ہوتے رہے اداس کنارے تمام شب (اصلاح)

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ہوتے رہے اداس کنارے تمام شب​
روٹھے رہے تمام ستارے تمام شب​
وعدہ کیا تھا آنے کا آئے نہیں جناب​
روتے رہے یہ خواب ہمارے تمام سب​
وعدے کےباوجود بھی آئے نہیں تھے آپ​
آتے رہے خیال تمہارے تمام شب​
ہر چیز تھی اداس ترے بن جہان میں​
مدہم سے لگ رہے تھے نظارے تمام شب​
خود ہی کہوں کہ آئیں گے خود ہی کہوں نہیں​
ہم خود سے بار بار ہی ہارے تمام شب​
آواز دیں کسی کو تو آتے تھے چھت پہ آپ​
اب کون کب کسی کو پکارے تمام شب​
اک دوسرے سے شرط لگا کر رہے بیدار​
میں اور آسماں کے ستارے تمام شب​
خرم یہ کیا کہوں کہ کٹی رات کس طرح​
ہم منتظر رہے ہیں تمہارے تمام شب​
خرم ابن شبیر​
 
بہت عمدہ غزل ہے۔ داد قبول فرمائیں۔
ان اشعار کو دیکھیں۔

وعدے کےباوجود بھی آئے نہیں تھے آپ
آتے رہے خیال تمہارے تمام شب
خود ہی کہوں کہ آئیں گے خود ہی کہوں نہیں
ہم خود سے بار بار ہی ہارے تمام شب

ان دونوں اشعار میں شتر گربہ ہے۔
نظرِ ثانی فرمائیں۔
 
ہوتے رہے اداس کنارے تمام شب​
روٹھے رہے تمام ستارے تمام شب​
وعدہ کیا تھا آنے کا آئے نہیں جناب​
روتے رہے یہ خواب ہمارے تمام سب​
وعدے کےباوجود بھی آئے نہیں تھے آپ​
آتے رہے خیال تمہارے تمام شب​
--یہاں پہلے مصرع میں آپ اور دوسرے میں تمہارے فصیح نہیں۔۔ شاید اس ڈھنگ سے لکھیں تو خوب ہو
وعدے کےباوجود بھی آئے نہیں تھے تم
آتے رہے خیال تمہارے تمام شب
ہر چیز تھی اداس ترے بن جہان میں​
مدہم سے لگ رہے تھے نظارے تمام شب​
خود ہی کہوں کہ آئیں گے خود ہی کہوں نہیں​
ہم خود سے بار بار ہی ہارے تمام شب​
آواز دیں کسی کو تو آتے تھے چھت پہ آپ​
اب کون کب کسی کو پکارے تمام شب​
اک دوسرے سے شرط لگا کر رہے بیدار
میں اور آسماں کے ستارے تمام شب​
اس کے وزن کو دیکھیے گا
خرم یہ کیا کہوں کہ کٹی رات کس طرح​
ہم منتظر رہے ہیں تمہارے تمام شب​
خرم ابن شبیر​
بہت عالی غزل ہے۔۔ بس چند نکات کی نشاندہی کردیکھتے ہیں کہ اس میں ہماری اصلاح بھی درکار ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
پہلی بات درست تھی، بیدار واقعی درست تقطیع نہیں ہو رہا ہے، اس کی ی گر رہی ہے۔ صیغے کی بات بھی درست ہے مہدی کی۔ بہر ھال کاپی کر لی ہے
 
جی استاد جی یہ بیدار غلط ہی ہے.

یہ جو دوسرا شعر ہے

خود ہی کہوں کہ آئیں گے خود ہی کہوں نہیں
ہم خود سے بار بار ہی ہارے تمام شب

اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟
 
جی استاد جی یہ بیدار غلط ہی ہے.

یہ جو دوسرا شعر ہے

خود ہی کہوں کہ آئیں گے خود ہی کہوں نہیں
ہم خود سے بار بار ہی ہارے تمام شب

اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟
جی روانی میں کچھ گڑ بڑ سی ہے۔۔۔ اور دوسرے میں ہی زائد لگ رہی ہے۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بہت عمدہ غزل ہے۔ داد قبول فرمائیں۔
ان اشعار کو دیکھیں۔

وعدے کےباوجود بھی آئے نہیں تھے آپ
آتے رہے خیال تمہارے تمام شب
خود ہی کہوں کہ آئیں گے خود ہی کہوں نہیں
ہم خود سے بار بار ہی ہارے تمام شب

ان دونوں اشعار میں شتر گربہ ہے۔
نظرِ ثانی فرمائیں۔
جی آپ نے درست فرمایا یہ شتر گربہ مجھے بہت تنگ کرتا ہے:)
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بہت عالی غزل ہے۔۔ بس چند نکات کی نشاندہی کردیکھتے ہیں کہ اس میں ہماری اصلاح بھی درکار ہے۔
جی مہد نقوی صاحب آپ کی صاحب خوب ہے میں اس کو درست کر دیتا ہوں اور بیدار والے مصرعہ میرے مطابق درست تھا لیکن آپ کے مراسلے کے بعد غور کیا تو کچھ فرق لگا اور پھر استادِ محترم کے مراسلے کے بعد تو تصدیق ہو گی شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
خود ہی کہوں کہ آئیں گے خود ہی کہوں نہیں
ہم خود سے بار بار ہی ہارے تمام شب
درست تو ہے، لیکن ’ہی ہا‘ جو ہِہا تقطیع ہوتا ہے، ہاہا ہی ہی جیسا لگتا ہے، اس لئے اعتراض کیا گیا ہے شاید۔
 
خود ہی کہوں کہ آئیں گے خود ہی کہوں نہیں
ہم خود سے بار بار ہی ہارے تمام شب
درست تو ہے، لیکن ’ہی ہا‘ جو ہِہا تقطیع ہوتا ہے، ہاہا ہی ہی جیسا لگتا ہے، اس لئے اعتراض کیا گیا ہے شاید۔

استاد جی اس شعر میں پہلا مصرعہ
خود ہی کہوں یعنی "میں کہوں".

اور دوسرا مصرعہ
"ہم خود سے بار بار"

میں اور ہم کی وجہ سے لفظی تو نہیں بلکہ معنوی شتر گربہ ہے.
جیسے جرات کا ایک شعر

مت یہ گھبرا کر کہو اب یاں سے بندہ جائے گا
کوئی مر جائے گا صاحب آپ کا کیا جائے گا.

اس شعر میں بھی یہی سقم ہے.
 

الف عین

لائبریرین
ہاں واقعی بسمل، میرا اس طرف دھیان نہیں گیا تھا۔
شام، اس مثال سے ہی سمجھ میں آ جائے گا۔ ’کہوں‘ میں صیغہ واحد متکلم ’میں‘ ہے۔ جب کہ دوسرے مصرع میں ’ہم‘ جمع متکلم ہے۔ دونوں مصرعوں میں ایک ہی شخص کے لئے اسے استعمال کیا گیا ہے۔
 
Top