گزرتے لمحے۔۔!!

ماوراء

محفلین
~~
یہ جو زندگی کی کتاب ہے، یہ کتاب بھی کیا کتاب ہے
کہیں اک حسیں سا خواب ہے، کہیں جاں لیوا عذاب ہے

کہیں چھاؤں ہے کہیں دھوپ ہے، کہیں اور ہی کوئی روپ ہے
کئی چہرے اس میں چھپے ہوئے، اک حجاب سی یہ نقاب ہے

کہیں کھو دیا کہیں پا لیا کہیں رو لیا کہیں گا لیا
کہیں چھین لیتی لے ہر خوشی کہیں مہرباں بے حساب ہے

کہیں آنسووں کی ہے داستاں کہیں مسکراہٹوں کا ہے بیاں
کہیں برکتوں کی ہے بارشیں کہیں تشنگی بے حساب ہے

~~​
 

ماوراء

محفلین
~~
زندگی کے بند دروازں سے ٹکرانے کے بعد
راستے کچھ عقل و دل کے درمیاں سے مل گئے


~~​
 

ظفری

لائبریرین

زندگی جس کا بڑا نام سنا جاتا ہے
اک کمزور سی ہچکی کے سوا کچھ بھی نہیں​
 

ظفری

لائبریرین
خواب،خواہش، وہم ہے زندگی
اِک بھیانک حادثہ ہے زندگی
آج تک یہ مسئلہ سلجھا نہیں
میں خفا ہوں کہ خفا ہے زندگی​
 

ماوراء

محفلین

~~
بڑا دُشوار ہوتا ہے
ذرا سا فیصلہ کرنا
کہ جیون کی کہانی کو
کہاں سے یاد رکھنا ہے
کہاں سے بھول جانا ہے
کِسے کتنا بتانا ہے
کس سے کتنا چھپانا ہے
کہاں رو رو کے ہنسنا ہے
کہاں ہنس ہنس کے رونا ہے
کہاں آواز دینی ہے
کہاں خاموش رہنا ہے
کہاں رستہ بدلنا ہے
کہاں سے لوٹ جانا ہے
بڑا دُشوار ہوتا ہے
ذرا سا فیصلہ کرنا
~~​
 

ماوراء

محفلین
~~
زندگی ہر حال میں پیاری لگی
دل نے بھی ہر بار ہم سے یہ کہا
جو ہوا، اچھا ہوا
کچھ یادیں، کچھ باتیں ہم سے رہ گئیں
خواب ٹوٹے
خواہشیں ہم سے بھی روٹھیں
زندگی پھر بھی مگر چلتی رہی
پیاری لگی
کچھ دوست روٹھے اور کچھ رشتے بھی ٹوٹے
پیار بھی تھا اور نفرت بھی تھی
ایسا لگتا ہے ہم کو
اجنبی سے پیار تھا
بس اس کا انتظار تھا
اک اجنبی کی یاد میں سب کچھ سہا
کچھ نہ کہا
زندگی ہر حال میں پیاری لگی

~~​
 

عمر سیف

محفلین
ماوراء نے کہا:

~~
بڑا دُشوار ہوتا ہے
ذرا سا فیصلہ کرنا
کہ جیون کی کہانی کو
کہاں سے یاد رکھنا ہے
کہاں سے بھول جانا ہے
کِسے کتنا بتانا ہے
کس سے کتنا چھپانا ہے
کہاں رو رو کے ہنسنا ہے
کہاں ہنس ہنس کے رونا ہے
کہاں آواز دینی ہے
کہاں خاموش رہنا ہے
کہاں رستہ بدلنا ہے
کہاں سے لوٹ جانا ہے
بڑا دُشوار ہوتا ہے
ذرا سا فیصلہ کرنا
~~​
بہت خوب۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ماوراء نے کہا:
گذرتے لمحوں ۔۔ مجھے بتاؤ ؟
زندگی کا اُصول کیا ہے ؟
تمام ہاتھوں میں آئینے ہیں
کون کسے چُھپتا ہے
اگر صدا کا وجود کانوں سے مُنسلک ہے
تو کون خوشبو بن کر بولتا ہے
اگر سمندر کی حد ساحل ہے
تو کون آنکھوں میں پھیلتا ہے
تمام چیزیں اگر ملتی ہیں
تو کون چیزوں سے ماورا ہے
کسے خبر ؟ ۔۔۔ بدلتی رُت نے پّتوں سے کیا کہا
یہ کوئی بادلوں سے پُوچھے اتنے موسم کہاں رہا ؟
جو آج دیکھا ہے وہ کل نہ ہوگا
کوئی لمحہ اٹل نہ ہوگا
گُذرتے ہوئے لمحوں ۔۔۔ مجھے بتاؤ ؟
زندگی کا اُصول کیا ہے ؟


بہت خوب ماوراء
مجھے بھی دو شعر یاد آ گئے۔


---پاؤں پھیلاؤں تو دیوار سے سر لگتا ہے!!!
زندگی!تُو نے مجھے قبر سے کم دی ہے جگہ



---کبھی پلکوں پہ آنسو ہیں، کبھی لب پہ شکایت ہے
مگر اے زندگی پھر بھی مجھے تُم سے محبت ہے
 

ماوراء

محفلین
برترِ از انديشہء سود و زياں ہے زندگي
! ہے کبھي جاں اور کبھي تسليمِ جاں ہے زندگي

تو اسے پيمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ
! جاوداں پيہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگي

اپني دنيا آپ پيدا کر اگر زندوں ميں ہے
! سِرِّ آدم ہے ضميرِ کن فکاں ہے زندگي

زندگاني کي حقيقت کوہکن کے دل سے پوچھ
! جوئے شير و تيشہ و سنگِ گراں ہے زندگي

بندگي ميں گھٹ کے رہ جاتي ہے اک جوئے کم آب
اور آزادي ميں بحرِ بے کراں ہے زندگي

آشکارا ہے يہ اپني قوّتِ تسخير سے
گرچہ اک مٹّي کے پيکر ميں نہاں ہے زندگي

قلزمِ ہستي سے تو ابھرا ہے مانندِ حباب
اس زياں خانے ميں تيرا امتحاں ہے زندگي

خام ہے جب تک تو ہے مٹّي کا اک انبار تو
! پختہ ہو جائے تو ہے شمشير بے زنہار تو

ہو صداقت کے ليے جس دل ميں مرنے کي تڑپ
پہلے اپنے پيکرِ خاکي ميں جاں پيدا کرے

پھونک ڈالے يہ زمين و آسمانِ مستعار
اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پيدا کرے

زندگي کي قوّتِ پنہاں کو کر دے آشکار
تا يہ چنگاري فروغِ جاوداں پيدا کرے

خاکِ مشرق پر چمک جائے مثالِ آفتاب
تا بدخشاں پھر وہي لعلِ گراں پيدا کرے

سوئے گردوں نالہء شب گير کا بھيجے سفير
رات کے تارں ميں اپنے رازداں پيدا کرے

! يہ گھڑي محشر کي ہے تو عرصہء محشر ميں ہے
! پيش کر غافل عمل کوئي اگر دفتر ميں ہے


علامہ اقبال
 
Top