میر ہر ذی حیات کا ہے سبب جو حیات کا ۔ میر تقی میر

فرخ منظور

لائبریرین
ہر ذی حیات کا ہے سبب جو حیات کا
نکلے ہے جی ہی اُس کے لئے کائنات کا

بکھرے ہے زلف اس رخِ عالم فروز پر
ورنہ بناؤ ہووے نہ دن اور رات کا

در پردہ وہ ہی معنی مقوم نہ ہوں اگر
صورت نہ پکڑے کام فلک کی ثبات کا

ہیں مستحیل خاک سے اجزائے نو خطاں
کیا سہل ہے زمیں سے نکلنا نبات کا

مستہلک اس کے عشق کے جانے ہیں قدرِ مرگ
عیسیٰ و خضر کو ہے مزا کب وفات کا

اشجار خامہ ہوویں جا آبِ سیہ بحار
لکھنا نہ تو بھی ہو سکے اُس کی صفات کا

اس کے فروغِ حسن سے جھمکے ہے سب میں نور
شمعِ حرم ہو یا کہ دیا سومنات کا

بالذّات ہے جہاں میں وہ موجود ہر جگہ
ہے دید چشم دل کے کھلے عین ذات کا

ہر صفحے میں ہے محوِ کلام اپنا دس جگہ
مصحف کو کھول ، دیکھ ٹک انداز بات کا

ہم مُذنبوں میں صرف کرم سے ہے گفتگو
مذکور و ذکر یا نہیں صوم و صلات کا

کیا میر تجھ کو نامہ سیاہی کا فکر ہے
ختمِ رُسل سا شخص ہے ضامن نجات کا

(میر تقی میر)

دیوانِ دوم
 

مغزل

محفلین
شکریہ سخنور صاحب ، سخن نوازی کے لیے ، لاجواب کلام ہے واہ واہ بہت عمد ہ ، والسلام
 
Top