ہو کوئی تدبیر، خوئے یار سمجھیے

نور وجدان

لائبریرین
واہ! ندا فاضلی کا شعر لا جواب ہے

یہاں معلومات میں اضافہ ہوا ہے. آپکا بہت شکریہ. مزید اساتیذ کی آراء کا انتظار رہے گا

نور وجدان، صحیح رہنمائی تو اساتذہ کرام ہی کر سکتے ہیں لیکن گمان غالب یہی ہے کہ درست تلفظ فعولن کے وزن پر ہی ہے۔ شاید فاعلن کے وزن پر بھی مستعمل ہو کیونکہ عروض ڈاٹ کام اس املاء کے ساتھ بر وزن فاعلن ہی بتا رہا ہے۔ اس سےپہلے میں نے اپنی کسی غزل میں “سمجھیے “ کو فاعلن کے وزن پر برتا تھا جسے سرالف عین نے نا درست قرار دیا تھا۔
درج ذیل مثالوں میں بھی لفظ “ سمجھیے” فعولن کے وزن پر ہی باندھا گیا ہے۔
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے
غالب

ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے
عشق کیجیے پھر سمجھیے، زندگی کیا چیز ہے
ندا فاضلی
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سمجھیے کا تلفظ فعولن کے وزن پر ہے اور سمجھیے کا وزن فاعلن کے طور پر بھی ہوتا ہے. دونوں طرز سے جائز ہے؟

نور وجدان، صحیح رہنمائی تو اساتذہ کرام ہی کر سکتے ہیں لیکن گمان غالب یہی ہے کہ درست تلفظ فعولن کے وزن پر ہی ہے۔ شاید فاعلن کے وزن پر بھی مستعمل ہو کیونکہ عروض ڈاٹ کام اس املاء کے ساتھ بر وزن فاعلن ہی بتا رہا ہے۔ اس سےپہلے میں نے اپنی کسی غزل میں “سمجھیے “ کو فاعلن کے وزن پر برتا تھا جسے سرالف عین نے نا درست قرار دیا تھا۔
درج ذیل مثالوں میں بھی لفظ “ سمجھیے” فعولن کے وزن پر ہی باندھا گیا ہے۔
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے
غالب

ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے
عشق کیجیے پھر سمجھیے، زندگی کیا چیز ہے
ندا فاضلی

اساتذہ تو حقہ پینے کے بریک پر گئے ہوئے ہیں ۔ میں چپکے سے جواب دے دیتا ہوں ۔
سمجھیے کا وزن فعولن ہے فاعلن نہیں ۔ اہلِ پنجاب اسے فاعلن کے وزن پر بولتے ہیں ۔ میڈیا پر اسی طرح بولے جانے کے سبب اب شاید اور لوگ بھی فاعلن کے طرز پر بولنے لگے ہوں ۔
قاعدہ یہ ہے کہ فعل کا صیغۂ امر فعل کا مصدر ہو تا ہے ۔ یعنی سمجھ ، نکل ، اُتر ، سنبھل ، اُچھل وغیرہ یہ سب مصدر ہیں ۔ جب صیغۂ امر کے آگے احترام کے لئے "یے" کا اضافہ کیا جائے گا تو مصدر میں کوئی تغیر نہیں ہوگا ۔ وہ جوں کا توں رہے گا ۔سو نکلیے ( نکل+یے) ، سنبھلیے (سنبھل+یے) ، سمجھیے (سمجھ+یے) وغیرہ سب کا وزن فعولن ہوگا ۔ فاعلن میں نہیں بدل جائے گا ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ! ندا فاضلی کا شعر لا جواب ہے

یہاں معلومات میں اضافہ ہوا ہے. آپکا بہت شکریہ. مزید اساتیذ کی آراء کا انتظار رہے گا
اساتیذ اردو کا لفظ نہیں ہے ۔ اردو میں قطعی مستعمل نہیں ہے ۔ اس کے بجائے اساتذہ کہا جاتا ہے ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
اساتذہ تو حقہ پینے کے بریک پر گئے ہوئے ہیں ۔ میں چپکے سے جواب دے دیتا ہوں ۔
سمجھیے کا وزن فعولن ہے فاعلن نہیں ۔ اہلِ پنجاب اسے فاعلن کے وزن پر بولتے ہیں ۔ میڈیا پر اسی طرح بولے جانے کے سبب اب شاید اور لوگ بھی فاعلن کے طرز پر بولنے لگے ہوں ۔
قاعدہ یہ ہے کہ فعل کا صیغۂ امر فعل کا مصدر ہو تا ہے ۔ یعنی سمجھ ، نکل ، اُتر ، سنبھل ، اُچھل وغیرہ یہ سب مصدر ہیں ۔ جب صیغۂ امر کے آگے احترام کے لئے "یے" کا اضافہ کیا جائے گا تو مصدر میں کوئی تغیر نہیں ہوگا ۔ وہ جوں کا توں رہے گا ۔سو نکلیے ( نکل+یے) ، سنبھلیے (سنبھل+یے) ، سمجھیے (سمجھ+یے) وغیرہ سب کا وزن فعولن ہوگا ۔ فاعلن میں نہیں بدل جائے گا ۔
آپ کسر نفسی سے کام لیتے ہیں ورنہ کمال کے شاعر ہیں. چلیں شاعر تو کمال کے ہیں اوپر سے کمال کے انسان بھی ہیں. آپ کی وجہ سے بڑی خشگوار تبدیلی آتی ہے محفل میں ۔ شائستہ، پر مزاح لہجے میں بات کرتے، دل موہ لینے والے گفتگو کرتے، سیدھا دل میں گھر کرتے ہیں:) ویسے یہ سارا شکریہ معلومات دینے کا بھی ہے:)
 

الف عین

لائبریرین
سمجھیے کو فاعلن کے طور ہر بھی کوئی کہتا ہے یا باندھتا ہے تو بالکل غلط ہے، میں نے کسی کو اس طرح بولتے ہوئے بھی نہیں سنا!
 

سیما علی

لائبریرین
ہو کوئی تدبیر، خوئے یار سمجھیے
گر نہ سمجھ آئے، بار بار سمجھیے

یہ دلِ صد ناز، تار تار سمجھیے
راہِ محبت ہے خاردار، سمجھیے!

بسکہ ہیں نادان ہم، جو کچھ بھی نہ سمجھے
آپ ذرا ٹھہرے ہوشیار، سمجھیے!

آتشِ نوکِ قلم سے ہیں سیہ اوراق
خامہ سمجھیے، کہ اب شرار سمجھیے

کھل نہ سکا ہم پہ رازِ عالمِ ہستی
فہم ہے دشوار، گو ہزار سمجھیے

دُھن کبھی چھیڑے گا کوئی بربطِ دل پر
آپ ہمیں محوِ انتظار سمجھیے

آج ہے عکسِ حیات، کل نہیں ہو گا
آئنہء جاں کو مستعار سمجھیے
واہ واہ بے حد کمال!!!!!
 
Top