پروین شاکر :::: گلاب ہاتھ میں ہو ، آنکھ میں سِتارہ ہو

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
پروین شاکر
گلاب ہاتھ میں ہو ، آنکھ میں سِتارہ ہو
کوئی وجودِ محبّت کا استعارہ ہو
میں گہرے پانی کی اُس رو کے ساتھ بہتی رہُوں
جزیرہ ہو کہ مُقابِل کوئی کنارہ ہو
کبھی کبھار اُسے دیکھ لیں، کہیں مِل لیں
یہ کب کہا تھا، کہ وہ خوش بدن ہمارا ہو
قصور ہو تو ہمارے حساب لکھ جائے
محبتوں میں جو احسان ہو، تمھارا ہو
یہ اِتنی رات گئے کون دستکیں دے گا !​
کہیں ہَوا کا ہی اُس نے نہ رُوپ دھارا ہو
اُفق تو کیا ہے، درِ کہکشاں بھی چھُو آئیں
مُسافروں کو اگر چاند کا اِشارہ ہو
میں اپنے حِصّے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں
کوئی تو ہو، جو مجھے اِس طرح کا پیارا ہو
اگر وجود میں آہنگ ہے، تو وصْل بھی ہو!​
میں چاہے نظم کا ٹکڑا، وہ نثر پارہ ہو
پروین شاکر
 
Top