عدیم ہاشمی ہلے نہ ہونٹ ترے قُرب کے بیاں کے لیے۔ عدیم ہاشمی

شیزان

لائبریرین
ہلے نہ ہونٹ ترے قُرب کے بیاں کے لیے
یہ ذائقہ ہی نیا ہے مری زباں کے لیے
میں کون کون سے دیوار و دَر کو یاد کروں
دھڑک رہا ہے مرا دل تو ہر مکاں کے لیے
کہاں لکھوں کہ نہ پہنچے جہاں یہ وقت کا ہاتھ
قدم کہاں پہ دھروں دائمی نشاں کے لیے
نہ اب وہ اپنی تمنا، نہ اب وہ خواہشِ خاص
میں جی رہا ہوں یہ کس عمرِ رائیگاں کے لیے
خلا میں پھینک رہا ہوں جلا جلا کے چراغ
بنا رہا ہوں ستارے کچھ آسماں کے لیے
درخت پہنوں بدن پر ، سنوار لوں شاخیں
کہ پیڑ ڈُھونڈ رہا ہے وہ آشیاں کے لیے
بس اِک سفیدی سی تصویر بن گئی ہے عدیم
ملے نہ رنگ مجھے اپنی داستاں کے لیے
نذرِاقبال​
عدیم ہاشمی
 

باباجی

محفلین
واہ بہت خوب انتخاب
خوش رہیں

درخت پہنوں بدن پر ، سنوار لوں شاخیں
کہ پیڑ ڈُھونڈ رہا ہے وہ آشیاں کے لیے
 
Top