کیوں آج کل جناب کے تیور بدل گئے؟

کیوں آج کل جناب کے تیور بدل گئے
اتنے حسیں گلاب کے تیور بدل گئے
دانتوں میں اب فراق کی ہڈی اٹک گئی
آنتوں میں اب کباب کے تیور بدل گئے
ان کو نشے میں اپنا ہی عاشق سمجھ لیا
جب عشق کی شراب کے تیور بدل گئے
بیوی کا سر کھلا ہے تو شوہر پہ ہیلمیٹ
پردہ ہے ، پر حجاب کے تیور بدل گئے
مجنون سورہا ہے تو لیلیٰ ہے دربدر
اب عشق کی کتاب کے تیور بدل گئے
ماتھے پہ تیوری ہے ، نگاہوں میں خون ہے
ہے حسن ، پر شباب کے تیور بدل گئے
رہتے ہیں یہ بچھڑتے سمندر سے سَرسَری!
پھر آج کیوں سحاب کے تیور بدل گئے
 

شوکت پرویز

محفلین
دانتوں میں اب فراق کی ہڈی اٹک گئی
آنتوں اب کباب کے تیور بدل گئے

جناب محمد اسامہ سَرسَری صاحب!
اساتذہ کے آنے تک آپ دوسرے مصرعہ کا وزن ٹھیک کر لیں، کچھ کمی ہے۔۔

آپ کی ردیف ذرا مشکل ہے، کہ ہر ایک چیز کے صرف "تیور" ہی بدلیں گے، ایسی ردیفوں میں "اسکوپ" ذرا کم ہوتا ہے اور قافیہ کی تبدیلی کے باوجود مضمون کے مشابہ ہونے کا خدشہ رہتا ہے، اس پر ذرا غور کریں۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
مطلع پسند نہیں آیا۔
کباب کے تیور؟
دانتوں میں اب فراق کی ہڈی اٹک گئی
آنتوں میں اب کباب کے تیور بدل گئے
یہاں دونوں جگہ ’اب‘ کی بجائے پہلی بار ’پھر‘ آ جائے تو بہتر ہو
 
مطلع پسند نہیں آیا۔
کباب کے تیور؟
دانتوں میں اب فراق کی ہڈی اٹک گئی
آنتوں میں اب کباب کے تیور بدل گئے
یہاں دونوں جگہ ’اب‘ کی بجائے پہلی بار ’پھر‘ آ جائے تو بہتر ہو
جزاکم اللہ خیرا استاد محترم۔
تبدیل کرتا ہوں۔
 
کیوں آج کل جناب کے تیور بدل گئے
کھِلتے ہوئے گلاب کے تیور بدل گئے
دانتوں میں پھر فراق کی ہڈی اٹک گئی
آنتوں میں اب کباب کے تیور بدل گئے
 
Top