ہیں غریبوں کی دعائیں گر کہیں، تو عید ہے

ہیں غریبوں کی دعائیں گر کہیں، تو عید ہے
خوش ہے تم سے گر کوئی بے کس حزیں ، تو عید ہے

اتہام و کینہ و بغض و حسد سے تھا حذر
دور تھا گر تجھ سے شیطان ِ لعیں ، تو عید ہے

گر بتان ِ آرزو دل سے ہیں رخصت اور اب
موجزن ہے خوف ِ رب العالمیں ، تو عید ہے

گر تکبر تیرے دامن کے قریں آیا نہیں
حلم کا مسکن ہے تیری آستیں، تو عید ہے

پھوٹتی ہے دل سے تیرے روشنی کی گر کرن
تیرگی کے خاتمے کا ہے یقیں ،تو عید ہے

گودیاں اُجڑی ہوئیں بس جائیں، گھر آباد ہوں
میرے اعزا لوٹا دے گر زمیں ، تو عید ہے

پَوچھ آئے ہو یتیمان ِ فلسطیں کے جو اشک
گر اُنہیں اب کوئی جھڑکے گا نہیں ، تو عید ہے

اپنے فاقوں پر تجھے گر ناز ہے نقوی ، تو ہو
نفس تیرا بھی تھا روزے کا امیں ، تو عید ہے

ذوالفقار نقوی​
 
ہیں غریبوں کی دعائیں گر کہیں، تو عید ہے
خوش ہے تم سے گر کوئی بے کس حزیں ، تو عید ہے

اتہام و کینہ و بغض و حسد سے تھا حذر
دور تھا گر تجھ سے شیطان ِ لعیں ، تو عید ہے

گر بتان ِ آرزو دل سے ہیں رخصت اور اب
موجزن ہے خوف ِ رب العالمیں ، تو عید ہے

گر تکبر تیرے دامن کے قریں آیا نہیں
حلم کا مسکن ہے تیری آستیں، تو عید ہے

پھوٹتی ہے دل سے تیرے روشنی کی گر کرن
تیرگی کے خاتمے کا ہے یقیں ،تو عید ہے

گودیاں اُجڑی ہوئیں بس جائیں، گھر آباد ہوں
میرے اعزا لوٹا دے گر زمیں ، تو عید ہے

پَوچھ آئے ہو یتیمان ِ فلسطیں کے جو اشک
گر اُنہیں اب کوئی جھڑکے گا نہیں ، تو عید ہے

اپنے فاقوں پر تجھے گر ناز ہے نقوی ، تو ہو
نفس تیرا بھی تھا روزے کا امیں ، تو عید ہے

ذوالفقار نقوی​
جیتے رہیئے :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
میرے اعزہ لوٹا دے گر زمیں تو عید ہے ۔ ۔۔۔
احباب اس مصرعےمصرعے پہ بات کریں ۔۔۔کیا یہ وزن میں ہے ۔۔۔۔
الف عین صاحب
یہ مصرع ۔ مذکورہ بحر (رمل مثمن محذوف)۔ کے وزن کی حد میں نہیں ۔
اعزّہ ۔ کا وزن فعولن ہونا چاہیے۔ شاید اسی کی وجہ سے بگڑ رہا ہے۔
مثلاً ۔ بخش دے میرے اعزۃ گر زمیں تو عید ہے۔(محض لفظی اعتبار سے اوزان میں آجاتا ہے۔)۔
 
عاطف صاحب ۔۔۔درست فرمایا آپ نے ۔۔۔
میں نے اس کلام میں بعض تبدیلیاں کی ہیں ۔۔۔۔کچھ دیر بعد لگاتا ہوں ۔۔۔۔
جزاک اللہ
 
لفظ "اعزہ " کو تبدیل کرنے کے بعد ۔۔۔۔۔

ہیں غریبوں کی دعائیں گر کہیں، تو عید ہے
خوش ہے تم سے گر کوئی بے کس حزیں ، تو عید ہے
اتہام و کینہ و بغض و حسد سے تھا حذر
دور تھا گر تجھ سے شیطان ِ لعیں ، تو عید ہے
گر بتان ِ آرزو دل سے ہیں رخصت اور اب
موجزن ہے خوف ِ رب العالمیں ، تو عید ہے
گر تکبر تیرے دامن کے قریں آیا نہیں
حلم کا مسکن ہے تیری آستیں، تو عید ہے
پھوٹتی ہے دل سے تیرے روشنی کی گر کرن
تیرگی کے خاتمے کا ہے یقیں ،تو عید ہے
گودیاں اُجڑی ہوئیں بس جائیں، گھر آباد ہوں

دل کے پارے دے دے واپس گر زمیں ، تو عید ہے
پَوچھ آئے ہو یتیمان ِ فلسطیں کے جو اشک
گر اُنہیں اب کوئی جھڑکے گا نہیں ، تو عید ہے
اپنے فاقوں پر تجھے گر ناز ہے نقوی، تو ہو
نفس تیرا بھی تھا روزے کا امیں ، تو عید ہے

ذوالفقار نقوی
 
آخری تدوین:
Top