ہوتے رہے اداس کنارے تمام شب (اصلاح)

الف عین

لائبریرین
ہوتے رہے اداس کنارے تمام شب
روٹھے رہے تمام ستارے تمام شب
//شعر تکنیکی طور پر درست، لیکن دو لخت ہے

وعدہ کیا تھا آنے کا آئے نہیں جناب
روتے رہے یہ خواب ہمارے تمام سب
//آئے نہیں جناب‘ کا ٹکڑا اچھا نہیں لگ رہا اور بات بھی واضح نہیں ہو رہی،
وعدہ کیا تھا آنے کا لیکن نہ آئے وہ

وعدے کےباوجود بھی آئے نہیں تھے آپ
آتے رہے خیال تمہارے تمام شب
//یہ شعر بھی مفہوم کے حساب سے اوپر والے کا تتمہ ہے! پہلے مصرع میں آپ کا صیغہ اور دوسرے میں تم کا صیغہ بھی غلط ہے۔ اس کا خیال یوں بدلا جا سکتا ہے
تو کیا ہوا جو وعدہ کیا اور نہ آئے تم
آتے رہے خیال تمہارے تمام شب

ہر چیز تھی اداس ترے بن جہان میں
مدہم سے لگ رہے تھے نظارے تمام شب
//مدھم نظارے؟ اس کے علاوہ تمام شب‘ کی مناسبت سے یہاں ماضی کی جگہ حال کی ضرورت ہے
غمگین تھی ترے بنا ہر شے جہان میں
لگتے رہے اداس نظارے تمام شب

خود ہی کہوں کہ آئیں گے خود ہی کہوں نہیں
ہم خود سے بار بار ہی ہارے تمام شب
//جیسا بسمل کہ چکے ہیں کہ اس مصرع میں یہ سقم ہے کہ صیغہ الگ الگ ہے دونوں مصرعوں میں۔
خود ہی کہیں کہ آئیں گے خود ہی کہیں نہیں
سے سقم دور ہو سکتا ہے

آواز دیں کسی کو تو آتے تھے چھت پہ آپ
اب کون کب کسی کو پکارے تمام شب
//درست

اک دوسرے سے شرط لگا کر رہے بیدار
میں اور آسماں کے ستارے تمام شب
//کیا ایک ہی ستارہ تھا جو دونوں کے درمیان شرط لگی؟ بیدار‘ کا تلفظ بھی غلط ہے، یہاں بیدار کی ی کا اسقاط ہے، جو درمیانی ی کے ساتھ جائز نہیں۔ یوں کر دو:
آپس میں جیسے شرط لگا، جاگتے رہے

خرم یہ کیا کہوں کہ کٹی رات کس طرح
ہم منتظر رہے ہیں تمہارے تمام شب
//درست
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
ہوتے رہے اداس کنارے تمام شب​
روٹھے رہے تمام ستارے تمام شب​
وعدہ کیا تھا آنے کا لیکن نہ آئے وہ​
روتے رہے یہ خواب ہمارے تمام سب​
تو کیا ہوا جو وعدہ کیا اور نہ آئے تم​
آتے رہے خیال تمہارے تمام شب​
غمگین تھی ترے بنا ہر شے جہان میں​
لگتے رہے اداس نظارے تمام شب​
خود ہی کہیں کہ آئیں گے خود ہی کہیں نہیں​
ہم خود سے بار بار ہی ہارے تمام شب​
آواز دیں کسی کو تو آتے تھے چھت پہ آپ​
اب کون کب کسی کو پکارے تمام شب​
آپس میں جیسے شرط لگا، جاگتے رہے​
میں اور آسماں کے ستارے تمام شب​
خرم یہ کیا کہوں کہ کٹی رات کس طرح​
ہم منتظر رہے ہیں تمہارے تمام شب​
 
Top