ہن تے ناپیا گیا اے از قلم نیرنگ خیال

اف فوہ! ہم تو اسے پنجابی کا مضمون سمجھ کر پڑھنے میں آلکسی سے کام لے رہے تھے۔

بہت مزے دار مضمون ہے۔ خوش رہیے۔ ہمارا بھی جی یہی چاہتا ہےکہ روز روز کڑھنے کی بجائے ایک مرتبہ جی کڑا کرکے اپنے ہم قوموں کے خلاف ایک دھماکے دار مضمون لکھ ماریں۔ اب آپ نے اتنا شاندار مضمون لکھ کر ہمیں ہمت دلائی ہے تو دیکھتے ہیں۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اف فوہ! ہم تو اسے پنجابی کا مضمون سمجھ کر پڑھنے میں آلکسی سے کام لے رہے تھے۔

بہت مزے دار مضمون ہے۔ خوش رہیے۔ ہمارا بھی جی یہی چاہتا ہےکہ روز روز کڑھنے کی بجائے ایک مرتبہ جی کڑا کرکے اپنے ہم قوموں کے خلاف ایک دھماکے دار مضمون لکھ ماریں۔ اب آپ نے اتنا شاندار مضمون لکھ کر ہمیں ہمت دلائی ہے تو دیکھتے ہیں۔۔۔
آپ کے مضمون کا انتظار رہے گا سر۔۔۔ آپ جیسے کہنہ مشق اساتذہ کی تحاریر پڑھ پڑھ کر تو ہم سیکھ رہے ہیں۔ جلدی کیجیے۔
 

arifkarim

معطل
پاکستان میں کتنے لوگ ہیں جو اسلامی تعلیمات سے بہرہ مند ہیں؟
اسلامی تعلیم ضروری نہیں وہی ہو جومدرسوں اسکولوں میں دی جائے۔ پاکستان میں چونکہ اکثر بچوں کی گھریلو پرورش اسلامی تعلیم کے زیر سایہ ہوتی ہے یوں یہ کہنا درست نہیں کہ ملک میں اکثریت اسلامی تعلیمات یا اقدار سے نابلد ہے۔ جو اچھے اقدار ہم بچوں کو سکھاتے ہیں وہی وہ بڑے ہو کر اپنے بچوں میں منتقل کرتے ہیں۔ اور دین نسلوں تک اسی طرح پھیلتا آیا ہے۔ ہمارے معاشروں میں یہ تربیت کا کام عموماً مائیں کرتی ہیں۔

اگر یہ جملہ درست نہیں ہے۔ تو کیا ہم ایسے نسل پروان چڑھا رہے ہیں جو مذکور موضوع پر دسترس رکھتی ہے؟
:)

ایک انتہائی اہم بات کہ میری تحریر کا موضوع میرا معاشرہ ہے۔ جس سے مراد محض پاکستانی معاشرہ ہے۔ جبکہ آپ کے تمام تر جوابات مسلم ثقافت اور رہن سہن کے مطابق ہیں۔ مسلم ثقافت اور ارتقاء میرا موضوع اس وقت نہیں ہے۔ اور نہ ہی مسلم زوال کا سبب پاکستانی قوم ہے۔
چونکہ پاکستان بھی امت مسلمہ کا حصہ ہے یوں وہاں بھی وہی اخلاقی مسائل ہیں جیسا کہ بہت سے دیگر مسلم معاشروں میں عام ہیں۔ جیسے یہاں مغرب کے مقامی لوگوں کیلئے 'غیرت کے نام پر قتل' اور جبرً شادیاں ایک بالکل انجان سی چیز تھی۔ جب یہاں ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی دوسری پیڑی جوان ہوگئی تو پھر یہاں بھی جوان لڑکیوں کیساتھ وہی کچھ ہونے لگا جو ہمارے آبائی معاشروں میں صدیوں سے ہوتا چلا آیا ہے۔ جس پر میڈیا میں کافی شور شرابا ہوا اور حکومت نے اس اخلاقی گراوٹ کو ختم کرنے کیلئے اسکولوں میں آگہی مہم چلائی اور مسلمان نوجوانوں کو انکے حق حقوق بتائے اور ساتھ میں ایک ہیلپ لائن بھی کھول دی کہ اگر انکے ماں باپ جبراً شادی کیلئے مجبور کریں تو وہ فوراً متعلقہ اداروں سے رابطہ کریں اور اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرلیں۔ یوں وقت وقت گزرنے کیساتھ اس مہم کے نتیجہ میں جبراً شادیوں کےکیسز میں خاصی کمی واقعہ ہوئی البتہ 'غیرت کے نام پر قتل' کے کیس ابھی بھی اکا دکا میڈیا میں نظر آتے رہتے ہیں۔ شروع شروع میں میں سمجھتا کہ شاید یہ معاشرتی بدعت صرف پاکستان یا بھارت تک محدود ہے لیکن یہاں آنے کے بعد پتا چلا کہ یہی کام عراق، شام، فلسطین، ترکی وغیرہ کے مسلم معاشروں میں بھی خاصا مقبول ہے۔
اور صرف ایک یہی معاشرتی برائی نہیں ہے جو یہاں باقاعدہ ہمارے دیسی علاقوں سے درآمد ہوئی ہے۔ یہاں کے مقامی لوگ مسلمانوں کی آمد سے قبل ٹیکس چوری اور کرپشن کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اور اس قسم کےجرائم کی روک تھام کیلئے بنائے گئے ادارے دن بھر مکھیاں مارتے رہتے تھے۔ لیکن پھر 2008 میں انہیں حکومت کی طرف سے 300 ٹیکسی ڈرائیوروں کیخلاف جن میں سے پیشتر کا تعلق پاکستان سے تھا تفتیش کا حکم دیا گیا۔ کچھ ہی مہینوں میں یہ سب گرفتار ہو کر قانون کی گرفت میں آ گئے اور 99 فیصد نے ایک گھنٹے کے اندر اندر ٹیکس چوری، کرپشن اور دیگر غیر قانونی انداز میں پیسے اینٹھنے کا اعتراف کر لیا۔ ایک اندازے کے مطابق ان ٹیکسی ڈرائیورز نے حکومت وقت کو 50 کروڑ نارویجن کرونرز کا نقصان پہنچایا!
ذرا سوچیئے اس ایک معاشی بدکاری کے اسکینڈل نے یہاں کی محض 30،000 آبادی پر مشتمل پاکستانی کمیونیٹی کی ساخت کو مقامی عوام میں کتنا نقصان پہنچایا ہوگا؟ نتیجتاً ٹیکسی کا کام بدنام ہو گیا اور حکومت نے متبادل کمپنیوں کو یہاں جگہ بنانے کی اجازت دے دی جسکے بعد مقابلہ بڑھنے کی وجہ سے بہت سے سابقہ امیر ڈرائیورز اپنی روزی روٹی سے محروم ہو گئے۔ اور جنہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا تھا وہ بھی آٹے کیساتھ دھن کی طرح پس گئے۔
یہ سب یہاں لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کی طرز معاشرت ہی میں اصل فطور چھپا ہے۔ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپکے ارد گرد کا معاشرہ کس قدر حسین و جمیل ہے۔ یہاں کے مقامی ناقدین کہتے ہیں کہ مسلمان مہاجرین اپنی بوسیدہ معاشرت کو مجبوراً چھوڑ کر یہاں مغرب میں کام کاج اور فلاح کی نیت سے آئے اور بجائے یہاں کے اسلامی اقدار جیسے کرپشن اور رشوت سے پاک معاشرہ اپنانے کے اپنی کرپٹ آبائی معاشرت کے کرتوت یہاں بھی نافذ کرنے شروع کر دیجئے جسکی تباہ کاریوں کی وجہ سے وہ اپنے علاقوں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے!!! یہی وہ تلخ حقیقت ہے جس کے بارہ میں لکھتے ہوئے ہاتھ کانپتے ہیں اور یہ یہاں کا Open Secret بھی ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
سب سے پہلی بات کہ میری بات کا محور محض میرا معاشرہ ہے۔ پاکستانی معاشرہ۔ جہاں میں رہتا ہوں۔ ناروے میں کیا ہوتا ہے۔ دیگر مسلم ممالک کی معاشرت کیا ہے۔ نہ میں ان کے عروج کا ذمہ دار ہوں۔ اور نہ مجھے دوسری جگہ پر بیٹھ کر دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کا شوق ہے۔ جبکہ آپ کی تان بار بار اسلام پر ہی آکر ٹوٹ رہی ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے اس سوچ پر کہ کسی بھی کام کی عالم اسلام پر کس طرح ٹھاپ لگائی جا سکتی ہے۔

اسلامی تعلیم ضروری نہیں وہی ہو جومدرسوں اسکولوں میں دی جائے۔ پاکستان میں چونکہ اکثر بچوں کی گھریلو پرورش اسلامی تعلیم کے زیر سایہ ہوتی ہے یوں یہ کہنا درست نہیں کہ ملک میں اکثریت اسلامی تعلیمات یا اقدار سے نابلد ہے۔ جو اچھے اقدار ہم بچوں کو سکھاتے ہیں وہی وہ بڑے ہو کر اپنے بچوں میں منتقل کرتے ہیں۔ اور دین نسلوں تک اسی طرح پھیلتا آیا ہے۔ ہمارے معاشروں میں یہ تربیت کا کام عموماً مائیں کرتی ہیں۔
ملک کی اکثریت مددگار اور مروت کی مالک ہے۔ مہمان نوازی ابھی تک قائم ہے۔ لوگ بزرگوں کے منہ ہی سہی خاموش ہوجاتے ہیں۔ ابھی تک بدلحاظی کا وہ عالم نہیں ہے جو کہ مغربی ممالک کا خاصہ ہے۔ ماں باپ کی بجائے کتوں کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ اور دین الحمداللہ یہاں بہت بہتر حالت میں ہے۔ میرے ان دوستوں کو اس بارے میں پریشان ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ جن کے اپنے معاشرے کی اخلاقی حالت ناگفتہ ہو۔

چونکہ پاکستان بھی امت مسلمہ کا حصہ ہے یوں وہاں بھی وہی اخلاقی مسائل ہیں جیسا کہ بہت سے دیگر مسلم معاشروں میں عام ہیں۔ جیسے یہاں مغرب کے مقامی لوگوں کیلئے 'غیرت کے نام پر قتل' اور جبرً شادیاں ایک بالکل انجان سی چیز تھی۔ جب یہاں ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی دوسری پیڑی جوان ہوگئی تو پھر یہاں بھی جوان لڑکیوں کیساتھ وہی کچھ ہونے لگا جو ہمارے آبائی معاشروں میں صدیوں سے ہوتا چلا آیا ہے۔ جس پر میڈیا میں کافی شور شرابا ہوا اور حکومت نے اس اخلاقی گراوٹ کو ختم کرنے کیلئے اسکولوں میں آگہی مہم چلائی اور مسلمان نوجوانوں کو انکے حق حقوق بتائے اور ساتھ میں ایک ہیلپ لائن بھی کھول دی کہ اگر انکے ماں باپ جبراً شادی کیلئے مجبور کریں تو وہ فوراً متعلقہ اداروں سے رابطہ کریں اور اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرلیں۔ یوں وقت وقت گزرنے کیساتھ اس مہم کے نتیجہ میں جبراً شادیوں کےکیسز میں خاصی کمی واقعہ ہوئی البتہ 'غیرت کے نام پر قتل' کے کیس ابھی بھی اکا دکا میڈیا میں نظر آتے رہتے ہیں۔ شروع شروع میں میں سمجھتا کہ شاید یہ معاشرتی بدعت صرف پاکستان یا بھارت تک محدود ہے لیکن یہاں آنے کے بعد پتا چلا کہ یہی کام عراق، شام، فلسطین، ترکی وغیرہ کے مسلم معاشروں میں بھی خاصا مقبول ہے۔
اگر سب لوگ عریاں ہوں تو کپڑے نہیں پہننے چاہیے۔۔۔ میں بھی اس بات کا قائل ہوں۔ آپ اپنے معاشرے میں سدھار میں کردار ادا کیجیے۔ وہاں کے لوگ جو بدکرداری اور بدفعلی کرتے ہیں۔ ان کے کام یہاں بیٹھوں کے سر منڈھنے چھوڑیے۔ اگر آپ وہاں کل کسی جرم میں پکڑے جائیں گے تو بھی لوگ پاکستان کو ہی گالیاں دیں گے۔ جو کہ سراسر ظلم ہوگا۔

اور صرف ایک یہی معاشرتی برائی نہیں ہے جو یہاں باقاعدہ ہمارے دیسی علاقوں سے درآمد ہوئی ہے۔ یہاں کے مقامی لوگ مسلمانوں کی آمد سے قبل ٹیکس چوری اور کرپشن کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اور اس قسم کےجرائم کی روک تھام کیلئے بنائے گئے ادارے دن بھر مکھیاں مارتے رہتے تھے۔ لیکن پھر 2008 میں انہیں حکومت کی طرف سے 300 ٹیکسی ڈرائیوروں کیخلاف جن میں سے پیشتر کا تعلق پاکستان سے تھا تفتیش کا حکم دیا گیا۔ کچھ ہی مہینوں میں یہ سب گرفتار ہو کر قانون کی گرفت میں آ گئے اور 99 فیصد نے ایک گھنٹے کے اندر اندر ٹیکس چوری، کرپشن اور دیگر غیر قانونی انداز میں پیسے اینٹھنے کا اعتراف کر لیا۔ ایک اندازے کے مطابق ان ٹیکسی ڈرائیورز نے حکومت وقت کو 50 کروڑ نارویجن کرونرز کا نقصان پہنچایا!
جی بالکل۔ ناروے والے لوگ تو دودھ کے دھلے تھے۔ اور دنیا سے سیدھے جنت میں جاتے تھے۔ پھر پاکستان سے آپ جیسے کچھ پاکستانی وہاں پہنچ گئے۔ اور ان کےلئے جہنم کا سامان کرنے لگے۔ حد ہے۔ اگر کوئی آدمی کسی معاشرے میں گناہ کرتا ہے تو وہ اسی معاشرے کا سزاوار ہوتا ہے نہ کہ اس سے ہزاروں میل دور بیٹھے لوگ بھی ان کے طعنے سنیں۔ عجب زنانہ طرز فکر ہے۔

ذرا سوچیئے اس ایک معاشی بدکاری کے اسکینڈل نے یہاں کی محض 30،000 آبادی پر مشتمل پاکستانی کمیونیٹی کی ساخت کو مقامی عوام میں کتنا نقصان پہنچایا ہوگا؟ نتیجتاً ٹیکسی کا کام بدنام ہو گیا اور حکومت نے متبادل کمپنیوں کو یہاں جگہ بنانے کی اجازت دے دی جسکے بعد مقابلہ بڑھنے کی وجہ سے بہت سے سابقہ امیر ڈرائیورز اپنی روزی روٹی سے محروم ہو گئے۔ اور جنہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا تھا وہ بھی آٹے کیساتھ دھن کی طرح پس گئے۔
یہ سب یہاں لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کی طرز معاشرت ہی میں اصل فطور چھپا ہے۔ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپکے ارد گرد کا معاشرہ کس قدر حسین و جمیل ہے۔ یہاں کے مقامی ناقدین کہتے ہیں کہ مسلمان مہاجرین اپنی بوسیدہ معاشرت کو مجبوراً چھوڑ کر یہاں مغرب میں کام کاج اور فلاح کی نیت سے آئے اور بجائے یہاں کے اسلامی اقدار جیسے کرپشن اور رشوت سے پاک معاشرہ اپنانے کے اپنی کرپٹ آبائی معاشرت کے کرتوت یہاں بھی نافذ کرنے شروع کر دیجئے جسکی تباہ کاریوں کی وجہ سے وہ اپنے علاقوں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے!!! یہی وہ تلخ حقیقت ہے جس کے بارہ میں لکھتے ہوئے ہاتھ کانپتے ہیں اور یہ یہاں کا Open Secret بھی ہے۔
ہم مسلمانوں نہیں آپ مسلمانوں کی طرز معاشرت میں فطور چھپا ہے۔ آپ ہیں وہاں۔۔۔ جن کو نقصان ہیں۔ ہم اپنے ملک میں آزاد بیٹھے ہیں۔ ہم کو طعنے نہیں ملتے۔ ہم اپنے معاشرے میں ہونے والی کرپشن کا الزام ناروے میں بیٹھے لوگوں پر نہیں لگاتے۔ اور جو لوگ یہاں سے چھوڑ کر گئے ہیں۔ یقینا ان کو اپنے طرز فکر پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جب آپ نے ایک چیز کو چھوڑ دیا۔ اور آپ کو پتا ہے آپ نے واپس نہیں آنا۔ تو پھر ہر بار آپ کو مسلم مسلم کی رٹ لگا کر طرز معاشرت کو گالیاں دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور اگر آپ کو اس طرز معاشرت سے اتنی ہی گھن آتی ہے۔ تو کوئی متبادل راہ عمل اختیار کیجیے۔آپ صرف اپنی قبر میں جوابدہ ہیں۔ دوسروں کی نہیں۔

نوٹ: تدوین کی گئی۔ :)
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
عجب زنانہ طرز فکر ہے۔
ہم مسلمانوں نہیں آپ مسلمانوں کی طرز معاشرت میں فطور چھپا ہے۔ آپ ہیں وہاں۔۔۔ جن کو نقصان ہیں۔ ہم اپنے ملک میں آزاد بیٹھے ہیں۔ ہم کو طعنے نہیں ملتے۔ ہم اپنے معاشرے میں ہونے والی کرپشن کا الزام ناروے و فن لینڈ میں بیٹھے لوگوں پر نہیں لگاتے۔ اور جو لوگ یہاں سے چھوڑ کر گئے ہیں۔ یقینا ان کو اپنے طرز فکر پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جب آپ نے ایک چیز کو چھوڑ دیا۔ اور آپ کو پتا ہے آپ نے واپس نہیں آنا۔ تو پھر ہر بار آپ کو مسلم مسلم کی رٹ لگا کر طرز معاشرت کو گالیاں دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور اگر آپ کو اس طرز معاشرت سے اتنی ہی گھن آتی ہے تو کسی کلیسا میں جا کر مقدس پانی سے نہائیے۔ اور ان تمام طعنوں سے جان چھڑا لیجیے جو آپ کو مسلم ہونے کے نام پر دیے جاتے ہیں۔
آپ سے ایسی توقع تو نہیں تھی، لیکن خیر :)
 

نایاب

لائبریرین
شاہ جی ایک تو میں آپ کے تبصرے ہی سمجھتا رہ جاتا ہوں۔۔۔۔ :)
آپ کی محبت ہے شاہ جی۔۔۔ دعا دیتے رہا کریں۔ :)
مجبوری سی مجبوری ہے خیال بھائی کہ " الجھا ہوا سا کوئی مجھ میں ہے "
سو سلجھی سیدھی بات کیسے ممکن ۔۔۔۔
بہت دعائیں
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
آپ سے ایسی توقع تو نہیں تھی، لیکن خیر :)
دن رات اسلام کو گالیاں سن سن کر پک گیا ہوں۔۔۔ اگر اتنے ہی اکتائے ہیں لوگ تو اپنا اور دوسروں کو بھلا کیوں نہیں کرتے۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسلام وہ ہے جو میری ذات کے اعمال ہے تو اس کی سوچ اور سمجھ بوجھ کو سلام ہے۔ آپ کو برا لگا۔ ہم مدون کر دیتے ہیں مراسلہ۔۔۔۔ ہم نے اپنی طرف سے نیکی کی تھی۔
فن لینڈ کا نام ہم نے اس لئے لکھا تھا کہ کچھ عرصہ قبل ہماری آنکھوں کے سامنے سے ایک سروے گزرا تھا۔ جس میں دس ہزار لڑکیوں سے ایک سوال پوچھا گیا۔ اور ان میں سے 87فیصد نے اس کا مثبت جواب دیا۔ خیر۔۔۔۔
 

arifkarim

معطل
سب سے پہلی بات کہ میری بات کا محور محض میرا معاشرہ ہے۔ پاکستانی معاشرہ۔ جہاں میں رہتا ہوں۔ ناروے میں کیا ہوتا ہے۔ دیگر مسلم ممالک کی معاشرت کیا ہے۔ نہ میں ان کے عروج کا ذمہ دار ہوں۔ اور نہ مجھے دوسری جگہ پر بیٹھ کر دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کا شوق ہے۔ جبکہ آپ کی تان بار بار اسلام پر ہی آکر ٹوٹ رہی ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے اس سوچ پر کہ کسی بھی کام کی عالم اسلام پر کس طرح ٹھاپ لگائی جا سکتی ہے۔
اگر معاشرے کی جائز تنقید اس پر کیچڑ اچھالنا ہے تو اوپر مثبت بحث و مباحثہ اور برداشت والا دعویٰ تو دھرا کا دھرا ہی رہ گیا۔ میری اسلام سے کوئی دشمنی یا اختلاف نہیں ہے البتہ مسلم اکثریت ممالک سے یقیناً ہے جو نام تو اسلام کا نام لیتے ہیں لیکن اسلامی طرز معاشرت ان میں دور دور تک نہیں پائے جاتے۔ مجھے اعتراض یہ ہے کہ جب اسلامی اقدار کو معاشرے میں اپنا نہیں سکتے تو اسلام کا نام لیکر اسے بدنام کیوں کرتے ہیں کہ ہم تو بڑی شریعت پر چل رہے ہیں۔ :(

ملک کی اکثریت مددگار اور مروت کی مالک ہے۔ مہمان نوازی ابھی تک قائم ہے۔ لوگ بزرگوں کے منہ ہی سہی خاموش ہوجاتے ہیں۔ ابھی تک بدلحاظی کا وہ عالم نہیں ہے جو کہ مغربی ممالک کا خاصہ ہے۔ ماں باپ کی بجائے کتوں کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ اور دین الحمداللہ یہاں بہت بہتر حالت میں ہے۔ میرے ان دوستوں کو اس بارے میں پریشان ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ جن کے اپنے معاشرے کی اخلاقی حالت ناگفتہ ہو۔
یہ سب باتیں حقائق سے عاری ہیں اور دیسی ممالک میں مغربی تعصب کی وجہ سے پھیلی ہوئی ہیں۔ کتے تو قائد اعظم کے پاس بھی گھر وں میں پالے گئے تھے۔ اسکا بہترین طرز معاشرت سے کوئی تعلق نہیں۔
جہاں تک والدین اور بڑوں کی عزت کا سوال ہے تو وہ یہاں کی جاتی ہے۔ اور اکثریت کا شادی کے بعد بھی اپنے والدین سے تعلق رہتا ہے۔ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ اپنے بڑھاپے کے دنوں میں میں تمام مغربیوں کو اولڈ ہومز میں بھیج دیا جاتا ہے۔ میرا بھائی خود ایک ایسے ہی اولڈ ہوم میں کام کر چکا ہے اور اسکے مطابق وہاں وہی داخل ہو سکتا ہے جسکی کفالت اسکے خاندان سے کوئی نہ کرسکتا ہو، تب حکومتی سطح پر اسکی کفالت کی 'ذمہ داری' لی جاتی ہے تاکہ اسکو اپنے آخری دنوں میں کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔

اگر سب لوگ عریاں ہوں تو کپڑے نہیں پہننے چاہیے۔۔۔ میں بھی اس بات کا قائل ہوں۔ آپ اپنے معاشرے میں سدھار میں کردار ادا کیجیے۔ وہاں کے لوگ جو بدکرداری اور بدفعلی کرتے ہیں۔ ان کے کام یہاں بیٹھوں کے سر منڈھنے چھوڑیے۔ اگر آپ وہاں کل کسی جرم میں پکڑے جائیں گے تو بھی لوگ پاکستان کو ہی گالیاں دیں گے۔ جو کہ سراسر ظلم ہوگا۔
پھر وہی تعصب سے بھرپور فضول بات۔ یہاں کا موسم اکثر سرد رہتا ہے۔ ستمبر سے مئی تک خاصی ٹھنڈ ہوتی ہے۔ اس دوران کہیں بھی آپکو کم کپڑے زیب تن کئے ہوئے لوگ نہیں ملیں گے۔ جون سے اگست تک گرم موسم کی شدت سے بچنے کیلئے لوگ کھلے ڈلے ہو کر پھرتے ہیں۔ اور اگر وہ کسی کو جانی نقصان نہیں پہنچا رہے یا ایزا نہیں دے رہے تو ہمیں کیا تکلیف ہے انکے لباس سے؟ جب انہیں ہمارے شلوارقمیص سے کوئی مسئلہ نہیں تو ہم کون ہوتے ہیں انہیں مجبور کرنے والے کہ گرمیوں میں بھی سردیوں والا پورا لباس پہنو!
جہاں تک جرائم پیشہ افراد کا تعلق ہے تو یہاں ایسے نہیں ہوتا کہ ہر ایرے غیرے تارکین وطن کے کسی جرم کے بعد اس کی پوری قوم کو بدنام ہو جائے۔ بلکہ پولیس اور میڈیا نہایت محتاط انداز میں مجرم کی میڈیا میں شناخت کرتی ہے تاکہ متعصبانہ عزائم رکھنے والوں کو کوئی موقع نہ مل سکے۔ صرف اسوقت ان مجرمین کی پوری تفاصیل جاری کی جاتی ہیں جب کوئی بہت بڑا جرم ایک اسکینڈل بن کر میڈیا میں آجائے۔ جیسا کہ اوپر ٹیکسی ڈرائیور اسکینڈل کیساتھ ہوا تھا۔ اور اسکو میڈیا پر اچھالنے کا مقصد اس جرم کی عوام میں آگہی اور اصلاح ہوتی ہے تاکہ ان کی تفاصیل جان کر آئندہ کوئی بھی ٹیکس چوری کی ہمت نہ کرے۔ اور جو سزائیں انہیں دی گئیں انسے عبرت حاصل کرے۔

جی بالکل۔ ناروے والے لوگ تو دودھ کے دھلے تھے۔ اور دنیا سے سیدھے جنت میں جاتے تھے۔ پھر پاکستان سے آپ جیسے کچھ پاکستانی وہاں پہنچ گئے۔ اور ان کےلئے جہنم کا سامان کرنے لگے۔ حد ہے۔ اگر کوئی آدمی کسی معاشرے میں گناہ کرتا ہے تو وہ اسی معاشرے کا سزاوار ہوتا ہے نہ کہ اس سے ہزاروں میل دور بیٹھے لوگ بھی ان کے طعنے سنیں۔ عجب زنانہ طرز فکر ہے۔
طرز فکر زنانہ یا مردانہ نہیں ہوتا جناب جیسے کوئی مشین مسلمان یا ہندو نہیں ہوتی! یہ لوگ مسلمانوں کی آمد سے قبل دودھ کے دھلے تو نہیں تھے لیکن کرپشن، ٹیکس چوری، رشوت خوری اورحکومتی مراعات (social benefits) کے غلط استعمال سے ضرور عاری تھے ۔ انہیں یہ سب کرنا تارکین وطن نے ہی اپنے اعمال صالحہ سے سکھایا کیونکہ ان مقامیوں کے نزیک ایسی بدتہذیبی یعنی قومی خزانے کو ٹھگنے والا غدار وطن ہوتا ہے اور اسی لئے اس قسم ک جرائم کی سزا سب سے سخت دی جاتی ہے جب آپ دانستہ طور پر ملکی املاک یااثاثوں کو نقصان پہنچائیں۔ جبکہ ہمارے دیسی معاشروں میں لوگ کرپشن، رشوت کے ذریعہ ارب پتی بن جاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہ طعنہ نہیں کڑوا سچ ہے۔

ہم مسلمانوں نہیں آپ مسلمانوں کی طرز معاشرت میں فطور چھپا ہے۔ آپ ہیں وہاں۔۔۔ جن کو نقصان ہیں۔ ہم اپنے ملک میں آزاد بیٹھے ہیں۔ ہم کو طعنے نہیں ملتے۔ ہم اپنے معاشرے میں ہونے والی کرپشن کا الزام ناروے و فن لینڈ میں بیٹھے لوگوں پر نہیں لگاتے۔ اور جو لوگ یہاں سے چھوڑ کر گئے ہیں۔ یقینا ان کو اپنے طرز فکر پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جب آپ نے ایک چیز کو چھوڑ دیا۔ اور آپ کو پتا ہے آپ نے واپس نہیں آنا۔ تو پھر ہر بار آپ کو مسلم مسلم کی رٹ لگا کر طرز معاشرت کو گالیاں دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور اگر آپ کو اس طرز معاشرت سے اتنی ہی گھن آتی ہے تو کسی کلیسا میں جا کر مقدس پانی سے نہائیے۔ اور ان تمام طعنوں سے جان چھڑا لیجیے جو آپ کو مسلم ہونے کے نام پر دیے جاتے ہیں۔
جناب ہمیں یہاں کوئی مسلمان ہونے کے نام پر طعنہ نہیں دیتا۔ یہ ناروے ہے، بھارت یا اسرائیل نہیں جہاں مسلمانوں کیساتھ متعصبانہ اسلوک کیا جائے۔ یہاں پاکستانی مسلمان اس معاشرے کا مکمل حصہ ہیں اور ہر شعبہ زندگی میں انکی چھاپ ہے خواہ وہ میڈیا ہو، فلم و موسیقی ہو، کھیل ہو، سیاست ہو، تعلیم ہو، تجارت ہو الغرض ہر میدان میں یہاں پاکستانی اونچی پوسٹس پر پائے جاتے ہیں۔ خود میں ناروے کی سب سے بڑی سول انجینئرنگ فرم کے آئی ٹی ٹیک ڈیپارٹمنٹ کا انچارج ہوں۔ میرے مقابلہ میں کئی مقامی نارویجن تھے لیکن چونکہ میرا تجربہ زیادہ تھا اسلئے میرٹ پر میرا انتخاب کیا گیا۔
یہی انصاف، میرٹ،کرپشن و بدعنوانی سے پاک نظام ایک خوشحال معاشرے کو جنم دیتا ہے۔ انسانی ترقیاتی اشاریہ پر ناروے مسلسل چوتھی بار اول نمبر پر آیا ہے۔ فحاشی، عریانی جیسے فضول الزامات کا اس معاشرے پر کوئی اثر نہیں ہوتا کہ یہ ہر اک کا اپنا ذاتی فعل ہے اور وہی اسکا جوابدے ہے لیکن اجتماعی ٹیکس چوری، کرپشن، لوٹ کھسوٹ سے اچھے بھلے معاشرے طور پر تباہ ہو جاتے ہیں۔ میرٹ کی بجائے سفارش پر روزگار ملنے کی وجہ سے بدمعاشی اور غربت بڑھتی ہے۔ جرائم میں اضافہ ہوتا ہے۔ وغیرہ۔
میں بہت پریشان تھا کہ عمران خان جس علامہ اقبال اور قائد اعظم کے انصاف پسند، فلاحی ریاست کی بات کرتا ہے اسکا نظریہ نو جوانوں کی سمجھ میں تو آجاتا ہے البتہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ اسکی کبھی مذہب کے نام پر، کبھی اسکے ماضی کے نام پر اور کبھی مغرب کے نام پرمخالفت کیوں کرتے ہیں۔ میں آپکا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ آپنے میری یہ دیرینہ مشکل حل کردی ۔
جس قوم کی پڑھی لکھی اقلیت کو اپنے طرز معاشرت پر تنقید کیچڑ اچھالنا اور طعنہ لگتا ہے وہ قوم کیسے دو ماہ سے زائد جاری دھرنوں میں روزانہ کنٹینر پر سے ہونے والی تنقیدی تقاریر کو کوستی ہوگی کہ کب ہماری ان سے جان چھوٹے۔ :) ہم تو فرشتوں ہیں ، آسمان سے اترے ہیں ۔ کسی کی جرات جو ہمارے نیک کردار کے بارہ میں کسی نے کوئی لفظ بھی کہا۔ وگرنہ زبانیں کھینچ لی جائیں گی:) ہمیں بس اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے اور جیسا چل رہا ہے ویسے ہی چلتا جائے کہ اب تو ہم اسکے عادی ہوچکے۔ جس دن کوئی رشوت نہ لے گا۔ میرٹ پر کام ملے گا۔ ٹیکس چوری نہیں ہوگی، اس دن تو ہمارا آبائی طرز معاشرت اپنے آپ ہی مرجائے گا، اسلئے اسکو بچانا نہایت ضروری ہے کیونکہ ہم اسی میں خوش ہیں :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اگر معاشرے کی جائز تنقید اس پر کیچڑ اچھالنا ہے تو اوپر مثبت بحث و مباحثہ اور برداشت والا دعویٰ تو دھرا کا دھرا ہی رہ گیا۔ میری اسلام سے کوئی دشمنی یا اختلاف نہیں ہے البتہ مسلم اکثریت ممالک سے یقیناً ہے جو نام تو اسلام کا نام لیتے ہیں لیکن اسلامی طرز معاشرت ان میں دور دور تک نہیں پائے جاتے۔ مجھے اعتراض یہ ہے کہ جب اسلامی اقدار کو معاشرے میں اپنا نہیں سکتے تو اسلام کا نام لیکر اسے بدنام کیوں کرتے ہیں کہ ہم تو بڑی شریعت پر چل رہے ہیں۔
آپ نے میرے مباحثے کو اسلامی مباحثہ بنانے کی ہر کوشش کر ڈالی ہے۔۔۔ آپ کو پاکستانی معاشرے کا جتنا علم ہے وہ آپ کے مراسلے سے بہہ رہا ہے۔ اور آپ کو دوسروں کے اسلام کی اتنی فکر کیوں ہے۔ آپ اپنی فکر کیوں نہیں کرتے۔

پھر وہی تعصب سے بھرپور فضول بات۔ یہاں کا موسم اکثر سرد رہتا ہے۔ ستمبر سے مئی تک خاصی ٹھنڈ ہوتی ہے۔ اس دوران کہیں بھی آپکو کم کپڑے زیب تن کئے ہوئے لوگ نہیں ملیں گے۔ جون سے اگست تک گرم موسم کی شدت سے بچنے کیلئے لوگ کھلے ڈلے ہو کر پھرتے ہیں۔ اور اگر وہ کسی کو جانی نقصان نہیں پہنچا رہے یا ایزا نہیں دے رہے تو ہمیں کیا تکلیف ہے انکے لباس سے؟ جب انہیں ہمارے شلوارقمیص سے کوئی مسئلہ نہیں تو ہم کون ہوتے ہیں انہیں مجبور کرنے والے کہ گرمیوں میں بھی سردیوں والا پورا لباس پہنو!
میری بات تعصب سے بھرپور ہی سہی۔ لیکن جواب اس قدر گھٹیا بیکار ہے کہ جواب دینے کو بھی دل نہیں کیا۔ کپڑے پہنے سے مراد کسی معاشرے کا رنگ قبول کرنا ہے کہ جس میں ہو۔۔۔ لیکن آپ کی سطحی سوچ میں کچھ آتا ہو تو بندہ بات کرے۔۔۔ پہلے آپ اردو کے محاورات سیکھ لیں۔ پھر آگے بحث کیجیے گا۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
میں بہت پریشان تھا کہ عمران خان جس علامہ اقبال اور قائد اعظم کے انصاف پسند، فلاحی ریاست کی بات کرتا ہے اسکا نظریہ نو جوانوں کی سمجھ میں تو آجاتا ہے البتہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ اسکی کبھی مذہب کے نام پر، کبھی اسکے ماضی کے نام پر اور کبھی مغرب کے نام پرمخالفت کیوں کرتے ہیں۔ میں آپکا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ آپنے میری یہ دیرینہ مشکل حل کردی ۔
وہ نسل اس ملک میں آباد ہے۔ اور وہی اس ملک کی باگ ڈور سنبھالے گی۔ آپ کی اور بہت سی مشکلات بھی حل ہوجائیں گی اگر آپ اپنے معاشرے پر توجہ دیں۔ اور جس معاشرے کو آپ نے ٹھکرا دیا۔ اس میں بسنے والوں کو کوسنا چھوڑ دیں۔
 

arifkarim

معطل
دن رات اسلام کو گالیاں سن سن کر پک گیا ہوں۔۔۔ اگر اتنے ہی اکتائے ہیں لوگ تو اپنا اور دوسروں کو بھلا کیوں نہیں کرتے۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسلام وہ ہے جو میری ذات کے اعمال ہے تو اس کی سوچ اور سمجھ بوجھ کو سلام ہے۔ آپ کو برا لگا۔ ہم مدون کر دیتے ہیں مراسلہ۔۔۔۔ ہم نے اپنی طرف سے نیکی کی تھی۔
اوہو بھائی جان۔ آپ ہمارے بڑے ہیں۔ ایک تو مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ کیا اسلامی طرز معاشرت پر تنقید ایک Taboo ہے؟ یہی تو وہ بات ہے جو میں نے اوپر عالم اسلام میں آزاد خیال مسلم حکیموں، فلسفیوں، مفکروں کی غیر موجودگی کے بارہ میں کی تھی کہ تاریخ اسلام کے پہلے تین سو سال تک تو یہ موجود رہے اور پھر اسلامی انتہاء پسندی اور تنگ نظری نے انہیں اپنی لپیٹ میں لیکر انکا مکمل صفایا کردیا۔
اگر ہم اولین اسلامی نظام یعنی خلافت راشدہ کے گُن آج بھی گاتے ہیں تو ان اسلاف کے اعمال صالحہ پر بھی تو نظر دوڑائیں۔ اسوقت اسلامی طرز معاشرت پر تنقید کرنے والے کو بکاؤ مال، گالیاں دینےوالا مغربی ٹٹو نہیں کہا جاتا تھا۔ مسلم فلاسفرز بڑی آزادی کیساتھ مغربی یونانی تہذیب کے منطقی علوم عربی میں ترجمہ کرتے اور اس زمانہ کے عباسی خلیفہ المامون نے خود بیت المال سے خرچہ کر کے اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈالا۔
ان علوم پر باقاعدہ بحث و مباحثہ ہوتا اور ان کو منطق اور اسلامی تعلیمات سے ملانے کی انتھک کوششیں کی جاتیں۔ نتیجتاً جب تک ہمارے اسلاف یہ کام کرتے رہے، ہم دنیا کی سپر پاور رہے اور ہمارا کوئی ثانی نہ تھا۔ جونہی ہمنے اسلامی تعلیمات کو منطقی سوچ و تنقید سے اوپر تصور کر لیا اسی دن سے ہمارا زوال شروع ہوا۔
یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ مغربی تہذیب کا احیاء ثانیہ مسیحی تعلیمات کو یونانی فلسفہ کے ساتھ ملانے کے بعد شروع ہوا تھا یعنی جو کام کسی زمانہ میں مسلمان حکیم اور مفکرین کر رہے تھے اگر وہ کرتے رہتے تو کوئی بعید نہیں تھا کہ ہم میں سے بھی آنے والے وقتوں میں نیوٹن، آئن اسٹائن پیدا ہو جاتے۔
یاد رہے کہ اسلاف کے زمانہ میں اسلامی طرز معاشرت پر تنقید کرنے والے عالم یا حکیم کو عیسائی، یہودی ہو جانے کا مشورہ نہیں جاتا تھا بلکہ اسکی تنقید کا منطقی تحریری جواب دیا جاتا۔ جسکی بدولت ان کے علوم میں اضافہ ہوتا اور معاشرہ آگے ترقی کرتا۔

فن لینڈ کا نام ہم نے اس لئے لکھا تھا کہ کچھ عرصہ قبل ہماری آنکھوں کے سامنے سے ایک سروے گزرا تھا۔ جس میں دس ہزار لڑکیوں سے ایک سوال پوچھا گیا۔ اور ان میں سے 87فیصد نے اس کا مثبت جواب دیا۔ خیر۔۔۔۔
یہی سروے پاکستان میں کرا کر دیکھیں۔ بلکہ ایسا کریں کہ خالی گوگل ٹرینڈز میں جاکر سب سے زیادہ فحاشی اور عریانی سرچ کرنے والی اقوام کے اعداد و شمار دیکھ لیں۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔

نہیں، رہنے دیجئے، کہ کبھی کبھی ایسی باتیں بھی سن لینی چاہیئں :)
:)

محترم بھائی آپ تو بلا تفریق " گیہوں کے ساتھ گھن " کو بھی پیس گئے ۔ کچھ تو چھان پھٹک کرنی تھی ۔
آپ کے اس جملے سے مکمل اختلاف کرتا ہوں ۔
اختلاف رائے آپ کا حق ہے۔ اسے کون چھین رہا ہے بھلا۔ البتہ یہ ضرور بتائیں کہ آپ کا اسپر کیا اختلاف ہے۔

فن لینڈ کا نام استعمال کرنے پر بھی ہم نے اپنی وضاحت پیش کر دی ہے۔ اس کا آپ سے تعلق نہین ہے۔
قیصرانی صاحب کا تعلق غالباً پاکستان سے ہے۔ فن لینڈ میں تو بس سیر سپاٹے کرتے ہیں۔ :)
 
Top