افتخار عارف کیسے کیسے خواب سجے ہیں دیکھو تو

فہد اشرف

محفلین
غزل

کیسے کیسے خواب سجے ہیں دیکھو تو
آنکھوں میں کُچھ رنگ نئے ہیں دیکھو تو

دھنک کُنج سے آنے والے رنگ سفیر
ڈالی ڈالی جھول رہے ہیں دیکھو تو

پونم رات، اونچی پہاڑیاں اور چکور
کِس کا رستہ دیکھ رہے ہیں دیکھو تو

دُھول نہائے تھکن سمیٹے کُل سپنے
سورج بن کر جاگ پڑے ہیں دیکھو تو

نرم نرم شاخوں پر ننھے ننھے پھول
کیسے تم کو دیکھ رہے ہیں دیکھو تو

گئی رُتوں کی بارش میں بھیگے پنچھی
اُڑنے کو پَر تول رہے ہیں دیکھو تو

اِس باری تو چاند کے اُجلے ماتھے پر
ہم دونوں کے نام لکھے ہیں دیکھو تو

مَیں نے تمھاری قربت کی سرشاری میں
کیسے اچھے شعر لکھے ہیں دیکھو تو

(”مہرِ دو نیم“ سے انتخاب)
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top