" گالی "

عندلیب

محفلین
گالی ، نا شائستہ ، نازیبا ، سخت ، کڑوے کسیلے الفاظ کا وہ مجموعہ ہے جو کسی کو ذلیل کرنے کے لیے اور اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے بولا جائے ۔ یہ ایک آلہ ہے جس کے ذریعے یہ پیمائش کی جا سکتی ہے کہ ایک فرد ، سماج یا معاشرہ کتنا تہذیب یافتہ ہے ؟
" گالی " عموماً غصّے کی حالت میں وجود میں آتی ہے ۔ لیکن کبھی کبھی زبان کی علاقائی فرق کی وجہ سے بھی عجیب و غریب انداز میں لا شعوری طور پر" گالی " عالم وجود میں آتی ہے ۔

دہلی اور لکھنو کی زبان پرگفتگو ہو رہی تھی ۔ ایک صاحب نے غالب سے پوچھا ' جس موقع پر اہل دہلی ' اپنی تئیں بولتے ہیں ۔اہل لکھنو "آپ کو" بولتے ہیں ۔ آپ کی نظر میں فصیح کیا ہے ۔۔۔؟"
" فصیح تو یہی معلوم ہوتا ہے جو آپ بولتے ہیں ، مگر اس میں وقت مثلاً یہ کہ آپ میری نسبت یہ فرمائیں کہ ، میں اپنے تئیں آپ کو فرشتہ خصائل جانتا ہوں ، اور اس کے جواب میں میں اپنی نسبت یہ عرض کروں کہ میں تو آپ کو کتّے سے بھی بد تر سمجھتا ہوں تو سخت مشکل واقع ہوگی ۔ میں تو اپنی نسبت کہوں گا اور آپ ممکن ہیں اپنی نسبت سمجھیں " ۔
غالب نے اپنے علم و فضل سے انسانیت کو مختلف طریقوں سے فیض یاب کیا ۔ شاعروں کو اچھی شاعری کے گر سکھائے صوفیوں کے لئے مسائل تصوف بیان کیے اور تو اور انسانی ضرورت کے تحت گالیاں دینے کے آداب بھی بتلا دئیے ۔ وہ کہتے ہیں ' بوڑھے یا ادھیڑ عمر آدمی کو بیٹی کی گالی دینی چاہئے تاکہ اسے غیرت آئے ۔ جوان کو جورو کی گالی دینا چاہئے کہ اسے جورو سے زیادہ تعلق ہوتا ہے اور بچے کو ماں کی گالی دینی چاہئے کہ وہ ماں کے برابر کسی سے مانوس نہیں ہوتا ، ۔۔۔۔۔

گالی کے فوائد
گالی ٹانک کا کام کرتی ہے آدمی کو ری چارج کرتی ہے ۔
مالک نے نوکر کو گالی دے کرڈانٹا، حرام زادے! ذرا تیزی دکھا ابھی بہت کام باقی ہے ، نوکر کو غصّہ آیا ۔ دل ہی دل میں مالک کو گالیاں دیتا ہوا تیزی سے ہاتھ چلانے لگا ۔ مالک کے حسب منشا وقت پر کام نمٹ گیا ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہوٹلوں ، ڈھابوں ، گیراجوں اور دکانوں پر کام کرنے والے نوکروں کو خصوصاً کم سن بچوں کو مالکان ، گالیوں سے نوازتے رہتے ہیں ۔ جس دن مالک نوکر کو گالیوں سے نہیں نوازتا وہ جان لیتا ہے کہ ، آج مالک سالا بیمار ہے ۔، پھر وہ یہ سوچ کر کہ آج مالک زیادہ تنگ نہیں کرے گا خود کو پرسکون محسوس کرتا ہے ۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ جو نوکر مالک کی گالیاں خاموشی سے سن لے ، بھلے ہی ٹھیک سے کام نہ کرے، اچھا نوکر۔ اور جو نوکر مالک کی گالیوں کے جواب میں اس کے منہ کو آئے بھلے ہی دل و جان سے کام کرے برا نوکر کہلاتا ہے ۔۔۔۔
گالی کمزور کا ہتھیار ہے ۔ اپنے سے طاقتور مدمقابل پر جب اس کا زور نہیں چلتا تو دل ہی دل میں اسے گالیاں دے کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتا ہے ۔ ایسا کرنے سے اس کا ذہنی تناؤ دور ہوتا ہے ۔ ذرا سوچیے ! اگر گالیاں نہ ہوتیں تو اسکا ذہنی تناؤ اتنی آسانی سے کیسے دور ہوتا ؟

"گالی" ڈھال کا کام کرتی ہے ۔ آپ کا پڑوسی آپ سے جھگڑنے آیا کہ آپ کے لائق فرزند ارجمند نے اس کے فرزند کو پیٹ دیا ۔ اس کی شکایت سنتے ہی آپ نے اپنے فرزند کو ڈانٹا اور چار پانچ اعلی وارفع گالیاں اسے دے ڈالیں۔ پڑوسی کا کلیجہ اور غصّہ ٹھنڈا ہوگیا ۔ معاملہ رفع دفع ہوگیا ۔
" گالی کے ذریعہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کسی شخص کا غصہ ، کب کس درجہ میں ہے ۔

ڈاکٹرشیخ رحمٰن اکولوی کے مزاحیہ کالم سے اقتباس
 

مدرس

محفلین
گالی کمزور کا ہتھیار ہے ۔ اپنے سے طاقتور مدمقابل پر جب اس کا زور نہیں چلتا تو دل ہی دل میں اسے گالیاں دے کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتا ہے ۔ ایسا کرنے سے اس کا ذہنی تناؤ دور ہوتا ہے ۔ ذرا سوچیے ! اگر گالیاں نہ ہوتیں تو اسکا ذہنی تناؤ اتنی آسانی سے کیسے دور ہوتا ؟
جی اس پر ایک پڑھا ہوا واقعہ یاد آیا کہ ایک اللہ والے سے کسی نے کہاکہ میں تمہیں ایسی گالی دوں گا جواتمہاری قبر میں بھی ساتھ جائی گی
تو انہوں نے جوابا کہا
نہیں میرے ساتھ نہیں بلکہ تمہارے ساتھ قبر میں جائیگی ۔
اللہ والے معاف کرکے اپنے ذہنی تناو کو ختم کردیتے ہیں اور ایسا کرنا چاہے تو کو ئی بھی کر سکتا ہے ۔
 

مدرس

محفلین
گالی کا جواب

گالی کمزور کا ہتھیار ہے ۔ اپنے سے طاقتور مدمقابل پر جب اس کا زور نہیں چلتا تو دل ہی دل میں اسے گالیاں دے کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتا ہے ۔ ایسا کرنے سے اس کا ذہنی تناؤ دور ہوتا ہے ۔ ذرا سوچیے ! اگر گالیاں نہ ہوتیں تو اسکا ذہنی تناؤ اتنی آسانی سے کیسے دور ہوتا ؟
جی اس پر ایک پڑھا ہوا واقعہ یاد آیا کہ ایک اللہ والے سے کسی نے کہاکہ میں تمہیں ایسی گالی دوں گا جواتمہاری قبر میں بھی ساتھ جائی گی
تو انہوں نے جوابا کہا
نہیں میرے ساتھ نہیں بلکہ تمہارے ساتھ قبر میں جائیگی ۔
اللہ والے معاف کرکے اپنے ذہنی تناو کو ختم کردیتے ہیں اور ایسا کرنا چاہے تو کو ئی بھی کر سکتا ہے ۔
 

خوشی

محفلین
خوبصورت تحریر ھے

میں بھی یہی سمجھتی ہوں ، کہ گالیاں کمزور انسان بکتا ھے، اب بکنے کو غیر پارلیمانی زبان نہ سمجھ لیں نقاد اس لیے میں بتاتی ہوں کہ میرے ایس الکھنے کی وجہ یہ ھے کہ اردو ادب میں گالیاں بکنا ہی آتا ھے
 
Top