گوجرہ: مسلم عیسائی جھگڑے میں چھ ہلاک - خطرے کی گھنٹی

طالوت

محفلین
ظالمو یہ کیا کرنے جا رہے ہو ؟ ایسا نہ ہو کہ خود رگڑے جاؤ ۔ باز آؤ ایسی بحث سے !
وسلام
 

arifkarim

معطل
ہم نے پھر روائتی طور پر غیر ایجنسیوں کو الزام دینا شروع کر دیا۔ حالانکہ حملہ کرنے والےاپنے ہی لوگ تھے اور جن پر حملہ ہوا وہ بھی پاکستانی عیسائی تھے :)
 

dxbgraphics

محفلین
ہم نے پھر روائتی طور پر غیر ایجنسیوں کو الزام دینا شروع کر دیا۔ حالانکہ حملہ کرنے والےاپنے ہی لوگ تھے اور جن پر حملہ ہوا وہ بھی پاکستانی عیسائی تھے :)

بھائی جان کوئی خود ملوث ہوکر نہیں کر سکتا ۔ ہمارے ہی ہم وطنوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ابجیکشن انکل کچھ سمجھ میں آیا اب
 

طالوت

محفلین
بہرحال حکومت وقت کو اس معاملے کو ٹھنڈے پیٹوں ہضم نہ کرنا چاہیے ۔ مجھے آج ہی خبر ہوئی کہ یہ سلسلہ مارچ سے شروع ہوا پہلے کراچی ، پھر اندرون سند ھ غالبا سانگھڑ پھر قصور اور اب گوجرہ ۔ گویا یہ باقاعدہ کچھ رچا جا رہا ہے ۔ مگر میں حیرت میں ہوں کہ ہمارے لیڈران خصوصا مذہبی لیڈرران اس پر خاموش ہیں اور مذہبی غیر سیاسی قیادت بھی !
وسلام
 

arifkarim

معطل
بہرحال حکومت وقت کو اس معاملے کو ٹھنڈے پیٹوں ہضم نہ کرنا چاہیے ۔ مجھے آج ہی خبر ہوئی کہ یہ سلسلہ مارچ سے شروع ہوا پہلے کراچی ، پھر اندرون سند ھ غالبا سانگھڑ پھر قصور اور اب گوجرہ ۔ گویا یہ باقاعدہ کچھ رچا جا رہا ہے ۔ مگر میں حیرت میں ہوں کہ ہمارے لیڈران خصوصا مذہبی لیڈرران اس پر خاموش ہیں اور مذہبی غیر سیاسی قیادت بھی !
وسلام

اب یہ نہ کہہ دینا کہ ا س خاموشی کے پیچھے بھی امریکہ کی کوئی چال ہے۔ :chatterbox:
 
نہیں نہیں، بھلا امریکہ کیسے ملوث ہو سکتا ہے اس معاملے میں؟ اس جیسا شریف ملک پوری دنیا میں ہے کوئی بھلا؟
 
صاحبو !

عقل اور تدبر سے اگر سوچا جائے یہ سوچ کر کہ اس بحث کو کیسے سمیٹا جائے تو کوئی بھی اوسط درجے کی عقل رکھنے والا شخص جس کے گھر میں شادی کی تقریب ہو اور وہ اقلیتی طبقے سے تعلق بھی رکھتا ہو اس بات کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتا کہ نوٹوں کے ساتھ قرآن پاک کے صفحات کو اچھالا جائے (موجودہ عالمی حالات کو دیکھتے ہوئے)۔ تو یہ کیسے فیصلہ کر لیا گیا کہ وہاں اییسا ہو رہا تھا۔

صاحبو ! شر کو ہوا دینا پوری دنیا میں کوئی مشکل کام نہیں ہے ایک ذرا سا انسانی جذبات کو بھڑکانا ہی تو ہوتا ہے اس کے لئے پہلے سے نفرت کی فضا پیدا کر دی جاتی ہے۔ اور بس باقی کام خود بخود ہو جاتا ہے۔ صرف ایک جھوٹی اطلاع دینے کی دیر ہوتی ہے کہ وہاں یہ ہورہا ہے۔ اور تم لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہو۔

جس قوم میں علم، عقل و شعور کی کمی ہوگی جہاں ایک عام بندے کے حقوق کا تعین نہیں ہوگا اس کی حیثیت اور اہمیت کا تعین نہیں ہوگا ان اقوام کے ساتھ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔

سو ! اس بحث کو سمیٹیئے اور اس فورم کو بطور پلیٹ فارم استعمال کرتے ہوئے بالغ انداز فکر میں ایسے معاملات کی مذمت کیجئے اور جن کا جانی و مالی نقصان ہوا ہے اس پر اظہار افسوس کیجئے ہمارا دین ہمیں یہی سکھاتا ہے اور ایک اچھے اور مہذب معاشرے کی اقدار یہی ہوتی ہیں
 

فخرنوید

محفلین
ایس ڈی ایم اے جی!
میں آپ کی اس بات سے متفق ہوں۔

چاہے کسی نے بھی کرایا ہے۔ یا کیا ہے۔ یہ جو بھی ہوا ہے غلط ہوا ہے۔ اگر کسی نے گستاخانہ حرکت کی ہے تو پہلے اس کا ثبوت لو ۔پھر قانون کو دو۔ پھر کچھ نہیں ہوتا ہے تو تب احتجاجآ اس گستاخ کو خود سزا دو۔

لیکن بلا ثبوت و تردد یہ ظلم نا کرو۔
 

dxbgraphics

محفلین
صاحبو !

عقل اور تدبر سے اگر سوچا جائے یہ سوچ کر کہ اس بحث کو کیسے سمیٹا جائے تو کوئی بھی اوسط درجے کی عقل رکھنے والا شخص جس کے گھر میں شادی کی تقریب ہو اور وہ اقلیتی طبقے سے تعلق بھی رکھتا ہو اس بات کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتا کہ نوٹوں کے ساتھ قرآن پاک کے صفحات کو اچھالا جائے (موجودہ عالمی حالات کو دیکھتے ہوئے)۔ تو یہ کیسے فیصلہ کر لیا گیا کہ وہاں اییسا ہو رہا تھا۔

صاحبو ! شر کو ہوا دینا پوری دنیا میں کوئی مشکل کام نہیں ہے ایک ذرا سا انسانی جذبات کو بھڑکانا ہی تو ہوتا ہے اس کے لئے پہلے سے نفرت کی فضا پیدا کر دی جاتی ہے۔ اور بس باقی کام خود بخود ہو جاتا ہے۔ صرف ایک جھوٹی اطلاع دینے کی دیر ہوتی ہے کہ وہاں یہ ہورہا ہے۔ اور تم لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہو۔

جس قوم میں علم، عقل و شعور کی کمی ہوگی جہاں ایک عام بندے کے حقوق کا تعین نہیں ہوگا اس کی حیثیت اور اہمیت کا تعین نہیں ہوگا ان اقوام کے ساتھ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔

سو ! اس بحث کو سمیٹیئے اور اس فورم کو بطور پلیٹ فارم استعمال کرتے ہوئے بالغ انداز فکر میں ایسے معاملات کی مذمت کیجئے اور جن کا جانی و مالی نقصان ہوا ہے اس پر اظہار افسوس کیجئے ہمارا دین ہمیں یہی سکھاتا ہے اور ایک اچھے اور مہذب معاشرے کی اقدار یہی ہوتی ہیں

صدمہ جی میں اتفاق کرتا ہوں
 

گرائیں

محفلین
یہی خبر میں شئیر کرنے آیا تھا۔

تفصیلات یہ ہیں۔

لاہور کے نواحی علاقے مرید کے میں قرآنی آیات کی مبینہ بے حرمتی پر ایک فیکڑی کے مالک سمیت دو افراد کو ہلاک کردیا گیا ہے۔

مقامی پولیس کے مطابق شیخوپورہ مرید کے روڈ پر واقع چمڑے کی فیکڑی کا مالک اپنے دفتر میں لگے ان پرانے کلینڈر کو تبدیل کر رہا تھا جن پر قرآنی آیات درج تھیں۔ اسی دوران فیکڑی کا سپروائیز قاسم بھی وہاں پہنچ گیا اور ان دونوں میں کلینڈر اتروانے پر تکرار ہوئی۔اس پر سپروائیز نے فیکڑی کے مزدوروں اور مقامی کو لوگوں کو اکٹھا کیا اور فیکڑی کےمالک نجیب ظفر پر یہ الزام لگایا کہ اس نے قرآنی آیات والے کلینڈر کی بے حرمتی کی۔

مزدورں نے فیکڑی کے اندر احتجاج کیا جبکہ جبکہ مقامی لوگوں نے فیکڑی کا گھیراؤ کرکے شیخوپورہ، مرید کے روڈ کو بلاک کر دیا اور پتھراؤ کیا۔ پولیس کے مطابق جب مشتعل مزدور فیکڑی مالک کے دفتر کے قریب پہنچے تو وہاں تو سکیورٹی گارڈز نے نجیب کو فیکڑی کے عقبی حصے میں لے گئے لیکن سپروائیز دیگر مشتعل افراد کے ساتھ وہاں پہنچ گیا اوراس دوران مظاہرین کی سکیورٹی گارڈز کے ساتھ چھڑپ ہوئی۔ مظاہرین نے سکیورٹی گارڈ سے ان کا اسحلہ چھین لیا جس پر فائرنگ ہوئی اور اس کے نیتجے میں فیکڑی کا مالک نجیب ظفر اور ایک شخص بابر ہلاک ہوگئے۔

مشتعل افراد نے فیکڑی میں توڑ پھوڑ کر کے اس کو شدید نقصان پہنچایا بلکہ لوٹ مار بھی کی۔ اس واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی جس پر مظاہرین منشتر ہوگئے اور پولیس نے صورت حال پر قابو پا لیا۔

پولیس کے مطابق فیکڑی مالک اور مزدوروں کے درمیان تنخواہوں پر تنازع چل رہا تھا ۔پولیس کا کہنا ہے کہ ابھی مقدمہ درج نہیں کیا تاہم سپروائیز قاسم کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔

یاد رہے کہ سنیچر کوصوبہ پنجاب کے شہرگوجرہ میں مسلم عیسائی جھگڑے میں سات عیسائیوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا اور درجنوں گھر جلا دیے گئے تھے۔

عیسائیوں کے خلاف پرتشدد واقعات کی عدالتی تحقیقات کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل کمیشن نے واقعے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں جبکہ گورنر پنجاب نےصدر آصف زرداری کی جانب سے ہلاک شدگان کے لیے فی کس پانچ لاکھ روپے اور زخمیوں کے لیے تین لاکھ روپے کی امداد کا اعلان کیا ہے۔


کیا کہتے ہیں آپ لوگ، کیا اب بھی ان قوانین پر نظر ثانی کی ضرورت نہیں ہے؟
 

طالوت

محفلین
یہ تو غیرت ایمانی کا مسئلہ ہے ۔ اور ہماری غیرت ایمانی کی ایسی ایسی شرمناک مثالیں ہیں کہ توبہ ہی بھلی ۔
وسلام
 

فخرنوید

محفلین
news-07.gif
 
صاحبو !

اب ذرا تھوڑا ان واقعات کے تناظر میں غور کیجئے اور کڑیوں کو ملائیے ۔

ہمارے کالج اور یونیورسٹیز سیاسی جماعتوں کے زیر اثر ہیں طلبہ تنظیموں کے نام پر
ہمارے نیوز چینلز بھی سیاسی جماعتوں کے ایجنڈے پر بالواسطہ یا بلا واسطہ کام کرتے ہیں
ہمارے ناظم تک انہی جماعتوں کے اراکین ہیں ۔ ظاہری و باطنی طور پر

یہاں ایک بات واضح ہوگئی اور آگے دیکھتے ہیں۔

قیاس یہ ہے کہ ایک بھاری امداد جو امریکہ بہادر کے جھنڈے تلے اسلام کا سب سے بڑا داعی ہے کے ذریعے ایک خاص جماعت تک بھیجی گئی ہے۔ الیکشن میں یہ جماعت اپنے ماضی کے کرتوتوں پر رسوا ہوکر ہار چکی ہے۔ جہاد کے ذریعے جتنا کمانا تھا کما لیا اب امریکہ اور اس کے حواریوں کو اپنے منتخب شدہ پلان کے مطابق پاکستان میں عیسائیوں کے تحفظ کا نقطہ چاہیئے۔ اب یہ نقطہ کیسے پیدا ہو کہ اس کے ذریعے ایک لکیر اور لکیر کے ذریعے تصویر بنائی جائے۔ تو اس کا سب سے بہترین حل یہ نکلا ہے کہ عرب ممالک جو تمام کے تمام اپنی ناخواندگی اور عیاشی و جہالت کی وجہ سے امریکہ کے غلام بنے ہوئے اور وہاں کی عوام کو ان کے ہاتھوں امریکہ نے مغلوب رکھا ہے۔ ان کے ذریعے ایسی تمام نام نہاد مذہبی جماعتوں امداد فراہم کی جائے جو امریکہ کہ ایجنڈے پر کام کر سکیں۔

ایسی تمام نام نہاد سیاسی جماعتوں کے اپنے اپنے اخبارات بھی ہیں جو ایسی خبریں لگاتے ہیں جو شدت پسندی کو ہوا دیتی ہیں اور مذہبی منافرت پھیلاتی ہیں۔ اور اب یہی سب کچھ ہو رہا ہے۔

غور کیجئے!

جہاد افغانستان کے حوالے سے اگر ماضی میں جایا جائے تو کس مذہبی جماعت نے ہمارے معصوم نوجوانوں کو افغان جنگ میں جھونکا تھا ؟ وہ کونسی مذہبی جماعت تھی جس کو محترم ضیاءالحق نے پورے حقوق دیئے تھے روس کے خلاف امریکی جہاد میں پاکستانی نوجوانوں کو جھونکنے کے ؟ وہ کونسی مذہبی جماعت تھی جس نے سب سے پہلے ہماری درسگاہوں میں کلاشنکوف کلچر متعارف کروایا ؟

ایک بار پھر غور کیجئے ؟ کیوں کہ ہم ماضی کو ایک دم بھول جاتے ہیں

اب وہی جماعت ایک بار پھر ایک نئے امریکی ایجنڈے کے ساتھ حاضر خدمت ہے اور آپ دیکھ لیجئے گا اب یہ لوگ دھرنے دینگے ، لانگ مارچ کرینگے ، امریکہ کہ جھنڈے جلائیں گے، لمبی لمبی ریلیز نکالیں گے اور مگر مچھ کے آنسو بہائیں گے۔ اور یہ وقت اب زیادہ دور نہیں ہے بہت قریب ہے۔ میرے اس پوسٹ کی تاریخ کو یاد رکھئے گا ہوگا وہی جو آج میں لکھ رہی ہوں۔

بھائیو !

نہ تو اسامہ بن لادن کوئی بہت بڑا آدمی تھا اور نہ ہی ملا عمر کی کوئی حیثیت تھی۔ اور نہ ہی القاعدہ کو مٹانا امریکہ کے لئے کوئی مسئلہ ہے۔ یہ سب امریکہ اور اسرائیل بہادر کی پیداوار ہیں۔ اس میں ان کی سی آئے اے نے جو کردار ادا کرنا تھا وہ کرچکیں اب یہ اپنے بنائے ہوئے جراثیم سے دنیا کو ڈرا کر جنگ کے انجکشن لگا رہے ہیں اور بطور سائیڈ افیکٹ ان نام نہاد سیاسی جماعتوں کو استعمال کیا جارہا ہے۔

غور کیجئے کہ !

افغانستان جہاں اپنے کھانے کے لئے کبھی بھی کسی بھی دور میں اناج پورا پیدا نہیں ہوا، جس کی اپنی معیشت کبھی بھی مضبوط نہیں تھی، جس کی دنیا میں کبھی کوئی سیاسی حیثیت نہیں تھی، جس کی درآمد و برآمد کا کوئی ریکارڈ صدیوں سے کوئی نہیں ہے۔ وہ ملک روس جیسے ملک کو کیسے شکست دے سکتا ہے ؟ ظاہر ہے کوئی ہے جو اس کو مالی اور افرادی قوت اور ٹیکنالوجی فراہم کر رہا ہے۔ ظاہر ہے اس تصویر کا دوسرا رخ ! یعنی امریکہ

افغانستان صرف اور صرف اپنی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے پوری دنیا کے جنگجوں اور اب طاقتور ممالک کی نطروں میں اہم ہے۔

ہم سب ایک بہت غلط زاویئے پر سوچ رہے ہیں کہ امریکہ صرف مسلمانوں کی نسل کشی کرنا چاہتا ہے یا وہ مسلم ممالک کو نہتا کرنا چاہتا ہے۔

ہرگز نہیں ! پھر غور کیجئے صاحبو

امریکہ کو مسلمانوں کی کمزوری کا پتہ ہے کہ یہ وہ قوم ہے جو طاقت ملنے پر بھی فتنہ سے آزاد نہیں ہے۔ یہ آپس میں ہی لڑ لڑ کر مرجائیں گے دراصل یہ جنگ امریکہ اور چین کی ہے۔

جی ہاں دوستو ! یہ جنگ دراصل امریکہ نے چین کے بڑھتے ہوئے طاقتور عفریت سے بچنے کے لئے شروع کی تھی۔ چونکہ چین نے 1983 سے مسلم ممالک سے اپنے روابط بڑھانے شروع کر دیئے اور آہستہ آہستہ مختلف مسلم ممالک کو ڈھکے چھپے انداز میں امداد دینا شروع کر دی تھی۔ جس کا اس وقت امریکہ کو احساس نہیں تھی۔ جب روس کا انخلا ہوا اور بعد می روس بکھرا تو دنیا نے دیکھا کہ امریکہ اب اکیلا سپر پاور رہ گیا ہے مگر یہ خوش فہمی زیادہ عرصہ قائم نہیں رہی بلکہ بہت کم عرصے میں چین نے ایک نئی معاشی جنگ کی ابتدا کر دی۔ اور جنگ کے معانی تبدیل کر دیئے۔ اور اس نے جنگ کو ہتھیار سے پہلے مضبوط معاشی دفاعی انداز میں قلعہ بند ہو کر لڑنے اور بعد میں ایک ہی حملہ کرنے کا عندیہ دیا۔ یہ ایک ایسا فلسفہ تھا جس کو امریکہ اور اسرائیل کے دانشوروں نے اس وقت ہی بھانپ لیا تھا کہ کوئی ہے جو ہماری طرح لمبی منصوبہ کر سکتا ہے اور اپنے مقصد پر قائم رہ کر اس کو حاصل بھی کر سکتا ہے۔ اور پھر یہ ثابت ہوا کہ چین نے چند سالوں میں بے مثال ترقی کی اور اس قدر کی کہ آج دنیا کی کل آبادی چینی مصنوعات کی اس قدر عادی ہوچکی ہے کہ اگر اسکا تناسب نکالا جائے تو یہ تمام مصنوعات جو انسان ضرورتوں کا مکمل احاطہ کرتی ہیں اس وقت انکا تناسب روز بروز بڑھتے ہوئے تقریبا 57 فیصد تک چلا گیا ہے۔ صرف امریکہ میں چینی مصنوعات استعمال کرنے والوں کا تناسب 71 فیصد ہے۔ چین نے مصنوعات کو سستا کیا اور کسی بھی چیز کی کاپی کو انتہائی چالاکی ہو بہو تیار کر کے 84 فیصد تک کم قیمت میں صارف تک پہنچایا

چینی دانشور انسانی نفسیات سے اچھی طرح واقف ہیں انہوں نے چیزوں کو سستا کیا اور ڈسپوزایبل انداز میں پہنچایا چونکہ صارف فی زمانہ سہولت بھی چاہتا ہے اور سستی بھی چاہتا ہے تو اس کو اس سے غرض نہیں کہ چیز پائیدار ہے یا نہیں۔ وہ صرف سامان تعیش چاہتا ہے۔ چینیوں نے انسانی کی اس نفسیاتی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر ڈالرز جمع کرنے شروع کئے اور امریکہ ہی کی گزشتہ پالیسی کو فالو کیا یعنی "پینی ٹو ڈالر فلاسفی"۔

صاحبو ! امریکہ کو صرف چین سے خطرہ ہے اور یہ وہ خطرہ ہے جس کے لئے وہ چین کے گرد اپنے حواری جمع کرنا چاہتا ہے۔ موجودہ ہندوستان کی ترقی دراصل ہندوستان کی ترقی نہیں اس کے پیچھے جہاں ہندو ذہنیت کام کر رہی ہے وہیں اس کے پیچھے اسرائیل اور امریکی دانشوروں کا ہاتھ بھی کار فرما ہے۔ وہ ہندوستان کو چین کے مقابل کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ تاکہ کم از کم ایک طرف چین کو الجھا کر رکھ سکے۔ اگر ہم کارگل جنگ سے اس بات کو لنک کر کے دیکھیں تو صاف پتہ چل جائے گا کہ وہ جنگ جس کو ہم آج تک اپنی جنگ سمجھتے رہے دراصل وہ ہماری جنگ نہین تھی بلکہ وہ چین اور ہندوستان کی لڑائی تھی۔ جس کو چینیوں نے پاکستان کے ذریعے بغیر لڑے جیت لیا اور منظر پر ہماری شکست دکھائی گئی۔ یہی بات امریکہ کو پسند نہیں آئی تھی۔ چونکہ مشرف صاحب اس جنگ کے کمانڈر تھے اس لئے اس جنگ کے تمام پلانز کو وہی امریکہ تک پہنچا سکتے تھے۔مشرف کا صدر بننا اور پھر ایک عجوبہ مخلوط حکومت کو قائم کرنا اور اتنے عرصے تک "جمہوری مارشل لاء" کے انداز میں کامیابی سے چلانا اس بات کی دلیل ہے لیکن جب مشرف صاحب امریکہ کے اس فریم میں فٹ نہیں بیٹھے تو انہوں نے نہی حکومت کو ایک دم تشکیل دے دیا۔ ہماری موجودہ حکومت ، ہمارا صدر، وزیر اعظم اور دیگر وزراء کو اگر غور سے دیکھا جائے تو ان میں اب کوئی بھی ایسا قابل بندہ نہیں ہے جو پالیسی ساز ہو یا جس کو سیاسی سوجھ بوجھ ہو۔ یہ وہ تمام لوگ ہیں جو صرف پیسہ کی خاطر اور طاقت کی خاطر حکومت میں آتے ہیں۔

خیر جی ! میں کافی لمبا تجزیہ کر ڈالا آپ لوگ بور ہو رہے ہونگے کہ کیسے بے تکے اور بے ڈھنگے اور طویل تبصرے کر رہی ہیں محترمہ جن کا نہ تو کوئی سر ہے اور نہ پیر ہے۔ :) میں تحریر کو ختم کرتی ہوں

مگر ایک درخواست ہے۔ تبصرہ ضرور کیجئے لیکن کڑیوں کو ملا کر کیجئے تو سارے حالات جو مجھ جیسی کم عقل عورت کو دکھائی دے جاتے ہیں آپ جیسے قابل اور ذہین لوگوں کو بھی نظر آجائیں گے
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ميڈيا اور بعض تجزيہ نگاروں کی جانب سے ہر واقعے کو نئ غير ملکی سازش قرار دينا کوئ غير معمولی بات نہيں ہے۔ گوجرہ ميں پيش آنے والا حاليہ واقعہ مذہبی عقائد اور وابستگی سے قطع نظر ايک مجرمانہ فعل ہے جس ميں کچھ افراد نے قانون کو اپنے ہاتھ ميں ليا۔

کچھ تجزيہ نگار اس واقعے کو سی – آئ – اے کی جانب سے پنجاب ميں مذہبی آگ کو بھڑکانے کی سازش قرار دے رہے ہيں۔ اس ضمن ميں يہ حقیقت پيش نظر رکھنی چاہيے کہ مذہبی اقليتوں کے خلاف پرتشدد کاروائ کا يہ پہلا واقعہ نہيں ہے۔ بدقسمتی سے اس طرح کے واقعات پورے ملک ميں پيش آ چکے ہيں۔ گزشتہ ايک عشرے کے دوران اس قسم کے واقعات کراچی، لاہور اور فيصل آباد ميں رونما ہو چکے ہيں۔ ڈنمارک کے ايک اخبار ميں کارٹون کی اشاعت کے بعد عيسائيوں کے چند گروپوں کے خلاف تشدد کے واقعات سب کو ياد ہيں۔

پاکستان ميں اسی طرح کے واقعات کی نشاندہی امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ نے سال 2006 ميں عالمی مذہبی آزادی کی اپنی سالانہ رپورٹ ميں ان الفاظ کے ساتھ کی تھی۔

"مذہبی اقليتی گروہوں کے خلاف سماجی سطح پر يک طرفہ برتاؤ وسيع پيمانے پر موجود ہے"۔

ان حقائق کی موجودگی ميں يہ دعوی بالکل بے بنياد ہے کہ گوجرہ کا واقعہ پنجاب کے صوبے ميں افراتفری اور بے چينی کی فضا پيدا کرنے کے لیے کسی نئ سازش کا شاخسانہ ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
پاکستان ميں اسی طرح کے واقعات کی نشاندہی امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ نے سال 2006 ميں عالمی مذہبی آزادی کی اپنی سالانہ رپورٹ ميں ان الفاظ کے ساتھ کی تھی۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

جناب فواد صاحب ! میرے تبصرے کو بھی غور سے پڑھئیے اس میں کیا لکھا ہے۔ امریکہ جو اس وقت عالمی دہشتگرد کے طور پر پہچانا جا چکا ہے اس کی طرف داری یا صفائی پیش کرنے سے خلاصی نہیں ہو سکتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جہاں جہاں امریکن گئے اپنے ساتھ بربادی کا سامان لے کر گئے۔

میرے چھوٹے نے مجھ سے ایک بار پوچھا کہ مما یہ امریکہ اپنے کام سے کام کیوں نہیں رکھتا ہے یہ کیوں ہر ملک کے معاملات میں دخل اندازی کرتا ہے ؟ دنیا کو کوئی اور ملک کسی اور ملک میں جاکر ایسی غنڈہ گردی نہیں کرتا


تو محترم فواد صاحب اب بچوں کے ذہنوں میں جو کچھ پل رہا ہے وہ اس امریکی ڈرامے کا حقیقی روپ بھی ہو سکتا ہے جو اس نے ایک لمبے عرصے سے بھر رکھا ہے کہ امریکہ کو دہشت گردوں کا سامنا ہے۔ حالانکہ یہ سارے دہشت گرد امریکہ ہی کے خرچے پر پل رہے ہیں۔ امریکہ ہی کی پیداوار ہیں۔ لیکن وہ وقت بھی مجھے دور نہیں لگتا جب امریکہ کو واقعی حقیقی دہشت گردوں سے واسطہ پڑ جائے ۔
 
Top