ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ایک مشاعرے میں جوش ملیح آبادی اپنا کلام سنارہے تھے ۔ راجندر سنگھ بیدی سامعین میں شامل تھے ۔ ایک شعر سن کر بولے ۔ " دیکھو یہ شخص پٹھان ہو کر کتنے اچھے شعر پڑھ رہا ہے ! " جوش صاحب کہاں چوکنے والے تھے ۔ برجستہ بولے ۔ " اور ا سے دیکھو ۔ سکھ ہو کر کتنی اچھی داد دے رہا ہے !"
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میرے انٹر کے زمانےکا ایک قریبی دوست رضا بیگ تھا ۔ رضا کے والدین نے ایران سے ہجرت کی تھی ۔اور اس کے والد والیانِ ریاست خیرپور کے دربار میں چاکری کرتے تھے ۔ والیانِ خیرپور یعنی تالپور گھرانہ مذہباََ شیعی تھا اور ہمیشہ اہلِ تشیع کی سرپرستی میں آگے آگے رہا ۔ یہ قصہ مجھے رضا بیگ ہی نے سنایا کہ رئیس امروہوی کے ایک بھائی ( جن کا نام غالباََ کمال حسن امروہوی تھا) والیانِ ریاست خیرپور سے وابستہ تھے۔ شنیدہ ہے کہ سی ایس پی ملازمت سے ریٹائر ہو سب کچھ چھوڑچھاڑ کر خیرپور میں گوشہ نشین ہوگئے تھے۔ صاحب کتاب مصنف اور قادرالکلام شاعر تھے ۔وہ تفنن طبع کے لئے ایسے اشعار بھی کہتے تھے کہ جن میں بیک وقت کئی زبانوں کے الفاظ شامل ہوتے تھے۔ یہ اشعار ان کی مجلس سے سینہ بسینہ چلے آرہے تھے اور ان میں سے کچھ رضا بیگ کو بھی یاد تھے ۔ کبھی کبھار خیرپور کا تذکرہ چھڑجاتا تو وہ مجھے یہ اشعار سنایا کرتا تھا ۔ کاش میں نے اس وقت وہ سب لکھ لئے ہوتے ۔ اب ان میں سے صرف دو اشعار مجھے یاد رہ گئے ہیں اور وہ بھی ٹوٹے پھوٹے سے ۔ ان اشعار میں فارسی ، سندھی ، پنجابی ، انگریزی اور سرائیکی کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ میں ساتھ ہی ان زبانوں کی رنگین کلید دے دیتا ہوں تاکہ آپ مذکورہ لفظ کو اسی زبان اور لہجے کے ساتھ پڑھ کر کماحقہ لطف اندوز ہوسکیں ۔

فارسی ۔ پنجابی - انگریزی - سرائیکی - سندھی - اردو

سرخی جو دیدم بر لبش
گفتم کہ ایں چہ
کیتا ای؟
گفتا کہ خون ِ عاشقاں
بھر پیالہ پیتا ای

ترجمہ: میں نے اس کے لبوں پر سرخی دیکھی تو پوچھا کہ یہ تم نے کیا کیا ہے ؟ تو اس نے کہا کہ میں نے عاشقوں کا خون پیالہ بھر کے پی لیا ہے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بیری ہیٹھ نشستہ بودم
ہک بھینڈ آئی کھڑکاندی
ہیڈ آئی ناٹ اگوں تے بھجدا
تے بھینڈ میکوں لگ جاندی

ترجمہ: میں ایک بیری کے نیچے بیٹھا تھا کہ ایک ڈھیلا کھڑکھڑاتا ہوا ( بیری پر) آیا ۔ اگر میں آگے کی طرف نہ بھاگتا تو وہ ڈھیلا مجھے لگ جاتا ۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
یکے نیم میں بیٹھے پیتے تھے غنچی
کہ پوشیدہ غنچی وہاں آپڑی
لڑکپن کی دھندلاتی یادوں میں اکثر ایک شعر کبھی کبھی گونجتا ہے جو والد صاحب کبھی کبھی پڑھا کرتے تھے۔ شعرکی لطافت سے محظوظ ہو نے کی استعداد کے پیدا ہو نے کے با وجود یہ پلؑے نہ پڑتا تھا سو ایک دن والد صاحب نے کچھ پس منظر بتایا تو پتا چلا کہ اس پس منظر کے بغیر یہ بھی لایعنی ہی ہے۔کچھ لوگ ہندی مین فارسی کی پیوند کاری کیا کرتے تھے ۔ اور شعری ذوق کی مجبوری کے باعث ایسے نمونے وجود میں آجاتے تھے۔ ایک دن یہ ہی لوگ ڈیوڑھی میں بیٹھے حقہ کا مزہ لے رہے تھے کہ وہاں اچانک ایک چھپ کلی آ کے گری اور کسی نے اس واقعے کو منظوم کر دیا ۔ اب ڈیوڑھی غنچے اور چھپکلی کا زبان وبیان میں ایسا الجھاؤ پیش کیا کہ عقل عاجز ہو رہی ۔
یکے نیم تو ہوگیا ایک اور آدھا ۔یعنی ڈیڑھ سو ڈیوڑھی کا متبادل ہوا۔ غنچی وہ لوگ کہتے تھے حقے کو۔سو بات یہ بنی کہ ڈیوڑھی میں بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔اب غنچی کو پہلے مصرع میں حقہ تھی دوسرے مصرع میں پھول کی کلی کا روپ دھار گئی اور پوشیدہ ہوکر چھپکلی بن گئی اور ان کی حقے کی محفل مین مخل ہو گئی۔ :ROFLMAO:
 

آوازِ دوست

محفلین
ان اشعار میں فارسی ، سندھی ، پنجابی ، انگریزی اور سرائیکی کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ میں ساتھ ہی ان زبانوں کی رنگین کلید دے دیتا ہوں تاکہ آپ مذکورہ لفظ کو اسی زبان اور لہجے کے ساتھ پڑھ کر کماحقہ لطف اندوز ہوسکیں ۔

فارسی ۔ پنجابی - انگریزی - سرائیکی - سندھی - اردو

سرخی جو دیدم بر لبش
گفتم کہ ایں چہ
کیتا ای؟
گفتا کہ خون ِ عاشقاں
بھر پیالہ پیتا ای

ترجمہ: میں نے اس کے لبوں پر سرخی دیکھی تو پوچھا کہ یہ تم نے کیا کیا ہے ؟ تو اس نے کہا کہ میں نے عاشقوں کا خون پیالہ بھر کے پی لیا ہے ۔
واہ ! ایک اور بت شکن میں نے دیکھا ۔ خونِ عاشقاں کے ساتھ ساتھ پابندِقواعد شاعری پسند کرنے والوں کے ارمانوں کا خون بھی موصوف شاعر کے کلام میں شامل ہے سو اِس بات پر کوئی تعجب نہیں کہ یہ سب کلام سینہ بہ سینہ ہی چلا کہ گمان غالب ہے اساتذہ و متاثرین پستول لے کر داد دینے کےلیے شاعر کو ڈھونڈنے نکل سکتے تھے :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ ! ایک اور بت شکن میں نے دیکھا ۔ خونِ عاشقاں کے ساتھ ساتھ پابندِقواعد شاعری پسند کرنے والوں کے ارمانوں کا خون بھی موصوف شاعر کے کلام میں شامل ہے سو اِس بات پر کوئی تعجب نہیں کہ یہ سب کلام سینہ بہ سینہ ہی چلا کہ گمان غالب ہے اساتذہ و متاثرین پستول لے کر داد دینے کےلیے شاعر کو ڈھونڈنے نکل سکتے تھے :)
سینہ گزٹ میں ایسا تو ہوتا ہی ہے ۔ :)
امروہوی صاحب نے تو اشعار پابند ہی کہے ہوں گے۔ بس آپ اور ہم تک آتے آتے بے وزنے ہوگئے ۔ یقیناً اس میں کچھ حصہ میری یاد داشت کا بھی ہے ۔ اسی لئے لکھا تھا کہ دو اشعار یاد رہ گئے اور وہ بھی ٹوٹے پھوٹےسے۔ویسے خونِ عاشقاں والے اشعار تو ٹھیک ہیں ۔ آخری مصرع کے شروع میں اگر میں کا اضافہ کردیں تو وزن ٹھیک ہوجاتا ہے ( بشرطیکہ میں پنجابی کے الفاظ ٹھیک تلفظ سے ادا کر رہا ہوں ) ۔ لیکن بھائی ایسے کثیراللسانی اشعار کہنا بجائے خود ایک بڑی بات ہے۔ داد تو بنتی ہے مرحوم کیلئے ۔
اور جہاں تک پستول بات ہے کی تو بھائی اردو شاعروں کے ہاتھ آتشیں اسلحہ ابھی تک نہیں آیا ہے ۔ تیغ ، تلوار، تیر ، تفنگ اور خنجر سے ہی کام چلارہے ہیں ۔ :):):)
ٹیگ: آوازِ دوست
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اسّی کی دہائی کا ذکر ہے ۔ نیشنل سینٹر حیدرآباد میں ایک مذاکرہ ہورہا تھا جس کا موضوع تھا قومی ترقی میں خواتین کا کردار۔ اس مذاکرے کے مہمانِ خصوصی ایک سندھی دانشور تھے۔ مذاکرہ چونکہ اردو میں تھا اس لئے مہمانِ خصوصی نے بھی اپنی صدارتی تقریر اردوہی میں کی ۔ بہت ہی پرجوش اور دھواں دھار تقریر تھی ۔ بول تو وہ ٹھیک ہی بول رہےتھے لیکن جہاں جہاں اردو میں اٹکتے وہاں حسبِ ضرورت انگریزی یا سندھی لفظ کا پیوند لگادیتے تھے۔ سندھی میں کندھے یا شانے کو کُلھا کہتے ہیں ۔ کُلھا کا تلفظ اردو لفظ کولھا کے بہت ہی قریب سمجھئے۔ بس ذرا سا واؤ کو دبادیجئے تو کلھا ہوجائے گا ۔ چنانچہ ایک مقام پرجب انہیں اردو لفظ کندھا بروقت یاد نہ آیا تو اسی سندھی لفظ سے کام لیا اور فرمایا ۔ ’’ ہماری قوم اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی ہے جب تک کہ ہمارے مرد اور عورتیں کولھے سے کولھا ملا کر نہیں چلیں گے ۔ ‘‘ آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ سن کر سامعین کے چہروں پر مسکراہٹوں کا گراف کس بلندی تک گیا ہوگا ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اس واقعے کےاگلے روز ہم نے اپنی ایک ہم جماعت سے کہ جو اس مذاکرے کے سامعین میں شامل تھیں سنجیدہ چہرا بناکر کہا کہ ہم میڈیکل کے طلباء کو بھی قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ۔ یہ سن کر پہلے تو وہ بہت زور سے ہنسیں اور پھر ایکدم خفا ہوگئیں۔ ہمیں بہت زور سے ڈانٹا اور کہا کہ بکواس بند کریں اورپھر کوئی دو ہفتوں تک بات نہیں کی ۔ نمعلوم کیوں ۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہماری قوم کی عدم ترقی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے مفکروں اور دانشوروں کے اقوالِ زریں پر ذرا عمل نہیں کرتے۔
:):):):)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جوش ملیح آبادی ایک مشاعرے میں شریک تھے ۔ مشاعرے کے د وران ایک نوجوان شاعر نے جو کلام سنایا وہ کم و بیش جوش کے اشعار کا چربہ تھا ۔ ان ہی کے مضامین ، وہی ترکیبات ، وہی لفظیات۔ یعنی معمولی سے رد و بدل کے ساتھ تقریبا پورے پورے مصرع جوش کے تھے۔ مشاعرے میں موجود سینئر شعرا اور سخن فہم سامعین سر جھکائے خاموشی سے سنا کئے اور کن انکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے ۔ کسی نے کچھ نہیں کہا ۔ مشاعرے کے اختتام پر جب جوش ملیح آبادی کے پڑھنے کی باری آئی تو اناؤنسر نے انہیں دعوت کلام دیتے ہوئے کہا ۔ " خواتین و حضرات ! اب آپ جوش صاحب کا کلام خود ان کی زبانی سنیئے ۔":)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
عبدالحمید عدم اور اسرار الحق مجاز کی معاصرانہ نوک جھونک کے کئی قصے مشہور ہیں ۔ عدم فربہ اندام تھے۔ مجاز نے ایک دفعہ انہیں دیکھ کر کہا ۔ " اگر عدم یہ ہے تو پھر وجود کیسا ہوگا ؟!"
 

محمداحمد

لائبریرین
اسّی کی دہائی کا ذکر ہے ۔ نیشنل سینٹر حیدرآباد میں ایک مذاکرہ ہورہا تھا جس کا موضوع تھا قومی ترقی میں خواتین کا کردار۔ اس مذاکرے کے مہمانِ خصوصی ایک سندھی دانشور تھے۔ مذاکرہ چونکہ اردو میں تھا اس لئے مہمانِ خصوصی نے بھی اپنی صدارتی تقریر اردوہی میں کی ۔ بہت ہی پرجوش اور دھواں دھار تقریر تھی ۔ بول تو وہ ٹھیک ہی بول رہےتھے لیکن جہاں جہاں اردو میں اٹکتے وہاں حسبِ ضرورت انگریزی یا سندھی لفظ کا پیوند لگادیتے تھے۔ سندھی میں کندھے یا شانے کو کُلھا کہتے ہیں ۔ کُلھا کا تلفظ اردو لفظ کولھا کے بہت ہی قریب سمجھئے۔ بس ذرا سا واؤ کو دبادیجئے تو کلھا ہوجائے گا ۔ چنانچہ ایک مقام پرجب انہیں اردو لفظ کندھا بروقت یاد نہ آیا تو اسی سندھی لفظ سے کام لیا اور فرمایا ۔ ’’ ہماری قوم اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی ہے جب تک کہ ہمارے مرد اور عورتیں کولھے سے کولھا ملا کر نہیں چلیں گے ۔ ‘‘ آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ سن کر سامعین کے چہروں پر مسکراہٹوں کا گراف کس بلندی تک گیا ہوگا ۔

جوش ملیح آبادی ایک مشاعرے میں شریک تھے ۔ مشاعرے کے د وران ایک نوجوان شاعر نے جو کلام سنایا وہ کم و بیش جوش کے اشعار کا چربہ تھا ۔ ان ہی کے مضامین ، وہی ترکیبات ، وہی لفظیات۔ یعنی معمولی سے رد و بدل کے ساتھ تقریبا پورے پورے مصرع جوش کے تھے۔ مشاعرے میں موجود سینئر شعرا اور سخن فہم سامعین سر جھکائے خاموشی سے سنا کئے اور کن انکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے ۔ کسی نے کچھ نہیں کہا ۔ مشاعرے کے اختتام پر جب جوش ملیح آبادی کے پڑھنے کی باری آئی تو اناؤنسر نے انہیں دعوت کلام دیتے ہوئے کہا ۔ " خواتین و حضرات ! اب آپ جوش صاحب کا کلام خود ان کی زبانی سنیئے ۔":)

واہ !

یہ دو تو بہت ہی لاجواب ہیں۔ :)
 

اکمل زیدی

محفلین
جوش ملیح آبادی ایک مشاعرے میں شریک تھے ۔ مشاعرے کے د وران ایک نوجوان شاعر نے جو کلام سنایا وہ کم و بیش جوش کے اشعار کا چربہ تھا ۔ ان ہی کے مضامین ، وہی ترکیبات ، وہی لفظیات۔ یعنی معمولی سے رد و بدل کے ساتھ تقریبا پورے پورے مصرع جوش کے تھے۔ مشاعرے میں موجود سینئر شعرا اور سخن فہم سامعین سر جھکائے خاموشی سے سنا کئے اور کن انکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے ۔ کسی نے کچھ نہیں کہا ۔ مشاعرے کے اختتام پر جب جوش ملیح آبادی کے پڑھنے کی باری آئی تو اناؤنسر نے انہیں دعوت کلام دیتے ہوئے کہا ۔ " خواتین و حضرات ! اب آپ جوش صاحب کا کلام خود ان کی زبانی سنیئے ۔":)

اسی طرح کا ایک قصہ کا اختتام کچھ اسطرح سے بھی ہوا تھا کےجب جوش صاحب نے اس نوجوان کی توجہ کلام کے ان کا ہونے یا ان کے کلام کا چربہ ہونے کی طرف دلائی تو نوجوان نے جواب دیا تھا "ہو سکتاہے آپ کے اور میرے خیالات ٹکرا گئے ہوں تو ۔۔۔جوش ملیح آبادی نے اس کا شانہ جھنجھوڑتے ہوئے کہا کبھی جہاز اور سائیکل کی بھی ٹکر سنی ... ہے....:LOL:
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے مہدی حسن نے بہت اچھی گائی ہے اور بہت مشہور ہوئی ہے ۔ شنیدن ہے کہ ایک نجی شعری محفل میں فیض صاحب اپنا کلام سنارہے تھے۔ نئے کلام کے بعد جب فرمائشوں کا سلسلہ جاری ہوا تو ایک صاحب نے ان سے فرمائش کی کہ فیض صاحب وہ مہدی حسن والی غزل سنائیے ۔ :):):):)
 

سیما علی

لائبریرین
کوئی دلِ بیمار کو ڈانٹے کہ ٹھہَر بھی
او تھالی کے بینگن تو اِدھر بھی ہے اُدھر بھی

گہہ رُخ پہ نقاب اس کے ہے گہہ ہاتھ میں تلوار
معشوق وہ معشوق جو مادہ بھی ہو، نر بھی

تحریر کا عنواں نئی تہذیب نے بدلا
معشوق کے القاب میں ہے مائی ڈیر بھی

کہتی ہے سدا صاحبِ مقدور کی اولاد
ترکہ ملے ہم کو، ارے جلدی کہیں مر بھی

بلبل کہو تم شوق سے ایسے شعراء کو
اک چونچ بھی جس کی ہو، ظریف، اور ہوں پر بھی

(ظریف لکھنوی)

-----
م - "نقوش"
وارث صاحب !!!!!
السلام علیکم
بہت اعلی سچ
انتہا ئی شاندار!!!!
 

سیما علی

لائبریرین
ابن الوقت

یہ ناول ڈپٹی نذیر احمد صاحب نے آخری زمانے میں لکھا۔ اس وقت تک ان کے سماجی اور سیاسی تصورات پختہ ہو چکے تھے۔ے نذیر احمد کبھی بھی مغربی تمدن کے مخالف نہیں رہے انھوں نے کبھی مذمت نہیں کی لیکن یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ ہندوستان پورے طور پر مغربی تمدن اختیار کرے اس کے لئے ان کے پاس وجوہات تھیں۔ انھوں نے اس ناول میں ابن الوقت کی مغربی زندگی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ نذیر احمد کو اس کا شعور تھا کہ سماج کے ایک فرد کے بدلنے سے پورا سماج بدل نہیں جاتا اندھی تقلید پسندی کو وہ سماج کے لیے مضر سمجھتے تھے۔ ابن الوقت انگریزوں کی اندھی تقلید میں اپنے سماج سے الگ ہو گیا۔ اس لیے وہ سماج کی ہمدردیوں سے محروم ہو گیا ہے۔ انھوں نے یہ ناول ۱۸۸۸ء میں ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد لکھا۔ ملازمت سے سبکدوش اور وظیفہ یابی کے بعد نذیر احمد کا بڑھتے ہوئے مغربی تمدن کے خلاف آواز اٹھانا سماجی زندگی اور اس کی تبدیلیوں پر ان کی نگاہ کی گہرائی کا پتا دیتی ہے۔ انہیں اپنے دو ملازمت میں بے شمار انگریزی داں ہندوستانی عہدے داروں سے سابقہ پڑ چکا تھا اور ان کی باریک بین نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ طبقہ مغربی زندگی کا شکار ہے۔ اپنی زندہ پائندہ اور جاندار روایات کو چھوڑ کر مغربی تمدن کے سیلاب میں اپنے آپ کو بہا دینے میں اپنی نجات سمجھ رہا ہے اس لئے انھوں نے مغربی تمدن کی اندھی تقلید کے خلاف آواز اٹھائی وہ مغرب کی اچھی چیزوں کی جن کے بغیر اس زمانے میں زندگی گزارنا مشکل تھا مخالفت نہیں کرتے، مثال کے طور پر انگریزی حکومت نے تعلیم کی اشاعت کی کوشش کی۔
ابن الوقت میں نذیر احمد نے یہ بات ثابت کی ہے کہ مغربی تمدن کی پیروی کے نتیجے میں انسان مذہب سے بیگانہ ہونے لگا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ مغربی تمدن کی تقلید سے صرف دین ہی ہاتھ سے نہیں جاتا بلکہ دنیا بھی خراب ہوتی ہے کیونکہ مغربی طرز کی زندگی بڑی مہنگی ہوتی ہے۔ ہندوستانیوں کے لیے اس مہنگی زندگی کی اخراجات برداشت کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو جاتا ہے۔ اپنی چادر سے باہر پاؤں پھیلانے والوں کا نذیر احمد نے یہی حشر دکھایا ہے اور ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ غیر معروض ہو جاتے ہیں۔ ابن الوقت میں نذیر احمد نے اس ناول میں یہ بتایا کہ انسان جب غیر فطری زندگی گزارنے لگتا ہے تو زندگی اس پر بوجھ بن جاتی ہے اور مصیبت لگنے لگتی ہے۔ نذیر احمد نے اس بات کو موثر طریقے سے پیش کیا ہے۔ وہ ابن الوقت کی اس کیفیت کی حالت یوں بیان کرتے ہیں۔

’’وہ بھائی بہنوں اور دوسرے رشتہ داروں کی مفارقت کی خیال سے متاذی ہوتا تھا رشتہ دار تو رشتہ دار اُسے ہندوستانی سوسائٹی کے چھوٹ جانے کا بھی افسوس تھا ہم نے سنا ہے کہ اسنے بارہا اپنے راز داروں سے کہا کہ میرا یہ حال ہے کہ انگریزی کھانے کھاتے ہوئے اتنی مدت ہوئی کہ ایک دن میری سیری نہیں ہوئی اور میں ہر خواب میں اپنے تئیں ہندوستانی کھانے کھاتے دیکھتا ہوں۔ ‘‘
نذیر احمد ابن الوقت کے تضاد کے طور پر حجۃ الاسلام کا کردار پیش کرتے ہیں جو اپنی پرانی اور قدیم وضع کو قائم رکھتا ہے اور کسی قیمت پر بھی اپنی مذہبی اور مشرقی وضع کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہے وہ بھی ڈپٹی تھے اور انیسویں صدی کے نمائندہ مسلمانوں کی سماجی اور نفسیاتی زندگی کے تضاد کی کیفیت کو پیش کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے ابن الوقت ان کی بہترین کہانی ہے جو ان کے اپنے زمانے کی سماجی زندگی کے اہم اور بنیادی پہلوؤں کے مکمل احاطہ کرتی ہے۔
یہ میری بے حد پسندیدہ ناول ہے جسے بار بار پڑھتی ہوں اور ہر بار لگتا ہے کچھ تشنگی باقی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے ڈپٹی صاحب کا مبلغ ہونا بہت پسند ہے۔کردار میں جو خوبی ہے یا جو خامی اس کی خوبیوں اور خامیوں کو اس طرح سے ابھارتے ہیں کہ اس کردار کا خاکہ آپ کے دل پہ کاا لنقش فی الحجر ہو جاتا ہے، وہ فرشتہ یا شیطان بن کے آپ کے دل و دماغ میں بیٹھ جاتا ہے۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
اب وہ اگلا سا التفات نہیں
جس پہ بھولے تھے ہم وہ بات نہیں
رنج كيا كيا ہیں ایك جان کے ساتھ
زندگی موت ہے حیات نہیں
کوئی دلسوز ہو تو کیجے بیاں
سرسری دل کی واردات نہیں
ذرہ ذرہ ہے مظہر خورشید
جاگ اے آنکھ دن ہے رات نہیں
قیس ہو، كوہكن ہو، يا حالی
عاشقی کچھ كسي کی ذات نہیں

الطاف حسین حالی
 

سیما علی

لائبریرین
سیر زندگی

محمد حسین آزاد


“ مگر حقیقت میں نہ یہاں ناخدا کی پیش کی جاتی ہے نہ ملاح کی۔ فقط خدا کی آس ہے اور بس؎
جہاز عمر رواں پر سوار بیٹھے ہیں
سوار خاک ہیں بے اختیار بیٹھے ہیں
یہ سن کر میں نے ادھر ادھر غور سے دیکھنا شروع کیا اور دل نے کہا کہ ذرا نظر اٹھا کر تو دیکھ لو۔ دیکھا تو فی الحقیقت ایک نہر خوشنما گلزار کے بیچ میں لہراتی چلی جاتی ہے۔ ہمراہی میرے دیکھتے تھے اور خوش ہوتے تھے۔ اس کی لہروں میں ظاہرانہ کچھ زور تھا نہ شور تھا مگر جو شخص ذرا ہاتھ ڈالتا تھا وہ اسے بلبلے کی طرح بہا لے جاتی تھی ان گلزاروں کا کچھ حال دیکھنا چاہو تو بالکل اندھیرا تھا اور کوئی نہ کہہ سکتا تھا کہ باغ کہاں سے شروع 1))ہوتا ہے۔ یعنی جس نے آنکھ کھولی تھی اپنے تئیں باغ ہی میں دیکھا تھا دائیں بائیں اور سامنے بھی پانی ہی پانی تھا کہ اپنی لہر بھر میں بہتا چلا جاتا تھا اور دھند اتنی چھائی ہوئی تھی کہ تیز سے تیز نظر بھی کام نہ کرتی تھی2))۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اس دریا میں بڑے بڑے پتھروں کی چٹانیں ہیں، اور جا بجا گرداب پڑتے ہیں بہت سے لوگ ایسے تھے (1)کہ اپنی اپنی کشتیوں میں باد مراد کے مزے لیتے چلے جاتے تھے اور جو بچارے پیچھے رہ گئے تھے ان پر قہقہے اڑاتے جاتے تھے۔ مگر یہ بھی ہنستے ہنستے ان ہی گردابوں میں ڈوبتے جاتے تھے۔ دلوں کا اضطراب اور آنکھوں کا اندھیرا یہ غضب تھا کہ چالاک سے چالاک آدمی بھی مشکل سے سنبھل سکتا تھا، ان ہی میں ایسے لوگ بھی تھے کہ (2)ناواقفیت و نادانی کے سبب سے اپنے ساتھیوں کو گردابوں میں ڈال دیتے تھے اور موجوں کے تھپیڑے انھیں چٹانوں پر ٹکرا کر مار ڈالتے تھے. پانی برابر لہریں مارتا چلا جاتا تھا اور کشتی کو اس کی ٹکر پر چڑھا لانے کا تو ذکر کیا ہے اتنی مجال نہ تھی کہ کوئی پہلو کاٹ کر بھی دھارے کے سامنے سے چڑھ آئے یا کاش کہ جہاں سے چلا تھا پھر وہیں (3)آجائے۔ سب اپنی اپنی کشتیوں کو برابر روک تھام سے سنبھالے چلے جاتے تھے، اور لطف یہ کہ ہر شخص کے دل میں یہی خیال تھا کہ مجھے کچھ خطرہ نہیں۔ اگر ہے تو اور ہم سفروں کو ہے اوروں کے انجام دیکھ رہے تھے اور اپنی بد انجامی نہ معلوم ہوتی تھی، خود اسی مصیبت میں مبتلا تھے اور اپنا خیال نہ کرتے تھے۔جب موجوں کا زور ہوتا تھا تو قسمت اور بد اعمالی جو پرسے پر ملائے برابر عالم ہوا میں اڑاتی چلی جاتی تھیں، وہ لوگوں کو بہلالیتی تھیں۔ ہر شخص (3)خوش ہوتا تھا، اور دل میں اپنے تئیں مبارکباد دیتاتھا کہ الحمدللہ میری کشتی کو کچھ خطر نہیں ہے جو گرداب اوروں کو نگل گیا، میں اس سے بچ جاؤں گا، اور جن چٹانوں نے اور کشتیوں کو ٹکرا کر ڈبودیا میں انھیں بھی بے لاگ پھاند جاؤں گا۔ غفلت نے ایسا پردہ آنکھوں پر ڈالا تھا کہ ساتھ کے جہازوں کی تباہی بھی دیکھتے تھے مگر اسی راستے چلے جاتے تھے۔ اس بے پرواہی کا یہ حال تھا کہ دم بھر اور طرف متوجہ ہوتے تھے تو چپو بھی ہاتھ سے رکھ کر بھول جاتے تھے، پھر ناچار ہو کر اپنے تئیں قسمت پر چھوڑ دیتے تھے۔“
 
آخری تدوین:
Top