الف عین
عظیم
شکیل احمد خان23
محمد عبدالرؤوف
-----------
گئے دن بہاروں کے آئی خزاں ہے
جوانی گئی ہے مگر دل جواں ہے
------------
سبھی کو ہے مرنا جو چاہو نہ چاہو
یہاں جی لو جتنا بھی جانا وہاں ہے
------
سمجھ کر جواں خود کو دھوکہ نہ کھانا
ابھی دور ہے موت ، بس اک گماں ہے
----------
نہ سوچو یہاں کا وہاں کا بھی سوچو
یہاں پر ہیں مہماں ٹھکانا وہاں ہے
-------
تری نیکیاں کام آئیں گی تیرے
جو کرنا یہاں ہے تو بدلہ وہاں ہے
---------
سبھی نے ہے محشر بھلایا یہاں پر
نہیں یاد ان کو کہ جانا کہاں ہے
-----------
کبھی تجھ کو ارشد بھلا ہی نہ پایا
تری یاد اس کی رگوں میں رواں ہے
-------------
 

عظیم

محفلین
گئے دن بہاروں کے آئی خزاں ہے
جوانی گئی ہے مگر دل جواں ہے
------------پہلے میں مجھے ردیف اضافی لگ رہی ہے، اگر الفاظ بدلے جائیں تو شاید ٹھیک ہو
مثلاً
'اب کے خزاں ہے' وغیرہ، آپ خود کچھ سوچیں کہ کیا تبدیلی کی جا سکتی ہے ردیف "ہے" کو موثر بنانے کے لیے
دوسرا
جوانی گئی پھر بھی دل یہ.... روانی میں بہتر لگتا ہے
بھائی شکیل کے متبادل بھی خوب ہیں
سبھی کو ہے مرنا جو چاہو نہ چاہو
یہاں جی لو جتنا بھی جانا وہاں ہے
------
ہے مرنا سبھی کو... رواں صورت ہے
دوسرا مصرع اصل بہتر لگتا ہے
سمجھ کر جواں خود کو دھوکہ نہ کھانا
ابھی دور ہے موت ، بس اک گماں ہے
----------
واضح نہیں ہے، دوبارہ کہنے کی ضرورت ہے۔
نہ سوچو یہاں کا وہاں کا بھی سوچو
یہاں پر ہیں مہماں ٹھکانا وہاں ہے
-------
وہاں کا دہرایا جانا اچھا نہیں
دنیا کی فکر وغیرہ پہلے مصرع میں لائیں، اس طرح مجہول لگتا ہے
نہ دنیا ہی کی فکر رکھو جہاں میں
یہاں ہم ہیں مہماں...
تری نیکیاں کام آئیں گی تیرے
جو کرنا یہاں ہے تو بدلہ وہاں ہے
---------
وہاں قافیہ پچھلے شعر میں بھی ہے، ان دونوں اشعار کے درمیان فاصلہ لے آئیں، لیکن پہلے دوسرے مصرع کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے
'جو کرنا یہاں' نامکمل بیان لگتا ہے، واضح نہیں۔
پہلے مصرع کے ساتھ ربط بھی نہیں بن پا رہا

سبھی نے ہے محشر بھلایا یہاں پر
نہیں یاد ان کو کہ جانا کہاں ہے
-----------
پہلے میں 'سبھی' کی جگہ' ہمیں' وغیرہ لائیں، سب کو ہی اس میں شامل کر لینا اچھا نہیں لگ رہا۔ ہم نے یا کچھ لوگوں نے ٹھیک رہے گا، پہلے کی روانی بھی اتنی خاص نہیں، کسی اور انداز سے کہنے کی کوشش کریں

کبھی تجھ کو ارشد بھلا ہی نہ پایا
تری یاد اس کی رگوں میں رواں ہے
کبھی کی نشست بدل دیں، یہی الفاظ پہلے مصرع کے آگے پیچھے کر کے دیکھیں کہ روانی بہتر ہوتی ہے، ورنہ قابل قبول تو یوں بھی لگتا ہے
 
عظیم
(اصلاح کے بعد)
-----------
گیا موسم گل، پھر آئی خزاں ہے
جوانی گئی پھر بھی دل یہ جواں ہے
-----------
ہے مرنا سبھی کو جو چاہو نہ چاہو
یہاں جی لو جتنا بھی جانا وہاں ہے
---------
جوانوں کو مرتے نہیں کیا ہے دیکھا
ابھی دور ہے موت یہ جھوٹا گماں ہے
-------
ہماری یہاں زندگی مختصر ہے
سدا جو رہے گا ٹھکانا وہاں ہے
-------یا
کریں کیوں محبّت یہ فانی جہاں ہے
--------
یہاں لوگ اکثر ہیں دنیا میں کھوئے
انہیں ذکرِ محشر بھی سننا گراں ہے
------
کرو نیک کاموں میں سبقت ہمیشہ
رضا ہے خدا کی اسی میں اماں ہے
----------
زمانے میں سب کا خدا مختلف ہے
کسی کا ہے دولت کسی کا مکاں ہے
------------
بھلا ہی نہ پایا کبھی تجھ کو ارشد
تری یاد اس کی رگوں میں رواں ہے
---------
 
گیا موسم گل، پھر آئی خزاں ہے
جوانی گئی پھر بھی دل یہ جواں ہے
بہاریں گئیں اب خزاں ہی خزاں ہے
۔۔۔۔مگر دل کی ہر آس اب تک جواں ہے۔۔ دونوں مصرعوں میں اب کی تکرار سے بچت۔۔۔۔۔۔۔۔مگر پھر بھی ہر آس دل کی جواں ہے۔۔۔۔الفاظ کی ترتیب بدل دی۔۔۔۔۔۔ مگر دل کی ہر آس پھر بھی جواں ہے
 
آخری تدوین:
بہت اچھا ہے شکیل بھائی --استادِ محترم نے بھی مطلع عطا کیا ہے
گیا موسم گل، پھر آئی خزاں ہے
جوانی گئی پھر بھی دل یہ جواں ہے
کیسا رہے گا؟
استادِ محترم کا عطا کردہ مطلع تو نعمتِ عظمیٰ ہے کیونکہ وہ عام طور پر طلباء کو سہل انگارنہیں بناتے بلکہ اُنھیں زیادہ سے زیادہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کارلانے اورخداداد ذہانت پر بھروسہ کرنا سکھاتے ہیں۔مجھے بھی اِس نئے مطلعے کی تحریک استاذی مکرم کا مطلع دیکھ کر ہی ہوئی اور اللہ کرے یہی تشویق آپ میں بھی پروان چڑھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ہوتا بھی یہی ہے کہ بڑوں کا کلام پڑھ کر یاسن کے چھوٹوں میں بھی شوق پیدا ہوتا ہے کہ اُن کی سی باتیں کرکے اُن کی سی عزت پائیں۔
 
آخری تدوین:
گیا موسم گل، پھر آئی خزاں ہے
جوانی گئی پھر بھی دل یہ جواں ہے
کیسا رہے گا؟
باقی عظیم سے متفق ہوں
سر! ایک سقم لگتا ہے۔ مہربانی فرما کر راہنمائی فرمادیں
گیا موسمِ گُل ۔۔۔۔۔---- جوانی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ان میں مطابقت ہے)
پھر آئی خزاں ہے ۔۔۔۔۔۔ پھر بھی دل یہ جواں ہے ۔۔۔۔۔۔( ان میں مطابقت نہیں لگتی)
کیا اسے عیب گنا جائے گا یا نہیں؟
 

عظیم

محفلین
جوانوں کو مرتے نہیں کیا ہے دیکھا
ابھی دور ہے موت یہ جھوٹا گماں ہے
-------یہ تو مزید بگڑ گیا ہے! "نہیں کیا ہے دیکھا" میں ترتیب اچھی نہیں الفاظ کی
دوسرا بحر سے خارج ہے، "یہ" کی ضرورت نہیں بحر کے حساب سے، دوبارہ کہنے کی ضرورت ہے

ہماری یہاں زندگی مختصر ہے
سدا جو رہے گا ٹھکانا وہاں ہے
-------یا
کریں کیوں محبّت یہ فانی جہاں ہے
--------سدا رہنے والا ٹھکانہ...
دوسرا متبادل ربط میں کمزور ہے پہلے کے ساتھ
پہلے مصرع کی ترتیب بھی بدلیں، دونوں مصرعوں کے اختتام پر ایک ہی لفظ آ رہا ہے


یہاں لوگ اکثر ہیں دنیا میں کھوئے
انہیں ذکرِ محشر بھی سننا گراں ہے
------یہاں سے یہ واضح نہیں کہ دنیا کی بات کی جا رہی ہے
ہمیں فکر دنیا کی کھاتی ہے ہر دم
نہیں یاد رہتا کہ جانا کہاں ہے
یا اس طرح کا کوئی اور لے آئیں، دوسرا مصرع فی الحال کوئی اچھا ذہن میں نہیں آ رہا!


کرو نیک کاموں میں سبقت ہمیشہ
رضا ہے خدا کی اسی میں اماں ہے
----------یہ محاورے کے خلاف ہو گیا ہے، سبقت لی جاتی ہے کسی چیز میں، کی نہیں جاتی۔ مفہوم بھی واضح نہیں ہے
بطور خاص دوسرا مصرع گنجلک ہے

زمانے میں سب کا خدا مختلف ہے
کسی کا ہے دولت کسی کا مکاں ہے
------------یہ شاید نیا شعر ہے، کل بعد میں خیال آیا تھا کہ اس زمین میں کافی اشعار کہے جا سکتے ہیں
دونوں مصرعوں کے آخر پر ایک ہی لفظ یہاں بھی ہے
معنی کے اعتبار سے اچھا ہے، مگر جو کہنا چاہتے ہیں وہ بیان نہیں ہو پایا، "مختلف" کی جگہ "اپنا اپنا" آئے کسی طرح تو پہلا مصرع ٹھیک ہو
دوسرے میں "مکاں" محض قافیہ کو استعمال میں لانے کی کوشش ہے، دولت کو تو خدا بنائے بیٹھتے ہیں کچھ لوگ مگر "مکاں" دور کی بات لگتی ہے


بھائی شکیل احمد خان23 کا مطلع بھی اچھا ہے مگر مفہوم میرا خیال ہے کہ بدل رہا ہے
 

الف عین

لائبریرین
سر! ایک سقم لگتا ہے۔ مہربانی فرما کر راہنمائی فرمادیں
گیا موسمِ گُل ۔۔۔۔۔---- جوانی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ان میں مطابقت ہے)
پھر آئی خزاں ہے ۔۔۔۔۔۔ پھر بھی دل یہ جواں ہے ۔۔۔۔۔۔( ان میں مطابقت نہیں لگتی)
کیا اسے عیب گنا جائے گا یا نہیں؟
نہیں یہ سقم نہیں، بلکہ صنعت ہے! شاید اسے تجنیس کی کوئی وقسم کیا جائے، میں عروض کا ماہر تو نہیں، اور نہ اتنی ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ تلاش کرنے میں وقت لگاؤں
 
Top