ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ایک نسبتاً تازہ غزل احبابِ کرام کے پیش خدمت ہے ۔ امید ہے کچھ اشعار آپ کے ذوقِ عالی تک باریاب ہوں گے۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف!

***

ہم جسے اَن کہی سمجھتے تھے
بات وہ تو سبھی سمجھتے تھے

جیت کر ہم اُنہیں زمانے سے
جنگ جیتی ہوئی سمجھتے تھے

کتنے سادہ تھے ہم بچھڑتے وقت
ہجر کو عارضی سمجھتے تھے

ہم تھے آدابِ غم سے ناواقف
ہر ہنسی کو ہنسی سمجھتے تھے

گھر کے جلنے سے پہلے گھر والے
آگ کو روشنی سمجھتے تھے

-ق-

اپنے جذب و جنوں میں ہم وہ بات
جو نہ سمجھا کوئی ، سمجھتے تھے

جب تک ادراکِ ہست و بود نہ تھا
چیز خود کو بڑی سمجھتے تھے

لفظ و معنی پہ لڑ رہے تھے ہم
علم کو آگہی سمجھتے تھے

زندگی کا وہ پیش خیمہ تھا
ہم جسے زندگی سمجھتے تھے

۔

وقت الجھا گیا ہمیں ورنہ
ہم بھی خود کو کبھی سمجھتے تھے

تم سمجھتے ہو سادگی کو سہل
ہم بھی پہلے یہی سمجھتے تھے

٭٭٭

ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۲۱
 

یاسر شاہ

محفلین
ظہیر بھائی ماشاء اللہ پیاری اور نفیس غزل ہے ۔ہر شعر عمدہ ۔

کیا اجازت ہے ایک بات کہوں
وہ مگر خیر کوئی بات نہیں
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی ماشاء اللہ پیاری اور نفیس غزل ہے ۔ہر شعر عمدہ ۔

کیا اجازت ہے ایک بات کہوں
وہ مگر خیر کوئی بات نہیں
آداب ، آداب ! نوازش ہے ، یاسر بھائی ! اللہ کریم آپ کو خوش رکھے ۔

کیا بات ہے جون ایلیا کے شعر کی!

وہ شرم ، دہشت ، جھجک ، پریشانی والا قطعہ آخری مصرع تک یاد آگیا ۔:D
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یہ غزل آپ کے عمومی اسلوب سے ہٹ کر لگی ... کلام کی سادگی اور بے ساختہ پن بہت بھلا معلوم ہوتا ہے. ماشاء اللہ
آداب ، آداب ! بہت نوازش ، شکریہ راحل بھائی !
آپ کا تجزیہ بالکل درست ہے ۔ میرا بھی یہی مشاہدہ ہے کہ بحرِ خفیف کے اس وزن میں مصرعے عموماً آورد سے پاک ہوتے ہیں ۔ پچھلے دو تین سالوں میں کئی غزلیں اسی بحر میں لکھی ہیں ۔ یہ وزن میری طبع کو راس بھی آتا ہے ۔ ایک دو غزلیں اور پوسٹ کروں گا ، ان شاء اللّٰہ۔
راحل بھائی ، بڑی بحر میں مشکل مضامین تو خوب سماتے ہیں لیکن آورد سے دامن بچانا ذرا مشکل ہوجاتا ہے ۔ اب یہ خاکسار "فُل ٹائم" شاعر تو ہے نہیں کہ صبح و شام ٹُن ہو کر فکرِ سخن ہی میں پڑا رہے ۔ چلتے پھرتے کام کے دوران کچھ جیسا تیسا گھڑ لیتا ہوں ۔ آپ صاحبانِ سخن کے حرفِ قبولیت کی حرص یہاں لے آتی ہے ۔آپ لوگ حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔ اللّٰہ کریم آپ لوگوں کو خوش رکھے !شاد و آباد رکھے!
 

محمد وارث

لائبریرین
عمدہ غزل ہے ظہیر صاحب۔ کچھ اشعار تو بہت پسند آئے اور یہ تو خیر کمال ہی کر گیا!

تم سمجھتے ہو سادگی کو سہل
ہم بھی پہلے یہی سمجھتے تھے
 
ایک نسبتاً تازہ غزل احبابِ کرام کے پیش خدمت ہے ۔ امید ہے کچھ اشعار آپ کے ذوقِ عالی تک باریاب ہوں گے۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف!

***

ہم جسے اَن کہی سمجھتے تھے
بات وہ تو سبھی سمجھتے تھے

جیت کر ہم اُنہیں زمانے سے
جنگ جیتی ہوئی سمجھتے تھے

کتنے سادہ تھے ہم بچھڑتے وقت
ہجر کو عارضی سمجھتے تھے

ہم تھے آدابِ غم سے ناواقف
ہر ہنسی کو ہنسی سمجھتے تھے

گھر کے جلنے سے پہلے گھر والے
آگ کو روشنی سمجھتے تھے

-ق-

اپنے جذب و جنوں میں ہم وہ بات
جو نہ سمجھا کوئی ، سمجھتے تھے

جب تک ادراکِ ہست و بود نہ تھا
چیز خود کو بڑی سمجھتے تھے

لفظ و معنی پہ لڑ رہے تھے ہم
علم کو آگہی سمجھتے تھے

زندگی کا وہ پیش خیمہ تھا
ہم جسے زندگی سمجھتے تھے

۔

وقت الجھا گیا ہمیں ورنہ
ہم بھی خود کو کبھی سمجھتے تھے

تم سمجھتے ہو سادگی کو سہل
ہم بھی پہلے یہی سمجھتے تھے

٭٭٭

ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۲۱
واہ ، ظہیر بھائی ! کیا خوب اشعار ہیں . داد قبول فرمائیے .
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
عمدہ غزل ہے ظہیر صاحب۔ کچھ اشعار تو بہت پسند آئے اور یہ تو خیر کمال ہی کر گیا!

تم سمجھتے ہو سادگی کو سہل
ہم بھی پہلے یہی سمجھتے تھے
بہت شکریہ ، ذرہ نوازی ہے جناب ! بہت ممنون ہوں ۔ محنت وصول ہوئی !
 
Top