ہماری تک بندیاں

بہت شکریہ چاچو اتنے مفید تبصرے کا۔ آپ کی صلاح کے مطابق میں نے تبدیلی کر لی ہے ہاں یہاں دھاگے پر اسے اسی حال میں چھوڑتا ہوں کہ آپ کا تبصرہ ساتھ ہے لہٰذا اصل کا رہنا ضروری ہے۔

ہا ہا ہا ہا ہا ہا ارے چاچو “بند” کا قصہ یہ ہے کہ میں شعر تو کہہ نہیں سکتا تھا کہ شاعری سے ملحق تھا۔ :) لہٰذا تک بندی سے بند نکال لیا۔ :)
ویسے بند کی اتنی واضح تعریف آج ہی علم میں آئی۔ بہت شکریہ چاچو۔ :)
 

زھرا علوی

محفلین
عرصہ بعد ایک اور تک بندی

ے

یہ کیسے بوجھل لمحے ہیں اک خاموشی سی چھائی ہے
ہر چشم میں پر تو وحشت کی ہر آنکھ میں اک افسانہ ہے



۔۔
سعود عالم ابن سعید

بھائی دوسرے مصرعے میں "پرتو وحشت کی" میں کی کے بجائے "کا" نہیں آئے گا؟


یعنی "پرتو وحشت کا"۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
بہت شکریہ بیٹا در اصل میں پرتو کے جنس میں مشتبہ تھا۔

بلکہ میں تو اسے جمع کے صیغے میں استعمال کرنے کی سوچ رہا تھا یعنی “پرتو وحشت کے”۔

یہ تصحیح نوٹ کر لی ہے پر یہاں اصل کو تبدیل نہیں کر رہا۔ :)
 

مغزل

محفلین
کاش طوفاں میں سفینے کو اتارا ہوتا
آج قدموں میں ہمارے بھی کنارہ ہوتا

کسی گمراہ مسافر کے ہی کام آ جاتا
ماہِ تاباں نہ سہی بھور کا تارا ہوتا

آج کس منھ سے میں امیدِ شفاعت رکھوں
اسمِ وحدت جو کبھی لب سے گزارا ہوتا

رہگزر زیست کی لمبی سہی دشوار سہی
سہل ہو جاتی اگر تیرا سہارا ہوتا

کپکپاتی ہوئی شمع نے بھی دم توڑ دیا
صبح‌ نو خیز نے ٹک سر تو ابھارا ہوتا

سعود عالم ابنِ سعید

کیا بات ہے جناب ۔۔
واہ سبحان اللہ۔۔
بہت اعلی اور مرصع کلام ہے۔
امید ہے تواتر سے پڑھنے کو ملتا رہے گا۔
والسلام
 
جی بہت شکریہ عالی جاہ۔

مجھے افسوس ہے کہ آپ ایسی توقع رکھنے کے بجائے فدوی کی گردن زدنی کرا دیں۔ کہ اب مجھ سے تک بندیاں ہونے سے رہیں۔ اور ظل الٰہی کو منتظر رکھنا بجائے خود گستاخی ہے۔

حوصلہ افزائی کے لئے ایک بار پھر دست بستہ ممنون ہوں۔
 

مغزل

محفلین
بنام تپش

دریا میں بہتے آب کے دھاروں میں ہے تپش
ہے موج بیچ میں، تو کناروں میں ہے تپش

منظر پگھل کے شیشہء دل میں اتر گیا
فطرت کے ان حسین نظاروں میں ہے تپش

آنکھوں کو ٹھنڈ دیتی ہے تاروں کی روشنی
کہتے ہیں لوگ پھر بھی ستاروں میں ہے تپش

قہار کے صفت سے کراتی ہے روشناس
شعلوں میں آںچ ہے تو شراروں میں ہے تپش

انگلی اٹھی کہ چاند بھی دو ٹکڑے ہو گیا
سرکار دو جہاں کے اشاروں میں ہے تپش

ابن سعید سنگ پگھل جائے گا ضرور
سب مانتے ہیں ساز کے تاروں میں ہے تپش


سعود عالم ابن سعید

واہ واہ ۔۔ واہ واہ۔۔ چہ خوب چہ خوب۔
ایں سعادت بزورِ بازو نیست۔
بہت مرصع کلام ہے داد و مبارکباد اور دعائیں۔
گرقبول افتد زہے عزو شرف

غزل کے محاسن اور معاملت پر گفتگو ہوچکی ۔
اب اس کے بعد کچھ کہنا مجھ کو سزاوار نہیں۔

ایک بار پھر صمیمِ قلب سے مبارکباد
والسلام
 

مغزل

محفلین
مزید کلام (تبدیلی پر معذرت)

ہم عہد گذشتہ کی کوئی ریت نہ لکھ پائے
پلکوں کی سیاہی میں کوئی گیت نہ لکھ پائے

ہاں گاہِ تماشا سے کئی بار صدا آئی
ہم زلف کے تاروں پے سنگیت نہ لکھ پائے

اس عشق کی بازی میں کیا کیا نہ ہوا اب تک
سو ہار لکھے لیکن اک جیت نہ لکھ پائے


سعود عالم ابن سعید


املا کی اغلاط ایک جانب۔
لیکن جناب جہاں تک بات کی اشعار کی جنہیں آپ نے
بند لکھا ہے ۔۔ بہت خوب ہیں۔
داد و مبارکباد اور دعائیں۔
بہت خوب بہت خوب ۔۔واہ
سدا خوش رہیئے جناب۔
آخری شعر میں ہار کو لکھے لکھا گیا ہے۔۔
اس پر رائے محفوظ
سلامت تا قیامت رہیں جناب۔
 

مغزل

محفلین
مزید کلام (عنوان بدلنے پر معذرت)

مت سنو اس کو جو جہاں بولے
سچ تو وہ ہے جو آئینہ بولے

سب تو ہیں خوگر دروغ یہاں
سچ کوئی جا کے اب کہاں بولے

سچ کے پنّے نظر نہیں آتے
جھوٹ ہر ایک داستاں بولے

جن کو اپنوں پہ اعتبار نہیں
کون ایسوں کے درمیاں بولے

جھوٹ ہیں مکر ہیں بہار کے رنگ
سچ جو بولے تو بس خزاں بولے

دھوپ اور چھاؤں کتنے دیکھے ہیں
یہ تو چہرے کا ہر نشاں بولے

لب کِھلے اور بجھی بجھی آنکھیں
کچھ نہاں اور کچھ عیاں بولے

تیری ہر بات جھوٹ ہے اے سعود
سچ تو وہ ہے جو آئینہ بولے


سعود عالم ابن سعید

بہت خوب واہ ۔ ۔۔ بھئی واہ
ایک التماس کہ ہرم کلا م کو الگ تھریڈ میں پیش کیا جانا چاہیئے۔
ورنہ کچھ نہ کچھ صرفِ نظر ہوتا رہے گا۔

پنّے کی جگہ آپ صفحے بھی استعمال کرسکتے تھے۔
کیوں کہ لفظ پنّے کی جمالیات مشکوک ہیں۔
پوری غزل اعلی اخلاقی بیانی اقدار کا حیطہ کیئے ہوئے ہے
ایک ایک شعر نگینہ ایک ایک شعر موتی۔
مبارکباد اور داد
گر قبول افتد
(آئنہ کے قافیے بات ہوچکی )
والسلام
 

مغزل

محفلین
کلام میں ایک اور اضافہ ( ایک بار پھر تدوین کی معذرت)

کچھ پھول یہاں رنگوں سے عاری بھی کھلے تھے
پر آج انھیں پیڑوں کی شاخوں پہ ثمر ہے


( اگر مطلع نہیں تو صحیح ۔۔ وگرنہ ایک بار دیکھ لیجئے گا۔)

چہروں پہ کئی چہرے لپیٹے ہیں یہاں لوگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(سجائے کا محل ہے ۔۔ وگرنہ روا آپ نے کر ہی لیا ہے )
جو بھانپ لے سچائی وہی اہلِ نظر ہے

اچھا شعر ہے واہ۔

دیکھے ہیں کئی پیڑ یہاں سوکھتے ہم نے
رہتا ہے ہرا صحرا میں کیسا وہ شجر ہے
واہ ۔ چہ خوب

پلکوں کے جھروکوں سے ذرا جھانک کے دیکھو
ہلکورے ہیں شفقت کے، کہ شدّت کی لہر ہے

اچھوتی بات ہے ۔۔ خاصا طفلکِ ہوشیار والا معاملہ ہے ۔ واہ

مت مانو کہ باتیں ہیں یہ سو سال پرانی
شہرت ہے یہی اس کی کہ یہ تنگ نظر ہے


سعود عالم ابن سعید




سعود عالم صاحب ۔۔ غزل پر مبارکباد اور داد۔
سدا خوش رہیئے جناب۔
والسلام مع الکرام
 
ہر بندش سے آزاد ایک اور تک بندی

سابقہ روایات کو قائم رکھتے ہوئے گھسے پٹے اور سالخوردہ خیالات کو ایک بار پھر تک بندی کے ڈھیلے لبادے میں لپیٹ کر حاضر خدمت ہو رہا ہوں۔


جو راہ بلندی کو جائے، دشوار سہی پر خار سہی۔
ہم کو تو وہی اپنانی ہے، اور اوپر تک چڑھ جانا ہے۔
گر گر کے چڑھے تو گرے کہاں، چڑھ کر کے گرے تو چڑھے کہاں۔
یہ کوہِ گراں جو حائل ہے، چڑھ جائیں پار اتر جائیں۔

مانا کہ مسافت لمبی ہے، اور رختِ‌سفر بھی ساتھ نہیں۔
تا حدِ نظر بس صحرا ہے، چلنے کی سکت اور تاب نہیں۔
رک رک کے چلے تو رکے کہاں، چل کر کے رکے تو چلے کہاں۔
منزل کا قصد جب کر ہی لیا، چل پڑے تو کاہے ٹھہر جائیں۔

یہ زیست اگر با مقصد ہو، جینے کا مزہ بھی تب ہی ہے۔
جو موت امر کر سکتی ہو، وہ موت بھی زیست سے اچھی ہے۔
کچھ کر کے مرے تو مرے کہاں، بن کیئے جیئے تو جیئے کہاں۔
پیغام یہ بھاتے ہیں دل کو، مر جائیں یا کچھ کر جائیں۔

کیوں راز کی باتیں کھولے ہے، کیوں دیوانوں سی بولے ہے۔
یہ عقل و خرد کی نگری ہے، کیا باتیں اپنی تولے ہے۔
سر دھن کے سنے تو دھنے کہاں، دھن دھن کے سنے تو سنے کہاں۔
دھنّے کی نہیں دیوانے کی بڑ، پل بھر کو سنیں اور گزر جائیں۔

--
سعود ابن سعید
05/11/2008
 
ایک التماس کہ ہرم کلا م کو الگ تھریڈ میں پیش کیا جانا چاہیئے۔
ورنہ کچھ نہ کچھ صرفِ نظر ہوتا رہے گا۔

عادت سے مجبور ہوں۔ :)


پنّے کی جگہ آپ صفحے بھی استعمال کرسکتے تھے۔
کیوں کہ لفظ پنّے کی جمالیات مشکوک ہیں۔

پنّے میں مجھے نغمگی زیادہ محسوس ہوتی ہے شاید اس کی وجہ ن پر تشدید ہے جس کے چلتے تسلسل قائم رہتا ہے۔ جبکہ صفھے میں صف اور حے کے درمیان سکون کے باعث روانی میں فرق آتا ہے۔ ویسے یہ جمالیات والی بات قابل غور ہے۔

( اگر مطلع نہیں تو صحیح ۔۔ وگرنہ ایک بار دیکھ لیجئے گا۔)

ہا ہا ہا۔ اب تک بندی ہی ہے اس لئے مطلع اور حسن مطلع پر زور کم ہی دیتا ہوں۔

چہروں پہ کئی چہرے لپیٹے ہیں یہاں لوگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(سجائے کا محل ہے ۔۔ وگرنہ روا آپ نے کر ہی لیا ہے )

لپیٹے لکھ کر میں نے چہرے پر نقلی چہروں کا غلاف چڑھانے کا تاثر دینے کی کوشش کی تھی۔

مغل بھیا آپ کے ان خوبصورت تبصروں کا جواب مجھ پر عرصے سے قرض تھا۔ کل رات اس دھاگے تک آنا ہوا تو اچانک یاد آیا۔

بہت شکریہ آپ کے مفید مشوروں کا۔

والسلام!
 

فہیم

لائبریرین
ہر بندش سے آزاد ایک اور تک بندی

سابقہ روایات کو قائم رکھتے ہوئے گھسے پٹے اور سالخوردہ خیالات کو ایک بار پھر تک بندی کے ڈھیلے لبادے میں لپیٹ کر حاضر خدمت ہو رہا ہوں۔


جو راہ بلندی کو جائے، دشوار سہی پر خار سہی۔
ہم کو تو وہی اپنانی ہے، اور اوپر تک چڑھ جانا ہے۔
گر گر کے چڑھے تو گرے کہاں، چڑھ کر کے گرے تو چڑھے کہاں۔
یہ کوہِ گراں جو حائل ہے، چڑھ جائیں پار اتر جائیں۔

مانا کہ مسافت لمبی ہے، اور رختِ‌سفر بھی ساتھ نہیں۔
تا حدِ نظر بس صحرا ہے، چلنے کی سکت اور تاب نہیں۔
رک رک کے چلے تو رکے کہاں، چل کر کے رکے تو چلے کہاں۔
منزل کا قصد جب کر ہی لیا، چل پڑے تو کاہے ٹھہر جائیں۔

یہ زیست اگر با مقصد ہو، جینے کا مزہ بھی تب ہی ہے۔
جو موت امر کر سکتی ہو، وہ موت بھی زیست سے اچھی ہے۔
کچھ کر کے مرے تو مرے کہاں، بن کیئے جیئے تو جیئے کہاں۔
پیغام یہ بھاتے ہیں دل کو، مر جائیں یا کچھ کر جائیں۔

کیوں راز کی باتیں کھولے ہے، کیوں دیوانوں سی بولے ہے۔
یہ عقل و خرد کی نگری ہے، کیا باتیں اپنی تولے ہے۔
سر دھن کے سنے تو دھنے کہاں، دھن دھن کے سنے تو سنے کہاں۔
دھنّے کی نہیں دیوانے کی بڑ، پل بھر کو سنیں اور گزر جائیں۔

--
سعود ابن سعید
05/11/2008



بڑھاپے میں اس قسم کی باتیں‌ کرنا اچھی بات نہیں:grin:

ویسے اچھا لکھا ہے:)
 

ش زاد

محفلین
حضور آج لفظ تُک بندی کے حقیقی معٰنی تک رسائی حاصل ہوئی ہے آپ کا کلام پڑھنے کے بعد
اس بارے یہی جان پایا ہوں کہ کسی اعلٰی پائے کے کلام کو تُک بندی بھی کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اتنا اچھا کلام پڑ ھنے کے بعد اپنی کارستانیاں بہت بھونڈی نظر آتی ہیں مُجھے۔۔۔۔اللہ کے کرم سے ایسی تک بندیاں آپ کے تخیل پر ھمیشہ وارد ہوتی رہیں آمین

مخلص

ش زاد
 
حضور آج لفظ تُک بندی کے حقیقی معٰنی تک رصاعی حاصل ہوئی ہے آپ کا کلام پڑھنے کے بعد
اس بارے یہی جان پایا ہوں کہ کسی اعلٰی پائے کے کلام کو تُک بندی بھی کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اتنا اچھا کلام پڑ ھنے کے بعد اپنی کارستانیاں بہت بھونڈی نظر آتی ہیں مُجھے۔۔۔۔اللہ کے کرم سے ایسی تک بندیاں آپ کے تخیل پر ھمیشہ وارد ہوتی رہیں آمین

مخلص

ش زاد

برادرم آپ کی محبت ہے اور کچھ نہیں۔

ویسے یہ بتائیے کہ آپ کی رسائی اس دھاگے تک کیسے ہو گئی؟ میں تو اسے تقریباً‌ چھپا کے رکھتا ہوں۔ :)

خیر آپ کے کلام کے حسن سلیقہ تخیل اورتغزل سے میری تک بندیوں کا موازنہ کرنا انصاف نہ ہوگا۔ کہاں‌آپ کے نپے تلے اشعار معانی سے بھر پور ہر ہر مصرعہ فلسفے کا ایک جہان سموئے ہوئے۔ اور کہاں میری راہ چلتے ہوئے وارد ہونے والی بے تکی گنگناہٹیں۔

ویسے میں‌ جب کچھ لکھتا ہوں تو ایک بار اپنے ماموں کے کلام سے موازنہ کرتا ہوں‌کہ کہاں تک پہونچ سکا۔ اور پاتا ہوں کہ یہ تو کچھ بھی نہ تھا۔ اسی لئے تک بندی کے زمرے میں‌ڈال دیتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ کوئی بات نہیں اگلی دفعہ دیکھوں گا۔ :) کسی روز ان شاء اللہ ماموں کا کلام شریک محفل کرں گا۔
 
بہت شکریہ مغل بھیا۔

اور عدنان بھائی ماموں کے کلام کے بارے میں میں اتنا کہوں گا کہ میرے خیالات منتشر ہوتے ہیں اور وزن میں لانے کے لئے تک بندیوں‌کو موضوع سے آزاد چھوڑ دیتا ہوں۔ جب کہ ماموں نے جو بھی لکھا ہے وہ اسلامی شاعری کے زمرے میں آتا ہے۔ گرچہ کئی احباب کو اس بات سے تامل ہے کہ ادب کو ایسے زمروں میں تقسیم کیا جائے۔ الفاظ کے انتخاب کے معاملے میں علامہ اقبال کی جھلک ملتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اردو کی علمی استعداد مکتب کے درجہ ششم تک ہونے کے باعث وہ بلندی نہیں۔ دوسری بات یہ کہ ماموں کا کلام مقدار میں انتہائی محدود ہے۔ یعنی ان پر شاعری کا دورہ مختصر مدت کے لئے پڑا تھا پھر زندگی کی ترجیحات بدل گئیں اور دوبارہ پلٹنے کا موقع نہ مل سکا۔ اور اس سلسلے کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ماموں کے اشعار کا مسودہ ان کے ناہل اولاد کی لا پروائی کا شکار ہو گیا۔ اب حال یہ ہے کہ۔

کچھ بلبلوں کو یاد ہے کچھ قمریوں کو حفظ
عالم میں ٹکڑے ٹکڑے میری داستاں کے ہیں۔

میں سوچ رہا ہوں کہ لوگوں‌کے حافظے سے کھنگال کھنگال کے اسے جمع کروں پر دیکھئے اس مہم کی نوبت کب آتی ہے۔
 
Top