کیا مرد اور خواتین میں ذہنی اعتبار سے فرق پایا جاتا ھے؟

زونی

محفلین
ج: دلیل یہ ہے کہ دو مردوں اور دو عورتوں کی ذہنی سطح بھی ایک جیسی نہیں ہوتی۔


درست کہا ،،،،یہی وہ بنیادی بات ھے جس کو واضح کرنے کی کوشش کر رہی تھی ،،،،،اگر دو مرد اور دو عورتوں کی ذہنی سطح میں فرق ہو سکتا ھے تو یہ بات ثابت ہو گئی کہ انفرادی سطح پہ مرد کی ذہنی سطح بھی زیادہ ہو سکتی ھے اور عورت کی بھی،،،،لہذا انفرادی طور پہ مرد بھی بیوقوف ہو سکتے ہیں اور عورت بھی ،،،،،،اصل مسئلہ تو یہ ھے کہ اس انفرادی فرق کو صنف کے ساتھ جوڑ کر عورتوں کی مجموعی آبادی کے سر تھوپ دیا جاتا ھے ۔ :)
 

زونی

محفلین
میرا خیال ہے کہ اس موضوع پر بحث بغیر مذہب کے مکمل نہیں ہوسکتی ۔ ہم دنیاوی حقیتوں کیساتھ مذہب کا بھی کچھ حوالہ دے دیں تو شاید بحث کے مکمل ہونے کچھ امکانات روشن ہوجائیں ۔ عورت اور مرد کے فرق کو ہم صرف چند فلسفوں اور سروے تک محدود میں نہیں کرسکتے کیونکہ جب آپ انہیں سائنسی اور فلسفیانہ توجہات میں گھیسٹ کر عورت اور مرد کے فرق کو صرف اس بنیاد پر وضع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ زندگی کی حقیقتیں ہیں تو مذہب بھی زندگی کی ایک اہم حقیقت ہے اور اس کے بغیر یہ بحث نامکمل رہے گی ۔ کیونکہ بہرحال دنیا میں کم از کم 95فیصد لوگ کسی نہ کسی طور پر کسی خدا پر یقین تو رکھتے ہیں ۔ لہذا سائنسی ، فلسفیانہ اورتحقیقی سطح پر جب اس بحث کا آغاز کریں تو مذہب کا بھی نقطہِ نظر بھی جان لینا چاہیئے کہ وہ مرد اور عورت کے مابین کس قسم کا فرق روا رکھتا ہے ۔





آپ کی بات درست ھے لیکن مذہب سے ہٹ کر بحث کرنے کا مقصد ایک تو بحث کو مختصر کرنا تھا اور دوسرا یہ کہ اس کیلئے مذہب کا غیر جانبدارانہ مطالعہ بہت ضروری ھے اور اگر نبی پاک صل اللہ علیہ والہ وسلم کی کوئی حدیث یا کوئی قرآنی حوالہ بغیر سیاق و سباق کے پیش کر دیا جائے گا تو اس تھریڈ کو میدان جنگ بننے سے کون روک سکتا ھے :)
 

متلاشی

محفلین
ان "شرعى دلائل" كے جواب ميں عرض ہے كہ جن صلى اللہ عليہ وسلم پر قرآن مجيد اترا وہ ايك عورت كے بيٹے تھے ، عورتوں کے شوہر تھے اور عورتوں کے باپ تھے۔ اپنی رضاعى ماں كى از حد تكريم كرتے تھے ، اپنى ماں كى قبر پر جا كر روتے تھے، اپنی بيٹيوں کے آنے پر کھڑے ہو كر ان كا استقبال كرتے تھے اور ان كے بيٹھنے كے ليے اپنی كندھوں كى چادر بچھا ديتے تھے۔ يہ سب ان كى مبارك سنتيں ہيں اور ايك يہ سنت بھی كہ كبھی كسى بيوى بيٹی پر ہاتھ نہ اٹھايا تھا ۔ صلى اللہ عليہ وسلم ۔ ايك شخص نے زمانہ جاہليت ميں بيٹی كو زندہ دفن كر نے كا واقعہ سنايا تو اتنا روئے كہ ريش مبارك تر ہو گئی۔كوئى واقعى مرد مسلماں ہے تو ان سنتوں كو تازہ كرے۔
محترمہ آپ نے بالکل بجا فرمایا ۔۔۔ ! ان باتوں سے انکار کس کو ہے ۔۔۔۔؟ ان سب باتوں میں عورتوں کی ذہنی صلاحیت کی برتری کہاں سے ثابت ہو رہی ہے ۔۔۔ میں اپنی کج فہمی کے باعث سمجھ نہیں پایا ۔۔۔۔؟
اور شاید آپ نے میری پوسٹس کو غور سے نہیں پڑھا ۔۔۔ میں نے کوئی ’’ شرعی دلائل ‘‘ نہیں دیے ۔۔۔! میں نے اپنی پہلی پوسٹ کے اینڈ پر سمائیلز لگائی تھیں دیٹ مینز دس از اونلی اے جوک ۔۔۔!(کیونکہ کسی لفظ کے پہلے یا بعد میں آنے سے کوئی فضیلت ثابت نہیں ہوتی ) مگر آپ نے اسے دلیل سمجھ کر اس پر اُسی قسم کی دلیل دے دی ( اس میں میرا تو کوئی قصور نہیں آپ کی سمجھ کا قصور ہے ) تو پھر میں نے بھی جواباً اُسی قسم کی دلیل دی جس قسم کی آپ نے دی تھی ۔۔۔ !
 

زونی

محفلین
میرا خیال ہے کہ اس موضوع پر بحث بغیر مذہب کے مکمل نہیں ہوسکتی ۔ ہم دنیاوی حقیتوں کیساتھ مذہب کا بھی کچھ حوالہ دے دیں تو شاید بحث کے مکمل ہونے کچھ امکانات روشن ہوجائیں ۔ عورت اور مرد کے فرق کو ہم صرف چند فلسفوں اور سروے تک محدود میں نہیں کرسکتے کیونکہ جب آپ انہیں سائنسی اور فلسفیانہ توجہات میں گھیسٹ کر عورت اور مرد کے فرق کو صرف اس بنیاد پر وضع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ زندگی کی حقیقتیں ہیں تو مذہب بھی زندگی کی ایک اہم حقیقت ہے اور اس کے بغیر یہ بحث نامکمل رہے گی ۔ کیونکہ بہرحال دنیا میں کم از کم 95فیصد لوگ کسی نہ کسی طور پر کسی خدا پر یقین تو رکھتے ہیں ۔ لہذا سائنسی ، فلسفیانہ اورتحقیقی سطح پر جب اس بحث کا آغاز کریں تو مذہب کا بھی نقطہِ نظر بھی جان لینا چاہیئے کہ وہ مرد اور عورت کے مابین کس قسم کا فرق روا رکھتا ہے ۔
پہلے تو یہ بات صحیح طور پر سمجھ لینا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جتنی بھی مخلوقات پیدا کیں ہیں ۔ ظاہر ہے ان کے درمیان صلاحیت ، ذوق ، عادات ، جبلت ظاہری جسم و ساخت کے لحاظ سے فرق رکھا ہے ۔ انسان کی حیثیت سے مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔ قرآن نے ہمیں یہ بتایا ہے اور اس سارے فلسفے کی جڑ ہی کاٹ دی ہے جس کی بنیاد پر آپ عورت و مرد میں کوئی فرق روا رکھ سکیں کہ " ہم نے انسان کو نفسِ واحدیہ سے پیدا کیا اور پھر اس سے اس کا جوڑا بنایا ۔ " مگر یہ بات واضع ہے کہ اپنی طبیعت ، مزاج ، جسمانی ساخت وغیرہ میں عورت مرد سے مختلف ہے ۔ یعنی کمزور یا کمتر ہونا زیرِ بحث نہیں ہے ۔ " مختلف " ہونا زیرِ بحث ہے ۔ جب مختلف ہے تو نظریات اور سوچ میں بھی فرق ہوگا ۔ شرعی احکامات تو ایک طرف ، آپ دیکھیں کہ جبلی کیفتوں میں بھی فرق موجود ہے ۔ جنسی اور نفسیاتی بنیادوں میں بھی فرق موجود ہے ۔ مگر یہ فرق کسی کی برتری کا موجب نہیں ہے ۔ مردوں کے درمیان بھی فرق موجود ہے ۔ کوئی شاعر ہے ،کوئی سائنسدان ہے ، کوئی ڈاکٹر ہے اور کوئی صرف ایک محنت کش ہے جو ذہن سے زیادہ جسمانی مشقت کو ترجیح دیتا ہے۔ یعنی ذہنی سطح مردوں میں کسی بھی طور پر یکساں نہیں ہے ۔ بلکل اسی طرح کایہ فرق عورتوں میں بھی موجود ہے ۔
ہماری شریعت نے بھی عورتوں اور مردوں کے درمیان جو احکامات رکھے ہیں ۔ وہ مرد و عورت کی بنیاد پر نہیں بلکہ فرقِ مراتب کے طور پر رکھے ہیں ۔ یعنی جوبھی اس سلسلے کے احکامات ہیں ۔ وہ ایک خاندان کے نظم و ضبط کو سامنے رکھ کر دیئے گئے ہیں ۔
مردوں کی جسمانی ساخت کی وجہ سے ان میں نفسیات اور جذباتیت کا جو تنوع ہے وہ عورت سے قدرے مختلف ہے اور اسی طرح عورت بھی اپنی ہیت میں مردوں سے مختلف ہے ۔ مگر یہ کہنا کہ ذہنی سطح کی بنیادپر عورت کسی بھی طور پر مرد سے کم تر ہے تو یہ بلکل غلط بات ہے ۔ عورت ذہنی طور پر ہر وہ کام کرسکتی ہے جو مرد کرسکتا ہے ۔ مگر عورت اپنی فطرت اور نفسیات کی بنیاد پر اس درجہ ان کاموں میں اتنی متحرک نظر نہیں آتی جتنا کہ مرد نظر آتے ہیں ۔ مگر ان میں معاشرتی عوامل میں شامل ہیں ۔ ثقافت اور اقدار بھی نمایاں ہے ۔ مگر جہاں عورت کو کھل کر اپنی صلاحیتوں دکھانے کا موقع ملا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ مردوں سے کسی بھی طور پر کم نہیں ہیں ۔ جب عورت انجنیئر ، ڈاکٹر اور دیگر علمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرلیتیں ہیں تو یہ تاثر کہاں سے پیدا ہوتا ہے کہ وہ ذہنی اعتبار سے مردوں سے کم ہیں ۔ اگر اس بنیاد پر کہ عورتیں ایسے علمی میدانوں میں کم نظر آتی ہے تو یہ بلکل غلط تاثر ہوگا کہ عورتیں وہ فہم نہیں رکھتیں جو مردوں کو حاصل ہے ۔ مگر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عورتیں اس میدان میں کم ہیں مگر میں اس کی وجہ بیان کرچکا ہوں ۔اگر ذہنی سطح میں کسی قسم کی کم و بیشی ہوتی ۔ تو عورت کسی ادارے کی ہیڈ ، کہیں ڈاکٹر ، کہیں انجینئر ، اور کہیں سائنسدان بن کر کسی بھی طور ابھر کر سامنے نہیں آتی ۔ ہم مہیز تعداد کی بنیاد پر مرد کو عورت پر اولیت نہیں دے سکتے ۔ کیونکہ ذہنی سطح میں اگر کوئی فرق ہوتا تو عورت وہ کام ہرگز کر نہیں پاتی جو مرد حضرات کر رہے ہیں ۔ عورت اور مرد اپنی بناوٹ و ساخت میں ایک تنوع رکھتے ہیں ۔ اس لیئے رحجانات کا بھی فرق وضع ہوگا ۔ اور فرق کی بنیاد پر وہ اپنی فطرت سے قریب تر کام کو ترجیح دیں گے ۔ یوسف ثانی صاحب نے ریاضی اور گائنا لوجی کے میدان میں عورت اور مرد کے جبلت کی بنیاد پر ان کےرحجانات کے فرق کو واضع کیا ہے ۔ مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ مرد و عورت کے مابین کسی ذہنی سطح پر کوئی فرق موجود ہے ۔ قرآن نے بھی اپنی جب دعوت کی طرف انسان کو پکارا ہے تو مرد و عورت کو یکساں پکارا ہے ۔ کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں روا رکھی ۔



متفق۔۔۔۔
 

یوسف-2

محفلین
بات یہ ہے کہ "ذہنی صلاحیت" کا معاملہ ایسا ہے کہ اس پر کوئی "حکم" نہیں لگایا جا سکتا ۔۔۔ اور دونوں طرف کے دلائل موجود ہیں ۔۔۔ میرے اپنے ذاتی خیال میں ذہنی صلاحیت کے اعتبار سے ہی کیا، کسی بھی اعتبار سے مرد و زن کے مابین کوئی "تنازعہ" کھڑا کر دینا کسی صورت مناسب نہیں ۔۔۔ عورت کا تقابل عورت سے اور مرد کا تقابل مرد سے کیا جائے تو بھی بات کسی حد تک سمجھ میں آتی ہے ۔۔۔
مرد اور عورت کا تقابل یا موازنہ کبھی بھی سود مند نہیں ہوتا۔ نہ مردوں کے لئے اور نہ ہی عورتوں کے لئے۔ اسی لئے اسلام نے بالعموم مردوں اور عورتوں کی علیحدہ علیحدہ ’’صف بندی‘‘ نہیں کی ہے۔ بلکہ اسلام ’’رشتوں سے ڈیل‘‘ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ایک مرد چار قسم کی عورتوں کے گھیرے میں ہوتا ہے۔ ماں، بہن، بیوی اور بیٹی۔ ایک مرد، بحیثیت مرد ان چاروں اقسام کی عورتوں کو ان کی تمام خوبیوں اور خامیوں سمیت ’’قبول‘‘ کرتا ہے۔ وہ ان سے کبھی بھی اپنا ’’موازنہ‘‘ نہیں کرتا، نہ جسمانی صلاحیتوں کا، نہ ذہنی صلاحیتوں کا، اور نہ ہی حصول اقتدارو مال کے لئے درکار دیگر صلاحیتوں کا۔

اسی طرح ہر عورت بھی بنیادی طور پر چار اقسام ہی کے مردوں میں بائی ڈیفالٹ گھری ہوتی ہے۔ باپ، بھائی، شوہر اور بیٹا۔ بالعموم وہ ان چاروں سے بھی اپنی کسی صلاحیت کا موازنہ و مقابلہ نہیں کرتی بلکہ انہیں ان کی خوبیوں اور خامیوں سمیت قبول کرتی ہے (یا قبول کرنے پر مجبور ہوتی ہے)۔ اور جب تک کوئی عورت اپنے ان چار اقسام کے محرم مردوں کے حصار اور ان کی حفاظت میں رہتی ہے، وہ اپنے گرد و پیش موجود نامحرم مردوں کے ’’شر‘‘ سے مستقلا" محفوظ ہی رہتی ہے۔ (الا یہ کہ یہ حصار ہی کمزور پڑجائے یا گروہ شیاطین ان پر حاوی ہوجائیں)

شیطان اور اس کے انسانی (مرد) کارندے ہمیشہ سے اس تاک میں رہتے ہیں کہ عورتوں کو ان کے اس قدرتی (چارمحرم) حصار سے باہر لا یا جائے تاکہ ان کا استحصال بآسانی کیا جاسکے۔ واضح رہے کہ محرم رشتے (باپ، بھائی، شوہر اور بیٹا) بھی عورت کا استحصال کرتے ہیں، لیکن یہ غیر محرم مردوں کے استحصال کے مقابلہ میں برائے نام ہوتا ہے۔ اور اسی برائے نام استحصال کا ڈھنڈورا پیٹ کر اُسے اس قدرتی حصار سے باہر لاکھڑا کیا جاتا ہے تاکہ عورت کی آواز، بیوٹی، ناز و ادا اورنسوانیت کی خوب خوب ’’مارکیٹنگ‘‘ کی جاسکے۔ واضح رہے کہ ازل سے ہی ’’عورتوں کی یہ تجارت‘‘ سب سے زیادہ منافع بخش تجارت ہے اور آج شو بز انڈسٹری کے نام سے اسی تجارت کو ’’انڈسٹریلائزڈ‘‘ کردیا گیا ہے۔ پہلے عورت کو اس کے محرم عورتوں کی حفاظت سے باہر نکال کر اسے ’’میٹیریل انڈسٹری‘‘ کا ایک سستا لیبر بنایا گیا اور جب عورت دنیا کے انڈسٹریلائزیشن عہد میں کھل کر گھر سے باہر نکل آئی تو پھر خود اسی کی نسوانیت پر مبنی انڈسٹری، شو بز انڈسٹری بنا دی گئی۔ اس شو بز انڈسٹری میں عورت کی حیثیت دیکھنے کے لئے پڑھئے:
اداکارہ کہیں جسے
 
درست کہا ،،،،یہی وہ بنیادی بات ھے جس کو واضح کرنے کی کوشش کر رہی تھی ،،،،،اگر دو مرد اور دو عورتوں کی ذہنی سطح میں فرق ہو سکتا ھے تو یہ بات ثابت ہو گئی کہ انفرادی سطح پہ مرد کی ذہنی سطح بھی زیادہ ہو سکتی ھے اور عورت کی بھی،،،،لہذا انفرادی طور پہ مرد بھی بیوقوف ہو سکتے ہیں اور عورت بھی ،،،،،،اصل مسئلہ تو یہ ھے کہ اس انفرادی فرق کو صنف کے ساتھ جوڑ کر عورتوں کی مجموعی آبادی کے سر تھوپ دیا جاتا ھے ۔ :)
بالکل ٹھیک کہا آپ نے۔۔۔۔انفرادی طور پر کوئی عورت بیشمار مردوں سے زیادہ ذہین و فطین ہوسکتی ہے،۔۔۔۔۔لیکن بحیثیت مجموعی مرد بیچارے اس میدان یں تھوڑا آگے ہیں۔۔۔اسکو مثال کے طور پر یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ عام طور پر مرد جسمانی طاقت اور سخت کوشی میں عورتوں سے بڑھ کر ہوتے ہیں۔۔۔لیکن ایسی عورتیں بھی ہوتی ہیں جو کتنے ہی مردوں سے زیادہ طاقتور ہوتی ہیں۔۔۔۔۔اخبارات میں بھی کبھی کبی آجتا ہے کہ فلاں عورت نے اپنے شوہر کو تشدد کا نشانہ بنایا، اور کئی شوہر بیچارے اپنی دنگ قسم کی بیویوں سے پٹتے رہتے ہیں:D۔۔۔۔لیکن اس سب کے باوجود ہم یہی کہتے ہیں کہ عورت صنف نازک اور مرد صنف کرخت۔۔۔۔میرے خیال میں یہی معاملہ ذہانت مں بھی ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
بالکل ٹھیک کہا آپ نے۔۔۔ ۔انفرادی طور پر کوئی عورت بیشمار مردوں سے زیادہ ذہین و فطین ہوسکتی ہے،۔۔۔ ۔۔لیکن بحیثیت مجموعی مرد بیچارے اس میدان یں تھوڑا آگے ہیں۔۔۔ اسکو مثال کے طور پر یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ عام طور پر مرد جسمانی طاقت اور سخت کوشی میں عورتوں سے بڑھ کر ہوتے ہیں۔۔۔ لیکن ایسی عورتیں بھی ہوتی ہیں جو کتنے ہی مردوں سے زیادہ طاقتور ہوتی ہیں۔۔۔ ۔۔اخبارات میں بھی کبھی کبی آجتا ہے کہ فلاں عورت نے اپنے شوہر کو تشدد کا نشانہ بنایا، اور کئی شوہر بیچارے اپنی دنگ قسم کی بیویوں سے پٹتے رہتے ہیں:D۔۔۔ ۔لیکن اس سب کے باوجود ہم یہی کہتے ہیں کہ عورت صنف نازک اور مرد صنف کرخت۔۔۔ ۔میرے خیال میں یہی معاملہ ذہانت مں بھی ہے۔
جمانی ساخت اور ذہانت کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ امریکی اور افریقی لوگ ایشائی لوگوں کے مقابلے میں جسامت میں بڑے ہوتے ہیں۔ تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ لوگ ہم سے زیادہ ذہین ہیں؟ (جبکہ O/A لیول میں عام طور پر پاکستانی اور انڈین کے سکور زیادہ آتے ہیں)
حقیقت یہ ہے کہ ہم چاہیں کتنی بھی کوشش کریں ذہانت کا معیار نہیں بنا سکتے جو کہ تمام لوگوں کو یکساں طور پر پرکھ سکے۔ IQ کے ٹیسٹ بھی کسی ایک کلچر اور معاشرے پر لاگو ہوتے ہیں۔
آپ یہ کر سکتے ہیں کہ مرد اور عورت کی ذہنی ساخت کا تعین کریں اور اس سے کوئی نتیجہ اخذ کریں۔ مردوں کا دماغ اوسطً 5 سے 10 فی صد عورتوں کے دماغ سے وزنی ہوتا ہے لیکن عورتوں کے دماغ میں اوسطً زیادہ نیورون ہوتے ہیں۔ یعنی عورتوں کا دماغ زیادہ efficient ہے۔ لیکن یہ سب باتیں نتیجہ خیز نہیں ہو سکتیں کیونکہ کچھ چیزوں میں مرد کا دماغ زیادہ کارآمد ہے اور کچھ چیزوں میں عورت کا دماغ۔
 
میں نے یہ کب کہا کہ جسمانی ساخت کا ذہانت سے تعلق ہوتا ہے۔۔۔میں نے جسمانی قوت کی مثال محض یہ واضح کرنے کیلئے دی ہے کہ استثنائی کیسز کے با وجود ایک عمومی اور جنرل رحجان کا بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے
 
Top