یوسفی صاحب کب نئی کتاب لکھیں گے؟

تلمیذ

لائبریرین
سچی بات تو یہ ہے کہ یوسفی صاحب کی تحریروں کی بے پناہ خوبیوںاور ادب عالیہ میں ان کا شمار ہونے کے باوجود بار بار ان کی 'جگالی' کرنے سے طبیعت کبھی کبھی اوب سی جاتی ہے۔نئی کتاب کی اشاعت میں اتنی تاخیر کرنے میں انہیں نہ جانے کون سی مصلحت درپیش ہے۔ حالانکہ اب تک ان کے پاس یقیناً کئی کتابوں کا مواد جمع ہو چکا ہوگا۔

کیا کہتے ہیں ان کے پرستار اس موضوع پر؟
 

تلمیذ

لائبریرین
تلمیذ صاحب اس موضوع کے لیے نیا دھاگہ شروع کر لیں تو مناسب رہے گا۔ :)

معاف کیجئے، مجھے خیال نہیں رہا کہ یہ دھاگہ یوسفی صاحب کی تحریروں کے اقتباسات کے لئے مخصوص ہے۔ میرا مقصد صرف ان کی کسی نئی کتاب کی تشنگی کے بارے میں اپنے تآثرات کا اظہار تھا ۔ منتظمین سے گذارش ہے کہ نیا دھاگہ شروع کرنے کی بجائے میری پوسٹ کو کسی متعلقہ فورم کے ایک عام دھاگے میں منتقل کر دیں۔

شکریہ!!
 

نبیل

تکنیکی معاون
حکم کی تعمیل کر دی گئی ہے۔ :)
جی یوسفی صاحب کے پرستار یقیناً ایک مدت سے ان کی کسی نئی تخلیق کے منتظر ہیں۔ کیا یوسفی صاحب نے خود سے اس بارے میں کسی انٹرویو وغیرہ میں کوئی ذکر نہیں کیا؟
 

تلمیذ

لائبریرین
اس ضمن میں کوئی تازہ ترین خبراراکین محفل کے علم میں آئی ہو تو براہ کرم شئیر کریں۔ ؟
 
نئی کتاب نہ آنے کی شاید یہ وجہ ہو جو انھوں نے اپنی کتاب " خاکم بدہن " اور “چراغ تلے اندھیرا“میں بیان کی ہے۔۔۔
ملاحظہ فرمائیے::chill:
پھر کیا تھا ، پہلے ہی بھرے بیٹھے تھے، پھٹ پڑے ۔۔۔
کتب فروشی ایک علم ہے برخوردار ! ہمارے ہاں نیم جاہل کتابیں لکھ سکتے ہیں ، مگر بیچنے کے لیے باخبر ہونا ضروری ہے۔ بعینہ اسی طرح جیسے ایک اندھا سرمہ بنا سکتا ہے مگر بیچ بازار میں کھڑے ہو کر بیچ نہیں سکتا۔
میاں ، تم کیا جانو؟ کیسے کیسے جید جاہل سے پالا پڑتا ہے (اپنی عزیز ترین کتاب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے) جی میں آتی ہے ، دیوان غالب (مع مقدمہ مولانا امتیاز علی عرشی) ان کے سر پر دے ماروں۔ تمہیں یقین نہیں آئے گا ، دو ہفتے ہونے کو آئے ، ایک مظلوم صورت کلرک یہاں آیا اور مجھے اس کونے میں لے جا کر کچھ شرماتے ، کچھ لجاتے ہوئے کہنے لگا کہ کرشن چندر ایم اے کی وہ کتاب چاہیے جس میں "تیری ماں کے دودھ میں حکم کا اکا" والی گالی ہے۔
خیر اسے جانے دو کہ اس بےچارے کو دیکھ کر واقعی محسوس ہوتا تھا کہ یہ گالی سامنے رکھ کر ہی اس کی صورت بنائی گئی ہے۔ مگر ان صاحب کو کیا کہو گے جو نئے نئے اردو کے لیکچرار مقرر ہوئے ہیں۔ میرے واقفکار ہیں۔ اسی مہینے کی پہلی تاریخ کو کالج سے پہلی تنخواہ وصول کر کے سیدھے یہاں آئے اور پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ لگے پوچھے ، صاحب ! آپ کے ہاں منٹو کی وہ کتاب ہے ، جس میں "دھڑن تختہ" کے معنی ہوں؟
اور ابھی پرسوں کا ذکر ہے۔ ایک محترمہ تشریف لائیں۔ سن یہی اٹھارہ انیس کا۔ نکلتا ہوا فربہ بدن ، اپنی گڑیا کی چولی پہنے ہوئی تھیں۔ دونوں ہتھیلیوں کی رحل بنا کر اس پر اپنا کتابی چہرہ رکھا اور لگیں کتابوں کو ٹکر ٹکر دیکھنے۔ اسی جگہ جہاں تم کھڑے ہو۔ پھر دریافت کیا ، کوئی ناول ہے؟
میں نے راتوں کی نیند حرام کرنے والا ایک ناول پیش کیا۔ رحل پر سے بولیں ، یہ نہیں۔ کوئی ایسا دلچسپ ناول دیجئے کہ رات کو پڑھتے ہی نیند آ جائے۔ میں نے ایک ایسا ہی غشی آور ناول نکال کر دیا۔ مگر وہ بھی نہیں جچا۔ دراصل انہیں کسی گہرے سبز گردپوش والی کتاب کی تلاش تھی ، جو ان کی خوابگاہ کے سرخ پردوں سے "میچ" ہو جائے۔ اس سخت معیار پر صرف ایک کتاب پوری اتری۔ وہ تھی "استاد موٹر ڈرائیوری (منظوم)" جس کو دراصل اردو زبان میں خودکشی کی آسان ترکیبوں کا پہلا منظوم ہدایت نامہ کہنا چاہیے۔
خاکم بدہن - مشتاق احمد یوسفی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمر کی اس منزل پر آ پہنچا ہوں کہ اگر کوئی سن ولادت پوچھ بیٹھے تو اسے فون نمبر بتا کر باتوں میں لگا لیتا ہوں۔
اور یہ منزل بھی عجیب ہے ۔ بقول صاحب “ کسکول “ ایک وقت تھا کہ ہمارا تعارف بہو بیٹی قسم کی خواتین سے اس طرح کرایا جاتا تھا کہ فلاں کے بیٹے ہیں ۔ فلاں کے بھانجے ہیں اور اب یہ زمانہ آگیا ہے کہ فلاں کے باپ ہیں اور فلاں کے ماموں ۔ اور ابھی کیا گیا ہے ۔ عمر رسیدہ پیش رو زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ اس کے آگے مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں ،
مشتاق احمد یوسفی “چراغ تلے اندھیرا“
 

تلمیذ

لائبریرین
چلو اسی بہانے یوسفی صاحب کی عالیشان تحریر کے دو اقتباس پڑھنے کو مل گئے، بے حد شکریہ اصلاحی صاحب۔
 
Top