انٹرویو گل یاسمیں سے انٹرویو

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
گُلِ یاسمیں یہ بتائیں کہ آپ کو اپنے دیس میں شروع شروع میں کن باتوں پر حیرانی ہوئی؟ کونسی باتیں ابتدا میں عجیب لگیں؟

پہلے تو یہ بتائیں کہ اس میں "اپنا دیس " پاکستان کو بولا ہے یا ڈنمارک کو؟

تب تک ہم عدنان بھائی کے بقیہ آدھے سوال کا جواب دیتے ہیں۔ :D
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ہمارا آپ سے یہ سوال ہے کہ آپ پر کب آگہی اور سوچ کے در وا ہوئے ، کیا اس کیا وجہ زندگی میں پیش آیا حادثہ ہے یا عمر رواں کے ساتھ ساتھ زمانے کے چلن سے آپ سیکھتی گئیں ؟

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثے یونہی رونما نہیں ہوتے
حساس تو ہم پیدائشی ہیں ۔ ہمیں وقتِ پیدائش ہی اس بات کا احساس تھا کہ ہمیں آنسو نہیں بہانے۔ نہیں معلوم تھا کہ اس طرح بچوں کو تھپڑ مار کر بھی رلا دیا جاتا ہے کہ فوری طور پر بچے کا رونا لازم ہوتا ہے۔ اللہ پاک جانیں کہ سچ ہے یا نہیں مگر ہمیں تو یہی بتایا گیا۔ اور یقین کے سوا کوئی راہ نہ تھی۔
ہاں تو زندگی لاڈ پیار ، ناز نخرے اٹھوانے میں ہی گزری۔۔ الحمد للہ گزر بھی رہی ہے۔ مگر" پسِ پردہ " ہم بدل گئے ہیں۔
درپردہ یہ سین تب بدلا جب پہلے ابو جان کی وفات ہوئی اور پھر امی جان اور بھائی بھی دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے۔ ہمیں تو یوں ہتھیلی کا چھالا بنا کر رکھا گیا تھا کہ ذرا سی تکلیف نہ ہو۔ آنکھوں میں آنسو لانے کی اجازت ہی نہ تھی۔ کبھی ہمیں خاموش دیکھتے بھائی یا باقی فیملی والے تو ہر ایک کا یہی کہنا کہ "ہم سب تو ہیں نا" ۔۔۔۔ ہمیں سب کا مان رکھنے کو اپنے آنسو دل میں گرانے پڑتے ۔ اکیلے بیٹھے جب بھائی کی آخری دن کی گفتگو یاد آتی، ان کا خوش مزاجی سے ہم سے بات کرنا اور اپنے صحت مند ہو جانے کی تسلی دینا اور پھر اس کے چند ہی گھنٹے بعد رخصت ہو جانا یاد آتا۔ انھیں ڈاکٹرز نے بولا تھا کہ اب تمہارے پاس وقت نہیں۔ جس سے بات کرنا چاہتے ہو کر لو۔
جب یہ ساری باتیں ذہن میں گھومتیں تو بالآخر اک دن سب برداشت ختم ہو گئی۔ شدید ڈپریشن میں چلے گئے خوب چیخنے چلانے اور سر ٹکرا ٹکرا کر دیواریں توڑنے کی کوشش میں۔۔۔۔ ہاسپٹلائیز رہے، تھراپیز ، میڈیسنز۔۔۔ مگر جیسا کہ پہلے بھی اسی انٹرویو میں تفصیلی سورۃ رحمٰن اور اس سے ہونے والے اثرات کے بارے بتایا۔۔۔ اللہ پاک نے اپنا فضل فرمایا۔ صحت عطا فرمانے کے ساتھ ساتھ ہمیں خود کو سمجھنے کے بارے بھی سوچ عطا فرمائی۔۔۔ صبر و برداشت کی دولت عطا فرمائی۔
جوں جوں ہم اپنے اندر جھانکتے گئے۔۔۔ معلوم ہوا ہونا وہی ہے جو روزِ ازل سے لوحِ تقدیر پر لکھا جا چکا ہے۔ سب یہیں چھوڑ جانا ہے۔ دنیا سے رغبت کسی کام نہیں آئے گی۔ کچھ کرنا ہے تو وہ کرو کہ سکونِ قلب عطا ہو۔ پھر مان لیا کہ خواہش اور آرزو کچھ نہیں ہوتے۔ جب اپنی ذات کے لئے خواہش کا ذکر ہی نہ رہا تو خوشی اور غم بھی ایک سے لگنے لگے۔ ہنستے ہنستے رو دینا اور روتے روتے ہنس دینا۔۔۔ انھی کیفیات میں دن بیتنے لگے کیونکہ ہم کافی سے زیادہ تنہائی پسند ہو نے لگے تھے۔ تنہائی پسند اس طرح نہیں کہ الگ تھلگ بیٹھ رہنا۔۔۔۔ مگر سب کے ہوتے بھی بس اپنی ذات کے ساتھ رہنا۔۔۔ پھر آنسو بھی خشک ہوتے گئے۔۔۔ یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ اگر کوئی دل میں ہے لیکن آنکھوں سے اوجھل ہے تو وہ تعلق فراق و وصال سے بے نیاز ہے۔ کوئی جدائی نہیں ہے۔ مادی اشیاء سے محبت تو پہلے بھی نہ تھی لیکن اس کے بعد ضروریات مزید کم کر لیں کہ فانی دنیا میں سو برسوں کی آسائشیں جمع کرنے کا کیا فائدہ جب کہ اگلے پل کا بھروسہ نہیں۔
پھر یوں آگہی کے در وا ہوتے گئے کہ اپنی صلاحیتوں کو محروم لوگوں کی خدمت کے لئے وقف کر دینا قلبی طمانیت اور خوشی کا باعث ہے۔ ہم پہلے بھی کافی حد تک خدمت خلق کرتے تھے کہ یہ عادت ہمارے امی اور ابو سے ہم میں منتقل ہوئی تھی۔ مگر اب ساری توجہ اسی پر مرکوز ہو گئی۔ یوں دوسروں کی دلجوئی کرتے کرتے ہم نے وقت کے ساتھ ساتھ یہ جان لیا کہ غم نڈھال نہیں کرتے بلکہ انسان کے لئے شخصیت سازی کا کام دیتے ہیں۔
یہ سب ہمیں وقت کے ساتھ ساتھ محض اپنا محاسبہ کرتے رہنے سے سیکھنے کو ملتا رہا۔ ۔۔۔ پھر ہم نے جانا کہ ادھورا پن نہیں مستقل مزاجی سے کام مکمل کرنا بہترین عمل ہے۔ اور مستقل مزاجی ہی ذریعہ ء مسرت ہے۔ کوئی بھی مشکل ہو ہمیں اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں اور انجام پر فکرمند ہونے کی بجائے اللہ کے بھروسے چھوڑنا چاہئیے۔ تب ہی ہم وہ خوشی اور سرشاری حاصل کر سکتے ہیں جہاں خوشی اور غم کا فرق مٹ جاتا ہے۔ آپ سود و زیاں کے چکر سے نکل آتے ہیں۔ دنیا کی حیثیت محض ثانوی رہ جاتی ہے۔ حاصل اور محرومی کا رونا نہیں رویا جاتا۔
اور سب سے بڑی آگہی جو ہمیں ملی وہ اپنی ذات کے متعلق تھی۔۔۔۔ اپنی قدر و قیمت کی۔۔۔ اپنے اشرف المخلوقات ہونے کی۔۔۔ کہ کس لئے اللہ پاک نے انسان کو اپنی بہترین مخلوق قرار دیا ہے۔۔۔ بس ہمیں اس حق کو ادا کرنا ہے اللہ پاک سے محبت کر کے۔ اور مقدور بھر اس کی مخلوق کے ساتھ انسانیت اور محبت کا حق ادا کر کے۔ تبھی تو زندگی کا مقصد پورا ہو گا۔

یہ کہنا چاہیں گے سب سے۔۔۔مصیبتیں اور پریشانیاں بھی زنگی کا حصہ ہیں۔ ان پر واویلا کرتے ہوئے اپنے نصیب کو برا بھلا کہنے کی بجائے اس بات کا یقین رکھئیے کہ اگر آپ ایک ذرہ بھی ہیں لیکن اپنے مقام پر ہیں تو آپ مانندِ آفتاب ہیں۔اپنی قدر کیجئیے، زمانہ بھی قدر کرے گا۔

عمر رواں کے ساتھ ساتھ زمانے کے چلن سے آپ سیکھتی گئیں ؟
زمانے سے ہمارا کچھ خاص واسطہ نہیں ہے بھائی۔۔۔ محدود سی دنیا ہے ہماری۔
اپنے ہی اعمال اور رویوں کو انسان پرکھتا رہے تو بہت کچھ سیکھتا رہتا ہے۔ البتہ جہاں ایکٹیویٹی سینٹر میں ہمارا واسطہ ہے وہاں زیادہ تر لوگ بڑی عمر کے ہیں۔ کچھ ذہنی طور پر معذور ہیں کچھ کینسر جیسی جان لیوا بیماری میں مبتلا موت کے انتظار میں ہیں۔ ایسے لوگوں کو مختصر سے وقت کے لئے خوشیاں دینے میں بہت طاقت صرف ہوتی ہے۔ مگر قوتِ برداشت کچھ نہ کچھ پرسنٹ بڑھ بھی جاتی ہے۔ البتہ کچھ حساس لمحے ایسے بھی ہوتے ہیں جب اداسی گھیر لیتی ہے۔
معلوم نہیں کہ اسے ہم اپنا ویک پوائینٹ سمجھیں یا کیا۔۔ لیکن کسی کا دکھ یا تکلیف سنیں تو لگتا ہے کہ جیسے ہم پر بیت رہا ہو۔

زمانے کا چلن ہم کبھی نہ سیکھ پائیں گے بھائی۔۔۔ اور نہ ہی زمانے کے ساتھ چلنا۔۔۔ ہم جیسے سادہ لوگوں کا مزاج نہیں ملتا زمانے سے۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
گُلِ یاسمیں یہ بتائیں کہ آپ کو اپنے دیس میں شروع شروع میں کن باتوں پر حیرانی ہوئی؟ کونسی باتیں ابتدا میں عجیب لگیں؟

دیس تو آپ کا ڈنمارک ہے۔ پردیس تو پاکستان ہے۔
اچھا تو ہم ڈنمارک کے دیس ہونے کے حوالے سے بتاتے ہیں۔۔۔
پہلی حیرانی کہ کتنی صفائی ہے یہاں۔ سب خیال رکھتے ہیں کہ باہر کچرا نہیں پھینکنا۔
پچھلے سال کی بات ہے کہ کوپن ہیگن ریڈ لائیٹ کی بنا پر ٹریفک رکی تھی۔۔ اگلی گاڑی سے ایک خاتون نے کوئی پیپر وغیرہ پھاڑ کر باہر پھنکا۔ بیچاری کی بدقسمتی کہ پولیس والا قریب ہی تھا، اس نے روک کر اسے باہر بلایا اور کاغذ کے تمام ٹکڑے اکٹھے کروائے۔
پاکستان میں ہمارا اور ہمارے 5 چچاؤں کے گھر ساتھ ساتھ ہیں۔ اور ہر وقت کا چھتیں پھلانگ کر ایک دوسرے کے گھر آنا جانا ۔۔۔ یہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ دنوں بلکہ کبھی مہینوں پہلے پروگرام بنانا ہوتا ہے۔ خیر اس کی کمی ہم کافی حد تک پوری کرتے رہتے ہیں اور اس میں سب ایک ایک ڈش کا اہتمام کر لیتے ہیں تا کہ "پلاننگ" والی دعوت یا گیدرنگ کا انتظار نہ کرنا پڑے۔
فیملی میں بہت حد تک پاکستان جیسا ہی ماحول رکھا جاتا ہے۔
اور زبان کا بھی تھا۔۔۔ لیکن اس کا بس ایک آدھ مہینہ ہی مسئلہ ہوا۔
ہاں لباس وغیرہ بھی بہت عجیب لگتے۔۔۔۔
اور تو کچھ نہیں آ رہا ذہن میں۔ کچھ یاد آیا تو بتا دیں گے کیونکہ ہمیں بولنا اور بہت بولنا بھی اچھا لگتا ہے کبھی کبھار۔:rollingonthefloor:
ہاں ہمسایوں کے بارے بھی تھوڑا دماغ گھوما کہ کیسے ہمسائے ہیں کہ ایک دوسرے کی خبر نہیں جبکہ ہوں بھی پاکستانی۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
سچی میں بہت مزہ آ رہا ہے انٹرویو دیتے ہوئے۔۔۔ بہت شکریہ زیک بھائی۔۔۔ واقعی آپ نے انٹرویو شروع کر کے اچھا کیا بہت۔
سلامت رہئیے ہمیشہ
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
صرف گہرائی میں جا کر جان لینا کوئی اہمیت نہیں رکھتا جب تک اسے عملی حیثیت نہ دی جائے۔
کس کس بات کے عمل سے " آگہی " ملی

اس میں کم و بیش وہی جواب ہے جو مراسلہ 584 میں عدنان بھائی کو دیا ہے۔

تھوڑے سے اضافہ کے ساتھ۔۔۔


یہ آگہی ملی ۔۔۔۔۔۔۔ کہ دکھ درد کیا ہے
یہ آگہی ملی کہ دوسروں کا احساس کرنا کیا ہوتا ہے اور کیسے کیا جائے۔
یہ آگہی ملی کہ رشتوں میں جو ناآشنائی کی وبا پھیلی ہوئی ہے ، کوئی کسی کا پرسان حال نہیں اگر ان حالات میں کچھ وقت نکال کر دوسروں کے لئے وقف کر دیا جائے اور کسی کا بھلا کر دیں تو کیا ہی بات ہے۔ دلی خوشی حاصل کرنے کا بہتریں ذریعہ ہے۔
یہ آگہی ملی کہ اینٹوں کا اینٹوں سے ربط رہنا ہی دیوار کے کھڑے رہنے کی ضمانت ہے ورنہ بڑی سے بڑی منزلیں زمیں بوس ہو جائیں۔ انسان کی انسان سے ہمدردی اور محبت ہی ۔۔۔انسانیت زندہ رکھنے میں معاون ہےاپنے اندر کی بے چینی ختم۔۔ ایک نیا احساس پیدا ہوتا ہے۔۔
یہ آگہی ملی کہ دلوں میں رفاقتوں کی محبتوں کی روشنی پیدا کرنی ہے ورنہ باہر جلے چراغ اندر کے اندھیروں کو کم نہ کر پائیں گے۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
ہاں ہمسایوں کے بارے بھی تھوڑا دماغ گھوما کہ کیسے ہمسائے ہیں کہ ایک دوسرے کی خبر نہیں جبکہ ہوں بھی پاکستانی۔
ڈنمارک میں جب کسی پاکستانی نژاد سے ملاقات ہوتی ہے تو آپ کا کیا تاثر ہوتا ہے؟ آپ کیا کرتی ہیں اور ان کا کیا ری ایکشن ہوتا ہے؟

نوٹ: میرے کئی سوالوں کے جواب رہتے ہیں۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ڈنمارک میں جب کسی پاکستانی نژاد سے ملاقات ہوتی ہے تو آپ کا کیا تاثر ہوتا ہے؟ آپ کیا کرتی ہیں اور ان کا کیا ری ایکشن ہوتا ہے؟

نوٹ: میرے کئی سوالوں کے جواب رہتے ہیں۔
جی بھائی آپ کے تمام سوالوں کے جواب دیں گے ہم۔۔۔

مختلف لوگ۔۔۔ مختلف ری ایکشن ہوتے ہیں۔
ہمارا تاثر یہی ہوتا ہے کہ وطن سے دور ایک ہم وطن سے ملاقات ہوئی۔ بہت اچھا لگتا ہے۔ اچھی بات چیت رہتی ہے۔ اور بس۔
دوسری طرف کا ری ایکشن بھی ایسا ہی ہوتا ہے تقریباً۔ اب دل کی بات تو وہی جانیں نا۔
مجموعی طور پر بہتر رہتا ہے سب۔
 
کہاوت ہے کہ دکھ اور غم انسان کو بے حس کر دیتے ہیں ،اوپر آپ کی جانب سے دئیے گئے جوابات سے کہی کہی اس بات کا گمان ہو رہا ہے ،کسی کا دکھ ،درد دیکھ کر اکثر اپنے زخم تازہ ہو جایا کرتے ہیں تو آپ واقعی سمجھتی ہیں کہ اپنے دکھوں اور غموں مداوا کرنے کے لیے خدمت انسانیت بہترین مرہم ہے ؟
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
جب کوئی سارے ہی درد لے لینا چاہتا ہو تو وہ بے بسی زیادہ پریشانی کا سبب بنتی ہے۔ اور اسی بےبسی کی حالت میں ہوا یہ۔

آپ نے ایسا کبھی سوچا تھا کہ کبھی کسی کے درد لے پائیں گی؟
نہیں اس طرح تو ہر گز نہ سوچا تھا۔ اگرچہ فطرت شروع ہی سے ایسی ہے کہ دوسروں کی تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ مگر تب شاید خیالات کسی ایک سمت مرکوز نہ تھے یا پھر ذمہ داری نہ سمجھنے کا ایشو رہا ہو گا۔ :D
ویسے بھی انسان جب سفر کے آغاز میں ہوتا ہے تو کئی راستے سامنے ہوتے ہیں ، کئی موڑ ہوتے ہیں۔ خیالات کے دائرے پھیلے ہوتے ہیں۔ آس پاس ذمہ داریاں اٹھانے والے ہوتے ہیں۔ مگر پھر یوں ہوتا ہے کہ کسی کے بچھڑ جانے سے تمام کشادہ سڑکیں سمٹ کر ایک تنگ سے راستے پر آ جاتی ہیں۔ چاہیں بھی تو سوچوں پہ قابو نہیں رہتا۔احساسات بکھر بکھر جاتے ہیں۔ تبھی انسان بے بسی کی کیفیت کو محسوس کرتا ہے ۔ خواہشات لامحدود سے محدود میں داخل ہو جاتی ہیں۔ زندگی کو دیکھنے کا نظریہ ہی بدل جاتا ہے۔ پہلے جو دیکھنے کی حد تک محسوس ہوتا ہے، پھر وہ اپنے تن پہ محسوس ہونے لگتا ہے۔
مختصر یہ کہ زندگی کے منظر نامے پر ایک نئی صبح طلوع ہوتی ہے بالکل نئے احساسات کے ساتھ۔ انسان خود کو بہت طاقتور محسوس کرتا ہے۔ چاہنے لگتا ہے کہ دوسروں کے درد کا درماں بنے، درد پالنے کی لت پڑ جاتی ہے۔ ہمیں پڑ چکی۔ اور اگر اللہ پاک کا کرم نہ ہو تو انسان کبھی نرم دل نہیں ہو سکتا۔ سب اسی کی دین ہے کہ ہمیں حوصلہ بخشا کہ ہم زندگی کے کسی ایک موڑ پر رک نہ جائیں ۔ ورنہ ہم کہاں ہماری اوقات کہاں۔

خس خس جنھاں قدر نئیں میرا میرے صاحب نوں وڈھیائیا ں
میں گلیا ں دا رُوڑا کُوڑا تے مینوں محل چڑھایا سائیاں
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
کہاوت ہے کہ دکھ اور غم انسان کو بے حس کر دیتے ہیں ،اوپر آپ کی جانب سے دئیے گئے جوابات سے کہی کہی اس بات کا گمان ہو رہا ہے ،کسی کا دکھ ،درد دیکھ کر اکثر اپنے زخم تازہ ہو جایا کرتے ہیں تو آپ واقعی سمجھتی ہیں کہ اپنے دکھوں اور غموں مداوا کرنے کے لیے خدمت انسانیت بہترین مرہم ہے ؟
سب کہاوتیں ہر ایک پر پورا نہیں اترتیں۔ ہر ایک انسان مختلف معاملات میں مختلف کیفیات رکھتا ہے۔ کچھ لوگ بے حس بھی ہو جاتے ہوں گے یا شاید یہ بھی ایک طرح سے نفسیاتی طور پر بلاارادہ ہی ہو جاتا ہے کہ انسان اپنے گرد بے حسی کا خول چڑھا لیتا ہے۔
جہاں تک ہمارے مراسلات سے زخم تازہ ہونے کی بات ہے تو زخم یاد تو آتے ہیں مگر رستے نہیں ہیں۔ خدمت انسانیت مرہم رکھ دیتی ہیں ان پر۔
اگر زندگی کسی کو خوشی دینے کا باعث بنے تو غم کا احساس مٹ جاتا ہے۔ اسی طرح اگر انسان محض خود غرضی کی راہ پہ چلے تو کبھی خوشی نصیب نہ ہو پائے گی۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ہم جان گئے کہ بندہ چیخ کر دل کی بھڑاس نکال سکتا ہے۔

. ویسے یہ چیخ و پکار آس پاس کے لوگ برداشت کر پاتے ہیں؟
دکھ کے اظہار میں چھوٹا بچہ چیخے تو معاشرہ ہضم کرتا، بڑا ایسا کرے تو ہضم نہیں کرتا، انسان کو مجرم بنا دیا جاتا ہے اسکی "چیخ " سے

ہمارے آس پاس صرف اور صرف ہمارے اپنے لوگ ہیں۔ بھائی تو ہیں ہی ماں جائے۔۔۔ اور بھابیاں ان سے بڑھ کر محبت کرنے والی ہیں۔ کہنے کی حد تک نہیں حقیقتاً۔ اللہ پاک انھیں ہمیشہ ایسا ہی رکھے۔ آمین۔

تو کون بناتا مجرم؟ دوسری بات یہ کہ ایسا بار بار نہیں ہوا۔۔۔۔۔ بس ایک بار سب "سمجھ " کر احتجاج کرنا تھا گھر والوں سے۔۔۔ کہ آپ لوگوں نے اچھا نہیں کیا ۔ سو کر دیا۔
ایسا نہیں ہوا ہوتا تو ہم اپنی سوچوں کے دائرے میں ہی گھوم رہے ہوتے، ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر۔۔۔ پھر خاتمہ کہاں ہوتا؟ زنجیروں میں نا؟ ابھی تو آدھا مغز پایا جاتا ہے۔۔۔ تب تو بالکل ہی پاگل کہلاتے۔ اور ہاں۔۔۔ یہ جملہ ہماری زندگی میں کہیں بھی نہیں۔۔۔ "کوئی کیا کہے گا۔ "
جو ہوا، جیسے ہوا۔۔۔ ایسا ہی ہونا تھا۔۔۔ تکلیف اٹھا کر ایک راہ پہ چل پڑنا ۔۔۔ اور کیا چاہئیے ۔
الحمد للہ سب تعاون کرنے والے ہیں۔ ٹوکنے والی بات پر ٹوکتے بھی ہیں ۔ ساری خود اعتمادی دراصل ان اپنوں ہی کے سہارے حاصل ہے۔
 
Top