انٹرویو گل یاسمیں سے انٹرویو

نور وجدان

لائبریرین
اس میں کم و بیش وہی جواب ہے جو مراسلہ 584 میں عدنان بھائی کو دیا ہے۔

تھوڑے سے اضافہ کے ساتھ۔۔۔


یہ آگہی ملی ۔۔۔۔۔۔۔ کہ دکھ درد کیا ہے
یہ آگہی ملی کہ دوسروں کا احساس کرنا کیا ہوتا ہے اور کیسے کیا جائے۔
یہ آگہی ملی کہ رشتوں میں جو ناآشنائی کی وبا پھیلی ہوئی ہے ، کوئی کسی کا پرسان حال نہیں اگر ان حالات میں کچھ وقت نکال کر دوسروں کے لئے وقف کر دیا جائے اور کسی کا بھلا کر دیں تو کیا ہی بات ہے۔ دلی خوشی حاصل کرنے کا بہتریں ذریعہ ہے۔
یہ آگہی ملی کہ اینٹوں کا اینٹوں سے ربط رہنا ہی دیوار کے کھڑے رہنے کی ضمانت ہے ورنہ بڑی سے بڑی منزلیں زمیں بوس ہو جائیں۔ انسان کی انسان سے ہمدردی اور محبت ہی ۔۔۔انسانیت زندہ رکھنے میں معاون ہےاپنے اندر کی بے چینی ختم۔۔ ایک نیا احساس پیدا ہوتا ہے۔۔
یہ آگہی ملی کہ دلوں میں رفاقتوں کی محبتوں کی روشنی پیدا کرنی ہے ورنہ باہر جلے چراغ اندر کے اندھیروں کو کم نہ کر پائیں گے۔
آگہی کسی "عمل " یا "تجربے " کی مرہون منت ہوتی بالخصوص جس آگہی کو آپ نے لکھا
اینٹ کا اینٹ سے جڑے رہنا
اس میں چھپا تجربہ کیا ہے؟
 

نور وجدان

لائبریرین
ٹی وی پہ ڈرامہ تو بس چلتا جاتا ہے۔۔۔ ڈائیلاگ سنائی دیتے ہیں ، آواز پہ کبھی دھیان نہیں دیا اس لئے کچھ کہہ نہیں سکتے۔

ہاں مگر اپنی آواز پسند ہے۔۔۔ :D

الف اللہ چنبے دی بوٹی میرے مُرشد مَن وچ لائی ھُو "پڑھتے ہوئے۔۔۔

مَیں لج پالاں دے لَڑھ لگی آں، میرے توں غم پرے رہندے" پڑھتے ہوئے

مذاق سمجھ رہی ہیں نا؟ حالانکہ یہ ہر گز مذاق نہیں ہے۔ بس کبھی کبھی ایسی کیفیت ہو جاتی ہے کہ اچھا لگتا ہے پنجابی کلام پڑھنا۔ وہ بھی خوب اونچی آواز میں۔
گھر والے بھی بتاتے ہیں اور ہلکا ہلکا سا ہمیں بھی یاد ہے کہ جب ہمارے دادا جان سیف الملوک یا کوئی بھی پنجابی کلام پڑھتے تھے تو ہم پاس بیٹھے سر ہلانے( سر دھننا) لگتے تھے۔شاید وہی لمحات ذہن میں اترتے ہیں ۔ کچھ فطرت بھی تھوڑی جنونی اور تخیلاتی پائی ہے تو سب مکس ہو جاتا ہے۔
اپنی آواز ....
آپ کو "خود " سے عشق ہے؟
 

نور وجدان

لائبریرین
جب ہمارے دادا جان سیف الملوک یا کوئی بھی پنجابی کلام پڑھتے تھے تو ہم پاس بیٹھے سر ہلانے( سر دھننا) لگتے تھے۔شاید وہی لمحات ذہن میں اترتے ہی
آپ کے دادا "میاں محمد بخش " سے متاثر ہیں اور آپ بھی اپنے داد کے توسط سے. تخیلاتی آپ نے لکھا کہ آپ ہیں ... تو آپ کی خود سے ملاقات میں آپ کے دادا کا ہاتھ ہے؟
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
اپنے اندر ہی ایک نئی دنیا آباد لگی

کیا انکشافات ہوئے؟
یہ دنیا باہر کی دنیا جیسی ہے؟
جیسا کہ ڈپریشن اور پھر اس سے باہر نکلنا، ہسپتال میں ہی سورۃ رحمٰن اور ترجمہ کا سوچ کا محور بننا پچھلے بہت سے مراسلات میں بارہا ذکر کر چکے ہیں۔
مختصر یہ کہ " تو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے" اسی کے پیشِ نظر زندگی کے ہر پہلو کو جانچنا شروع کیا۔ اپنے اندر کو پرکھا۔ جیسے جیسے سوچ میں گہرائی آتی گئی، اپنے بارے ، زندگی کے بارے سمجھ بڑھتی گئی۔ آس پاس کی چیزوں کے مقصد پر غور و فکر بڑھنے لگا اور نتیجہ یہ سامنے آیا کہ یہ سب اشیاء انسانی ضروریات کی تکمیل کے لئے ہیں۔
جب ہر چیز کے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر انسان کی خدمت میں مصروف رہنے والی بات سمجھ آ گئی تو پھر ذہن خود بخود ہی اس بات کی طرف متوجہ ہوتا گیا کہ انسان جسے تمام مخلوق سے برتر اشرف المخلوقات قرار دیا گیا ہے تو اس کے وجود کا مقصد کیا ہے۔
کیا زندگی یہ ہے جو ہم گزار رہے ہیں۔۔۔ آسائشوں سے پُر۔۔۔ ؟؟؟
حیات بعد الموت کیا ہے؟؟؟؟
جزا و سزا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟
طرح طرح کی باتیں، سوال ذہن میں آتے گئے۔۔ کچھ باتوں پہ تسلی ہوئی ، کچھ ہنوز تشنہ بھی ہیں۔
مگر زندگی اس ڈگر پر چل پڑی کہ اللہ پاک کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے پسندیدہ ظاہری و باطنی اعمال و اقوال زندگی میں شامل رکھنے میں لگے رہتے ہیں۔ اللہ پاک ہمت عطا کئے رکھیں۔ آمین۔

نہیں باہر کی دنیا جیسی بالکل نہیں ہے
دیکھا جائے تو ہماری ذات کا سب سے بڑا حریف ہماری اپنی ہی ذات ہوتی ہے۔ دنیا کی رنگینیاں، زندگی کی آسائشیں۔۔۔ ہماری ذات ہی ہمیں للچاتی ہے کہ ہمارے پاس یہ بھی ہو، وہ بھی ہو۔۔۔ اگر ہم اس لالچ یا خواہش پر قابو پا لیتے ہیں تو ہمارا حریف ہمارے تابع ہو جاتا ہے۔ پھر چاہے یہ ہمیں دنیا میں کوئی عروج والا مقام نہ بھی دے پائے مگر ہر طرح کے حالات میں خوش رہنے میں ضرور مددگار ثابت ہوتا ہے۔ میانہ روی کا سبق سیکھ جاتا ہے انسان۔
اپنی ذات، اپنے اندر کی خوبیوں اور خامیوں کو ہم خود جانتے ہیں اور خود ہی ان کی تصحیح کر سکتے ہیں۔ہمارے اندر کی دنیا میں، من کی دنیا میں سوز و گداز بھی پوشیدہ ہے اور زندگی کی حقیقی مسرتیں بھی اسی میں چھپی ہیں۔وہ سب موجود ہے جس کی روحِ انسانی کو طلب ہے۔ بس ضرورت انھیں کھوجنے کی ہوتی ہے ۔تنہائی جتنی گہری ہوتی جائے گی، کھوج اتنی کامیاب ہوتی جائے گی، بے چینیاں دور ہو کر طمانیت بڑھتی جائے گی۔
من کی دنیا ۔۔۔سوز و گداز میں ڈوبی دنیا ہے ایک جذب و مستی کی دنیا۔
تن کی دنیا سود و زیاں کے چکر میں پڑی دنیا ہے ، مکر و فریب گھات میں رہتے ہیں
من کی دولت ہاتھ آ جائے تو جاتی نہیں ہے، غم بھی جاگیر لگتے ہیں
تن کی دولت ڈھلتی چھایا۔۔ بہار ہے تو خزاں بھی چھا جائے گی

"اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی"
سُراغ پا جانا مشکل نہیں۔۔من میں جھانکتے رہنے کی ضرورت ہے۔ مگر عملی طور پر توازن قائم رکھنے میں مشکلات پیش آتی ہیں ۔

آسان جھیلنا تھا کہاں کربِ آگہی
میں خود شناس ہو کر پریشان ہو گئی
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
آپ خود ہی اس قوت کو دوسروں میں بانٹنے کی راہ پہ نکل کھڑے ہوتے ہو۔ ہم سے بھی کچھ ارادی طور پر اور کچھ ٖغیر ارادی طور پر ہوتا چلا گیا۔

زبردست
غیر ارادی طور پر، یعنی آپ higher self کے ساتھ چل رہی ہیں آج کل

جی ارادی بھی اور غیر ارادی بھی۔۔۔
غیر ارادی اس طرح سے کہ فطرتاً حساس ہیں تو اس میں یہ ایک اہم عنصر ہے۔ دوسرے بہت کچھ قریب سے دیکھا ہے ، کچھ بھگتا بھی ہے تو کافی حد تک سمجھ بھی آگئی ہے۔
اور ارادی طور پر یوں کہ۔۔۔ چند اصول بنا لئے ہیں زندگی میں ۔۔۔ کامیابی کے سنہری اصول سمجھ کر ان پر عمل کرتے ہیں۔
بتائے دیتے ہیں
نفسا نفسی کے اس دور میں اپنا دامن محبتوں سے بھرے رکھو۔
زندگی کی تلخیوں کو لطیف احساسات پر حاوی نہ ہونے دیا جائے۔
خرابیوں کا حصہ بننے کی بجائے ان کی نشاندہی کی جائے اور حل نکالنے میں حصہ بنا جائے۔
کوئی دل آزاری کرے تو بھی دعا دے کر اپنی راہ لو۔

زندگی کا سفر کاٹنا ہے اگر
آگ پر رقص کرنے کا فن سیکھ لے
تیرا سوزِ دروں تجھ کو دے گا سکوں
جینا چاہے تو مرنے کا فن سیکھ لے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
آپ نے لکھا، آپ نے "راز حیات " پالیا ہے. آپ کا "اکٹیوٹی سینٹر " اس "رمز " کو پالینے بعد شروع ہوا. تو آپ اس سفر پر کچھ روشنی ڈالنا پسند کریں گی؟ روشنی "ٹارچ لائٹ والی " نہ ہو
جو دم غافل سو دم کافر سانوں مرشد ایہہ پڑھایا ھُو
سنیا سخن گیاں کھل اکھیں اساں چت مولا ول لایا ھُو
کیتی جان حوالے رب دے اساں ایسا عشق کمایا ھُو
مرن توں اگے مر گئے باہو تاں مطلب توں پا یا ھُو
(ہمیں مرشد نے یہ پڑھایا ہےکہ تو جو پل اپنے رب سے عافل رہتا ہے وہ پل کافر ہے ۔مرشد کی اس بات نے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں اور ان کی یہ نصیحت سن کر ہم نے اللہ سے لو لگائی ہے ۔ جب سے ہم نے اپنی جان اللہ تعالی کے حوالے کی ہے ، اس کی ذات سے ہمیں عشق ہو گیا ہے۔جب سے تارک الدنیا ہوئے ہیں ہمیں جینے کا صحیح مطلب پتہ چلا ہے۔ )

بات پھر وہیں پر جا نکلتی ہے جب خود کشی کرنے والوں کی کلائیوں پر پٹیاں بندھی دیکھیں، چیختے چلاتے لوگوں کو دیکھا جو دماغی توازن کھوتے جا رہے تھے تب اندر سے جھنجھوڑا گیا ہمیں ۔۔۔ ہم کس لئے ہیں یہاں؟ بے اختیاری میں سورۃ رحمٰن سننے لگے ترجمہ کے ساتھ۔۔۔ بہت کچھ سمجھ آتا گیا، بہت حوصلہ ملتا گیا اور زندگی نے بالکل ہی الگ راہ تلاش کر لی جینے کی۔ الحمد للہ ۔۔۔ یہ راہ واقعی میں دلی سکون عطا کرنے والی ہے۔
ہم باتونی تو ہیں ہی مگر ایک اچھے سامع بھی ہیں۔ پورے خلوص سےایکٹیویٹی سینٹر میں ان کی بار بار دہرائی جانے والی باتیں بھی سنتے ہیں۔ہنستے ہیں ساتھ، اداس بھی ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت عمر کے اس دور میں ہے جب بندہ زندگی کے سفر کو ختم سمجھنا شروع کر دیتا ہے کہ اب پڑاؤ کا وقت قریب آ پہنچا۔ کچھ بیماری اور کچھ معذوری کے باعث ایک محدود دائرے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ تو ایسے میں مایوس کن باتیں بھی سننا پڑتی ہیں۔ یہ بہت تکلیف دہ وقت ہوتا ہے۔ اور ہمیں ان لمحات کی یاد دلاتا ہے جب ہم نے ایک کے بعد ایک اپنوں کو کھویا۔ ہم ان کو نہیں سمجھا سکتے مگر خود کو سنبھالنا سیکھنے میں لگ جاتے ہیں۔
"رازِ حیات" نہیں مقصدِ حیات کہئیے ۔ ابھی تو زندگی کا مقصد سمجھ میں آیا ہے۔۔۔ دھیرے دھیرے باقی سب بھی سمجھ آتا جائے گا ۔۔۔ دل دریا بہت گہرے ہوتے ہیں۔سمندروں سے زیادہ گہرے ۔۔۔ سب اسی میں چھپا ہے۔ ہر بھید ، ہر راز، ہر دکھ ہر سکھ ۔۔۔۔ جھانک کر پا لینے کی تمنا ہے کہ کہہ سکیں

ایہہ تن رب سچے دا حجرا دل کھڑیا باغ بہاراں ھُو
وچے کوزے وچے مصّلے وچے سجدے دیاں تھاراں ھُو
وچے کعبہ وچے قبلہ وچے الا اللہ پکاراں ھُو
کامل مرشد ملیا باھو او آپے ہی لیسی ساراں ھُو

( یہ تن سچے رب پاک کی قیام گاہ ہے۔ فرط مسرت میں میرا دل باغ بہاراں بن کر کھل گیا ہے۔
اب کیفیت یہ ہے کہ من کے اندر ہی کوزے اور مصلے موجود ہیں اور اندر ہی سجدوں کے مقامات ہیں۔
اپنےاندر ہی کعبہ اور اپنے اندر ہی قبلہ پالیا ہے اور اپنے ہی من کےاندر الا اللہ پکارتا ہوں۔
اے باھو، کامل مرشد ملا جس کے طفیل عرفان حق حاصل ہوا وہ مرشد کامل خودبخود خبر گیری اور نگہبانی کرے گا۔)
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
نہیں باہر کی دنیا جیسی بالکل نہیں ہے
دیکھا جائے تو ہماری ذات کا سب سے بڑا حریف ہماری اپنی ہی ذات ہوتی ہے۔ دنیا کی رنگینیاں، زندگی کی آسائشیں
حجرے شاہ مقیم دے
اک جٹی عرض کرے
میں بکرا دینی آں پیر دا
میرے سر دا سائیں مرے

لا کہنے سے نہیں، ہونے سے ہے
ترا ہونا، مرے نہ ہونے سے ہے
فجر کی آیت تم پر کھلی ہے
رات آنگن میں یوں کھیلی ہے
فرض کرو، تم نہیں ہو یہاں
فرض کرو، تم ہو ہر جہاں
 

نور وجدان

لائبریرین
آسائشیں۔۔۔ ہماری ذات ہی ہمیں للچاتی ہے کہ ہمارے پاس یہ بھی ہو، وہ بھی ہو۔۔۔ اگر ہم اس لالچ یا خواہش پر قابو پا لیتے ہیں تو ہمارا حریف ہمارے تابع ہو جاتا ہے
بابا بلھے شاہ کا قول ہے

کھا کباب، پی شراب، بال ہڈاں دا بالن

نفس دشمن کیوں؟ نفس حریف کیوں؟ نفس سے دوستی کیوں نہیں؟ نفس کو بالیدہ کرنا الگ ہے مگر اسکو حریف سمجھنا الگ نہیں ہو سکتا؟
 

نور وجدان

لائبریرین
آسان جھیلنا تھا کہاں کربِ آگہی
میں خود شناس ہو کر پریشان ہو گئی

آگہی، خود شناسی کی قیمت یہ پریشانیاں ہیں اور ہم پریشان ہیں ... اک بات کہنے میں آسان ہے مگر عمل میں مشکل
جب "میں " ہوں نہیں تو پھر میں اپنے "احساسات " رکھتی ہوں؟
یہ بھی آگہی ہے "میں ہوں "
یہ بھی آگہی ہے "نہی " ہے
آگہی عذابِ قرین ہے
آگہی قبائے رنگین ہے
آگہی قدرِ سنگین ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
زندگی کی تلخیوں کو لطیف احساسات پر حاوی نہ ہونے دیا جا
ترےخیال میں ساون کی رم جھم
ترے خیال میں چاندنی ہے مدغم
ترے خیال سے میرا ہے نیا جنم
ترے خیال نے مجھے کیا مکرم
ترے خیال سے سب مدھم مدھم
ترے خیال میں فنا گشتم فنا گشتم
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
نفس دشمن کیوں؟ نفس حریف کیوں؟ نفس سے دوستی کیوں نہیں؟ نفس کو بالیدہ کرنا الگ ہے مگر اسکو حریف سمجھنا الگ نہیں ہو سکتا؟
میرے خیال میں عمومی طور پر جس طرح نفس پرستی ہو رہی ہے وہ تو یقیناً جہنم میں جھونک دینے والا ہے جس طرح شیطان ہمیں گناہ کی دعوت دیتا نفس بھی اسی کی مثل ہے اس طور سے نفس کو دشمن قرار دیا گیا ہو گا یہ یقیناً "نفس امارہ" ہی ہے
ویسے تو نفس "نفسِ لوامہ" کی صورت میں ایک اچھا دوست ہے جو گناہوں پر ٹوکتا ہے
اور "نفسِ مطمئنہ" کی صورت میں تو وہ رہبر ہے جو ہر کٹھن راستے کو عبور کرنے میں مدد دیتا ہے بالآخر جنت میں چھوڑ کے آتا ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
یوس کن باتیں بھی سننا پڑتی ہیں۔ یہ بہت تکلیف دہ وقت ہوتا ہے۔ اور ہمیں ان لمحات کی یاد دلاتا ہے جب ہم نے ایک کے بعد ایک اپنوں کو کھویا۔ ہم ان کو نہیں سمجھا سکتے مگر خود کو سنبھالنا سیکھنے میں لگ جاتے ہیں۔

کھویا ہے جو، وہی پایا ہے
اس دنیا میں سب مایا ہے
درد ہی سچ ہے
درد ہی رب ہے
جب تک درد نہ جاگے
احساس نہیں جاگتا
کیا یہ.سچ ہے؟
 
Top