سیما علی

لائبریرین
ہمیں بھی یونہی گزرنا پسند ہے اور پھر
تمہارا شہر مسافر شناس بھی کم ہے



فرحت عباس شاہ
 

سیما علی

لائبریرین
عمر بھر ٹھوکریں کھاتا نہ پھروں شہر بہ شہر
ایک ہی شہر میں اور ایک ہی در پر رکھا

افتخار عارف
 

سیما علی

لائبریرین
کچھ ان دنوں تیرا غم بھی برس نہیں پایا
کچھ ان دنوں میرے صحرا کی پیاس بھی کم ہے

ہمیں بھی یونہی گزرنا پسند ہے اور پھر،
تمہارا شہر مسافر شناس بھی کم ہے

فرحت عباس شاہ
 

سیما علی

لائبریرین
میٹھے چشموں سے‘ خُنَک چھاؤں سے دُور
زخم کِھلتے ہیں ترے گاؤں سے دُور
سنگِ منزل نے لہو اُگلا ہے
دُور‘ ہم بادیہ پیماؤں سے دُور
کتنی شمعیں ہیں اسیرِ فانوس
کتنے یوسف ہیں زلیخاؤں سے دُور
کِشتِ امید سلگتی ہی رہی
ابر برسا بھی تو صحراؤں سے دُور
جَورِ حالات‘ بھلا ہو تیرا
چین ملتا ہے شناساؤں سے دُور
جنّتِ فکر بُلاتی ہے چلو
دَیر و کعبہ سے‘ کلیساؤں سے دُور
رقصِ آشفتہ سراں دیکھیں گے
دُور‘ ان انجمن آراؤں سے دُور
جستجو ہے درِّ یکتا کی‘ شکیب
سیپیاں چُنتے ہیں دریاؤں سے دُور
شکیب جلالی
 

سیما علی

لائبریرین
پُوچھتا کون ہے شہروں میں اُنہیں
ولولے جو ہمیں گاؤں سے ملے
کیا کریں ہم اِسے روشن ماجدؔ!
فیض اب کون سا ناؤں سے ملے
ماجد صدیقی
 

سیما علی

لائبریرین
یہ شہرِتمنا یہ امیروں کی دنیا
یہ خود غرض اور بے ضمیروں کی دنیا
یہاں سکھ مجھے دو جہاں کا ملا ہے
میرا گاؤں جانے کہاں کھو گیا ہے
 

جاسمن

لائبریرین
ہزار بار بھی لٹ کر سبق نہیں سیکھا
وفا کے شہر میں ہر خوش گمان ایک سا ہے
خالد یوسف
 

یاسر شاہ

محفلین
رات گئے کا سناٹا تھا خاموشی سی گاؤں کی تھی
ہم جس وقت سفر پر نکلے چاپ خود اپنے پاؤں کی تھی
اطہر صدیقی
 
Top