ہیلن آف ٹرائے​
محمدخلیل الر حمٰن​
ہیلن آف ٹرائے کی داستان مشہور یونانی شاعر ہومر کی رزمیہ ‘‘ایلیاد’’ کا پس منظر ہے۔ مشہور مترجم جناب محمد سلیم الرحمٰن اودیسی کے ترجمے ‘‘ جہاں گرد کی واپسی’’ کے اختتامیے میں لکھتے ہیں۔​
‘‘ایلیاد میں تروئے کی جنگ کا بیان ہے ۔ آثارِ قدیمہ کے ماہرین کا خیال ہے کہ ہومر نے جس تروئے کا ذکر کیا ہے تقریباً ۱۲۰۰ ق م میں تباہ ہوا تھا اور یہ کہ تروئے کی جنگ ہوئی ضرور تھی ، چاہے اس کے اصل واقعات اور وجوہ وہ نہ ہوں جو ہومر نے بیان کی ہیں۔’’​
ٹرائے کی یہ جنگ جسے محمد سلیم الرحمٰن ‘‘ قبل تاریخ کے اساطیری دھندلکے میں کھوئی ہوئی ترائے کی عظیم نو سالہ جنگ’’ کہتے ہیں، مروجہ قصوں کے مطابق ، ایک سیب سے شروع ہوئی، ایک گھوڑے پر ختم ہوئ او رجسے ایک ہزار بادشاہوں نے ایک عورت کی خاطر عرصہ دس سال تک جاری رکھا۔ اس جنگ کے نتیجے میں ایک قدیم شہر جل کر راکھ ہوگیا۔ یہ آگ جو آج سے قریباً تین ہزار سال پہلے بھڑکی تھی، انسان کے لاشعور میں اب بھی کبھی کبھی اس کی دبی ہوئی چنگاریاں بھڑک اٹھتی ہیں۔​
اس جنگ کا آغاز اس وقت ہوا جب، اپنے عہد کے ایک طاقتور سورما پیلیس کی شادی تھیٹس سے طے پائی۔ تھیٹس ایک جل پری ، خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ، ان معدودے چند ناکتخداؤں میں سے تھی جو پوسیڈن دیوتا کے پنجہء ھوس سے اپنی دوشیزگی کی حفاظت کرتی ہوئی شادی کی سیج تک پہنچی تھی۔ یہ ایک شاندار اور عالیشان دعوتِ شیراز تھی جس میں کوہِ اولمپس سے سبھی لافانی دیوی دیوتا شریک تھے۔ بد قسمتی سے تھیٹس نے فساد کی دیوی اور جنگ کے دیوتا کی بہن ایرس کو شادی کا دعوت نامہ نہ بھیج کر ایک ایسی سنگین بھول کی جس کا خمیازہ خون کی ندیاں بہا کر بھگتنا پڑا۔ دیوی ایرس بن بلائے اس دعوت میں پہنچی اور رقص کے صحن میں ایک طلائی سیب اچھال دیا جس پر نقرئی حروف میں یہ الفاظ کندہ تھے ‘‘ محفل کی سب سے خوبصورت خاتون کے لیے’’۔ ان شرارتی الفاظ نے دعوت میں ایک فساد برپا کردیا۔ فوری طور پر دیوتاؤں کی ملکہ ہیرا، عقل ودانش کی دیوی ایکس بردار کنواری اتھینہ اور محبت کی دیوی افروڈئٹی بیک وقت ، فساد کی جڑ، اس سیب کی جانب لپکیں اور اسے اپنے قبضے میں لینے کی جد و جہد شروع کردی۔ جھگڑا اس قدر بڑھا کہ تمام دیوتاؤں نے اس سے دور رہنے ہی میں عافیت جانی اور فیصلے کے لیے ٹرائے کے ایک چرواہے پیرس کو حکم مقرر کردیا۔​
اب سنئیے کہ پیرس اصل میں ٹرائے کے بادشاہ پرائم کا حقیقی بیٹا تھا جسے کسی قسمت کا حال بتانے والے کی اس پیشنگوئی کے بعد کہ پیرس خود ہی ٹرائے کی تباہی کا ذمہ دار ہوگا، پرائم نے اپنے سے دور کرکے ایک جنگل میں بکریاں چرانے والے کے سپرد کردیا تھا ۔ پیرس اس حال میں بڑا ہوا کہ اسے اپنی شہزادگی کا علم ہی نہ تھا، پیرس ایک چرواہا جو حسن و جمال میں اپنی مثال آپ تھا۔​
فوری طور پر تینوں حسین دیویاں پیرس کے پاس رشوتیں لے کر پہنچ گئیں۔ ہیرا نے اسے جاہ و حشمت کی پیشکش کی کہ وہ اسے دنیا کا طاقتور ترین بادشاہ بنا دے گی۔ اتھینہ نے اسے دانش کی پیشکش کی کہ وہ اسے دنیا و ما فیہا کا علم اسے عطا کردے گی ۔نہ صرف وہ تمام دانش جو لکھی گئی یا بولی گئی ہے بلکہ وہ بھی جو ابھی ہونٹوں تک بھی نہیں پہنچی، اس کے قدموں میں ڈھیر کردے گی۔ادھر افروڈائٹی نے کچھ نہ کہا۔ وہ پیرس کے قریب گئی اور اس کے کان میں کچھ سرگوشی کی۔ ابھی اس کی سرگوشیاں ختم بھی نہ ہوئی تھیں کہ پیرس نے وہ سنہری سیب اس دیوی کے حوالے کردیا۔ افروڈائٹی مسکرائی، پیرس کو پیار کیا اور وہاں سے غائب ہوگئی۔ ہیرا اور اتھینہ بھی غصے میں بھری ہوئی پیر پٹختی ہوئی وہاں سے روانہ ہوئیں۔​
دیوی افروڈائٹی نے پیرس سے جو سرگوشی کی تھی وہ، دراصل ایک وعدہ تھا کہ وہ جس کسی خوبصورت لڑکی کی طرف لگاوٹ بھری نظروں سے دیکھے گا، وہ اس کے عشق میں گھائل ہوجائے گی۔ تب اس نے پیرس کو چاہے جانے کے لائق ایک خوبصورت لڑکی، سپارٹا کی ملکہ ہیلن کے بارے میں بتاتے ہوئے یہ بھی انکشاف کیا کہ وہ یعنی پیرس کوئی معمولی چرواہا نہیں بلکہ ٹرائے کے بادشاہ پرئم کا بیٹا ہے۔​
افروڈائٹی نے پیرس کو بتایا کہ ہیلن اپنی پیدائش کے ناطے فانی انسانوں میں دیوی افروڈائٹی سے سب سے زیادہ مماثلت رکھنے والی لڑکی ہے۔ درحقیقت دیوتا زیوس نے ایک بگلے کا سوانگ بھر کر خوبصورت لیڈا سے ملاقات کی تھی ، جس کے نتیجے میں اس کی بیٹی فانی انسانوں کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ لا فانی دیوتاؤں کی سی صفات بھی رکھتی تھی۔​
پیرس نے چرواہے کی لاٹھی وہیں پھینکی اور فوراً ٹرائے پہنچ کر شہزادگی اختیار کی۔ کچھ عرصہ عیش و عشرت میں گزارنے کے بعد اس نے بادشاہ سے ایک عدد جہاز مانگا اور سپارٹاکے سفارتی مشن پر روانہ ہوا۔ وہاں پہنچ کر وہ اسپارٹا کے بادشاہ مینیلیس سے ملا۔ اسی شام مینیلیس کی بیوی حسین ہیلن سے ملاقات ہوئی تو وہ ایک ہی ملاقات میں اسےاپنا دل دے بیٹھی۔ صبح سے پہلے پہلے وہ ہیلن کو محل سے نکال کرٹرائے کی جانب اڑالے گیا۔​
اب سنئیے کہ شادی سے پہلے جب ہیلن کے غیر فانی حسن کے چرچے عام ہوئے تو یونان بھر سے ہزاروں بادشاہ اور شہزادے اس کے سوئمبر میں شرکت کے لیے اس کے باپ کے گھر آن پہنچے۔ اس کا باپ اس کا ہاتھ کسی بھی شہزادے کے ہاتھ میں دینے سے گھبراتا تھا۔ اس کے خیال میں اس کے سوئمبر میں ناکامی پر کہیں تما م خواستگار اس کے شوہر کے خلاف سازش کرکے اسے ہلاک نہ کردیں۔ اسی اندیشے نے اس کی راتوں کی نیند حرام کردی تھی۔ ادھر ہیلن نے ان سب خواستگاروں کو امید دلائی ہوئی تھی اور اسی اندیشے کے پیشِ نظر کسی ایک کو پسند کرنے کا عندیہ نہ دیتی تھی۔​
اودسیوس جو بقول محمد سلیم الرحمٰن‘‘ اپنے زمانے کا سب سے عقلمند انسان ہے’’ انھیں اس مخمصے سے نکالنے کے لیے ایک عدد شاطر ترکیب ان کے سامنے رکھتا ہے۔ سوئمبر میں شامل تمام سورما شہزادے، ایک عہد کریں گے کہ وہ نہ صرف کامیاب ہونے والے خواستگار کو قتل کرنے سے باز رہیں گے بلکہ آئیندہ بھی ہیلن اور اس کے شوہر کے خلاف کسی بھی حملے کی صورت میں ان کی حفاظت کریں گے اور ان پر حملہ کرنے والوں سے جنگ کریں گے۔​
تب ہی ہیلن نے اسپارٹا کے بادشاہ مینیلیس کو پسند کرلیا اور دھوم دھام سے شادی ہوگئی۔ ادھر جب کئی سال بعد پیرس اسپارٹا کی ملکہ ہیلن کو لے اڑا تو اس کے گزشتہ ہزاروں خواستگاروں کو طلب کیا گیا اور انھیں ان کا عہد یاد دلاتے ہوئے ایک عظیم الشان لشکر ترتیب دیا گیا جس نے ٹرائے کی جانب پیش قدمی کی۔​
یونانی لشکرٹرائے شہر کی فصیل کے گرد خیمہ زن ہوگیا اور دس سال تک شہر کی فصیل میں شگاف ڈالنے کی ناکام سعی کرتا رہا۔ فصیلِ شہر مضبوط پتھروں کی بنی ہوئی تھی اور شہر والے بے جگری کے ساتھ شہر کی حفاظت کرنا جانتے تھے۔ شہر کا دفاع ان کے بادشاہ پرائم کے پچاس بہادر بیٹوں کے ہاتھ میں تھا جن کی قیادت بہادر سورما بیٹے ہیکٹر کے جوان ہاتھوں میں تھی۔ بہادر ہیکٹر کی یونانی سورما آخلیس سے بے جگری کے ساتھ لڑائی اور موت کے بعد بھی شہر والوں نے شکست قبول نہ کی اور ڈٹے رہے یہاں تک کہ نہایت چالاکی کے ساتھ بنائی گئی ایک شاطر چال نے انھیں آخر کار شکست دے ہی دی۔​
اس شاطرانہ چال کا بنانے والا کوئی اور نہیں ‘‘ بہادر اور پر فن’’ اودسیوس ہی ہے۔ یونانی محاصرہ اٹھانے کا بہانہ کرتے ہوئے اپنے جہازوں پر سوار ہوئے اور ٹرائے والوں کی نظروں سے دور ایک گھاٹی میں جاکر ڈیرے ڈال دئیے اور گھات لگا کر رات کے انتظار میں بیٹھ گئے۔ساحل پر شہر کی فصیل کے سامنے انھوں نے ایک لکڑی کا عظیم الجثہ گھوڑا چھوڑا تھا۔ ٹروجن محصورین کا ردِ عمل عیار اودسیوس کی پیشن گوئی کے عین مطابق تھا۔ انھوں نے جانا کہ یونانی اس طویل ترین محاصرے سے اکتا کر دل ہار کر یہاں سے روانہ ہوگئے ہیں، لہٰذا انھوں نے جیت کا جشن منانا شروع کیا اور اس میں کھوئے گئے۔ انھوں نے خیال کیا کہ لکڑی کا یہ گھوڑا یونانیوں کی جانب سے سمند کے دیوتا پوسیڈون کے لیے ایک نذرانہ ہے تاکہ ان کا واپسی کا سفر حفاظت سے گزرے۔ وہ اس گھوڑے کو کھینچ کر شہر میں لے گئے تاکہ سمندر دیوتا پوسیڈون اپنے نذرانے کی اس بے قدری پر یونانیوں سے ناراض ہوکر ان کے واپسی کے سفر کو اپنے قہر کا نشانہ بنائے۔ لیکن لکڑی کا یہ عظیم الجثہ گھوڑا اندر سے کھوکھلا تھا جس میں اودسیوس اور اس کے بہادر سورما چھپ کر بیٹھ گئے تھے۔ اس رات جب شہر والے بد مست ہوکر سوئے تو یونانی چپکے سے گھوڑے کے پیٹ سے باہر نکل آئے ، سنتریوں کو قتل کیا اور فصیل کے دروازوں کو کھول دیا۔ یونانی لشکر جو اس عرصے میں واپس فصیل کے سامنے پہنچ چکا تھا، شہر میں داخل ہوگیا۔​
یہ ایک شاطرانہ انداز سے ترتیب دیا ہوا شب خون تھا۔ شہر پر قبضہ کرکے اس کے تمام سورماؤں کو تہہ تیغ کردیا گیا، عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا گیا اور شہر کو آگ لگا دی گئی۔​
گو یہ مضمون برنارڈ ایلسوین کی کہانی دی ایڈونچرز آف یولی سیز کے پرولاگ کا آزاد ترجمہ( اضافے کے ساتھ) ہے اور اس کا محمد سلیم الرحمٰن کے ہومر کی رزمیہ اوڈیسی کےترجمے ‘‘ جہاں گرد کی واپسی’’ سے تعلق نہیں لیکن اس عظیم کام کے کچھ حوالے بھی شامل کیے گئے ہیں۔ آخر میں محمد سلیم الرحمٰن کے ترجمے پر سہیل احمد خان کا تبصرہ قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوگا۔​
‘‘ ہومر کی اوڈیسی یونانی ادب کا ایسا سوتا ہے جس سے مختلف زبانوں کا ادب اب تک سیراب ہورہا ہے۔ اردو اد ب محمد سلیم الرحمٰن کا ممنون رہے گا کہ کہ انھوں نے ہومر کی اوڈیسی کا اردو میں ترجمہ کرکے انسانی بوالعجبیوں کے اس حیرت کدے ۰۰۰ تک اردو کے قارئین کا پہنچنا آسان کردیا’’۔​
محفلین سے گزارش ہے کہ ایک مرتبہ پھر راقم الحروف کی کہانی ‘‘ شہر آشوب’’ کو اس پس منظر میں جانچ لیں ۔​
جزاک اللہ۔​
 
ماشاء اللہ بہت خوب

مزہ آ گیا پڑھ کے۔

بہت شکریہ شریک محفل کرنے کا۔

شمشاد بھائی شکریہ آپ کا کہ آپ اپنے سوا لاکھ پیغامات سمیت تمام محفلین کی ہمت افزائی کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ جزاک اللہ

بہت بہت شکریہ خلیل صاحب ۔ آپ کی تحاریر کا تو میں پرستار ہوگیا ہوں

میر انیس بھائی! پرستار تو ہم آپ کے ہوگئے۔ یہ آپ کی محبت اور عنایت ہے جو ہمارے لکھنے کے لیے تحریک بنتی ہے۔ جزاک اللہ

بہت خوبصورت اور معلوماتی تحریر ہے خلیل صاحب، کیا کہنے جناب، لاجواب۔

محمد وارث بھائی! جزاک اللہ اور شکریہ پسندیدگی کا۔ آپ کی فرمائش تھی لہٰذا ہم نے توجہ اور محبت سے لکھا ہے۔
 
Top