قیصرانی
لائبریرین
زکریا بھائی ہولو کاسٹ کی بات پر مجھے آپ سے اختلاف ہے۔ میں نے ایک یا ڈیڑھ سال قبل روزنامہ نوائے وقت ملتان میں کالم پڑھا تھاجس میں کالم نگار نے برطانیہ کے وزیرٍ اعظم چرچل کی، امریکی جنرل جو اس دور میں امریکہ کی فوجوں کی کمان کر رہے تھے اور فرانسیسی جنرل کی کتابوں کے حوالے دئے تھے۔ چرچل کی کتاب جو کہ آج کل ماڈرن یورپ کے بارے میں لکھی گئی سب سےمستند کتاب مانی جاتی ہے اور لکھنے والا بھی جرمنوںکا مخالف تھا، اس نے اس بات کا کہیں ذکر نہیںکیا۔ باقی امریکی اور فرانسیسی جنرلوں نے بھی اپنی کتب اور یاداشتوں میں اس واقعے کا ذکر نہیں کیا۔ حالانکہ یہ کتب جنگٍ عظیم دوم کے بعد کئی سال کے دوران لکھی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جرمنی میں ایک نازی کیمپ کے مقام پر جہاں یہودیوں کی یاد میں کتبہ نصب تھا اس پر 60 لاکھ یہودیوں کا ذکر تھا کہ وہ مارے گئے۔ چند سال بعد اسے کاٹ کر 26 لاکھ کیا گیا۔ پھر 20 لاکھ اور پھر کرتے کرتے اب وہ لگ بھگ 1 لاکھ کے قریب کا ہندسہ لکھا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہودیوں کے انسائکلوپیڈیا کا حوالہ دے کر لکھا تھا کہ اس انسائیکلو پیڈیا کے مطابق اس وقت پورے یورپ میں 60 لاکھ یہودی نہیں تھے۔ کیاجرمنوں نے پوری دنیا سے اس مقصد کے لئے یہودی اکٹھے کیئے؟ اگر کئے تو پھر ان کو مارا کیوںنہیں؟اس کے علاوہ جنگ سے قبل کی یہودی اور جنگ کے 10 یا 20 سال کے بعد بھی جو یہودیوں کی آبادی تھی، اس میں نارمل اضافہ ہوا ہے۔ اگر یہ ہولو کاسٹ کی حقیقت تھی تو یہ حیران کن معمہ(کہ اتنے سارے یہودی کہاں سے آئے، اور جنگ کے 10 یا 20 سال میں ان کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ اس کے نہ صرف 60 لاکھ مارے گئے یہودیوں کی کمی کوپورا کیا بلکہ مزید بھی اضافہ کیا)کیسے حل کیا جائے گا؟یہ بات درست ہے کہ یورپ نے ان سے جان چھڑانے کے لئے ان کو اسرائیل کی صورت میں اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر یہ کوشش اپنا گناہ دوسروں پر منڈھنے والی بات ہے۔زکریا نے کہا:سیفی کیا آپ میں اظہر الحق کی روح سرایت کر گئی ہے؟
سیفی نے کہا:میرے سوال کا مقصد یہ تھا کہ اگر مسلمانوں کی بنیادوں پر اسطرح کے رکیک حملوں کا سلسلہ جاری رہے اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسلامی حکومتیں اس پر کچھ قابلِ قدر ردعمل نہ کریں تو کیا تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگ اس طرح کے اقدامات پر مجبور نہیں ہوں گے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک شخص کے والدین پر کوئی حملہ کرے اور قانون۔۔۔۔۔۔۔ مجرم کی پشت پناہی کر رہا ہو تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کو عقل لاکھ دلیلیں دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ جو کرتا ہے اس پر اخلاقیات اس کو گرفت نہیں کر سکتیں۔۔۔۔
سیفی: آپ جذباتیت میں آگے نکلتے جا رہے ہیں۔ کیا یہ جذباتیپن صرف پڑھے لکھے مڈال اور اپرمڈل کلاس کے مسلمانوں میں آ رہا ہے؟ کیا صرف انہیں احساس ہے اپنے مذہب کا؟
پھر توازن کی بھی بات ہے۔ اگر کوئی میرے والدین کو گالی دے اور میں چھرا لے آؤں تو یہ کہاں کی عقلمندی ہے؟ اگر کسی نے مجھے اور میرے والدین کو بھوکا اور غریب رکھا ہوا ہے تو چھریوں سے تو معاملہ حل نہیں ہو گا۔
کیا وجہ ہے کہ یہی جذباتیت ان مسلمانوں کو تعلیم، ترقی، فلاح و بہبود وغیرہ پر راغب نہیں کرتی۔
میرے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہولوکاسٹ۔۔۔۔۔۔سچ ہے یا جھوٹ (ہمیں اس سے سروکار نہیں)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کو جھوٹ کہنے پر قید و بند کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ اس سے نفرت پھیلتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو کیا سوا ارب سے زائد مسلمانانِ عالم کے اس پیارے پیغمبر کے توہین آمیز خاکے چھاپنے والوں ۔۔۔۔کے لئے کوئی تعزیر نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے صرف اس ایک سوال کا جواب دے دیں
آپ نے ہولوکاسٹ کے سچ یا جھوٹ کا لکھ کر اپنے اصلی رنگ تو دکھا ہی دیئے ہیں اب اس پر کیا بات کریں۔ خیر کوشش کرتا ہوں۔
پہلی بات یہ کہ میں ہولوکاسٹ سے انکار کو جرم نہیں سمجھتا مگر انکار کرنے والے کو حیوان سے بدتر ضرور کہوں گا۔
دوسری بات یہ کہ یہ قانون ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ یہودیوں کے خلاف یورپ میں تعصب صدیوں سے ہے۔ Pogroms یورپ کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ پھر چند ہی سال میں یورپ کی زیادہتر یہودی آبادی کو اس طرح کھلے عام انتہائی ظلم سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ آج ان ممالک کو جہاں حکومت نے یہ کیا اور اس وقت لوگوں نے آواز نہیں اٹھائی کچھ اپنے evil کرتوتوں کا احساس ہوا ہے۔ اس کا ایک نتیجہ اس طرح کے قانون ہیں۔ میرے خیال سے یہ شاید دوسری جنگ عظیم کے بعد ضروری تھا مگر آج اس قانون کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ شاید نقصان ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ان قوانین کے پیچھے ایک لمبی تاریخ ہے۔
آپ ہولوکاسٹ سے انکار اور حضرت محمد کی گستاخی کو ایک زمرے میں ڈال رہے ہیں۔ میرے خیال سے یہ غلط ہے۔ پیغمبر اسلام کی گستاخی غلط سہی اور مسلمانوں کا دل توڑنے والی سہی مگر اس کا مقابلہ اس بات سے نہیں کیا جا سکتا جہاں آپ کے مذہب اور نسل ہی کو مکمل طور پر مٹانے کی کوشش کی گئی ہو۔
اور اگر قانون مجرم کی پشت پناہی کرتا ہے تو تنگ آمد بجنگ آمد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کئی عامر چیمہ پیدا ہوتے رہیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دنیا دیوانہ کہتی ہے تو کہتی رہے۔۔۔۔۔۔۔۔محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پر جان نچھاور کرنے والے ۔۔کرتے رہیں گے۔۔۔۔۔۔۔
چاہے اس سے کسی ملک کی معیشت ڈوبتی ہے یا ۔۔۔۔۔۔میز کی دراز میں چھپے ہوئے ۔۔۔۔دھواں دھار روتے ایٹم بم ۔۔۔۔۔۔۔۔کی تیاری میں مدد سے کوئی ہاتھ کھینچے۔۔۔۔۔۔۔۔
اور نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ اصل مسلمان تو وہ ہیں جو انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں، جو اپنے گاؤں، شہر یا ملک کو بہتر کرنے کی کوشش میں مگن ہیں، جو اس دنیا کو انسانوں کے لئے بہتر جگہ بنانا چاہتے ہیں، جو اچھا انسان بننا چاہتے ہیں اور علم اور عمل سے دوسروں کو اسلام سکھا رہے ہیں۔ مگر ہمارے ہیرو کون ہیں؟ قاتل! عامر چیمہ اور علمدین۔ اور اس کے بھی حد درجہ برے لوگ: طالبان، اسامہ بن لادن، وغیرہ۔ یہ دیکھ کر جو ذہن میں آتا ہے وہ “لب پہ آ سکتا نہیں“۔
بے بی ہاتھی