ہم کون ہیں؟؟

ناعمہ عزیز

لائبریرین
بچپن میں آپ سب سے ایک سوال ضرور پوچھا گیا ہو گا۔
ہم کون ہیں؟
آپ نے یہی جواب دیا ہوگا۔
ہم مسلمان ہیں۔
میں ’’داستان ایمان فروشوں کی‘‘ پڑھ رہی تھی تو سوچ رہی تھی کہ ایک اس دور کے مسلمان تھے جن کی زندگی کا مقصد تھا، ایک عز م تھا، ان کے اندر کچھ کر دینے کا جنون تھا، مسلمان چاہتے تھے کہ اسلام کا بول بالا ہو اور اس مقصد کے لیے وہ اپنی جانیں تک قربان کر دینے کو تیار ہو جاتے تھے اور صلیبی چاہتے تھے کہ اسلام دنیا کے نقشے سے مٹ جائے اور اس مقصد کے لئے وہ کس قسم کے گندے ہتھکنڈے استعمال کرتے تھے،
صلیبی کہتے تھے کہ ان کا مقصد کامیاب ہو گا ایک دن مسلمان نام کے مسلمان رہ جائیں گے ان کے کردار میں مسلمانوں کا کوئی عنصر نہیں ہو گا۔
تب بھی مسلمان نوجوانوں کو کس کس راستے پے ڈالا گیا ان کے کرداروں کو کچلا گیا ان کو راستے سے بھٹکانے کے لئے انہی کی بہن بیٹیوں کو اغوا کر کے تربیت دی گئی اور انہی کو اس کا کردار خراب کرنے کی خاطر استعمال کیا گیا۔
یہ تو میں نے ایک مختصر سی بات کی ہے ایک خلاصہ پیش کیا ہے،
اس کے بعد اگر ہم پاکستان کو حاصل کرنے پہ نظر دوڑائیں تو دیکھتے ہیں کہ ہندو پاکستان برصغیر کو تقسیم کرنے کے حق میں نا تھے ، وہ مسلمانوں پہ اپنی حکمرانی کرنا چاہتے تھے ، پاکستان بنانے کا عمل اور مسلمانوں کا جذبہ تب بھی قابلِ دید تھا، آفرین ہے ان مسلمانوں پہ جنہوں نے اپنی جانوں کو نذرانہ پیش کیا بیٹوں کی عزتیں لوٹی گئیں ، بچوں کو قتل کیا گیا ، کیا نہیں کیا گیا تھا؟؟؟؟ ہم نے وہ روح فرسا منظر اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھے ، ہم اس خون ریزی سے واقف ہی نہیں ہیں۔
چلئے کچھ نظر آج کے پاکستان اور مسلمانوں پہ نظر ڈال لیں۔
ہماری نوجوان نسل آج بھی اسی بے راہ روی کا شکار ہے صلیبیوں کا کہا آج پورا ہو گیا۔ ہم لو گ کیا کر رہے ہیں؟؟؟؟
انٹر نیٹ پہ چیٹینگ !!! موبائل پہ میسج!!! لڑکیوں کا پیچھا کرنا!!! ان پہ گندے غلیظ جملے کسنا!!!
ہماری نوجوان نسل یہ سب مشغلے بہت عام ہیں، سوچنے کی بات ہے ہمارے درمیان تو صلیبی نہیں آ گئے !!!
جی ہاں ایسا ہی ہے ہمارے ہاں بھی صلیبی موجود ہیں! زرداری صاحب اقتدار میں بیٹھے کیا کر رہے ہیں ؟؟؟ امریکہ سے حرام مال لے کے کھا رہے ہیں ۔
جس قوم کا حکمران ایسا ہے اس کی قوم کا کیا حا ل ہو گا؟ جب حکمران کا کردار ہی بلند نہیں تو قوم کیسے بے راہ روی کاشکا ر نا ہو؟؟
ہمارے حکمران اتنے اچھے ہیں کہ انکو پروا ہی نہیں کہ قوم کی بیٹی کافروں کے نرغے میں ہے؟؟
ہمارے یہاں دشمنوں کے ساتھ شاہانہ سلوک کیا جاتا ہے اور اپنوں کو مار مار کے ان سے وہ جر بھی اگلوا لیا جاتا ہے جو انہوں نے نا کیا ہو، ہمارے اپنے ہی شریفوں کو مجر م بنا دیتے ہیں!
ہمارے ہی ملک میں آ کے دشمن ایک بندہ مار کے چلے جاتے ہیں اور ہمیں پروا ہی نہیں۔
ہماری نوجوان نسل بگاڑ کا شکار ہے اس میں زیادہ ہاتھ والدین کی عدم تو جہی کا بھی ہے کہ جس عمر میں ان کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے گلے میں لگام ڈالیں اس عمر میں وہ بچوں کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں! اور ایسی عمر میں جب بچے کو اپنی زندگی کے اہم راستے کا انتخاب کرنا ہوتا ہے اسے خالی ذہن چھوڑ دیا جائے تو وہ بھٹک جاتا ہے!
اور پھر جس راہ پہ چلتا ہے وہاں سے واپس آنا ممکن نہیں ہوتا!! معاملہ لڑکیوں کو ہو یا لڑکوں کا میں اس حق میں ہی نہیں ہوں کہ آپ ان کو کے ذہنوں کو آزادی دیں ۔ ’خالی ذہن شیطان کا گھر ہوتا ہے‘
میرے مشاہدے کے مطابق ہماری 80 فیصد نسل بگاڑ کا شکار ہے۔
جن میں 50 فیصد لوگ وہ ہیں جو محبت میں ناکام ہو کر بھٹکتے پھرتے ہیں، موت کی باتیں کرتے اور کچھ تو ایسا کر بھی گزرتے ہیں!
اور باقی 20فیصد لوگ وہ ہیں جو ڈگریاں لے بیٹھے ہیں اور ان کو کوئی نوکری ہی نہیں دیتا! رہے 10 فیصد تو وہ اپنے خاندا نی مسئلے مسائل کاشکار ہو ئے ہیں ۔
ہم بس اپنی ذات کو سوچتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ اپنے خاندان کا۔
اسلام کی سر بلندی جیسے مقاصد تو سرے سے ہی دم توڑ گئےہیں۔ وطن سے محبت کا یہ عالم ہے کہ بیرون ملک جا کے لوگوں کو برتن دھونا منظور ہے جس میں اپنی عزت نفس کئی بار کچلی جاتی ہے! مگر پاکستان کو سنوارنا ہمارا کام نہیں ہے۔
ہم کسی کی بھلائی کیا سوچیں گے ہم تو خود اس بات کی تلاش میں رہتے ہیں کہ ہمارا فائدہ ہوجائے کسی کا نقصان ہوتا ہے تو ہمیں اس سے کیا!
ہمارا کیا رتبہ ہے؟ ہمارا کیا مقام ہے؟
ہمارا کردار کس قدر پاکیزہ ہے؟ ہم تو گناہوں میں لتھڑے ہو ئے لوگ ہیں!
ہم پہ کونسی رحمت ہو گی؟ ہماری دعاؤں میں کیا اثر ہو گا!
الٹا آئے روز کوئی نا کوئی آزمائش آئی ہی رہتی ہے!
ہم برائے نام مسلمان ہیں ! اور میرے خیال سے ہم وہ مسلمان بن گئے ہیں جو صلیبی ہمیں دیکھنا چاہتے تھے!
کیا ہمیں اپنی اسی حالت پہ افسو س نہیں کرنا چاہئے!!
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
نصیحت روز بکتی ہے عقیدت روز بکتی ہے،
تمھارے شہر میں لوگو محبت روز بکتی ہے،
امیرِ شہر کے در کا ابھی محتاج ہے مذہب،
ابھی مُلا کے فتووں میں شریعت روز بکتی ہے،
ہمارے خون کو بھی وہ کسی دن بیچ ڈالے گا،
خریداروں کے جھرمٹ میں عدالت روز بکتی ہے،
نجانے لطف کیا ملتا ہے ان کو روز بکنے میں،
طوائف کی طرح لوگو قیادت روز بکتی ہے،
کبھی مسجد کے منبر پر کبھی حجرے میں چھپ چھپ کر،
میرے واعظ کے لہجے میں قیامت روز بکتی ہے،
بڑی لاچار ہیں طاہر جبینیں ان غریبوں کی،
کہ مجبوری کی منڈی میں عبادت روز بکتی ہے۔



میں بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر لفظ میرا ساتھ چھوڑ گئے۔۔۔
 
یہ اس دور کی داستان ایمان فروشوں کی ہے۔۔۔۔ ایک دوڑ لگی ہے۔ ریس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب بھاگ رہے ہیں۔ مقابلے میں۔ جتنا کس سے ہے یہ بھی نہیں پتا۔۔۔۔۔ اسی چکر میں خود سے بہت دور نکل آئے ہیں اور اب حالت اور حالات یوں ہیں کہ،

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
 
Top