گوپی چند نارنگ ۔۔۔؟؟

باذوق

محفلین
وقت کا زیاں آپ کو کسی بھی معتبر کتاب میں لکھا ہوا نہیں ملے گا۔ اگر کہیں ملے تو مجھے ضرور بتائیے گا۔ صحیح محاورہ وقت کا ضیاع ہی ہے۔ زیاں زیادہ تر احساسِ زیاں کے ساتھ آتا ہے یا جیسے اقبال کے اس مصرعے میں جس کا حوالہ باذوق نے دیا ہے ۔ یا اقبال کا ایک اور مصرعہ جسکا حوالہ میں دے چکا ہوں۔ زیاں نقصان کے معنوں میں آتا ہے ضائع ہونے کے معنون میں نہیں۔ یہ فقرہ کبھی بھی درست نہیں سمجھا جا سکتا۔ "آپ اپنے وقت کا نقصان کر رہے ہیں۔" جبکہ صحیح فقرہ یہی ہوگا "کہ آپ اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔" اس لئے وقت کا ضیاع ہی صحیح محاورہ ہوگا۔
میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں۔
لیکن میں "وقت کا زیاں" محاورے کے معنوں میں اس لیے نہیں لے رہا تھا کہ میرے مطالعے سے یہ لفظی ترکیب کئی بار گزری ہے۔ ہاں یہ البتہ چیک کرنا پڑے گا کہ کتاب "معتبر" تھی یا نہیں ؟ :)
اور میں اساتذہ سے بھی معلوم کروں گا کہ اس کا استعمال کس حد تک غیر درست ہے/ ہوگا ؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں۔
لیکن میں "وقت کا زیاں" محاورے کے معنوں میں اس لیے نہیں لے رہا تھا کہ میرے مطالعے سے یہ لفظی ترکیب کئی بار گزری ہے۔ ہاں یہ البتہ چیک کرنا پڑے گا کہ کتاب "معتبر" تھی یا نہیں ؟ :)
اور میں اساتذہ سے بھی معلوم کروں گا کہ اس کا استعمال کس حد تک غیر درست ہے/ ہوگا ؟

میڈیا اور اخبارات میں ایسی غلطیوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ اکثر اخبارات اور خبروں کے چینلز پر "وقت کا زیاں" لکھا ہی آپ کو ملے گا۔ چونکہ ہم سب اخبارات اور میڈیا پر خبریں پڑھتے رہتے ہیں اس لئے ہمارے ذہن میں ایسی غلطیاں راسخ ہو جاتی ہیں۔ مثلاً میں کچھ عرصے پہلے تک حتیٰ کہ کو "حتا کہ" لکھتا رہا۔ ایک دوست کی نشاندہی پر اپنی غلطی درست کی۔ کیونکہ اکثر جگہ میں نے "حتیٰ کہ" کی املا "حتا کہ" پڑھی اور یوں میرے ذہن میں غلط املا ہی بیٹھ گئی۔
 

باذوق

محفلین

میڈیا اور اخبارات میں ایسی غلطیوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ اکثر اخبارات اور خبروں کے چینلز پر "وقت کا زیاں" لکھا ہی آپ کو ملے گا۔ چونکہ ہم سب اخبارات اور میڈیا پر خبریں پڑھتے رہتے ہیں اس لئے ہمارے ذہن میں ایسی غلطیاں راسخ ہو جاتی ہیں۔ مثلاً میں کچھ عرصے پہلے تک حتیٰ کہ کو "حتا کہ" لکھتا رہا۔ ایک دوست کی نشاندہی پر اپنی غلطی درست کی۔ کیونکہ اکثر جگہ میں نے "حتیٰ کہ" کی املا "حتا کہ" پڑھی اور یوں میرے ذہن میں غلط املا ہی بیٹھ گئی۔
ادبی اصطلاحات یا گرامر کے لحاظ سے عوامی اخبارات یا الکٹرانک میڈیا کی زبان کو میں اہل علم کی طرح قابلِ توجہ نہیں گردانتا۔ بات یہاں املاء کی نہیں بلکہ مخصوص تراکیب کی ہے۔ وقت کا ضیاع کے متعلق آپ کی وضاحت (پوسٹ # 36) زیادہ قرین قیاس لگتی ہے۔ لیکن میں اساتذہ کا موقف معلوم کرنے کی جستجو میں ہوں۔ ابھی چند ایک کو ایمیل تو کیا ہے۔ دیکھیں کیا جواب آتا ہے۔
ویسے میں نے جن کتب میں وقت کا زیاں دیکھنے کی بات کی تھی وہ ادبی / اسلامی کتب ہیں۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
جانے مجھے کیوں ایسا لگتا ہے کہ مصرعہ نہیں مصرع لکھا جاتا ہے

بہت شکریہ خوشی صاحبہ لیکن یہ دونوں طرح ہی مستعمل ہے۔ حوالے کے لئے دیکھیے۔

http://www.crulp.org/oud/viewword.aspx?refid=11347#

مِصْرَع [مِص + رَع] (عربی)
ص ر ع مِصْرَع
عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ 1503ء کو "نوسرہار" میں مستعمل ملتا ہے۔
متغیّرات
مِصْرَعَہ [مِص + رَعَہ]

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی: مِصْرَعے [مص + رعے]
جمع: مِصْرَعے [مص + رعے]
جمع غیر ندائی: مِصْروں [مِص + روں (و مجہول)]
1. دروازے کا ایک تختہ، کواڑکاپٹ، ایک طرف کا کواڑ۔
"عربی میں مصرع کے لغوی معنی ہیں دروازے کا ایک تختہ جسے اردو میں کواڑ کہتے ہیں۔" ( 1985ء، کشاف تنقیدی اصطلاحات، 177 )
2. آدھا شعر، پد، بیت یا فرد کا نصف حصہ۔

برنگ مصرع برجستۂ برق ( 1991ء، تحقیقی زاویے، 171 )
انگریزی ترجمہ
either half , or leaf , of a folding door

مترادفات
پَٹ کَواڑ

مرکبات
مِصْرَعِ طَرْح، مِصْرَعِ قَد، مِصْرَعِ مُرَکَّب، مِصْرَعِ مَوزُوں، مِصْرَع نُما، مِصْرَعِ پیچِیدَہ، مِصْرَعِ تَر، مِصْرَعِ تَرْجِیح، مِصْرَعِ تُلا، مِصْرَعِ ثانی، مِصْرَعِ سَرْو، مِصْرَعِ اَوَّل، مِصْرَعِ اُولٰی، مِصْرَعِ بَرْجَسْتَہ، مِصْرَع بَنْدی، مِصْرَعِ پُرْکُن
 ہر اک مصرع مرا لو ہو میں ہے غرق
 

فرخ منظور

لائبریرین
ادبی اصطلاحات یا گرامر کے لحاظ سے عوامی اخبارات یا الکٹرانک میڈیا کی زبان کو میں اہل علم کی طرح قابلِ توجہ نہیں گردانتا۔ بات یہاں املاء کی نہیں بلکہ مخصوص تراکیب کی ہے۔ وقت کا ضیاع کے متعلق آپ کی وضاحت (پوسٹ # 36) زیادہ قرین قیاس لگتی ہے۔ لیکن میں اساتذہ کا موقف معلوم کرنے کی جستجو میں ہوں۔ ابھی چند ایک کو ایمیل تو کیا ہے۔ دیکھیں کیا جواب آتا ہے۔
ویسے میں نے جن کتب میں وقت کا زیاں دیکھنے کی بات کی تھی وہ ادبی / اسلامی کتب ہیں۔

بھائی آپ تو ایسے بحث کرتے ہیں جیسے قرآن و حدیث پر آپ کا طریقہ کار ہے۔ یہاں ایک علمی بحث ہو رہی ہے براہِ مہربانی اسے مذہبی دھاگوں کی طرح کج بحثی دھاگہ نہ بنائیں۔ اگر آپ کو مجھ سے اختلاف ہے تو بے شک میری بات نہ مانیں۔ لیکن براہِ مہربانی اب اس بات پر مجھ سے بحث مت کیجیے گا۔ بہت شکریہ!
 

باذوق

محفلین
سخنور بھائی ! میرا خیال ہے آپ نے میرے اس جملے پر غور نہیں کیا :
وقت کا ضیاع کے متعلق آپ کی وضاحت (پوسٹ # 36) زیادہ قرین قیاس لگتی ہے۔
اور اس سے پہلے بھی میں (پوسٹ نمبر 43) میں آپ کی بات سے اتفاق کر چکا ہوں۔
کچھ جامعات میں اردو کے جن اساتذہ سے میرے روابط ہیں ، میں دراصل ان کا موقف جاننے کا متلاشی ہوں۔ اور وہ بھی صرف اس سبب کہ میرے مطالعے سے وقت کا زیاں جیسی ترکیب کئی مرتبہ گزری ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
قبلہ پھر آپ اپنے خیالات سے مستفید کرنے سے تب تک ہمیں محفوظ رکھیں جب تک آپ کی تسلی نہیں ہو جاتی اگر کوئی مضبوط شہادت ملے تو یہاں سب کے گوش گزار کر دیں۔ اگر نہیں تو تب تک خاموش رہ کر گزارہ کر لیں۔
 

باذوق

محفلین
قبلہ پھر آپ اپنے خیالات سے مستفید کرنے سے تب تک ہمیں محفوظ رکھیں جب تک آپ کی تسلی نہیں ہو جاتی اگر کوئی مضبوط شہادت ملے تو یہاں سب کے گوش گزار کر دیں۔ اگر نہیں تو تب تک خاموش رہ کر گزارہ کر لیں۔
بھائی ! یقین کیجئے کہ میں آپ کی خفگی کو سمجھنے سے قاصر ہوں۔
اگر میرے کسی پچھلے مراسلے سے آپ کو تکلیف ہوئی ہو تو میری دلی معذرت قبول فرمائیں۔
 

Dilkash

محفلین

http://www.onlineurdu.com/?p=9353&cpage=1#comment-1578


شاہدا لاسلام

نیوز ایڈیٹر،’ہندوستان ایکسپریس‘(دہلی)

اردوکے سب سے بڑے سرقے کو بے نقاب کرنے والی کتاب
’ڈاکٹر نارنگ اور مابعد جدیدیت‘
معروف شاعر اور ادیب حیدر قریشی کی تازہ ترین کتاب ’’ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور مابعد جدیدیت‘‘ پیش نظر ہے۔ قبل اسکے کہ اس کتاب کے بارے میں اپنے تأثرات کا اظہار کروں، اس بات کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب کیوں اور کن حالات میں مجھے دستیاب ہوئی!
قصہ یہ ہے کہ آج سے تقریباً ایک سال قبل ممأی سے نکلنے والے سہ ماہی ادبی رسالہ ’’اثبات‘‘(شمارہ۳) پر ناگاہ میری نظر پڑ گئی۔رسالہ اتنا دیدہ زیب اور پر کشش تھا کہ ادب سے لا تعلق رہنے والے مجھ جیسے صحافی نے بھی اس کی ورق گردانی شروع کردی۔ اندر کے صفحات کی ترتیب و تنظیم بھی خاصی متأثر کن معلوم ہوئی۔ ابھی رسالے کی ظاہری خوبیوں کے سحر سے نکل بھی نہیں پایا تھاکہ اس میں شامل ایک سرخی پر نگاہ ٹک گئی۔ سرخی کچھ اس طرح تھی: ’’ جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۲ کی کہانی(ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کی مہربانی در مہربانی)‘‘۔ حیدر قریشی کے تحریر کردہ اس مضمون کو میں نے پڑھنا شروع کیا توپڑھتا ہی چلا گیا۔میں مضمون نگار کے نام سے مانوس تو تھا، تاہم ان سے متعلق میری معلومات نہیں کے برابر تھیں۔چنانچہ مضمون پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ موصوف جرمنی میں مقیم ہیں اور وہاں سے ’’جدید ادب‘‘ نام کا ایک رسالہ بھی نکالتے ہیں۔ اس مضمون میں انھوں نے جو کچھ تحریر کیا تھا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ ’’جدید ادب‘‘ کے شمارہ ۹، ۱۰ اور ۱۱ میں عمران شاہد بھنڈر کے جو مضامین ڈاکٹر نارنگ کی کتاب ’ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘ سے متعلق شائع ہوئے تھے اور جن میں دلائل اور شواہد کے ساتھ یہ ثابت کیا گیا تھا کہ ڈاکٹر نارنگ بہت بڑے پیمانے پر سرقہ کے مرتکب ہوئے ہیں، اس کے نتیجے میں نارنگ صاحب نے رسالہ ’جدید ادب‘( جو دہلی کے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس کے زیر اہتمام شائع ہوتا ہے) کے شمارہ ۱۲ کی اشاعت میں رخنہ ڈالنے کی غرض سے پبلشر پر ہر طرح کا دباؤ ڈالا اور اپنے ذاتی اثر و رسوخ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس شمارے پر اپنی سنسر شپ عائد کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔اس معاملے کی پوری روداد لکھنے کے بعد صاحب مضمون نے کھلے ڈلے الفاظ میں یہ بھی تحریر کیا تھا کہ ’’ میں حکومت ہند سے درخواست کرتا ہوں کہ …… ایک علمی کمیٹی بٹھائی جائے جو تحقیق کرے کہ نارنگ صاحب نے واقعی یہ شرمناک سرقے کیے ہیں یا ان پر بے جا الزام ہیں۔ اگر وہ پاک صاف ثابت ہوں …. تومیں انڈیا کے قانون کے مطابق بخوشی ہر سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوں‘‘
یہ تفصیل پڑھ کر حیرت کے ساتھ افسوس بھی ہوا کہ اردو کا ادبی ماحول اتنا پست ہوگیا کہ ایک نامی گرامی صاحب قلم اپنے اوپر لگے سرقہ کے الزام کی تردید علمی سطح پر کرنے کے بجائے سرقہ کی بات سامنے لانے والوں کا ناطقہ بند کرنا چاہتا ہے۔اس حیرت اور افسوس کی ملی جلی کیفیت میں ، میں نے اس مضمون کو ’’ ہندوستان ایکسپریس‘‘ کے ویب ایڈیشن میں شامل کرلیا۔ خیال تھا کہ علمی حلقوں سے اس متنازعہ مضمون پر جو رائے بھی آئے گی اسے صحافتی دیانتداری کے تحت نذر قارئین کر دیا جائے گا، …مگر یہ کیا؟. نارنگ صاحب کی حمایت پر کمر بستہ ٹیم حرکت میں آگئی اور’ ہندوستان ایکسپریس‘ کے ایڈیٹر احمد جاوید کو اس بات کے لیے آمادہ کرلیاگیا کہ اس مضمون کو ویب سائٹ سے ہٹا دیا جائے۔چنانچہ ایڈیٹر موصوف نے اس’ کارخیر‘ کو انجام دینے کے لئے مجھے ہدایت جاری کردی ۔گو کہ حفظِ مراتب کا تقاضہ تھا کہ ’فرمانِ مدیر‘ کو ’فرمانِ خدا ‘ سمجھ کر سرتسلیم خم کردیا جائے لیکن میں نے بھی اپنے ذاتی استحقاق کو بطور ڈھال استعمال کیا اور جواباً یہ عرض کیا کہ آپ کا حکم اپنی جگہ، تاہم کسی مضمون کو میں ناجائز دباؤ کے تحت نہیں ہٹا سکتا …. ویب ایڈیشن کے جملہ امور مجھ سے متعلق ہیں اور چونکہ آپ یا ادارہ کے دیگر افراد کی (ہندوستان ایکسپریس) ویب سائٹ کے حوالے سے کوئی عملی شراکت نہیں ہے، لہذا ویب سائٹ میں کیا چیزیں دینی ہیں اور کیا نہیں، اس تعلق سے کسی بھی مشورے کی مجھے ضرورت نہیں۔ہاں! یہ یقین دہانی میں نے ایڈیٹر کو ضرور کرائی کہ اس مضمون کی تردید میں اگرکسی گوشے سے کچھ موصول ہوا تو اسے بھی انٹر نیٹ ایڈیشن میں اسی اہتمام سے شامل کیا جائے گا جس طرح حیدر قریشی کی تحریر شائع کی گئی ہے۔اس طرح
نارنگ صاحب کے حامیوں کا غیر اخلاقی حربہ ناکام ہوا اور مدیر محترم خاموش ہوگئے۔
نارنگ صاحب کے حامیوں کی طرف سے اس غیر متوقع دباؤ نے تھوڑی دیر کے لیے مجھے ذہنی خلجان میں ضرور مبتلا کیا تاہم اس کا یہ فائدہ ہوا کہ اس کے بعد حیدر قریشی کے مضمون کی حقانیت مجھ پر پوری طرح واضح ہوگئی اور ’ہندوستان ایکسپریس‘ کے ویب ایڈیشن میں اس کی اشاعت پر مجھے ایک طرح کی طمانیت کا احساس ہوا۔اس دوران حیدر قریشی کو ’ہندوستان ایکسپریس‘ کے ویب ایڈیشن میں اپنے مضمون کی اشاعت کا علم ہوا تو ’شکریہ‘ پر مبنی ان کی ایک ای۔ میل ملی جس میں دیگر باتوں کے علاوہ اس خدشے کا اظہار بھی تھا کہ عجب نہیں آپ پر یہ دباؤ ڈالا جائے کہ ویب سائٹ سے اس مضمون کو ہٹادیں، میں نے فوراً جواب دیا کہ خاطر جمع رکھیں، وہ مرحلہ آکر گزر چکا ہے، آپ کی تحریر ویب سائٹ پر موجود رہے گی،انشا اللّٰہ۔اس طرح برقی مراسلت کے ذریعہ حیدر قریشی صاحب سے جو رابطہ قائم ہوا تو اس کے نتیجے میں اسی سلسلے کی ان کی ایک اور تحریر ’’پرویزی حیلوں کی روداد‘‘ ہندوستان ایکسپریس کے ویب ایڈیشن میں شائع ہوئی اور یہ اطلاع بھی ملی کہ نارنگ صاحب کے سرقوں کی بابت مدیر موصوف کی ایک کتاب عنقریب منظر عام پر آنے والی ہے جس کی ایک کاپی مجھے ارسال کی جائے گی اور مزید ایک کاپی ’ہندوستان ایکسپریس‘ کے پرنٹر و پبلشرپرویز صہیب احمد صاحب کے لیے بھیجی جائے گی کیونکہ اس میں بطور خاص ’ہندوستان ایکسپریس‘ کا شکریہ ادا کیا گیا ہے۔
…. اور پھر وہ کتاب ( بعنوان ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور ما بعد جدیدیت) مجھے بذریعہ ڈاک موصول ہوگئی۔اس کے مشمولات پر ایک نظر ڈالی تو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ اس کا نام مابعد جدیدیت سے کیوں جوڑا گیا جبکہ اس کا اصل اور واحد موضوع ڈاکٹر نارنگ کا ’سرقہ ‘ہے۔ممکن ہے اس میں کوئی مصلحت دخیل رہی ہو۔ وہ جو کہتے ہیں کہ دودھ کا جلا چھاچھ پھونک پھونک کر پیتا ہے، تو اس کی روشنی میں ایک گمان یہ گزرتا ہے کہ شاید اس ڈرسے یہ نام رکھا گیا ہوکہ ’سرقہ‘ کے عنوان سے چھپنے والی یہ کتاب کہیں نارنگ صاحب کے عتاب کا شکار نہ ہوجائے، اسلئے ایسا نام رکھا جائے کہ کتاب طباعت کے مراحل سے بعافیت گزر کر قارئین تک پہنچ جائے۔ بہرحال ’نام میں کیا رکھا ہے ‘ سوچ کر میں نے اس کے سارے مضامین پڑھ ڈالے، اور اندازہ ہوا کہ حیدر قریشی اس کتاب کے مصنف بھی ہیں اور مؤلف بھی، کیونکہ نارنگ صاحب کے سرقوں سے متعلق تحریر کردہ اپنے مضامین کے علاوہ اس موضوع پر سامنے آنے والے اور کئی مضامین بھی انھوں نے اس کتاب میں شامل کیے ہیں۔
اس کتاب میں شامل تمام تحریروں کو پڑھنے کے بعد ’سرقہ‘ سے متعلق سارا قضیہ کچھ اس طرح سامنے آتا ہے کہ پھر کسی شک و شبہے کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ ڈاکٹر نارنگ کی کتاب ’ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘ سرقوں کا مجموعہ ہے۔حیدر قریشی کی زیر نظر کتاب ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اس حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے ڈاکٹر نارنگ کے حامیوں نے جو بے تکی باتیں سپرد قلم کیں، یا انتہائی بھونڈے انداز میں خود نارنگ صاحب نے جو دوسرے غیر علمی حربے استعمال کیے ان سے سرقوں کے الزام کی تردید تو خیر کیا ہوتی،ہاں اتنا ضرور ہوا کہ ان ساری چیزوں نے اس معاملے کو اور ہوا دی ، یہاں تک کہ مجھ جیسے ادب سے بے تعلق شخص کو بھی اس کی پوری واقفیت ہوگئی ؂ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواکی ،اور اس پر مستزاد نارنگ صاحب کی مسلسل خاموشی نے سرقے کی تحقیق کرنے اور اسے اردو عوام کے سامنے لانے والوں کا کام آسان کردیا۔
زیر تبصرہ کتاب سے ہمیں یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ نارنگ صاحب کے حامیوں نے کج بحثی سے کام لیتے ہوئے اس پورے قضیے کو نارنگ اور فاروقی کے مابین تنازعہ کا نام دینا چاہا تو کبھی یہ کہہ کر سرقوں کی حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی کہ حیدر قریشی فلاں فلاں بات کی بنیاد پر نارنگ صاحب کے تئیں اپنے دل میں پرخاش رکھتے ہیں اور یہ سارا معاملہ اسی کدورت کی دین ہے وغیرہ وغیرہ۔جب یہ سارے حربے غیر مؤثر ثابت ہوئے تو پھر اسے مذہبی تعصب کا نام دے کر یہ کہا گیا کہ ڈاکٹر نارنگ جیسے غیر مسلم ادیب کو کچھ متعصب قسم کے مسلمان خواہ مخواہ ہدف ملامت بنا رہے ہیں۔لیکن ایک تجربہ کار مدیر اور زمانہ شناس ادیب حیدر قریشی نے معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس سارے قضیے کو کچھ اس خوش اسلوبی سے Manage کیا کہ سرقوں کا اصل معاملہ نظروں سے اوجھل نہ ہوسکا۔
بلا شبہ سرقوں کی حقیقت کو سامنے لانے کی غرض سے عمران شاہد بھنڈر نے مغربی مفکرین کی متعلقہ کتابوں کو کھنگالنے میں جو عرق ریزی کی اور جو کلیدی رول ادا کیا اس کے لیے وہ ہمیشہ یاد کیے جائیں گے ، بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ایک اردو کے طالب علم کے سامنے جب جب نارنگ

صاحب کا نام آئے گا تو اس کے ساتھ اسے عمران شاہد بھنڈر کی یاد بھی ضرور آئے گی،تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ بھنڈرؔ کی یہ ساری کاوشیں اس مؤثر اور مدلل
انداز میں شاید سامنے نہ آپاتیں اگر انھیں حیدر قریشی جیسا تجربہ کاراور دھن کا پکا ادیب اور مدیر نہ ملتا۔ڈاکٹر نارنگ کے حامیوں نے اپنی بساط بھر پوری کوشش اس بات کی کرلی کہ ادھر اُدھر کی باتوں میں الجھا کر اصل موضوع کو گول کردیا جائے، لیکن حیدر قریشی نے پوری فہم و فراست سے کام لیا، اور ان
الجھاووں سے بچتے بچاتے پوری حکمت اور تدبر کے ساتھ اپنی گاڑی آگے بڑھاتے رہے، یہاں تک کہ سرقہ بے نقاب ہوکر رہا اور ایک عام قاری سے لے کر اردو کے خاص ا لخاص ادیب کو یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی تأمل نہیں رہا کہ ’’عمران شاہد بھنڈر کے نشان زد کیے بے شمار صفحات… صاف بتاتے ہیں کہ پروفیسر نارنگ نے سو فیصد لفظی ترجمہ کر کے ’سرقہ‘ کیا ہے‘‘( زبیر رضوی، سہ ماہی ’اثبات‘، شمارہ۵۔۴)۔
نارنگ صاحب کے وہ مداح جو ان کی اس ’’شاہکار تصنیف‘‘ کو حالیؔ کے’ مقدمہ شعرو شاعری‘ کے بعد اردو تنقید کا سب سے بڑا ’کارنامہ‘کہہ رہے تھے ان کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں ہوگی کہ اس ’شاہکارتصنیف‘ کو محض چند برسوں کے اندر عمران شاہد جیسا ایک نسبتاً غیر معروف لیکن ذہین اور محنتی محقق ایک جی دار مدیر کے تعاون سے( نارنگ صاحب کے’مقام‘ و ’ مرتبہ‘ سے مرعوب ہوئے بغیر) سرقوں کا پلندا ثابت کرکے رکھ دے گا۔
یہ کتاب ہمیں یہ بھی باور کراتی ہے کہ اس پورے دوڈھائی سال کے عرصے میں جبکہ سرقہ والی بات موضوع سخن بنی ہوئی تھی،ڈاکٹر نارنگ کے حامیوں نے حیدر قریشی کو زیر کرنے کے لیے ہر حربے استعمال کیے، سر زمین ہند و پاک سے لے کر کناڈا، امریکہ اور انگلینڈ ہر طرف سے ان پر تابڑ توڑ حملے ہوئے لیکن ا نھوں نے اپنی جانب سے پوری بردباری کا ثبوت دیا ، اپنے خلاف لکھی گئی بے سروپا باتوں کو پڑھ کر مشتعل نہیں ہوئے بلکہ ان باتوں کا مدلل جواب دھیرج کے ساتھ مختصر طور پر دیتے رہے، یہ سمجھتے ہوئے کہ اگر ان بے ہودہ باتوں کو طول دیا گیا تو سرقہ والی بات پس پشت چلی جائے گی ۔اپنے قلم کو غیر ضروری طور پر جذ باتی ہونے سے بچائے رکھا، نارنگ صاحب کا ذکر جب بھی کیا انکے مرتبے کا خیال رکھا۔ہاں، جب نارنگ صاحب نے ’جدید ادب‘ کے شمارہ ۱۲ کی اشاعت میں انتہائی بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رخنہ اندازی کی تو اس کی روداد تحریر کرتے ہوئے حیدر صاحب کا قلم مضمون کے اخیر میں قدرے جذ باتی ہوگیا۔اسی طرح انگلینڈ کے طبا طبائی نام کے کسی شخص نے جب ان کے خلاف اوٹ پٹانگ باتیں لکھیں تو اس کا ذکر کرتے ہوئے بھی حیدر صاحب اپنی تحریر میں برہم نظر آتے ہیں، یہاں تک کہ اس شخص کا نام لینا بھی گوارا نہیں کرتے ،لیکن یہ خفگی یا برہمی عین فطری ہے۔ جب کسی سے ناحق اذیت پہنچتی ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی تحریر میں کچھ نہ کچھ درشتی آہی جاتی ہے۔
مختصر یہ کہ حیدر قریشی کی زیر تبصرہ کتاب نہ صرف یہ کہ ’مشرقی شعریات‘ کے حوالے سے نارنگ صاحب کے سرقوں کی قلعی کھول رہی ہے بلکہ لسانیات کے میدان میں بھی پروفیسر موصوف نے اب تک جو کام کیے ہیں ان کی اصلیت کو بھی مشکوک بتاتے ہوئے یہ اعلان کر رہی ہے کہ ’’ لسانیات پر نارنگ صاحب کا سارا کام بھی’ مشرقی شعریات‘ جیسا ہی نکل آیا ہے۔ …. جب وہ سرقے بے نقاب ہوں گے تو اردو دنیا خود دیکھ لے گی‘‘۔ یقین ہے کہ اردو ادب کے اب تک کے سب سے بڑے سرقہ کو سامنے لانے والی اس کتاب کا علمی حلقے میں بڑے پیمانے پر خیر مقدم ہوگا اور اس کا ذکر اس زبان کی ادبی تاریخ میں پورے اہتمام سے کیا جائے گا، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کے مندرجات کی روشنی میں ڈاکٹر نارنگ کا مقام و مرتبہ نظر ثانی کا محتاج ہوگیا ہے۔
کتاب کی ظاہری ہےئت یہ بتاتی ہے کہ انتہائی عجلت میں طباعت کے مرحلے سے گزری ہے، تاہم صاف ستھری اور کمپوزنگ کی غلطیوں سے تقریباً پاک ہے۔سر ورق پر ڈاکٹر نارنگ کی ایک (حسب حال) تصویر بہت کچھ کہتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب سروَر اکادمی ، مغربی جرمنی کے زیر اہتمام شائع ہوئی ہے اور اس کی قیمت ۱۵۰ روپے ہے۔اس کے حصول کے لئے حیدر قریشی سے بذریعہ ای۔میل اس پتے پر رجوع کیا جاسکتا ہے:
haider_qureshi2000@yahoo.com
 
Top