از : شیخ جابر
بحوالہ: روزنامہ ایکسپریس
ربط:
http://www.express.pk/story/146928
کینیڈا دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے ’’کیوٹو پروٹوکول‘‘ سے علیحدگی کا اعلان کردیا ہے۔ کینیڈا کا شمار توانائی پیدا کرنے والے اہم ممالک میں کیا جاتا ہے۔ کینیڈا کے وزیر ماحولیات ’’پیٹر کینٹ‘‘ نے کہا اگر کینیڈا کیوٹو پروٹوکول 2012 کی شرائط و ضوابط کو تسلیم کرلے تو کینیڈا میں ہر کار، ٹرک، سواری، ٹریکٹر، ایمبولینس، پولیس کار اور ہر قسم کی گاڑی کا خاتمہ کرنا پڑے گا۔ معاہدے کے تحت اگر کینیڈا آلودگی کم نہں کرتا تو اس پر 14 ارب کینیڈین ڈالر کا جرمانہ عائد ہوگا۔ آج کینیڈا نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ یہ جرمانہ تو ادا کردے گا لیکن زمینی ماحولیات کی بربادی کم نہیں کرسکتا۔
ماحولیاتی آلودگی کا ایک بڑا سبب ’’رکازی ایندھن‘‘ ہے۔ یہ جو ہماری موجودہ سواریاں ہیں یہ سب تیل سے چلتی ہیں۔ تیل جلتا ہے، گاڑی چلتی ہے۔ یہ تیل خود جتنا جلتا ہے اس سے کہیں زیادہ اس دھرتی کو جلاتا ہے۔ ہمارے آس پاس دوڑتی بھاگتی ہر گاڑی کے اندر ایک آگ لگی ہے۔ یہ آگ اسے رواں رکھے ہوئے ہے۔ یہ آگ ایک جانب ہم آپ کو پرلطف سواری مہیا کررہی ہے تو دوسری جانب سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ ہماری زمین کو جلا کر جہنم بنا رہی ہے۔ اوزون شکستگی اور گرین ہاؤس گیسز کے لاینحل مسائل پیدا کر رہی ہے۔ کینیڈا کے موٹروہیکل رجسٹریشن کے مطابق کینیڈا میں قریباً 29,697,797 گاڑیاں ہیں۔
گویا وہاں کے کم و بیش ہر شہری کے پاس اوسطاً ایک گاڑی تو ہے ہی۔ جب اتنی بہت ساری موٹرکاریں مل کر جب ماحول کو آلودہ کرنے میں لگی ہوں تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس خطے میں آلودگی کتنی بڑھ جائے گی اور وہاں درجہ حرارت کتنا بڑھ جائے گا۔ ہمیں چونکہ گاڑیوں سے کثیف دھواں نکلتا نظر نہیں آتا لہٰذا بسا اوقات ہمیں احساس ہی نہیں ہوپاتا ہے کہ یہ بھی کوئی فضائی آلودگی کا مسئلہ پیدا کرسکتی ہیں۔ آج ذرائع نقل و حمل میں ترقی کا یہ نتیجہ سامنے آتا جارہا ہے کہ زمین ہی ہاتھوں سے نکلی جارہی ہے۔ اور سچ تو ہے کہ اتنی زبردست ترقی کے بعد کوئی بھی ’’ریورس گیئر‘‘ لگانا نہیں چاہتا۔ کوئی بھی اپنی سیڈان سے نکل کر اونٹ، گدھے، گھوڑے، خچر پر سفر کرنا نہیں چاہتا۔ یہ انھیں اپنی اور اپنی قوم کی توہین کی بات معلوم ہوتی ہے۔ بہت سے افراد کو یہ بات صحیح لگتی ہے۔
وہ سوال کرتے ہیں کہ گاڑی پر بیٹھنے والا گدھے، بیل اور سانڈ پر کیسے سفر کر سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایک بات تو بالکل سامنے کی ہے۔ ایک ایسی بات کہ جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جانوروں کی پشت پر سفر کرنے والوں نے اپنی آنے والی پشتوں کو ایک صاف، صحت مند اور پرفضا دنیا کا تحفہ دیا۔ ایک ایسی دنیا کا جو آلودگی سے پاک اور مواقع سے پر تھی۔ انھوں نے ماحولیات کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ وہ اس زمین اور اس آسمان کو برباد کرنے والے نہیں تھے۔ ان کی موجودگی میں زمین اور سمندری حیات ختم ہونے کے بجائے پھلی پھولی تھی۔ انھوں نے گلیشیئر اور پہاڑوں کے حسن کو برقرار رکھا تھا، ہمارے لیے، آنے والوں کے لیے۔
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ہم نے اپنا اور اس زمین کا وہ حال کردیا ہے کہ الامان۔ سائنسی ترقی اور تمدنی ترقی کے نام پر ہمیں وہ مہلکات دے دی گئی ہیں جو خود اپنے خنجر سے خودکشی کے مترادف ہیں۔
سائنس کی دنیا میں کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ قریباً تمام سائنس دان ہم آواز ہوجائیں۔ ماحولیات کے بارے میں قریباً سب ہی سائنس دانوں کا اتفاق ہے کہ ماحولیات کی بربادی انسانوں نے خود اپنے ہاتھوں کی ہے۔ امریکا کی کل گلوبل وارمنگ کا 30 فیصد صرف کاروں کی وجہ سے ہے۔ کینیڈا میں ’’گرین ہاؤس گیسز‘‘ کا بڑا حصہ (غالباً 25 فیصد) ٹرک، ٹرین، ہوائی جہاز خاص کر کاروں وغیرہ سے آتا ہے۔ سائنس دانوں کا اصرار ہے کہ اگر ہم نے اپنی روش تبدیل نہ کی تو ایک بڑی تباہی آسکتی ہے، شاید ’’آئس ایج‘‘ کی طرح کی۔ جدیدیت اور سائنس دنیا کو اتنا نقصان پہنچا رہی ہے کہ جلد ہی دنیا بھر کے لوگ اپنے ہی ہاتھوں دنیا کو تباہ کرکے اونٹ اور خچروں پر بیٹھے ہوں گے۔’’کلائیمیٹ ایکشن نیٹ ورک کینیڈا‘‘ کے گراہم سال نے پروٹوکول سے علیحدگی اور وزیراعظم کینیڈا اور وزیر ماحولیات کے بیانات پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے قومی توہین قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’وزیر اعظم ہارپر نے ان افراد کے منہ پر تھوک دیا ہے جن کے لیے ماحولیات زندگی اور موت کے مسئلے کی حیثیت رکھتا ہے‘‘۔
دنیا بھر کے ماحولیات دوست افراد کی اور سائنس دانوں کی آوازیں اور تنبیہ صدا بہ صحرا ثابت ہورہی ہیں۔ بڑے صنعتی ممالک جو عالمی ماحولیاتی آلودگی کے سب سے بڑے عامل ہیں، کسی طور آلودگی کم کرنے پر تیار نہیں۔ امریکا نے تو ’’کیوٹوپروٹوکول‘‘ پر دستخط کرنے سے صاف انکار کردیا تھا۔ آج امریکا دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔ یہ ’’سپری میسی‘‘ اس کی چمنیوں سے مسلسل اگلنے والے دھوئیں کی مرہون منت ہے۔ اگر وہ آلودگی کم کرنے کی کوشش کرے گا تو ترقی کا پہیہ رکے گا۔ لہٰذا آلودگی میں کمی نہیں کی جاسکتی تاکہ نام نہاد ترقی جاری رہے۔ برطانیہ کے وزیرخزانہ کو بھی دکھ ہے کہ ماحولیاتی آلودگی ختم کرنے کے لیے بنائے گئے رہنما اصولوں کو قبول کرلیا جائے تو اس کے نہایت بھیانک اثرات برطانیہ کی توانائی کی صنعت پر پڑیں گے۔ اس نے صاف صاف لفظوں میں کہا کہ ہم اس کرہ ارض کو بچانے کے لیے اپنی اسٹیل ملیں بند نہیں کرسکتے، نہ ہی ایلومینیم اور کاغذ کی صنعتوں کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ اگر ہم ماحولیاتی پاکیزگی کے نہ ختم ہونے والے دھندے میں گرفتار ہوئے تو ہمارے کاروبار تباہ ہوجائیں گے، ملازمتیں ختم ہوجائیں گی اور ہمارا ملک کنگال ہوجائے گا۔
ابھی کینیڈا کی ماحولیات دوست کیوٹو پروٹوکول سے علیحدگی کی بازگشت بھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ کینیڈا کو ایک بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا۔ خبروں کے مطابق جنوبی البرٹا میں شدید بارشیں ہوئیں، یہاں تک کہ سیلاب آگیا۔ سیلاب کے نتیجے میں سڑکیں اور پل بہہ گئے ۔ علاقے کے علاقے زیرآب آگئے، یہاں تک کہ قریباً ایک لاکھ افراد بے گھر ہوگئے۔ البرٹا کی سب سے بڑی آبادی کیٹیگری سب سے زیادہ متاثر ہوئی۔ کئی افراد ہلاک ہوئے جنوبی البرٹا کا پورا علاقہ ’’ٹرانس کینیڈا ہائی وے‘‘ سے کٹ کر رہ گیا۔ بعض علاقوں میں مسلسل 12 گھنٹے موسلا دھار بارش ہوتی رہی۔ کچھ جگہوں پر 200 ملی میٹر تک بارش ہوئی۔ 19 جون سے آنے والے اس سیلاب کی نہ تو پیش گوئی ہی کی جاسکتی تھی نہ ہی اس بارے میں کسی کو اندازہ تھا کہ علاقہ یک بہ یک شدید بارشوں کی زد میں آجائے گا۔ ماحولیات کے ماہرین کی باتوں پر غور کیا جائے تو وہ ایک عرصے سے اس طرح کی قدرتی آفات کی پیش گوئیاں کرتے چلے آرہے ہیں۔ گاڑیاں، کارخانے، دھواں اگلتی چمنیاں، بجلی پیدا کرنے کے کارخانے، بڑے بڑے سوفٹ ویئرہاؤس، ڈیٹا بینک وغیرہ یہ سب نہایت تیزی سے فضائی آلودگی کے مسائل پیدا کرتے چلے آرہے ہیں۔ کارخانوں سے مسلسل ایسی اشیا تیار ہوکر مارکیٹوں اور گھروں تک پہنچ رہی ہیں جو برس ہا برس تک پیوند زمین نہیں ہوسکتیں۔ ایسے میں زمین کے درجہ حرارت کا بڑھنا، گلیشیئرز کا اور برف کا پگھلنا، سونامی، سیلاب، بارشیں زلزلے، قدرتی آفات تیزی سے آئیں گی۔ یہ میں کسی مذہبی کتاب سے قرب قیامت کے مناظر نہیں پیش کر رہا، یہ آج کے قریباً سب ہی سائنس دانوں کا کہنا ہے۔ غیر متوقع اور شدید موسم۔ البرٹا کے غیر متوقع سیلاب کا ایک بڑا سبب بھی یہی ہے۔ ماحولیات کے ماہرین کوئی خیالی ڈراوے نہیں دکھا رہے، یہ سب وہ باتیں ہیں جو ہم آپ روزانہ بھگت رہے ہیں۔ آج ہماری ارض پاک کے ساحلی علاقوں میں جتنی گرمی بڑھ گئی ہے، اب سے محض 25 برس قبل اس کا تصور بھی نہیں تھا۔ یہی حال ہمارے دھواں اگلتے ہم سایوں کا ہے۔ بھارت آج کل جس رفتار سے زمینی ماحولیات کو برباد کر رہا ہے اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ وہاں ایک جانب تو دھواں اگلتی موٹروں اور کارخانوں کے باعث ماحول برباد ہوکر رہ گیا ہے تو دوسری جانب غربت اور مہنگائی میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔ نتیجے میں آج وہاں جیسی قدرتی آفات آرہی ہیں تاریخ میں کبھی دیکھنے میں نہیں آئیں۔ اترکھنڈ ریاست میں غیر معمولی بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں 5 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ ہمارے پرکھوں نے زمین کو سینچا اور آباد کیا تھا۔ زمین نے انھیں آباد کیا اور آباد کار بنادیا۔
ہم زمین کو برباد کیے چلے جارہے ہیں کیا زمین ہمیں آباد رہنے دے گی؟
بحوالہ: روزنامہ ایکسپریس
ربط:
http://www.express.pk/story/146928
کینیڈا دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے ’’کیوٹو پروٹوکول‘‘ سے علیحدگی کا اعلان کردیا ہے۔ کینیڈا کا شمار توانائی پیدا کرنے والے اہم ممالک میں کیا جاتا ہے۔ کینیڈا کے وزیر ماحولیات ’’پیٹر کینٹ‘‘ نے کہا اگر کینیڈا کیوٹو پروٹوکول 2012 کی شرائط و ضوابط کو تسلیم کرلے تو کینیڈا میں ہر کار، ٹرک، سواری، ٹریکٹر، ایمبولینس، پولیس کار اور ہر قسم کی گاڑی کا خاتمہ کرنا پڑے گا۔ معاہدے کے تحت اگر کینیڈا آلودگی کم نہں کرتا تو اس پر 14 ارب کینیڈین ڈالر کا جرمانہ عائد ہوگا۔ آج کینیڈا نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ یہ جرمانہ تو ادا کردے گا لیکن زمینی ماحولیات کی بربادی کم نہیں کرسکتا۔
ماحولیاتی آلودگی کا ایک بڑا سبب ’’رکازی ایندھن‘‘ ہے۔ یہ جو ہماری موجودہ سواریاں ہیں یہ سب تیل سے چلتی ہیں۔ تیل جلتا ہے، گاڑی چلتی ہے۔ یہ تیل خود جتنا جلتا ہے اس سے کہیں زیادہ اس دھرتی کو جلاتا ہے۔ ہمارے آس پاس دوڑتی بھاگتی ہر گاڑی کے اندر ایک آگ لگی ہے۔ یہ آگ اسے رواں رکھے ہوئے ہے۔ یہ آگ ایک جانب ہم آپ کو پرلطف سواری مہیا کررہی ہے تو دوسری جانب سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ ہماری زمین کو جلا کر جہنم بنا رہی ہے۔ اوزون شکستگی اور گرین ہاؤس گیسز کے لاینحل مسائل پیدا کر رہی ہے۔ کینیڈا کے موٹروہیکل رجسٹریشن کے مطابق کینیڈا میں قریباً 29,697,797 گاڑیاں ہیں۔
گویا وہاں کے کم و بیش ہر شہری کے پاس اوسطاً ایک گاڑی تو ہے ہی۔ جب اتنی بہت ساری موٹرکاریں مل کر جب ماحول کو آلودہ کرنے میں لگی ہوں تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس خطے میں آلودگی کتنی بڑھ جائے گی اور وہاں درجہ حرارت کتنا بڑھ جائے گا۔ ہمیں چونکہ گاڑیوں سے کثیف دھواں نکلتا نظر نہیں آتا لہٰذا بسا اوقات ہمیں احساس ہی نہیں ہوپاتا ہے کہ یہ بھی کوئی فضائی آلودگی کا مسئلہ پیدا کرسکتی ہیں۔ آج ذرائع نقل و حمل میں ترقی کا یہ نتیجہ سامنے آتا جارہا ہے کہ زمین ہی ہاتھوں سے نکلی جارہی ہے۔ اور سچ تو ہے کہ اتنی زبردست ترقی کے بعد کوئی بھی ’’ریورس گیئر‘‘ لگانا نہیں چاہتا۔ کوئی بھی اپنی سیڈان سے نکل کر اونٹ، گدھے، گھوڑے، خچر پر سفر کرنا نہیں چاہتا۔ یہ انھیں اپنی اور اپنی قوم کی توہین کی بات معلوم ہوتی ہے۔ بہت سے افراد کو یہ بات صحیح لگتی ہے۔
وہ سوال کرتے ہیں کہ گاڑی پر بیٹھنے والا گدھے، بیل اور سانڈ پر کیسے سفر کر سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایک بات تو بالکل سامنے کی ہے۔ ایک ایسی بات کہ جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جانوروں کی پشت پر سفر کرنے والوں نے اپنی آنے والی پشتوں کو ایک صاف، صحت مند اور پرفضا دنیا کا تحفہ دیا۔ ایک ایسی دنیا کا جو آلودگی سے پاک اور مواقع سے پر تھی۔ انھوں نے ماحولیات کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ وہ اس زمین اور اس آسمان کو برباد کرنے والے نہیں تھے۔ ان کی موجودگی میں زمین اور سمندری حیات ختم ہونے کے بجائے پھلی پھولی تھی۔ انھوں نے گلیشیئر اور پہاڑوں کے حسن کو برقرار رکھا تھا، ہمارے لیے، آنے والوں کے لیے۔
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ہم نے اپنا اور اس زمین کا وہ حال کردیا ہے کہ الامان۔ سائنسی ترقی اور تمدنی ترقی کے نام پر ہمیں وہ مہلکات دے دی گئی ہیں جو خود اپنے خنجر سے خودکشی کے مترادف ہیں۔
سائنس کی دنیا میں کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ قریباً تمام سائنس دان ہم آواز ہوجائیں۔ ماحولیات کے بارے میں قریباً سب ہی سائنس دانوں کا اتفاق ہے کہ ماحولیات کی بربادی انسانوں نے خود اپنے ہاتھوں کی ہے۔ امریکا کی کل گلوبل وارمنگ کا 30 فیصد صرف کاروں کی وجہ سے ہے۔ کینیڈا میں ’’گرین ہاؤس گیسز‘‘ کا بڑا حصہ (غالباً 25 فیصد) ٹرک، ٹرین، ہوائی جہاز خاص کر کاروں وغیرہ سے آتا ہے۔ سائنس دانوں کا اصرار ہے کہ اگر ہم نے اپنی روش تبدیل نہ کی تو ایک بڑی تباہی آسکتی ہے، شاید ’’آئس ایج‘‘ کی طرح کی۔ جدیدیت اور سائنس دنیا کو اتنا نقصان پہنچا رہی ہے کہ جلد ہی دنیا بھر کے لوگ اپنے ہی ہاتھوں دنیا کو تباہ کرکے اونٹ اور خچروں پر بیٹھے ہوں گے۔’’کلائیمیٹ ایکشن نیٹ ورک کینیڈا‘‘ کے گراہم سال نے پروٹوکول سے علیحدگی اور وزیراعظم کینیڈا اور وزیر ماحولیات کے بیانات پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے قومی توہین قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’وزیر اعظم ہارپر نے ان افراد کے منہ پر تھوک دیا ہے جن کے لیے ماحولیات زندگی اور موت کے مسئلے کی حیثیت رکھتا ہے‘‘۔
دنیا بھر کے ماحولیات دوست افراد کی اور سائنس دانوں کی آوازیں اور تنبیہ صدا بہ صحرا ثابت ہورہی ہیں۔ بڑے صنعتی ممالک جو عالمی ماحولیاتی آلودگی کے سب سے بڑے عامل ہیں، کسی طور آلودگی کم کرنے پر تیار نہیں۔ امریکا نے تو ’’کیوٹوپروٹوکول‘‘ پر دستخط کرنے سے صاف انکار کردیا تھا۔ آج امریکا دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔ یہ ’’سپری میسی‘‘ اس کی چمنیوں سے مسلسل اگلنے والے دھوئیں کی مرہون منت ہے۔ اگر وہ آلودگی کم کرنے کی کوشش کرے گا تو ترقی کا پہیہ رکے گا۔ لہٰذا آلودگی میں کمی نہیں کی جاسکتی تاکہ نام نہاد ترقی جاری رہے۔ برطانیہ کے وزیرخزانہ کو بھی دکھ ہے کہ ماحولیاتی آلودگی ختم کرنے کے لیے بنائے گئے رہنما اصولوں کو قبول کرلیا جائے تو اس کے نہایت بھیانک اثرات برطانیہ کی توانائی کی صنعت پر پڑیں گے۔ اس نے صاف صاف لفظوں میں کہا کہ ہم اس کرہ ارض کو بچانے کے لیے اپنی اسٹیل ملیں بند نہیں کرسکتے، نہ ہی ایلومینیم اور کاغذ کی صنعتوں کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ اگر ہم ماحولیاتی پاکیزگی کے نہ ختم ہونے والے دھندے میں گرفتار ہوئے تو ہمارے کاروبار تباہ ہوجائیں گے، ملازمتیں ختم ہوجائیں گی اور ہمارا ملک کنگال ہوجائے گا۔
ابھی کینیڈا کی ماحولیات دوست کیوٹو پروٹوکول سے علیحدگی کی بازگشت بھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ کینیڈا کو ایک بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا۔ خبروں کے مطابق جنوبی البرٹا میں شدید بارشیں ہوئیں، یہاں تک کہ سیلاب آگیا۔ سیلاب کے نتیجے میں سڑکیں اور پل بہہ گئے ۔ علاقے کے علاقے زیرآب آگئے، یہاں تک کہ قریباً ایک لاکھ افراد بے گھر ہوگئے۔ البرٹا کی سب سے بڑی آبادی کیٹیگری سب سے زیادہ متاثر ہوئی۔ کئی افراد ہلاک ہوئے جنوبی البرٹا کا پورا علاقہ ’’ٹرانس کینیڈا ہائی وے‘‘ سے کٹ کر رہ گیا۔ بعض علاقوں میں مسلسل 12 گھنٹے موسلا دھار بارش ہوتی رہی۔ کچھ جگہوں پر 200 ملی میٹر تک بارش ہوئی۔ 19 جون سے آنے والے اس سیلاب کی نہ تو پیش گوئی ہی کی جاسکتی تھی نہ ہی اس بارے میں کسی کو اندازہ تھا کہ علاقہ یک بہ یک شدید بارشوں کی زد میں آجائے گا۔ ماحولیات کے ماہرین کی باتوں پر غور کیا جائے تو وہ ایک عرصے سے اس طرح کی قدرتی آفات کی پیش گوئیاں کرتے چلے آرہے ہیں۔ گاڑیاں، کارخانے، دھواں اگلتی چمنیاں، بجلی پیدا کرنے کے کارخانے، بڑے بڑے سوفٹ ویئرہاؤس، ڈیٹا بینک وغیرہ یہ سب نہایت تیزی سے فضائی آلودگی کے مسائل پیدا کرتے چلے آرہے ہیں۔ کارخانوں سے مسلسل ایسی اشیا تیار ہوکر مارکیٹوں اور گھروں تک پہنچ رہی ہیں جو برس ہا برس تک پیوند زمین نہیں ہوسکتیں۔ ایسے میں زمین کے درجہ حرارت کا بڑھنا، گلیشیئرز کا اور برف کا پگھلنا، سونامی، سیلاب، بارشیں زلزلے، قدرتی آفات تیزی سے آئیں گی۔ یہ میں کسی مذہبی کتاب سے قرب قیامت کے مناظر نہیں پیش کر رہا، یہ آج کے قریباً سب ہی سائنس دانوں کا کہنا ہے۔ غیر متوقع اور شدید موسم۔ البرٹا کے غیر متوقع سیلاب کا ایک بڑا سبب بھی یہی ہے۔ ماحولیات کے ماہرین کوئی خیالی ڈراوے نہیں دکھا رہے، یہ سب وہ باتیں ہیں جو ہم آپ روزانہ بھگت رہے ہیں۔ آج ہماری ارض پاک کے ساحلی علاقوں میں جتنی گرمی بڑھ گئی ہے، اب سے محض 25 برس قبل اس کا تصور بھی نہیں تھا۔ یہی حال ہمارے دھواں اگلتے ہم سایوں کا ہے۔ بھارت آج کل جس رفتار سے زمینی ماحولیات کو برباد کر رہا ہے اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ وہاں ایک جانب تو دھواں اگلتی موٹروں اور کارخانوں کے باعث ماحول برباد ہوکر رہ گیا ہے تو دوسری جانب غربت اور مہنگائی میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔ نتیجے میں آج وہاں جیسی قدرتی آفات آرہی ہیں تاریخ میں کبھی دیکھنے میں نہیں آئیں۔ اترکھنڈ ریاست میں غیر معمولی بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں 5 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ ہمارے پرکھوں نے زمین کو سینچا اور آباد کیا تھا۔ زمین نے انھیں آباد کیا اور آباد کار بنادیا۔
ہم زمین کو برباد کیے چلے جارہے ہیں کیا زمین ہمیں آباد رہنے دے گی؟