ہمارے سلیقے

جاسمن

لائبریرین
ٹماٹروں کو سوکھا کر کیا پاوڈر بنایا جاتا ہے ؟
جی۔
تجربہ کامیاب ہے۔ بس ڈھانپنے کے لیے ململ کی بجائے جالی استعمال کریں یا مٹی نہ ہو تو کھلا چھوڑ دیں۔ جس برتن پہ میں نے ململ ڈھانپا تھا، اس پہ سفید پھپھوندی نظر آ رہی ہے۔ جسے کھلا چھوڑا، وہ ٹھیک ہے۔
 
آخری تدوین:
جی۔
تجربہ کامیاب ہے۔ بس ڈھانپنے کے لیے ململ کی بجائے جالی استعمال کریں یا مٹی نہ ہو تو کھلا چھوڑ دیں۔ جس برتن پہ میں نے مکمل ڈھانپا تھا، اس پہ سفید پھپھوندی نظر آ رہی ہے۔ جسے کھلا چھوڑا، وہ ٹھیک ہے۔
سُن کر خوشی ہوئی کہ تجربہ کامیاب ہوگیا
لیکن یہ عمل کتنے دنوں تک کرنا ہوگا؟
سکھانے کے بعد چھ ماہ تک استعمال کرسکتے ہیں اُس کے بعد نا کریں
ٹماٹر کا پاوڈر کس کھانے میں استعمال کیا جاسکتا ہے
 

جاسمن

لائبریرین
سُن کر خوشی ہوئی کہ تجربہ کامیاب ہوگیا
لیکن یہ عمل کتنے دنوں تک کرنا ہوگا؟
سکھانے کے بعد چھ ماہ تک استعمال کرسکتے ہیں اُس کے بعد نا کریں
ٹماٹر کا پاوڈر کس کھانے میں استعمال کیا جاسکتا ہے
آج دوسرا دن ہے لیکن ابھی نہیں سوکھے۔ میرا خیال ہے کہ تین سے چار دن لگ سکتے ہیں۔ نیز جن کھانوں میں ٹماٹر سکتا ہے، ان میں پاؤڈر استعمال کر سکتے ہیں۔ اصل میں آج کل سستے ہیں۔ جب مہنگے ہوں تو پاؤڈر استعمال کریں۔
 
آج دوسرا دن ہے لیکن ابھی نہیں سوکھے۔ میرا خیال ہے کہ تین سے چار دن لگ سکتے ہیں۔ نیز جن کھانوں میں ٹماٹر سکتا ہے، ان میں پاؤڈر استعمال کر سکتے ہیں۔ اصل میں آج کل سستے ہیں۔ جب مہنگے ہوں تو پاؤڈر استعمال کریں۔
میرے خیال میں ہفتہ لگ سکتاہے سوکھنے میں ۔لیکن جو سبزیاں مہنگی ہیں اُن پر بھی ہم یہ عمل کرسکتے ہیں جیسے کہ ادرک، لہسن اور ریڈ بیل پیپر
میں نے دیکھا ہے کہ فریج میں بھی زیادہ دنوں تک درست حالت میں نہیں رہتی
پاوڈر والا آئیڈیا بھی بہتر ہے لیکن خیال رکھیں کہ یہ پاوڈر زیادہ سے زیادہ چھ ماہ تک استعمال کریں اُس کے بعد اِس کو ضائع کردیں۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
گو کہ تازہ بنی چیز کی بات ہی کیا! لیکن جب خواتین پہ نوکری اور گھر داری دونوں کی ذمہ داریاں ہوں تو بہتر ہے کہ ادرک، لہسن اور چٹنی وغیرہ پیس کے علیحدہ علیحدہ ڈکھن والی کسی کھلے منہ کی بوتل میں فرج میں رکھ لیں۔
اس سے مجھے تو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ چاول بنانے ہوں یا کوئی بھی ایسا سالن جس میں لہسن، ادرک ڈالے جاتے ہوں، آرام سے فرج کھولا اور استعمال کر لیے۔
اور ہم تو اکثر پیاز ،ٹماٹر ، ادرک اور لہسن کو بھون کر مسالہ تیار کر کے تین دن کے لئے رکھ لیتے ہیں۔ گھر میں کسی کو اعتراض ہو تو ایک ہی جواب ہے۔

یہ جو آپ لوگ ریسٹورنٹ پہ جا کر کھانا کھاتے ہیں ، کیا وہ اسی وقت آپ کو بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یا تو خاموشی سے ہماری بات کو قبول کر لیا جاتا ہے یا اسے اگلے دو چار دن کے لئے ہماری مصروفیت کم ہو جاتی ہے۔ ذمہ داری جو نہیں رہتی زیادہ۔
ویسے سچی بتائیں تو تازہ بنی چیز کی بات ہی الگ ہے۔
 
اور ہم تو اکثر پیاز ،ٹماٹر ، ادرک اور لہسن کو بھون کر مسالہ تیار کر کے تین دن کے لئے رکھ لیتے ہیں۔ گھر میں کسی کو اعتراض ہو تو ایک ہی جواب ہے۔

یہ جو آپ لوگ ریسٹورنٹ پہ جا کر کھانا کھاتے ہیں ، کیا وہ اسی وقت آپ کو بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یا تو خاموشی سے ہماری بات کو قبول کر لیا جاتا ہے یا اسے اگلے دو چار دن کے لئے ہماری مصروفیت کم ہو جاتی ہے۔ ذمہ داری جو نہیں رہتی زیادہ۔
ویسے سچی بتائیں تو تازہ بنی چیز کی بات ہی الگ ہے۔
ویسے ریسٹورنٹ کے کھانے سے بچنا ہی چاھئیے لیکن کبھی کبھی مطلب کے ہفتے میں ایک بار تو چل سکتا ہے ۔ اگر جیب اجازت دے تو
 

جاسمن

لائبریرین
ایک ہی رنگ کے کئی لباس ہوں تو کئی بار شلوار قمیص آپس میں ایسے رل مل جاتے ہیں کہ پتہ نہیں چلتا کہ کون سی شلوار کون سی قمیص کے ساتھ کی ہے۔ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے دیکھیں تب بھی غلطی ہو جاتی ہے اور اگر کپڑے صاحب کے ہوں تو ۔۔۔ آگے راوی کی خاموشی خاصی دیر تک رہتی ہے۔ :D
یہی حال بچوں کی وردیوں کا ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ اگر ایک ہی رنگ ہے تو پھر رولا کس چیز کا؟
آپ کی بات بجا لیکن ایک ہی رنگ میں بھی کئی شیڈ ہوتے ہیں۔ حد یہ کہ سفید میں بھی۔
بچے وردی پہن کے آتے ہیں تو بسور رہے ہوتے ہیں کہ امی جی میری قمیص اور ہے اور شلوار اور ہے۔ لو جی کر لو گل! اب ایک ہی وردی استری کی تھی، اس کے دونوں پیس الگ الگ ہو گئے۔ حق ہا!!!
لیں جناب مابدولت نے اس کا بہت شافعی و کافی حل تلاش کر لیا۔
ہر لباس کی قمیص کے کف یا کالر کی پٹی کے پیچھے کسی بھی رنگ سے دو تین مضبوط ٹانکے لگا دیں۔ اسی رنگ سے شلوار کے نیفے کے پیچھے بھی ٹانکے لگا دیں۔
لیں جی اب ہرے رنگ کے ٹانکوں کو دیکھتے ہی آپ اپنی ذہانت سے یہ سمجھ جائیں گے کہ یہ ایک لباس ہے۔ گلابی رنگ کے ٹانکوں والا دوسرا اور کالے رنگ کے ٹانکوں والا تیسرا لباس ہے۔ آپ کی ذہانت میں کوئی شک نہیں۔ :)
 

جاسمن

لائبریرین
کئی بار اچھے خاصے نئے لباس سے بٹن ٹوٹ کے گر جاتے ہیں۔( ویسے بٹن ٹوٹ کے گرتے ہی کیوں ہیں؟ یہ سوال ایک اچھی خاصی تحقیق کا متقاضی ہے)
اب وِس جیسا بٹن کہاں سے لائیں؟ آپ اچھا خاصا جھنجھلائیں گے، اور یہ سوچ آپ کے ذہن میں جھنجھنا بجاتی پھرے گی کہ اگر درزی سامنے ہوتا تو آپ اسے خوب جھنجھوڑتے۔
عموماً درزی کے کاریگر یا خود درزی سوئی کے ناکے میں دھاگے کی چار چار تاریں اکٹھی ڈال کے بٹن لگاتے ہیں۔ ایسے میں انھیں ایک یا زیادہ سے زیادہ دو بار سوئی کپڑے سے گزارنی پڑتی ہے اور کام جلد نبٹ جاتا ہے۔ بظاہر بٹن مضبوطی سے جُڑا نظر آتا ہے کہ دھاگے کی کافی تاریں نظر آ رہی ہوتی ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ دھاگہ کی دو تاریں ہوں لیکن وہ زیادہ مرتبہ کپڑے سے گزرے تو بٹن زیادہ مضبوط جُڑتا ہے۔
درزی سے کہیں کہ قمیص کے بٹن دو تاروں سے مضبوطی سے لگائے۔ لیکن یہ لوگ اپنی من مانی ضرور کرتے ہیں۔ تو آپ اسے کہیں کہ قمیص کے کسی اندر والے حصے میں دو فالتو بٹن ضرور لگا دے اور سوٹ کے ساتھ باقی بچا ہوا دھاگہ آپ کو دے دے۔ تھوڑی سی زحمت کریں اور دو تاروں سے مناسب اور مضبوط طریقے سے کئی بار بٹن کو پکا کر لیں۔ لیں جی اب بٹن کہیں نہیں جائے گا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
( ویسے بٹن ٹوٹ کے گرتے ہی کیوں ہیں؟ یہ سوال ایک اچھی خاصی تحقیق کا متقاضی ہے)
میں نے اس موضوع پر کروڑ وں مائیکرو سیکنڈ کی تحقیق کی اور یہ نتیجہ نکلا کہ بٹن کے گرنے کے پیچھے زمیں کی کشش ثقل کا ہاتھ ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بٹن ٹوٹ کر اڑ نہیں پاتے اور مجبوراََ نہیں گر جانا پڑتا ہے ۔
اور دوسری وجہ بٹنوں کا بے پرو بال اور بے جان ہونا بھی ہے ۔
 

جاسمن

لائبریرین
ویسے ہم دوسرے سلیقہ مندوں کو دیکھ کے بہت مرعوب ہوتے ہیں۔ میں تو خیر بہت متاثر ہوتی ہوں۔ میری بہت اچھی سہیلی ہے جو امریکہ میں ہوتی ہے۔ ایک دن ویڈیو کال پہ بات ہو رہی تھی۔ باورچی خانے کے دالوں کے لیے نئی شیشیاں دکھا رہی ہو کہ میں انھیں کسی کو ہاتھ نہیں لگانے دیتی۔ گندے ہاتھوں سے انھیں ہاتھ لگا دیں تو۔۔۔ مجھے دالوں اور مصالحوں کی شیشیاں صاف ستھری رکھنا پسند ہے۔
واہ بھئی!
وہ واقعی بہت سُگھڑ ہے۔ نوکری کے ساتھ بہت اچھے سے اتنا بڑا گھر سنبھالتی ہے ماشاءاللہ۔
 
ایک ہی رنگ کے کئی لباس ہوں تو کئی بار شلوار قمیص آپس میں ایسے رل مل جاتے ہیں کہ پتہ نہیں چلتا کہ کون سی شلوار کون سی قمیص کے ساتھ کی ہے۔ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے دیکھیں تب بھی غلطی ہو جاتی ہے اور اگر کپڑے صاحب کے ہوں تو ۔۔۔ آگے راوی کی خاموشی خاصی دیر تک رہتی ہے۔ :D
یہی حال بچوں کی وردیوں کا ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ اگر ایک ہی رنگ ہے تو پھر رولا کس چیز کا؟
آپ کی بات بجا لیکن ایک ہی رنگ میں بھی کئی شیڈ ہوتے ہیں۔ حد یہ کہ سفید میں بھی۔
بچے وردی پہن کے آتے ہیں تو بسور رہے ہوتے ہیں کہ امی جی میری قمیص اور ہے اور شلوار اور ہے۔ لو جی کر لو گل! اب ایک ہی وردی استری کی تھی، اس کے دونوں پیس الگ الگ ہو گئے۔ حق ہا!!!
لیں جناب مابدولت نے اس کا بہت شافعی و کافی حل تلاش کر لیا۔
ہر لباس کی قمیص کے کف یا کالر کی پٹی کے پیچھے کسی بھی رنگ سے دو تین مضبوط ٹانکے لگا دیں۔ اسی رنگ سے شلوار کے نیفے کے پیچھے بھی ٹانکے لگا دیں۔
لیں جی اب ہرے رنگ کے ٹانکوں کو دیکھتے ہی آپ اپنی ذہانت سے یہ سمجھ جائیں گے کہ یہ ایک لباس ہے۔ گلابی رنگ کے ٹانکوں والا دوسرا اور کالے رنگ کے ٹانکوں والا تیسرا لباس ہے۔ آپ کی ذہانت میں کوئی شک نہیں۔ :)
اچھا طریقہ ہے لباس کو پہچاننے کا ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
لیں جناب مابدولت نے اس کا بہت شافعی و کافی حل تلاش کر لیا۔
بس اب مالکی ، حنبلی اور حنفی حل بھی ڈھونڈ لیں تو شلوار قمیض کے فقہی مسائل کا مکمل احاطہ ہوجائے گا۔

کیا شاندار ٹائپو سرزد ہوا ہے ۔ میری طرف سے اپنے آٹو کریکٹ کو شاباش دےدیجیے۔ :)
 
Top