انٹرویو گل یاسمیں سے انٹرویو

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
یہ اٹھارواں صفحہ چل رہا ہے شروع سے نہیں پڑھا ۔۔پڑھنے کی کوشش کرونگا ۔۔۔مگر آپ تو سچی متاثر کیے دے رہی ہیں۔۔۔:rolleyes:
پڑھنا شروع کیا یا ابھی تک "آگ لگا دو" ہی میں مصروف ہیں آپ؟
ہمیں آپ کے کمنٹس کا انتظار ہے ۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
پتا نہیں آپ ہر چیز کو ہمیشہ غلط غلط کیوں سمجھتی ہیں
ایسا تو بالکل بھی نہیں ہے۔ ہم غلط کو ہی غلط سمجھتے ہیں۔ اور صحیح کو صحیح۔ آپ کو ایسا کیوں لگا بھلا۔
اگر اس لڑکی کو جسے آپ نے پنجابن کہا ہے میری امی نے انکار نہیں کیا تو میں بھی نہیں کروں گا اور خوشی خوشی اس سے شادی کرلوں گا
بس اب ارادہ نہیں بدلئیے گا۔۔۔ جو بڑے کہتے ہیں ، مان لینی چاہئیے بات۔ :ROFLMAO:
یہ آپ نے اپنے چپ ہونے کا لکھا ہے تو کیا یہ آپ کے چپ ہونے پر کا حال ہے کہ اتنا سارا لکھ مارا اگر آپ بہت زیادہ بولنے والی ہوتیں تو پوری کہانیوں کی کتابیں لکھ دیتیں
کب بولے ہم زیادہ۔۔۔ جو بھی ہے، ہمیں معلوم پڑ گیا ہے کہ آپ ہم سے زیادہ بولتے ہیں رانا صاحب :rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 

زیک

مسافر
بہت بہتر۔

یہ سوال اس لڑی میں ہیں کیا؟ یا آپ کے مراسلہ سے ہی اقتباس لینا ہے؟
جی ہاں اقتباس کے اوپر والے تیر پر کلک کر کے آپ اس لڑی تک پہنچ جائیں گی۔ جواب چاہے یہاں دے دیں یا وہاں۔ ویسے کچھ کے جوابات تو آپ دے ہی چکی ہیں۔
 

زیک

مسافر
نہیں ہم نے کسی کا بھی نہیں پڑھا۔ ۔۔ ہمیں آئے عرصہ ہی کتنا ہوا ہے ابھی۔ لیکن اب ایک ایک کر کے سب کے پڑھیں گے ان شاء اللہ۔ آپ والا شروع کیا ہے بس۔
میں اس معاملے میں یقیناً جانبدار ہوں لیکن میری رائے میں محفل کی انٹرویو سیریز میں میرا انٹرویو سب سے بہتر ہے کہ خوب سوالات ہوئے اور کبھی پٹری سے نہ اترا۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
میں اس معاملے میں یقیناً جانبدار ہوں لیکن میری رائے میں محفل کی انٹرویو سیریز میں میرا انٹرویو سب سے بہتر ہے کہ خوب سوالات ہوئے اور کبھی پٹری سے نہ اترا۔
پڑھنے کے بعد رائے دیں گے۔

پٹری سے تو نہ چاہتے ہوئے بھی ایک ذرا سے مزاح کی وجہ سے ہی اتر نے میں دیر نہیں لگتی۔ جب سب ایک ساتھ آن لائن ہوتے ہیں تو سمجھ ہی نہیں آتی اور آناً فاناً کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔ لیکن جو بھی ہوتا ہے ، اچھا ہی لگتا ہے۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
بہت حسین کام ساری ایک سے بڑھ کر ایک بہت نیک کام اللّہ پاک اجر عظیم عطا فرمائیں اور اپنی بارگاہ میں قبول آمین
دعاؤں میں یاد رکھئیے آپا۔۔۔ یہی ہمارا اجر ہے کہ کوئی بخوشی دعاؤں سے نوازے اور اللہ پاک قبول فرمائیں۔ آمین
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
اچھا تو پہلے بھی بہت تھا نا
مگر وہ کیا ہے کہ سامنے بٹھا کے دیکھنا اور کسی کو کبھی کبھار دیکھنا،
فرق بس اتنا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ محفل مسکرانے لگ گئی
آ کے جب وہ بیٹھتا ہے مسکرا کے سامنے
واہ کیا بات ہے آپ کی
زبردست
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
شروع میں خواب نہیں سنائے تھے کبھی لیکن پھر اکثر ہونے لگا تو تھوڑا سا ڈر دل میں بیٹھنے لگا۔
خواب سب سے قبل کس کو سنائے؟
امی جان تو موجود تھیں۔ شاید بھائی بھابی بھی تھے۔۔۔ بس خاص طور پر نہیں سنائے البتہ ذکر کر دیا۔ یہ بالکل شروع کی بات کر رہے ہیں۔
ڈر۔۔۔ اس لئے نہیں کہ کچھ ڈراؤنا دیکھا تھا۔۔۔ اس لئے لگا کہ جو خواب میں دیکھا، وہ اب کیسے ہو رہا ہے۔ بالکل وہی تو نہیں مگر بہت دیکھا بھالا۔ اور ایک یا دو دن ہی بیچ میں ہوتے تھے۔ ذہن زیادہ سوچ بچار میں پڑ جاتا تھا۔ اور پھر ایک سے دوسری بات ہوتی جاتی۔ ڈر کی نسبت سہما دینا کہہ لیجئیے ۔
ڈر کس پہلے خواب سے لگا؟
دادا جان کے بارے دیکھا تھا خواب۔۔۔اور پھر معلوم ہوا کہ واقعی میں شدید بیمار ہیں۔ اور پھر وفات پا گئے۔ کچھ کفن وغیرہ کا دیکھاتھا جہاں دادی اماں نے سامان رکھا ہوا تھا ، وہ وہاں سے نکال رہی تھیں۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
خوف کو نفیسات سے نکالنا ممکن ہوگا آپ کے لیے؟
اگر ہاں، تو کیا کریں گی؟ کس طرح؟
جب انسان اس بات کو سمجھنے کا شعور حاصل کر لے کہ خوف تو بس اندازِنظر ہے، اندازِ فکر ہے۔ ہمارے اپنے اندر کا واہمہ، جو آناً فاناً آ کر دل میں بیٹھ جاتا ہے ۔ اگر تو بس اس کی تاویلیں سننے لگو تو پھر تب تک جانے کا نام نہیں لیتا جب تک کسی حادثے کا سبب بن جائے۔ کبھی تو شروع ہی میں اس سے رہائی پائی جا سکتی ہے مگر کئی بار باوجود کوشش کے اس سے پیچھا نہیں چھڑایا جا سکتا۔ وجہ قوتِ ارادی کی کمی ہی ہے۔ ہاں اگر اللہ پاک پر بھروسہ کر کے قوتِ ارادی کے سہارے انسان "نتیجے" سے بے نیاز ہو جائے تو خوف دل میں گھر نہیں بنا پاتا۔ یا اگر کہیں خوف آپ کو گھیرے میں لینے کی کوشش میں ہے تو بھی وہ اس حد تک حاوی نہیں ہو گا کہ جڑ ہی پکڑ لے۔
خوف کا عنصر زندگی میں بس اس حد تک ضروری ہے کہ یہ انسان کو محتاط رہنے میں مدد کرتا ہے تا کہ وہ زندگی کے سفر میں مناسب اعمال کے ساتھ آگے بڑھے۔ دوسری صورت میں اس کا سارا تشخص ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ جس کی شدید ترین صورت ڈپریشن ہے۔ چونکہ بہت کچھ جھیلا ہے تب جا کر سیکھ پائے ہیں۔ اور سیکھ کر عمل کرنے کے بعد خوف کا حصار ٹوٹ گیا۔
قُربِ الٰہی ، ذکر الٰہی ۔۔۔ اس سب سے نکلنے میں بہت مددگار ہے۔ انسان خود کو اللہ پاک کے حوالے کر دے، نتائج کا خوف دل سے نکال کر اس ذات کا بھروسہ کرے۔ اللہ پاک کا خوف دل میں رکھے تو دنیاوی خوف سے نجات پا لیتا ہے۔
خوف انسانی جسم کے لئے وہ بدترین سزا ہے جو اسے اندر سے دبوچ لیتی ہے۔ بظاہر انسان کے جسم پر کوئی خراش نظر نہیں آتی مگر اس کا باطنی وجود ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔ خیالات اور عمل کے فرق کو بھی اگر کم کر دیا جائے تو بھی خوف کم کرنے میں مدد ہوتی ہے۔ محٖض خیالات کے تانے بانے بنتے رہنا اور عمل نہ کرنا انٹرنل انرجی کو کم کر دیتا ہے اور اس کی جگہ خوف لے لیتا ہے۔کبھی کام شروع کرنے میں پہلا قدم اٹھانے کا خوف، کبھی کام کے نا مکمل رہ جانے کا خوف۔۔۔ اس لے ضروری ہے کہ خواب و خیالات کے پہاڑ کھڑا کرنے کی بجائے عملی طور پر اپنےراستے کا ایک معمولی سا پتھر بھی ہٹا دیا جائے تو بھی انسان کو اپنی نفسیات سے خوف کو نکالنے میں مدد ملتی ہے۔

ہم نے دونوں سوالوں کا جواب اکٹھے ہی دے دیا۔۔۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
وہ اک "لمس "
جو آخری نشانی
مکمل تھی کہانی
اس لمحے جب میں کھو سی گئی
محبت مجھے تھامے رہے
آغوش میں رہی جسکے
وہ تھپکی، ماں کی سلاتی رہی

اچیاں لمیاں لال کھجوراں تے گھنیاں جس دیا چھاواں
ہر اک چیز بازاروں لبھدی پر نئیں لبھدیاں نیں مانواں

ماں کا کوئی نعم البدل نہیں۔۔۔ زندگی کی آخری سانس تک قائم رہنے والی محرومی ہے لیکن ان کی سکھائی اچھی عادات کو اپنا کر ، عمل کر کے مامتا کا حق ادا کیا جا سکتا ہے۔
 
Top