کیا یہ نظم کہلا سکتی ہے اور کیا یہ بحر میں ہے- اصلاح کا طالب ہوں

محمد وارث

لائبریرین
اور سانس میں کوئی نہیں چلتا، سانس خود چلتی ہے، سانس میں کوئی مہکتا ہے، کوئی موجود ہوتا ہے، کسی کی خوشبو ہوتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔
 
صبحِ روشن، مَسا کہو تم لوگ
کیوں بقا کو فنا کہو تم لوگ؟

میری ہر سانس میں جو ہے موجود
اُسے کیوں پھر جدا کہو تم لوگ

یوں ہی مصروف ہے بہت وہ تو
اُسے کیوں پھر خفا کہوتم لوگ

جو کہیں کان میں پڑے مدہم
اُسے کیوں پھر صدا کہوتم لوگ

جو بلانے کو ہی نہیں تم کو
اُسے کیوں پھر ندا کہوتم لوگ

جو گھٹا جا رھا ھو دم باھر
اُسے کیوں پھر فضا کہو تم لوگ

بڑھ رہا ہے جو دردِ جاں میرا
اُسے کیوں پھر شفا کہو تم لوگ

دل غنی ہے اگر تونگر ہے
اُسے کیوں پھر گدا کہو تم لوگ

جو بنا سنگ سے ارے اظہر
اُسے کیوں پھر خدا کہو تم لوگ
 

الف عین

لائبریرین
اب مصرع سب بھر میں ہیں اور ردیف بھی درست کر دی گئی ہے۔ وارث شاید کچھ اور کہنا چاہیں، میں مفہوم پر زیادہ غور نہیں کر رہا، اور اس پر وارث توجہ دے رہے تھے اس لئے خاموش تھا۔
 
Top