گر مجھے حاضری ملے، چہرہ بہ چہرہ، رُو بہ رُو

غزل
(قرۃ العین طاہرہ)
ترجمہ :محمد خلیل الرحمٰن


گر مجھے حاضری ملے، ’’چہرہ بہ چہرہ، رُو بہ رُو‘‘
غم تیرا میں بیاں کروں، ’’نکتہ بہ نکتہ ، مُو بہ مُو‘‘


دِل میں تِری تڑپ لیے، مثلِ صبا میں یوں پھروں
’’خانہ بہ خانہ، در بہ در، کوچہ بہ کوچہ، کُو بہ کُو‘‘


تیرے فِراق میں مِری آنکھوں سے ہے رواں دواں
’’دجلہ بہ دجلہ ، یم بہ یم، چشمہ بہ چشمہ ، جُو بہ جُو‘‘


عارِض و لب کے دائرے، تیرے یہ عنبریں خطوط
’’غنچہ بہ غنچہ ، گُل بہ گُل، لالہ بہ لالہ، بُو بہ بُو‘‘


گھائل کیا مجھے ترے ابرُو نے، چشم و خال نے
’’طبع بہ طبع ، دِل بہ دِل، مہر بہ مہر ، خُو بہ خُو‘‘


دِل نے مِرے تُجھے بُنا زیست کے دائروں میں یوں
’’رشتہ بہ رشتہ ، نخ بہ نخ، تار بہ تار، پُو بہ پُو‘‘


دِل میں مِرے، مِرے صنم کچھ بھی نہیں ترے سِوا
’’صفحہ بہ صفحہ، لا بہ لا، پردہ بہ پردہ، تُو بہ تُو‘‘
ٹیگ: جناب الف عین ، جناب محمد یعقوب آسی ، جناب محمد وارث ، جناب محمود احمد غزنوی ، جناب سید عاطف علی ، جناب مزمل شیخ بسمل ، جناب مہدی نقوی حجاز ، جیہ بٹیا ، جناب نایاب ، جناب تلمیذ ، جناب محمدعلم اللہ اصلاحی ،جناب سید شہزاد ناصر ، جناب شمشاد
 
آخری تدوین:
غزل
(قرۃ العین طاہرہ)

گر بتوافتدم چہرہ بہ چہرہ، رُو بہ رُو
شرحِ وہم غمِ ترا، نکتہ بہ نکتہ، مو بہ مُو

از پئے دیدنِ رُخت، ہمچو صبافتادہ ا م
خانہ بہ خانہ، در بہ در، کوچہ بہ کوچہ، کُو بہ کُو

میرود از فراقِ توخونِ دل از دو دیدہ ام
دجلہ بہ دجلہ ، یم بہ یم، چشمہ بہ چشمہ ، جُو بہ جُو

دورِ دہانِ تنگ تو، عارض و عنبریں خطت
غنچہ بہ غنچہ ، گُل بہ گُل، لالہ بہ لالہ، بُو بہ بُو

ابرو و چشم و خالِ تُو صید نمودہ مرغِ دِل
طبع بہ طبع ، دِل بہ دِل، مہر بہ مہر ، خُو بہ خُو

مہر تو را دلِ حزیں بافتہ بر قماشِ جاں
رشتہ بہ رشتہ ، نخ بہ نخ، تار بہ تار، پُو بہ پُو

در دلِ خویش طاہرہ گشت و ندید جُز تو را
صفحہ بہ صفحہ، لا بہ لا، پردہ بہ پردہ، تُو بہ تُو


 
فیس بک پر استادِ محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب کا اس غزل پر تبصرہ ان کے شکرئیے کے ساتھ پیشِ خدمت ہے۔


’’اس غزل کے ساتھ یہ معاملہ تو ہے کہ دوسرے مصرعے کی تراکیب کو کسی اور صورت میں ڈھالنا شاید ناممکن ہے۔ تاہم محمد خلیل الرحمٰن صاحب کی کوشش قابلِ تحسین ہے۔ اور انہوں نے ممکنہ حد تک عمدہ پیرایۂ اظہار اختیار کیا ہے۔ اور بہت حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔ سفر جاری رہے۔‘‘
 
آخری تدوین:
فیس بک پر استادِ محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب کا اس غزل پر تبصرہ ان کے شکرئیے کے ساتھ پیشِ خدمت ہے۔


’’اس غزل کے ساتھ یہ معاملہ تو ہے کہ دوسرے مصرعے کی تراکیب کو کسی اور صورت میں ڈھالنا شاید ناممکن ہے۔ تاہم محمد خلیل الرحمٰن صاحب کی کوشش قابلِ تحسین ہے۔ اور انہوں نے ممکنہ حد تک عمدہ پیرایۂ اظہار اختیار کیا ہے۔ اور بہت حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔ سفر جاری رہے۔‘‘
بہت آداب
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بہت خوب۔ رشتہ بہ رشتہ والا مصرع بھی اگر اردو میں ڈھل سکتا تو۔۔۔
’’رشتہ بہ رشتہ ، نخ بہ نخ، تار بہ تار، پُو بہ پُو‘‘
چونکہ تمام مصرع ثانی کے الفاظ اورترتیب اردو محاورے میں ڈھلی ہوئی ہے اس لیے اس کی خاظر خواہ ضرورت بھی محسوس ہوئی۔البتہ اردو کی مترجم شکل میں لانا آسان نہ ہوگا۔مثلاً

دِل نے مِرے تُجھے بُنا زیست کے دائروں میں یوں
دھاگے سے دھاگہ۔ریشے سے ریشہ ۔ تارسے تار ۔ہو بہ ہو
 
آخری تدوین:
Top