال ہمیشہ ہی گزر جاتا ہے
غم زدہ ہم کو ہمیشہ یونہی کرجاتا ہے

اُس کا پیغام پسِ پشت جو ڈالا ہم نے
بے حسی ہے، جو کہا اُس نے وہ ٹالا ہم نے

اُس نے اسلام کو سینوں میں جگانا چاہا
ہم نے سُن کر بھی اِسے دِل سے بھُلانا چاہا

بول اسکے بلند ایوان میں گائے جاتے
اُس کے اشعار زمانے کو سُنائے جاتے

اُس کے الفاظ کو سینے سے لگایا ہم نے
اُس کا پیغام بہر طور بھُلایا ہم نے

زندگی بھر بس اِن الفاظ کے پیچھے بھاگے
اِس کے معنی رہے پیچھے تو ہم آگے آگے

بالِ جبریل ہو اقبال کی، یا بانگِ دِرا
مجھ کو اقبال کا ادراک عطا ہو مولا
******​
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اچھی نظم ہے، بچوں کے لیے اچھی نظم کہنا چاہیے
ایک غلطی ہے
بول اسکے بلند ایوان میں گائے جاتے
بلند کا ن غنہ نہیں ہوتا، معلنہ ہے، ن اور د، دونوں ساکن حروف ہیں
 
اچھی نظم ہے، بچوں کے لیے اچھی نظم کہنا چاہیے
ایک غلطی ہے
بول اسکے بلند ایوان میں گائے جاتے
بلند کا ن غنہ نہیں ہوتا، معلنہ ہے، ن اور د، دونوں ساکن حروف ہیں
جزاک اللہ استادِ محترم۔

"بلند ایوان" کو "ہر اِک ایوان" کیے دیتے ہیں!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب ! واہ !
خلیل بھائی کئی باتیں توجہ طلب ہیں ۔ اس وقت تفصیلی مراسلے کی مہلت نہیں ۔ پہلے ہی شعر کو دیکھ لیجئے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اخبار رات گئے اٹھاکردیکھا ۔ :):):)
 
آج اخبار اُٹھایا تو یہ معلوم ہوا
آج ہی شاعرِ مشرق کا جنم دِن

پہلے ہی شعر کو دیکھ لیجئے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اخبار رات گئے اٹھاکردیکھا ۔ :):):)

جی سر یہی منشاء تھا کہ ہم بھی بھول گئے، حکومت بھی بھول گئی اور قوم بھی بھول گئی۔
 

جاسمن

لائبریرین
بہت ہی خوبصوووووورت نظم۔
سبحان اللہ!
حقیقت اور تلخ حقیقت۔
لگتا ہے "اقبال کا شکوہ خلیل الرحمٰن کے الفاظ" میں پڑھ رہے ہیں۔:)
 
Top