گزر گئی شب ہجراں اگر تو کیا ہوگا - طاہرہ صفی

کاشفی

محفلین
غزل
( طاہرہ صفی)

گزر گئی شب ہجراں اگر تو کیا ہوگا
جو کھل گیا یہ فریب نظر تو کیا ہوگا

درِقفس تو کھلا ہے مگر یہ ڈر ہے مجھے
بکھر گئے کہیں‌سب بال و پر تو کیا ہوگا

وہ قتل کرتا ہے اور یہ تو سوچتا ہی نہیں
نکل کے آگئے سب نوحہ گر تو کیا ہوگا

صنم تراشا ہے میں نے اندھیری آنکھوں سے
پلٹ کے آگئی میری نظر تو کیا ہوگا

حصار کھینچ رہا ہے وہ اپنے چاروں‌طرف
اگر وہ گھِر گیا اپنے ہی گھر تو کیا ہوگا

یہی تو سوچ کے رخت سفر ہی کھول دیا
ہوا نہ گر وہ میرا ہمسفر تو کیا ہوگا

وہ عکس دیکھ کے آئینہ توڑ دیتا ہے
نظر میں رُک گئی تصویر گر تو کیا ہوگا
 

فاتح

لائبریرین
خوبصورت انتخاب ہے۔ شکریہ کاشفی صاحب
وہ عکس دیکھ کے آئینہ توڑ دیتا ہے
نظر میں رُک گئی تصویر گر تو کیا ہوگا
 
Top