ہیں خواب میں ہنوز --------- عنیقہ ناز

مغزل

محفلین
ہیں خواب میں ہنوز

وہ گیند ریاض احمد نے فہمیدہ کو پہلی ملاقات میں نہیں دی تھی۔ ان کی جان پہچان کو کافی عرصہ ہو چلا تھا۔ تب ایک دن ریاض احمد کو پتہ چلا کہ اب سب ٹھاٹ پڑا رہ جانے کا وقت آگیا ہے۔ فہمیدہ ان کے کتب خانے کی باقاعدآنے والوں میں سے تھی۔ ریاض احمد کی خواہش تھی کہ ان کے بعد تمام کتابیں کسی مناسب جگہ پر پہنچ جائیںجہاں لوگ ان سے مناسب طورسے مستفید ہو سکیں۔ان کی عمر بھر کا سرمایہ یہی کتابیں تھیں۔اور یہی سرمایہ وہ بانٹ دینا چاہتے تھے۔ انہوں نے فہمیدہ کی اس میں دلچسپی دیکھتے ہوئے اس کی مدد چاہی۔کتابوں کی اسی چھانا پھٹکی میں ایک دن فہمیدہ کو ایک کونے میں یہ گیند رکھی ہوئی مل گئی۔ یہ ایک چینی مٹی سے بنی ہوئی ، چمکدار نیلے رنگ کی گیند تھی جس پر سنہرے اور رنگین نقوش بنے ہوئے تھے۔ریاض احمد اس گیند کو دیکھ کر مسکرائے۔ ’تمہیں معلوم ہے یہ گیند مجھے ایک خانہ بدوش نے یہ کہ کر دی تھی کہ اگر تم محسوس کرو کہ کوئی چیز غلط ہو رہی ہے تو اس کی طرف اچھا ل دینا اور پھر دیکھنا اس کا کرشمہ‘۔ ’پھر آپ نے استعمال کیا‘۔ فہمیدہ کو تجسس ہوا۔ ’نہیںبھئی، میں صرف اپنی کی ہوئی غلطیاں بھگتنا چاہتا ہوں‘۔ان کے پیلے جھری زدہ چہرے پر ایک جاندار مسکراہٹ پھیلی۔ ’کیا میں اس کو لے سکتی ہوں‘۔ فہمیدہ نے جھجھکتے ہوئے کہا۔ایک لمحے کے لیے انہوں سے اسے دیکھا۔ ’ جب تک خواب اور خواہش کا فرق سمجھ نہ آئے ۔ اسے استعمال نہ کرنا‘۔ اس کی آنکھوں میں جلتے شوق کے چراغوں کو دیکھ کر انہوں نے اسے اس کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ گھر واپس پہنچنے پر اسے اطلاع ملی کہ بنجارہ سب لاد چلا ۔
اس واقعے کے کچھ دن بعد وہ روڈ کے کنارے چلی جا رہی تھی۔ ایک ہلکا سا شور اٹھا۔ اس نے گردن موڑ کر دیکھا تو ایک کالی بھینس جس کی زبان باہر لٹکی ہوئی تھی۔ دوڑی چلی آرہی تھی۔ گھبراہٹ میں اس نے بھی دوڑ لگا دی۔کافی آگے آنے کے بعد اس نے پیچھے کی طرف گردن گھما ئی تو دیکھا کہ ایک عورت اپنی چادر سنبھالے ایک ہاتھ سے بچّے کو پکڑے ہوئے روڈپارکر رہی تھی۔ بچّے نے ایک کندھے پہ اسکول کا بیگ لٹکایا ہوا تھا۔ اور ان سے کچھ فاصلے پر وہی شیطان صفت بھینس۔ ایسے میں اسے دفعتاً اس گیند کا خیال آیا۔اس نے وہ گیند نکالی اور اسے اس بھینس کی طرف پھینک دیا۔اگلے ہی لمحے گیند واپس اس کے ہاتھ میں اور وہ بھینس یوں خراماں خراماں چلی جا رہی تھی۔ کہ یقین نہیں آرہا تھاکہ یہ وہی بھینس ہے جس پر ابھی تھوڑی دیر پہلے شیطان سواری کر رہا تھا۔اس نے گیند کو دیکھا اس کا نیلا رنگ اسی طرح چمک رہا تھا۔
کچھ دن اور گزرے وہ ایک روزساحلِِ سمندر پر چہل قدمی کے ارادے سے نکل گئی۔فہمیدہ نے گیلی ریت پر قدم نہیں رکھّے البتّہ ساحل کے ساتھ روڈ پر آرام سے چلتی رہی۔ ذرا دیر میں گھنگھور گھٹا چھاگئی۔ اس نے دل ہی دل میں محکمہءموسمیات والوں کو کوسا۔ کبھی شہریوں کو صحیح سے با خبر نہیں رکھتے۔ بادل تھے کہ امڈے چلے آرہے تھے۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے سمندر میں بگولے بننا شروع ہو گئے۔ساحل پر لوگ سراسمیہ ہو گئے۔ اور ایک ہلچل مچ گئی۔ ا ب کیا ہوگا ! اسکادل دھک دھک کرنے لگا۔ کیا کوئی سمندری طوفان اس شہر کا رخ کر چکا تھا۔

ایسے میں اسے پھر اس گیند کا خیال آیا۔ اس نے وہ فوراً اپنے بیگ سے نکالی اور سمندر کی طرف اچھال دی۔ لہریں بالکل دودھ میں آئے ابال کی طرح بیٹھ گئیں۔ بادل بکھر گئے۔ اور ہلکی ٹھنڈی ہوا پھر سے دل پشوری کرنے لگی۔اس نے پرس ٹٹولا۔ گیند پھر وہاں موجود تھی۔ اس کے نقش اسی طرح رنگین تھے۔
ابھی اس واقعے کو زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ ایک دن اسے اسائیمنٹ ملا۔اسے شہر کہ قریب ایک تعلیمی قصبے میں جا کرسروے کرنا تھا۔ سروے کے نتائج سے یہ بات اخذ کرنی تھی کہ موجودہ تعلیمی نظام فرد کو معاشرے سے جوڑ تا ہے یا اسے کاٹ رہا ہے۔ یہ قصبہ دراصل ایک تعلیم گاہ کی وجہ سے وجود میں آگیا تھا۔ اس لیے گلیوں میں پھرنے والے لوگ زیادہ تر طالبِ علم تھے۔وہ جب پھرتے پھرتے تھک گئی تو ایک دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ لوگوں ، سڑکوں ، چہاردیواریوں ، سبزے کے میدانوں اور روشون سے ٹکراتی ہوئی اس کی نظر ایک عمارت پر پڑی۔ یہ بظا ہر ایک عبادت گاہ لگتی تھی اور خاصی بلند تھی مگرایک جانب قدرے جھکی ہوئی۔ یوں لگتا تھا اب گری کہ تب۔ اسے بڑی حیرت تھی کہ اس خطرناک عمارت کے آس پاس لوگ اس لاپرواہی کے ساتھ گھوم رہے تھے جیسے وہاں کوئی مسئلہ نہ ہو۔ اس نے اطراف میںالجھے طالبعلموں کو دیکھا۔ لڑکے اور لڑکیوں کا ہجوم جو امتحان میں پاس ہونے کے لیے پریشان پھر رہا تھا۔ نئے آنے والوں کا ہجوم جو ایکدوسرے سے پوچھتا پھر رہا تھا کہ کون سے علم سے انہیں زیادہ معاشی خوشحالی ملے گی۔ اس نے خاموشی سے وہ گیند نکالی۔ اور اس عمارت کی سمت اچھال دی۔گیند کا عمارت سے ٹکرانا تھاکہ وہ چشمِ زدن میں سیدھی ہو گئی۔ اب نہ اس عمارت کو کوئی خطرہ ہے نہ اس کے قریب سے گذرنے والوں کو۔
لیکن اسے حیرانی تھی کہ ان مین سے کسی نے بھی اس کیطرف توجّہ نہ دی۔ اتنی بڑی چیز اپنی اصل حالت میںواپس آگئی مگر کسی نے نوٹ نہیںکیا۔اس نے نزدیک سے گذرتے ایک لڑکا اور لڑکی سے پوچھا۔ تم لوگوں نے اس عمارت میںہونے والی اچانک تبدیلی کے بارے میں غور کیا۔ وہ خالی خالی نظروں سے اسے دیکھنے لگے۔ کیوںکیا ہوا اس میں؟ یہ بالکل گرنے وا لی تھی اور اب بالکل سیدھی ہو گئی ہے۔ وہچند لمحے اس کے چہرے پر کچھ کھوجتے رہے اور بغیر جواب دئیے چل پڑے۔
ایک اور شخص جا رہا تھا شاید یہ استاد ہو۔وہ بھاگتے ہوئے ا سکے پیچھے گئی۔ سنیں ،آپ نے دیکھا اس عمارت کو ۔ کس عمارت کو؟ سامنے جو میناروں والی عمارت ہے۔ہاں یہ شاید عبادت گاہ ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔ نہیں ،یہ تو ویسی ہی ہے جیسی پہلے تھی۔ پہلے کیسی تھی؟۔ ’جیسی اب ہے ‘۔ وہ یہ کہہ کر سپاٹ چہرے کے ساتھ چلدیا۔
پھر ایک عورت اسے راستے میں ملی۔وہ شاید معلّمہ تھی۔ اس نے استادوں کا لباس پہنا ہوا تھا۔ فہمیدہ نے اس کا راستہ روک لیا۔معاف کیجیے گا ۔ آپ نے دیکھا وہ سامنے عمارت ہے۔ اس نے حقارت سے فہمیدہ کودیکھا اور بولی۔ ’تم ایک عالم سے مخاطب ہو‘۔ ’جی، میں کچھ پریشانی میں ہوں ۔ آپ عالم ہیں ۔کیاآپ میری مدد کرسکتی ہیں؟‘ ’ہوں‘۔ اس کے ماتھے کے بل اور گہرے ہوگئے اور لہجہ مزید اکھڑ گیا۔’ آپ نے دیکھا وہ سامنے ایک عمارت ہے‘۔ ’اچھّا، ارے ہاں، وہاں تو ایک عمارت ہے‘۔وہ خاموش ہو گئی۔اور واپس چل پڑی۔اپنے پیچھے اس نے غراہٹ کی آواز سنی۔
واپسی میں اس کے آگے دو مزدور جا رہے تھے۔شام ہو چکی تھی اور دن بھر کی مشقت سے ان کے چہرے تپے ہوئے تھے۔ ان کے ملگجے لباس پر سوکھے ہوئے پسینے کے سفید نشانات تھے۔وہ باتیں کرتے جا رہے تھے۔دن بھر کے واقعات کی، اپنے اطراف کے لوگوں کی۔ پھر ان میں سے ایک بولا۔’تم دیکھنا ، یہ عمارت بس اب تھوڑے دنو ں میں گر جائے گی‘۔’تمہیں یہاں آئے ابھی دن ہی کتنے گذرے ہیں۔ میرا دادا بھی یہی کہتا مر گیا۔ مگر یہ ایسے ہی ہیں۔ میں جانتا ہوں یہ مدتوں سے ایسے ہی ہے اور ایسے ہی رہے گی‘۔‘ ان کی اس بات پر اس نے مڑ کر دوبارہ اس عمارت پر نظر ڈالی وہ اپنی ابتدائی حالت میں تھی۔فہمیدہ کا ذہن جیسے کھل گیا۔
اگلے دن وہ ساحل پہ گئی۔ کچھ لوگ اس دن کی طرح آج بھی گیلی ریت پر ٹہل رہے تھے۔ بچے مٹی سے کھیل رہے تھے۔ دو اونٹ والے کجاوہ صحیح کر رہے تھے۔ ایک لڑکا بالٹی میں چائے دانی اور کپ اٹھائے چائے بیچ رہا تھا۔ یہ یقیناً اس دن یہاں پر ہو گا جب طوفان آیا تھا۔’ سنو بچے، پرسوں یہاں طوفان آتے آتے رہ گیاتھا۔تم نے دیکھا تھا۔ ’طوفان ، نہیں تو باجی، پرسوں یہاں کوئی طوفان نہیں آیا۔ ام تم کو بتائے باجی۔یہاں طوفان نہیں آسکتا۔ وہ جو سامنے مزار والا با با ہے ۔ باجی وہ طوفان نہیں آنے د یگا۔’بچّہ ہے‘۔ اس نے سوچا۔ سامنے کینٹین پر ایک شخص برگربنارہا تھا۔ابھی سورج نہیں ڈھلا تھا۔ اور اس کے پاس کوئی نہ تھا۔ ’پرسوں یہاں بڑی طوفانی قسم کی لہریں اچانک آگئیں تھیں ۔فہمیدہ نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے جملہ پھینکا۔ نہیں تو‘۔ اس نے فوراً تردید کی۔ ’میں یہاں صبح گیارہ بجے سے رات گیارہ بجے تک رہتا ہوں۔ میںنے تو ایسا کچھ نہیں دیکھاآپ نے کیا شام کے اخباروں میں پڑھا ہے۔یہ شام کے اخبار والے تو چائے کی پیالی میں طوفان لے آتے ہیںان کا تودھندہ یہی ہے‘۔ اس نے بڑے سے سیدھے گول توے پر تیزی سے کباب پلٹتے ہوئے کہا۔’ہوں، تم صحیح کہ رہے ہو‘۔وہ پلٹ آئی۔
اس سے اگلے دن وہ اس روڈپر جا کر کھڑی ہو گئی جہاں اس نے اس عورت کو بچے کے ساتھ دیکھا تھا۔ کافی دیر بعد وہ دونوں نظر آئے۔ بچے کے ایک ہاتھ پر پلاستر چڑھا ہوا تھا۔ او ر وہ تھوڑا لنگڑا کر چل رہا تھا۔فہمیدہ نے ، اس عورت کو روکا۔’سنئے‘۔ وہ رکی اور حیرانی سے اس نے پلٹ کر اسے دیکھا۔ فہمیدہ نے جھجھکتے ہوئے کہا۔’آپ یہاں سے کچھ دنوں پہلے جا رہی تھیں۔اور ایک بھینس۔۔۔‘ اس کی بات درمیان میں رہ گئی۔ فوراً بچّہ بول اٹھا۔’آنٹی ، مما نے مجھے اس سے بچانے کے لیے اپنی طرف کھینچا تومیں گر پڑا۔ اور میری ہڈی مڑ گئی۔دیکھیں ڈاکٹر نے میرے ہاتھ پر پلاستر چڑھا دیا ہے‘۔‘جی میں کافی پریشان رہی۔لوگ دوسروں کی تکلیف کا خیال نہیں کرتے ۔ نہ اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہیں۔ دیکھیں ، بات صرف ہڈی کے مڑنے پر ٹلی۔ اگر کچھ اور ہو جاتا تو میں تومر ہی جاتی‘۔ عورت نے اپنے بچّے کا سر سہلایا۔’ہوں، آپ صحیح کہ رہی ہیں‘۔وہ کچھ سوچ کر آگے بڑھ گئی۔
کافی دن گذر گئے وہ اب اس گیند کو بھول چکی تھی۔ ایک روز ڈپارٹمنٹ اسٹور کے سامنے گاڑی پارک کر کے وہ ابھی گاڑی سے باہر نکلی تھی کہ ایک بچّہ گندے کپڑوں اور بدترحلئے میں اس کے سامنے آگیا۔ ننگے پیر، اجڑے بال۔ ان کے ماں باپ انسان کے بچے نہیں روپیوں کے نوٹ پیدا کرتے ہیں۔ ہر دن گذرنے کے ساتھ یہ خستہ ہوتے جاتے ہیں ۔ اپنے پیلے پیلے دانت نکال کر اس بچے نے گردن ایک جانب لٹکا لی ۔’میں نے صبح سے کچھ نہیں کھایا‘فہمیدہ نے ڈیش بورڈ پر نظر ڈالی۔ وہاں کوئی سکّہ نہ تھا۔ دروازہ لاک کیا۔ ’معاف کرو بھئی‘۔ ’باجی اس نے پھر ہاتھ بڑھایا۔’ اللّہ تمہیں مالدار دولہا دیگا۔ خدا تمہاری دل کی مراد پوری کرے گا۔ خدا تمہیں چاند سا بیٹا دے گا۔‘وہ اتنی ساری دعاؤں سے سہم گئی ۔’اف۔ کیا مصیبت ہے کوئی جگہ مانگنے والوںسے خالی نہیں‘۔ اس نے پرس میں ہاتھ ڈال کرسکّے کے لیے تلاش شروع کی۔ بچّہ نے پھرہاتھوں کی انگلیاں ملا کر منہ کی طرف اشارہ کیا’صبح سے‘۔ اسی لمحے اس کی انگلیاں اسی گیند سے ٹکرائیں۔ اس نے گیند باہر نکالی اور بچّے کے ہاتھ پر رکھ دی۔’یہ کیا باجی؟‘ اسے پسند نہیں آیا۔ ’میرے پاس اس وقت یہی ہے‘۔ ’اس کا میں کیا کروںگا‘۔’ بچوں کے کھیلنے کی چیز ہے ۔نہیں چاہیے‘۔فہمیدہ نے واپس اٹھانے کے ارادے سے ہاتھ بڑھایا۔ بچّے نے فوراً ہاتھ پیچھے کر لیا اور چل پڑا۔ وہ اسٹور میں داخل ہونے کے لیے مڑی۔ایک، دو، تین، ابھی وہ چوتھی سیڑھی پر تھی ایک چیخ سنائی دی اور ایک آواز آئی۔ ’ارے بچاؤ۔وہ غیر ارادی طور پر پیچھے مڑی۔ وہی بچّہ سڑک پر پڑا تھا۔ اور اس کے سر کے پاس خون آہستہ آہستہ جمع ہو رہا تھا۔ ’کیا ہوا‘وہ نیچے آئی۔’ہائے گاڑی نے مار دیا۔شیدا، ایک چھوٹی سی گیند اچھا ل رہاتھا۔ وہ سڑک پر چلی گئی۔ شیدا، اسے لینے کو دوڑا تو گاڑی نے ٹکر ماردی‘۔ ایک اسی حلئے کی بچّی نے روتے ہوئے بتایا۔کچھ لوگ جمع ہوگئے۔ کسی نے اسے اٹھانے کی کوشش کی مگر اس کا جسم بے ترتیب انداز میںلٹک گیا۔ موت کیا ہے ترتیب کا بکھر جانا۔ وہ بناءخریداری کیے مڑگئی۔ گاڑی کی چابی کے لیے اپنا پرس کھولا تو اسکی گرم انگلیاں ایک ٹھنڈی چیز سے ٹکرائیں۔ یہ وہی گیند تھی۔نیلی چمکدار جس پر سنہرے نقش بنے ہوئے تھے۔ اب اسے اس گیند سے نفرت ہو چلی تھی۔
اس حادثے کے بعد ہر چیز سے اس کا دل اچاٹ ہو گیا۔ اس خالی پن سے وہ گھبرا گئی تھی۔ تب اچانک اسے پتہ چلا کہ اس کے دوستوں کا ایک گروپ ملک کی سرحد کے قریب ایک گاؤں جا رہا ہے ۔ اس دفعہ ان کا پروجیکٹ خوف کی حالت میں رہنے والے لوگوں کی حرکاتِ منعکسہ میں ہونے والے اثرات کو معلوم کرنا تھا۔ وہ ان کے ساتھ چل پڑی۔ ہرے بھرے پہاڑ اور ان کے درمیان گنگناتا دریا، چلبلاتے چشمے اور اچانک ہونے والی بارشیں۔ بظاھر سب کتنا خوبصورت تھا۔ لیکن یہیں پر کہیں بارود پھٹتا، خون اڑتااور چیخیں ابھرتیں تھیں۔
جس گھر میں وہ ٹہرے ہوئے تھے رات کو وہاں صحن میں سب اکٹھا ہوتے۔ اس دن بھی وہ دن بھر کی باتیں ایکدوسرے کو بتا رہے تھے ۔گھرانے کی معمر خاتون غور سے ان کی باتیں سن رہی تھی۔ شدید خوف کس چیز کا ہوتا ہے؟ ان میں سے کسی نے پوچھا۔’ موت کا‘۔’ نہیں‘ ۔ وہ بوڑھی عورت بولی۔’ اپنے پیاروں سے ہمیشہ کے لیے جدا ہونے کا خوف سب سے بڑا خوف ہوتا ہے‘۔ دفعتاً سناٹاچھا گیا۔وہ بوڑھی عورت سر جھکا کر بیٹھ گئی۔
کام مکمل ہو چکا تھا۔ اگلی صبح وہ گاڑی میں سامان رکھ رہے تھے۔ میزبان خاندان کا ایک چھ سالہ بچہ ان کے اردگرد منڈلا رہا تھا اور مسلسل باتیں کر رہاتھا۔’آنٹی،بابا کہتے ہیں آپ یہاں ہوم ورک کرنے آئے تھے۔ آپ کا ہوم ورک پورا ہو گیا، مجھے تو کوئی ایسا ہوم ورک نہیں دیتا کہ میں بہت دور گھومنے جاؤں‘۔ فہمیدہ کو وہ بچہ خاصہ دلچسپ لگااس دورا ن اس نے کسی کام کے لیے اپنی ڈائری نکالنی چاہی تو وہ گیند پھسل کر باہر آگئی۔ گیند دیکھتے ہی بچے کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ ’یہ تو بڑی خوبصورت ہے۔ آپ اس کا کیا کرتی ہیں‘۔ ’ میں ‘۔ فہمیدہ گڑبڑا گئی۔’یہ تو بچوں کی ہے۔آپ نے میرے لیے لی ہو گی‘۔ اس نے اپنے طور پر سوچ لیا۔ ’لیکن تم اسکا کیا کروگے‘۔ اس کے باپ نے مداخلت کی۔ ’میں ہارون کو دونگا‘۔ ’یہ ہارون کون ہے‘۔ فہمیدہ نے اسے باتوں میں لگایااور اس دوران سوچتی رہی کہ وہ کیا کرے۔ ’ہارون میری خالہ کا بیٹا ہے وہ ادھر رہتا ہے‘۔ اس نے پہاڑ کی اسطرف نہ نظر والی باڑھ کے پار اشارہ کیا۔ جہاں سرحد پر فوجی بندوقیں لٹکائے اپنے مورچوں میں نظر آرہے تھے۔ ’اماں کہتی ہیں وہ بالکل میرے جیسا ہے‘۔ ’تم اسے یہ کسطرح دوگے کوئی تمہیں اسطرف نہیں جانے دیگا‘۔ ’میں ادہر اس والے پہاڑ پر جاﺅنگا ۔یہ یہاں کا سب سے اونچا پہاڑ ہے اور اسے ہارون کی گھر کی طرف پھینک دونگا‘۔اچھااس نے کچھ سوچا اور پھرہنس پڑی۔’ تو جاؤ پھر تم اسے پھینک آؤ۔ بچہ کھودتا پھاندتا غائب ہوگیا۔ ان سب نے الوداعی مصافحہ کیا اور نکل پڑے۔
بس چند منٹوں کی تو بات تھی۔ صرف چند منٹ سب ہلتا رہا۔ جب تک خواب دیکھنے والی آنکھیں مٹی میں نہ مل گئیں۔ اور خواہش پالنے والے دلوں نے دھڑکنا نہ چھوڑ دیا۔ اگلے روز سرحد کے دونوں طرف کی حکومتوں نے اعلان کیا کہ وہ اس باڑھ کو ہٹا رہے ہیں تاکہ قدرتی آفت یعنی زلزلے کا شکار ہونے والے دونوں طرف کے بچھڑے ہوئے خاندان ایکدوسرے کی دلجوئی کر سکیں۔
فہمیدہ نے اس بچے کو بہت تلاش کیا۔ زندوں میں ، معذوروں میں، مرنے والوں میں۔وہ نہیں ملا۔ وہ شاید اس بے حس ملبے کہ نیچے دفن ہو گیا تھا۔ جسے اب کوئی نہیں ہٹا سکتا تھا۔ وہ اب ہارون کو تلاش کر رہی ہے ۔اب تو اس طرف کا راستہ بھی کھل چکاہے۔
 

الف عین

لائبریرین
یہ کون صاحبہ ہیں؟
کیا ’سمت‘ کے لئے لیا جا سکتا ہے، ان کو مطلع کر دیں یا اجازت لے لیں۔ اس سے پہلے بھی تم نے ایک افسانہ پوسٹ کیا تھا، اس کو بھی دیکھتا ہوں، وقت آنے پر بھول نہ جاؤں، کئی تخلیقات کو ’ادارتی‘ نظروں سے دیکھتا ہوں نا!!
 

مغزل

محفلین
بابا جانی یہ کراچی کی ایک اچھی افسانہ نگار ہیں ، ڈاکٹر عنیقہ ناز، بیسیوں افسانے پڑھ اور سن چکا ہوں، مجھے اچھے لگے تو دو ایک افسانے شامل کیے ہیں، آپ اسے سمت میں شامل کر لیجے ، عنیقہ کا بلاگ بھی ہے اور انشا اللہ دو ایک دن میں وہ یہاں باقائدہ ممبر کے طور پر حاضر ہونگی ۔ بہت بہت شکریہ۔
 
Top