کیا یہ تعلیم ہے؟

ناز پری

محفلین
السلام علیکم
پہلے تو معذرت بہت عرصہ غیر حاضر رہی اس کی بھی کچھ وجوہات ہیں وہ پھر کبھی لیکن آج جس موضوع پر میں بات کرنے آئیں ہوں وہ بہت اہم ہیں۔ میں خود ایک ٹیچر ہوں میرے پاس بچے ٹویشن پڑھنے بھی آتے ہیں۔ کل دو بچیوں نے مجھ سے کہا ” مس ہمارا آج کا پیپر آوٹ آف سلیبس آیا ہے۔ ہم بہت پرشان ہیں بڑی مشکل سے سوال تبدیل کروائیں ہیں۔ آپ ہماری ٹیچر سے بات کریں۔ میں نے بچو سے فون نمبر لیا اور ٹیچر سے بات کرنے لگی۔
فون پرنسپل کے کمرے میں تھا تو اس لیے پرنسپل صاحبہ سے ہی بات ہوئی۔ سلام و دعا کے بعد میں نے ان سے درخواست کی آپ کے سکول کے کچھ بچے میرے پاس ٹویشن پڑھنے کے لیے آتے ہیں۔ وہ بہت فکر مند ہیں کے آج کا پیپر آؤٹ آف سلیبس آیا ہے۔ تو آپ مہربانی فرما کر چھٹی کلاس کی کلاس ٹیچر سے بات کر کے پیپر کو سلیبس کے مطابق کر دیں۔ میرا اتنا کہنا تھا کہ پرنسپل صاحبہ غصہ میں آ گئی کہ ہمارے سکول کے بچے ہیں تو انھوں نے ہم سے کیوں بات نہین کی اپ سے کیوں بات کی آپ کون ہوتی ہیں۔ تو میں نے پھر آرام سے کہا دیکھیں میڈم بچے بہت ڈرے ہوئے ہیں وہ آپ سے بات نہین کر سکتے اس لیے انھوں نے مجھ سے بات کی ہے آپ ان کی ٹیچر سے تو بات کریں۔ تو انھوں نے جواب دیا۔ میں ٹیچر سے تو بعد میں بات کروں گی آپ مجھے یہ بتائین کہ بچوں کے نام کیا ہیں کل میں خود پوچھ لوں گی ان سے۔ میں نے بچوں کے نام تو نہیں بتائے اور میں نے کہا آپ تو غصہ کر رہیں ہین آپ ٹیچر سے تو بات کریں۔ تو کہنے لگئی آپ کو کیوں اتنی فکر ہو رہی ہے۔ آپ کون ہیں۔ مجھے اس بات پر غصہ آگیا میں بھی پھر غصے میں بولی دیکھیں میڈم بچے میرے پاس پڑھنے کیلے آتے ہیں اور جو کچھ کورس میں ہے ہم وہی پڑھاتے ہیں اور اگر کورس سے ہٹ کر پیپر آئے تو بچے کی کارگردگی پر فرق پڑتا ہے۔ مجھے تو اس کی فکر ہوتی ہے۔ تو وہ اور غصہ مین بولیں میں دیکھ لوں گی آپ کے بچے 99 فیصد نمبر لیں گے۔ اس بات پر تو مجھے حیرت کے ساتھ اور غصہ آیا میں نے کہا میڈم بچے آپ کے سکول کے ہیں اگر وہ اچھے نمبر لیں گے تو آپ کے سکول کا نام ہو گا اور اگر وہ فیل ہونگے تو آپ کے سکول کو فرق پڑے گا میرا کچھ نہیں جاتا مین تو بچوں کی بہتر کے لیے کہہ رہی ہوں۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ اپ ٹیچر سے بات کر کے پیپر تبدیل کرواتی لیکن آپ الٹا مجھے ہی ڈانٹ رہی ہیں۔ پیپر بن گیا ہے تو بس بن گیا ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ اور اگر پیپر آؤٹ آف سلیبس آ رہا ہے تو یہ بچوں کی غلطی ہے بچوں کو چاہے تھا کہ وہ ہمیں بتاتے کہ انھوں نے کہاں تک پڑھا ہے تاکہ پیپر اس کے مطابق بنائیں۔ جب پرنسپل صاحبہ نے یہ بات کی تو میں خاموش ہو گی اور پرنسپل صاحبہ کو اتنا کہاں جی ہاں بچوں کی غلطی ہے۔ اور بچوں کی اتنی غلطی ہے کہ وہ اس سکول میں پڑھ رہے ہیں۔ اس بات پر تو پرنسپل صاحبہ کو غصے میں جلال آ گیا اور وہ کہنے لگی آپ مجھ سے بتمیزی کر رہی ہیں آپ کہنا کیا چاہتی ہیں۔ مین نے بہت آرام سے کہا میں نے جو کہنا تھا وہ کہہ دیا اور آپ کو سمجھ بھی لگ گی ہے اس لیے اللہ خافظ میرا یہ مشورہ ہے کچھ بچوں کے بارے مین بھی سوچیں۔ اس کے ساتھ ہی میں نے فون بند کر دیا۔
اس واقعہ سے بچے اور ڈر گے میں نے بچوں کو سمجھایا بچو میں نے آپ کا نام نہیں لیا اس میں ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے آپ اپنی ٹیچر سے بات کریں کہ جو کورس ہم نےپڑھا ہے پیپر بھی اسی سے ہونا چاہے
آج جب بچے میرے پاس آئے تو میں نے ان سے پوچھا پیپر کیسا ہوا تو کہنے لگئی کہ پیپر تو آوٹ آف کورس ہی تھا لیکن ہم نے پرنسپل سے بات کر کے سوال تبدیل کروا لیے تھے اور انھوں نے تبدیل کر دے تھے۔

کیا یہ تعلیم ہے جب آپ پیپر بناتے وقت یہ خیال نہیں رکھ سکتے کہ بچو نے کیا پڑھا ہے اور یہ قصور بھی بچوں کا ہے کہ انھوں نے نہیں بتایا کہ ہم نے کہا تک پڑھا ہے۔ کیا ہم بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں یا بچوں کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں کیا تعلیم ایسی ہوتی ہے۔
یہ تعلیم ہے یا کاروبار
 

طالوت

محفلین
تعلیمی اداروں اور معلموں کی حالت پر اس قدر لکھا جا سکتا ہے کہ صفحے کم پڑ جائیں ۔ اور یہ معاملہ چھوٹی جماعتوں سے ڈگری کلاسز تک ایسا ہی بے سرا اور بے تکا ہے ۔
گذشتہ روز ٹیلیویژن کے ایک پروگرام میں جامع کراچی کی "ماس کمیونیکیشن" کی ایک طالبہ کی تجویز تھی کہ محکمہ تعلیم کو بجائے ان نیم پڑھے وزیروں کے ہاتھ دینے کے قابل افراد کے ہاتھ دیا جائے جو 'کانٹریکٹ" پر ہوں اور ان سے مثبت نتائج مانگے جائیں ۔ تاکہ کم از کم یہ بہانہ ختم ہو کہ ہمیں‌دو تین سال میں ہی فارغ کر دیا گیا۔
وسلام
وسلام
 

شمشاد

لائبریرین
پوچھنے کی کیا ضرورت ہے، سرکاری ہی ہو گا۔

ذاتی اسکولوں نے کاروبار کی بنیاد پر اسکول کھولے ہوتے ہیں، وہ اس قسم کی حرکتیں نہیں کرتے۔
 

سویدا

محفلین
اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور لکھا جاتا رہے گا لیکن اصلاح کا پہلو ابھی بھی بظاہر دکھائی نہیں‌دیتا
 

ساجد

محفلین
تعلیمی اداروں اور معلموں کی حالت پر اس قدر لکھا جا سکتا ہے کہ صفحے کم پڑ جائیں ۔ اور یہ معاملہ چھوٹی جماعتوں سے ڈگری کلاسز تک ایسا ہی بے سرا اور بے تکا ہے ۔
گذشتہ روز ٹیلیویژن کے ایک پروگرام میں جامع کراچی کی "ماس کمیونیکیشن" کی ایک طالبہ کی تجویز تھی کہ محکمہ تعلیم کو بجائے ان نیم پڑھے وزیروں کے ہاتھ دینے کے قابل افراد کے ہاتھ دیا جائے جو 'کانٹریکٹ" پر ہوں اور ان سے مثبت نتائج مانگے جائیں ۔ تاکہ کم از کم یہ بہانہ ختم ہو کہ ہمیں‌دو تین سال میں ہی فارغ کر دیا گیا۔
وسلام
وسلام
طالوت ، آپ کی آواز مکے اور مدینے۔ پاکستان میں ٹیکنو کریٹس (ماہرین) میں سے اداروں کے سربراہ منتخب کئے جائیں تو اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں پارلیمانی نظام حکومت ترک کر کے صدارتی نظام اپنا لیا جائے تو کم از کم صدر آئینی طور پہ با اختیار ہو گا اور وزراء کا چناؤ اپنی صوابدید سے کر کے اچھے نتائج کا پابند ہو گا۔ ہمارا پارلیمانی طرزِ حکومت بھی نااہل افراد کو اہم اداروں کی باگ ڈور تھمانے کا سبب ہے۔
 

سویدا

محفلین
ویسے ہم اسکولوں کو دوش دیتے پھرتے ہیں‌ہماری عوام بھی انہی اسکولوں‌کو پسند کرتی ہیں جہاں‌زیادہ سے زیادہ فیس ہو

جہاں‌حقیقی علم اور شعور کے بجائے فیشن اولین ترجیح‌ہو

ہم لاشعوری طور پر ان چند گنے چنے اسکولوں‌کو ہی اچھا سمجھتے ہیں‌جو بہت مہنگے ہیں
 

ساجد

محفلین
ویسے ہم اسکولوں کو دوش دیتے پھرتے ہیں‌ہماری عوام بھی انہی اسکولوں‌کو پسند کرتی ہیں جہاں‌زیادہ سے زیادہ فیس ہو

جہاں‌حقیقی علم اور شعور کے بجائے فیشن اولین ترجیح‌ہو

ہم لاشعوری طور پر ان چند گنے چنے اسکولوں‌کو ہی اچھا سمجھتے ہیں‌جو بہت مہنگے ہیں
بالکل درست فرمایا آپ نے۔
 

سویدا

محفلین
اور سب سے بڑا المیہ تو ہمارے ملک کا یہ ہے کہ آج تک متفقہ طور پر ہمارا مقصد تعلیم ہی متعین نہیں‌ہوسکا

جب مقاصد متعین نہ ہو تو وسائل واسباب ہی مقصد بن جاتے ہیں اورانسان ان کی بھول بھلیوں‌میں‌گم ہوجاتا ہے
 

طالوت

محفلین
طالوت ، آپ کی آواز مکے اور مدینے۔ پاکستان میں ٹیکنو کریٹس (ماہرین) میں سے اداروں کے سربراہ منتخب کئے جائیں تو اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں پارلیمانی نظام حکومت ترک کر کے صدارتی نظام اپنا لیا جائے تو کم از کم صدر آئینی طور پہ با اختیار ہو گا اور وزراء کا چناؤ اپنی صوابدید سے کر کے اچھے نتائج کا پابند ہو گا۔ ہمارا پارلیمانی طرزِ حکومت بھی نااہل افراد کو اہم اداروں کی باگ ڈور تھمانے کا سبب ہے۔
شکریہ ساجد ۔ میں خود بھی صدارتی نظام کا حامی ہوں ۔ مگر پھر یہ سوچتا ہوں ہمارے یہاں جس قسم کی سیاست کی جاتی ہے اور سیاست کے معاملے عوام کے شعور اور یاداشت کا جو عالم ہے ، اس بناء پر شاید یہ بھی کامیاب نہ ہو مگر پارلیمانی نظام سے بہتر ضرور ہو گا۔
ویسے ہم اسکولوں کو دوش دیتے پھرتے ہیں‌ہماری عوام بھی انہی اسکولوں‌کو پسند کرتی ہیں جہاں‌زیادہ سے زیادہ فیس ہو

جہاں‌حقیقی علم اور شعور کے بجائے فیشن اولین ترجیح‌ہو

ہم لاشعوری طور پر ان چند گنے چنے اسکولوں‌کو ہی اچھا سمجھتے ہیں‌جو بہت مہنگے ہیں
درست کہا سویدا ۔ لاشعوری طور پر بھی اور شعوری طور پر بھی ۔
وسلام
 
Top