ہدیہ ء نعت

محمد فائق

محفلین
پھیلا تمہارے دم سے اجالا ہے یا نبی
سورج تمہارا نقشِ کفِ پا ہے یا نبی
جبریل آج کیوں نہ مرا ہم سخن بنے
مدحت کا آپ کی جو ارادہ ہے یا نبی
اَطہر کِیا ہے آیۂِ تَطہیر نے جسے
بیشک وہ آپ ہی کا گھرانہ ہے یا نبی
خالق گواہ صرف تصدق میں آپ کے
خالق نے یہ جہان سنوارا ہے یا نبی
جو دے گیا ہے دینِ خدا کو حیاتِ نو
بیشک وہ آپ ہی کا نواسہ ہے یا نبی
طوفان میں بھی میرا سفینہ ہے گامزن
حاصل اسے تمہارا سہارا ہے یا نبی
تم کو جو اپنے جیسا سمجھتا ہے وہ بشر
بیشک کہ گمرہی کا پلندہ ہے یا نبی
آنکھوں سے اپنی گنبدِ خضرا کو دیکھ لے
فائق کے دل میں بس یہ تمنا ہے یا نبی
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
معاف کیجیے گا نعت میں تم تمھارا جیسے الفاظ نبی کریم ص کے شایانِ شان نہیں
تم کو جو اپنے جیسا سمجھتا ہے وہ بشر
بیشک کہ گمرہی کا پلندہ ہے یا نبی
مزید اس شعر کا دوسرا مصرع نادنستہ ابہام پیدا کر رہا ہے


جبریل ع کا ذکر بھی بہت عزت و احترام سے کیا جاتا ہے۔اور اس مصرع میں میرا کو مرا لکھیں
آیہ تطہیر میں اضافت درکار ہے
 

کاشف اختر

لائبریرین
نعتوں میں تو اس طرزِ تخاطب کی بہت سی مثالیں ہیں ۔ اور ایسا تخاطب عام ہے ، تم ' تمہارا ' کو تو چھوڑئے ۔ بہتیرے اشعار میں ' تیرا ' بھی استعمال ہوا ہے ،

کہوں کیا ، کس قدر بالانشیں ہے ، آشیاں تیرا
فرازِ عرش پر دیکھا ہے ، اے سرور نشاں تیرا
اسے دونوں جہاں کی نعمتیں حاصل ہیں دنیا میں
بنایا جس نے دل میں اے رسول اللہ(ﷺ)مکاں تیرا

[/QUOTE]
 

ابن رضا

لائبریرین
نعتوں میں تو اس طرزِ تخاطب کی بہت سی مثالیں ہیں ۔ اور ایسا تخاطب عام ہے ، تم ' تمہارا ' کو تو چھوڑئے ۔ بہتیرے اشعار میں ' تیرا ' بھی استعمال ہوا ہے ،

کہوں کیا ، کس قدر بالانشیں ہے ، آشیاں تیرا
فرازِ عرش پر دیکھا ہے ، اے سرور نشاں تیرا
اسے دونوں جہاں کی نعمتیں حاصل ہیں دنیا میں
بنایا جس نے دل میں اے رسول اللہ(ﷺ)مکاں تیرا

[/QUOTE]
ایسا ہونا نہیں چاہیے. ہدیہ اگر تم.تڑاک کے ساتھ پیش کیا جائے تو یہ خانہ پری تو کہلا سکتی ہے ہدیہ نہیں. شاعر اگر قادرالکلام.ہے تو یہی مضمون احسن انداز سے بھی ادا کر سکتا ہے
 
آخری تدوین:

محمد فائق

محفلین
ابن رضا صاحب آپ کا اعتراض اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن بڑے بڑے شعراء نے بھی انبیاء و اولیاء کرام کے لیے تمہارا اور تیرا جیسے لفظ استعمال کیے ہیں
غلط املے کی نشاندہی کے لیے آپ کا شکر گزار ہوں
 

ابن رضا

لائبریرین
ابن رضا صاحب آپ کا اعتراض اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن بڑے بڑے شعراء نے بھی انبیاء و اولیاء کرام کے لیے تمہارا اور تیرا جیسے لفظ استعمال کیے ہیں
غلط املے کی نشاندہی کے لیے آپ کا شکر گزار ہوں
وما علینا الا البلاغ ... باقی آپ جو مناسب سمجھیں
 
[QUOTE="ابن رضا, post: 1772387, member: 7789]
ایسا ہونا نہیں چاہیے. ہدیہ اگر تم.تڑاک کے ساتھ پیش کیا جائے تو یہ خانہ پری تو کہلا سکتی ہے ہدیہ نہیں. شاعر اگر قادرالکلام.ہے تو یہی مضمون احسن انداز سے بھی ادا کر سکتا ہے[/QUOTE]
اس بات سے اتفاق ہے کہ کوشش کی جائے کہ جتنے مناسب الفاظ استعمال ہو سکیں، کئے جائیں.
مگر بہت سے مشہور شعراء نے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں اور وہ گستاخانہ محسوس بھی نہیں ہوتے.

مثلاً اقبال
لوح بھی تو قلم بھی تو ترا وجود الکتاب

مولانا ظفر علی خان
دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہی تو ہو

شاعر کا نام فی الحال ذہن میں نہیں،مشہور نعت ہے، مرغوب ہمدانی نے پڑھی ہے
کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
 
کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا

احمد ندیم قاسمی کی مشہور نعت ہے یہ

کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ھے فقط نقشِ کفِ پا تیرا

تہ بہ تہ تیرگیاں ذہن پہ جب لوٹتی ہیں
نور ہو جاتا ھے کچھ اور ہویدا تیرا

کچھ نہیں سوجھتا جب پیاس کی شدت سے مجھے
چھلک اٹھتا ھے میری روح میں مینا تیرا

پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ ھے تیرا کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ھے سہارا تیرا

دستگیری میری تنہائی کی تو نے ہی تو کی
میں تو مر جاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا

لوگ کہتے ہیں سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا
میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ھے سایہ تیرا

تو بشر بھی ھے مگر فخرِ بشر بھی تو ھے
مجھ کو تو یاد ھے بس اتنا سراپا تیرا

میں تجھے عالمِ اشیاء میں بھی پا لیتا ہوں
لوگ کہتے ہیں کہ ھے عالمِ بالا تیرا

میری آنکھوں سے جو ڈھونڈیں تجھے ہر سو دیکھیں
صرف خلوت میں جو کرتے ہیں نظارا تیرا

وہ اندھیروں سے بھی درّانہ گزر جاتے ہیں
جن کے ماتھے میں چمکتا ھے ستارا تیرا

ندیاں بن کے پہاڑوں میں تو سب گھومتے ہیں
ریگزاروں میں بھی بہتا رہا دریا تیرا

شرق اور غرب میں نکھرے ہوئے گلزاروں کو
نکہتیں بانٹتا ھے آج بھی صحرا تیرا

اب بھی ظلمات فروشوں کو گلہ ھےتجھ سے
رات باقی تھی کہ سورج نکل آیا تیرا

تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا ہزاروں کا سہی
اب جو تاحشر کا فردا ھے وہ تنہا تیرا

ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ھے مسجدِ اقصی تیرا
 
مگر بہت سے مشہور شعراء نے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں اور وہ گستاخانہ محسوس بھی نہیں ہوتے.

’توئی‘ سلطانِ عالَم یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم
زروئے لطف سوئے من نظر’ کن‘
مولانا جامی علیہ الرحمہ

لوح بھی 'تو' قلم بھی 'تو' 'تیرا' وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ 'تیرے' محیط میں حجاب
عالمِ آب و خاک میں 'تیرے' حضور کا فروغ
ذرہ ریگ کو دیا 'تو' نے طلوعِ آفتاب
علامہ ڈاکٹر محمد اقبال

جنت میں بھی خدا یہی قربت کرے نصیب
جیسے کھڑا ہوں آج ’ترے‘ در کے سامنے
تفکر میں رہتا ہوں صبح و مسا ۔۔ کہوں ’تجھ‘ کو خورشید یا مہ لقا
مگر شان میں ’تیری‘ یا مصطفٰے ۔۔میں جو کچھ کہوں اس سے ہے ’تو‘ سوا
محمد عبد السمیع بیدل رامپوری (تلمیذِ مرزا غالب)

وہ نورِ لَم یزل جو باعث تخلیقِ عالم 'ہے'
خدا کے بعد 'جس' کا اسمِ اعظم، اسمِ اعظم ہے
حفیظ جالندھری

اے خاصئہ خاصانِ رسُل وقتِ دعا ہے
امت پہ 'تری' آ کے عجب وقت پڑا ہے
امت میں ’تری‘ نیک بھی ہیں بد بھی ہیں لیکن
دل دادہ’ ترا‘ ایک سے ایک ان میں سوا ہے
ایماں جسے کہتے ہیں عقیدے میں ہمارے
وہ ’تیری‘ محبت ’تری‘ عترت کی ولا ہے
الطاف حُسین حالی

یہی بات عاشق نے معشوق سے کی
نہیں 'تیری' فرقت گوارا محمد
بلا لو مدینے میں پھر داغؔ کو 'تم'
نہیں ہند میں اب گزارا محمد
داغ دہلوی

میں کہ بے وقعت و بے مایا ہوں
'تیری' محفل میں چلا آیا ہوں
کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا 'تیرا'
اس کی دولت ہے فقط نقشِ کفِ پا 'تیرا'
احمد ندیم قاسمی

رہ پیروی 'اُس' کی کہ گام نحست میں
ظاہر اثر ہے مقصد دل کے وصول کا
وہ مقتدائے خلقِ جہاں اب نہیں 'ہوا'
پہلے ہی 'تھا' امام ، نفوس و عقول کا
میر تقی میر

غایت الامر یہ کہ تقریباً ہر بلند پایا شاعر کی نعتیہ شاعری میں یہ انداز اور لہجہ مستعمل رہا ہے جو کہ بے ادبی، گستاخی یا لا علمی کے زمرے میں نہیں آتا اور اسے نعتیہ کلام میں بارگاہِ رسالت کی ناموس اور احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے استعمال کیا جا سکتا ہے
 
Top