کیا اب سود کوغیر متعلق سمجھ لیا جائے؟

سید رافع

محفلین
عبد المعین صاحب کی ایک تحریر "سود اور آج کی دنیا" نظر سے گزری اس پر ایک تبصرہ کیا ہے۔ امید ہے اس پر مذید مفید بات چیت ہو سکے گی۔

سود اور آج کی دنیا
قدیم ادوار میں سونے اور چاندی کے سکے ہوتے تھے ۔ جو دنیا میں محدود مقدار میں تھے ، اس لئے زر کی قدر میں استحکام تھا اور اس وجہ سے دنیا ہمیشہ تفریق زر کا شکار رہی تھی ۔ اس وقت جب کہ سود معاشرے میں عدم توازن پیدا کررہا تھا تو اسلام نے ایک طرف زکواۃ کو فرض کر کے اور دوسرے طرف رضاکارانہ طور پر دولت پھیلانے کی تلقین کرکے سود پر ضرب لگائی ۔ اس سے نہ صرف معاشرے میں دولت پھیل جاتی تھی بلکہ لوگوں کے پاس پیسہ آجانے سے تجارت و کاروبار میں ترقی ہوجاتی اور لوگوں کو روزگار مل جاتا تھا ، جواب بھی نہایت راست ا قدام ہے ۔
مگر بڑھتی ہوئی آبادی اور تیز رفتار ترقی کی وجہ سے دنیا تفریق زر اور کسادبازاری کا شکار ہونے لگی ۔ کیوں کہ دنیا میں سونا محدود مقدار میں تھا ، جس کی مقدار مزید بڑھ نہیں سکتی تھی اور اس کے متبادل کے طور پر کاغذی زر تخلیق کیا گیا ۔ جو ابتدا میں سونے کے بدلے جاری کیا گیا تھا اس لیے اس کی قدر مستحکم تھی ۔ مگر جلد ہی اس کا تعلق سونے سے ٹورنا پڑا اب اس کی قدر وقت کے ساتھ گرتی رہتی ہے ۔
دنیا میں جہاں مختلف میدانوں میں ترقی ہوئی ہے اور مختلف ارتقائی مراحل گزر ی ہے ، وہاں آج کی معاشی دنیا بھی بدل چکی ہے ۔ آج کی معاشی دنیا پہلے کی طرح سادہ نہیں رہی ہے ۔ زماں اور مکاں اور عرف و عادۃ کی تبدیلوں کے ساتھ اس نے مختلف ارتقائی مرحلے طے کئے ہیں اور اب یہ عہد گزشتہ کی نسبت بہت زیادہ پیچیدہ اور تیز رفتار ہو گئی ہے ۔ اس لئے آج معاشی دنیا کل کی نسبت بہت کچھ بدل چکی ہے ۔ پہلے سود معاشرے میں عدم توازن پیدا کرتا تھا ۔ جب کہ آج کی جدید معشیت میں تیز رفتار ترقی اور وقت کے ساتھ گرتی قدر کی وجہ سے قرض لینے والا فائدے میں رہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے لوگ عام طور پر بینکوں اور مالیاتی اداروں سے کاروبار اور دوسری ضرورتوں کے لیے قرض لینے سے گریز نہیں کرتے ہیں ۔ اس وجہ سے سودکے خلاف تمام ظنی دلائل بے کارہوگئے ہیں ۔ اب ہمارے پاس اس کے خلاف ایک ہی طاقت ور دلیل رہ گئی ہے کہ اس کی حرمت قران و سنت سے نص ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت )خودہمارے ملک میں( جو بظاہر مذہب پرست ہیں ، مگر سود سے گریز نہیں کرتے ہیں اور زیادہ نفع کے لالچ میں ان سودی اسکیموں سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں جن میں خطرات بھی پوشیدہ ہوتے ہیں ۔ خود پاکستان میں 90 کے اوائل میں انویسٹ منٹ کمپنیوں میں زیادہ شرح سود کے لالچ میں لوگوں نے اپنی بچتوں کے علاوہ اپنے زیورات اور جائیدادیں بیچ کر ان کمپنیوں میں لگا دیئے ۔ حالانکہ انہیں اچھی طرح معلوم تھا اتنا زیادہ نفع ناممکنات میں سے ہے ۔ اس کے باوجود لالچ نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ۔ اس طرح یہ انویسٹمینٹ کمپنیاں عوام کے اربوں روپیہ لوٹ کر فرار ہوگئیں ۔ ان انویسٹ مینٹ کمپنیوں میں پیسہ لگانے والے لوگ ہر طبقے سے تعلق رکھتے تھے ۔ ان میں غریب بھی تھے امیربھی اور آزاد خیال لوگوں کے علاوہ صوم و صلواۃ کے پابند بھی ۔ جنہیں پتہ تھا سود حرام ہے ، اس کے باوجود انہوں نے پیسہ لگایا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے محدود پیسے سے کوئی کاروبار نہیں کرسکتے تھے ، ان کا خیال تھا کہ وہ اپنی جمع شدہ پونچی اس طرح محفوظ کرلیں گے اور اس کے نفع )سود( سے گزارا یا عیش کریں گے ۔
آج کا معاشی نظام عہدوسطیٰ کے مقابلے میں بہت مختلف ہے ۔ پہلے صرف سونے کو زر کی حیثیت حاصل تھی ، مگر اب اس کی جگہ کاغذی زر نے لے لی ہے ، جس کی قدر وقت کے ساتھ گرتی رہتی ہے اور قیمتوں میں اضافے کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر کے لوگ اپنا پیسہ جائیداد یا اس طرح کی خریداری میں لگاتے ہیں اور کاروبار کے لیے قرض کو ترجیح دیتے ہیں اور واپسی کے وقت اصل کے مقابلے میں زائد رقم خوشی خوشی ادا کرتے ہیں ، کیوں کہ قرض لیتے وقت جو زر کی قدر تھی وہ ادائیگی کے وقت گھٹ چکی ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے سود کے خلاف جتنے دلائل دیئے جاتے تھے وہ جدید معاشی نظام پر صادق نہیں آتے ہیں ۔ کیوں کہ زر کی وقت کے ساتھ گرتی قدر نے سود کے خلاف تمام دلائل بیکار کردیئے ہیں اور سود پوری طرح معاشی معاشرے میں رائج ہوچکا ہے ۔ آج ہم سود کے بغیرمعیشت کا سوچ ہی نہیں سکتے ہیں ۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پہلے گورنر جناب زاہد حسین نے کہا تھا کہ غیر سودی معیشت کی تلاش کا مطلب موجودہ زمانے کی اقتصادی زندگی کی تعمیری بنیادں پر اعتراض کے مترادف ہے ۔
پاکستان میں ابتدا سے ہی سودی نظام کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے اور ہمارے فقہاء اور علماء یہ کہتے آئے ہیں کہ اسلام تمام معاشی مسائل کا حل پیش کرتا ہے ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اب تک کوئی مکمل اور قابل عمل متبادل نظام پیش نہیں کیا جاسکا ۔ اگرچہ وقفأ وقفأکچھ معاملات میں بعض تجویزیں پیش کی گئیں ، جو جزوئی معاملات میں کارآمد ہیں ، لیکن مکمل معاشی نظام کا احاطہ نہیں کرتی ہیں ۔
سودکے سلسلے میں تحقیقات کی ابتدائی کوششیں 1930 ؁ء اور 40ء کے عشروں میں کی گئی تھیں ۔ اس سلسلے میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی ؒ مرحوم ، ڈاکٹر انور اقبال قریشی مرحوم اور الاستاد باقر الصدر شہید نے کام کیا تھا ۔ اب اس سلسلے کو پرفیسر خورشید احمد ، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ، ڈاکٹر محمد عذیر ، ڈاکٹر محمود ابوسود اور دوسرے بہت سے لوگوں نے جاری رکھا ہوا ہے
سودکے سلسلے میں کام کرنے یہ بالاالذکر افراد معمولی نہیں تھے ، بلکہ نابالغہ روزگار افراد تھے ۔ جن پر نہ صرف پاکستان کو فخر ہے بلکہ عالم اسلام میں بھی ان کا نام احترام سے لیا جاتا ہے ۔ مگر ان لوگوں نے موجودہ زماں اور مکاں کے معاشی حقائق کا مطالعہ کرنے اور سودی نظام کے متبادل پیش کرنے کے بجائے سود کے خلاف ظنی و نفلی دلائل اخذ کرنے میں اپنی توانائیاں خرچ کیں اور انہوں نے سود کی حرمت اور اس کے بغیر معاشی نظام کو چلانے پر زور دیا ۔
اب تک سودکے جو متبادل پیش کئے گئے ہیں وہ بیشتر جزوی ہیں یا بینکاری کے امور کے متعلق ہیں ان تجویزوں کے مطابق عام لوگوں کی بچتوں پر بنک کوئی نفع نہ دے اور اس پر جو نفع حاصل ہو وہ حکومت حاصل کرے ۔ البتہ بڑی رقمیں جو لمبی مدت کے لئے ہوں ان پر مشارکہ اور مضاربہ کی بنیاد پرنفع دیا جائے ۔ اس طرح بینک قرض دینے کے بجائے مشارکہ اور مضاربہ کی بنیاد پر کام کرے ۔ وہ اس سلسلے میں اسلامی ترقیاتی بینک اور ایرانی بینکوں اور اس طرح کے وہ کچھ اور اداروں کی مثالیں دیتے ہیں جو مضاربہ یا شراکت کی بنیادپر اپنا کاروبار کررہے ہیں ۔
اس حقیقت کے برعکس کہ سودی نظام صرف بینکاری کے امور تک محدود نہیں ہے ۔ انہوں نے صرف بینکاری کے امور پر توجہ دی اور دوسرے معاشی امور مثلأ زر کی تخلیق، کاغذی زر ، ادائیگیوں کا توازن ، قرضہ جات ، معاشی حکمت عملیوں کے مطابق زر کو بازار میں پھیلانے اور کھینچنے اور روزگار وغیرہ کو نظرانداز کردیا ہے ۔
موجودہ معاشی نظام کے بعض پہلو ایسے ہیں جن پر ہمارے علماء اور فقہا، غور و فکر نہیں کیا ہے ۔ مثلأ کرنسی نوٹ جاری کرنے کا موجودہ طریقہ کار ، بازار میں زر کو پھیلانے اور کھنچنے کا موجودہ طریقہ کار وغیرہ ۔ ظاہر ہے یہ تمام معاشی اور مالی معاملات ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور یہ تمام معاملات عام آدمی پر اثر اندازہوتے ہیں اور ان کا ملک کی معاشی حالت پر گہرا اثر ہوتا ہے ۔ اب تک سود کے جو بھی متبادل پیش کئے گئے ان دو بڑی خرابیاں ہیں ۔ اول وہ جزوی Micro ہیں اور وہ کلی Mecro نہیں ہیں ۔ لہذا وہ ملکی معیشت اور مالیات کے تمام معاملات پر اثر انداز نہیں ہوتے ہیں ۔ دوئم وہ موجودہ معاشی اور مالی حکمت عملیوں اور معاشی حقائق کو مد نظر رکھ کر ترتیب نہیں دیئے گئے ہیں ، اس لیے انہیں اپنانے کی کوئی بھی حکومت جرات نہیں کرسکتی ہے ۔
ان کے پیش کردہ متبادل کا ہم جائزہ لیں تو یہاں یہاں سوال اٹھتا ہے کہ جب کہ معیشت کا پورا نظام اس طرح مربوط ہے کہ زر کی تخلیق ، کاغذی زر ، ادائیگیوں کا توازن ، قرضہ جات ، بچت اور سرمایا کاری اس نظام سے وابسۃ ہیں۔ ہم سرمایاکاری تو شراکت یا مضاربہ میں کرسکتے ہیں ، لیکن سرمایا کی فراہمی بچت سے ہوتی ہے ۔ جب زر کی قدر وقت کے ساتھ مسلسل گر رہی ہو تو ہم بچت کے لئے کس طرح ترغیب دیں گے ؟ اور ادائیگیوں کا توازن اور زر کی تخلیق کس طرح کریں گے ؟
حقیقت میں سودکے مکمل متبادل نظام کے متعلق ابھی تک کوئی قابل ذکر کام ہی نہیں ہوا ہے اور جو کچھ کام ہوا وہ سود کے خلاف ظنی دلائل ہی ہیں ، ان کی اب کوئی وقعت نہیں رہی ہے یا چند ایسے متبادل پیش کئے گئے جو قابل عمل نہیں ہیں ۔ اس لئے کوئی بھی حکومت انہیں عملی جامع پہنانے کی ہمت نہیں کرسکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے سود کے مالی نظام سے خاتمہ کی ہر حکومت نے مزاحمت کی ۔ جناب ایس ایم ظفر صاحب نے وفاقی شرعی عدالت میں سو د کا دفاع کرتے ہوئے کہا ۔
’’چونکہ دنیا بھر میں اقتصادی نظام سود پر چل رہا ہے ، اس لئے اس سے انحراف معاشی بحران کے مترادف ہوگا ‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ سود کے مسئلہ پر غور ملتوی کیا جائے ، کیوں کہ اس کا مجموعی نظام معیشت سے بڑا تعلق ہے ۔ پاکستان کا پورا مالیاتی نظام اس طرح مربوط ہے ، دیگر مسائل مثلأ افراط زر ، کاغذی زر ، کرنسی ، بینکاری کا تصور رضاکارانہ طور پر قرضے دینا کو اس سے و ابسطہ کئے بغیر محض اس نظام کے متعلق فیصلہ کرنا بہت سی مشکلات اور بحران کا سبب بن سکتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں قوم کو فائدہ کے بجائے نقصان ہو گا ۔
لہذا سود کا متبادل نظام لانے سے پہلے ضروری ہے کہ جدید معاشی نظام کے تمام معاملات کا تفصیلی جائزہ لیں اور اس کی ضرورتوں اور تمام حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسا متبادل نظام ترتیب دیں جو جدیدمعاشی ضرورتوں اور تقاضوں کے مطابق قران و سنت کی روشنی میں فقاء اور علماء کی رائے کے مطابق ہو ۔ تاکہ مسلمان بھی جدید معاشی و اقتصادی نظام کے ثمرات سے بلا کراہیت بہرہ ور ہوسکیں اور انھیں اپنی ترقی کی بلندیوں پر پہچنے میں کسی قسم کی دقت یا پریشانی نہ ہو ۔
تحریر و ترتیب
ٰ(عبدالمعین انصاری)
 

سید رافع

محفلین
عبد المعین صاحب کا یہ کہنا کہ رقم دیتے وقت کاغذی نوٹ کی قدر گر چکی ہوتی ہے سو قرضہ لینے والا خوشی خوشی ادا کر دیتا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ جب سونے کے سکے ہوتے تھے تو اس پر سود لینا حرام تھا کیونکہ اسکی قدر نہیں گرتی تھی۔ کاغذی نوٹ اور سونے کے سکے میں قدر گرنے کا فرق ہے۔ لیکن مجھے لگ رہا ہے کہ یہ انکا مغالطہ ہے۔ سونے کی قدر بھی گھٹتی پڑھتی رہتی ہے یہ اس بات پر منحصر ہے کہ کس شئے سے موازنہ کیا جا رہا ہے۔ ایک تولے سونے سے جو گندم 10 برس قبل خریدا جا سکتا تھا کیا وہ آج بھی خریدا جا سکتا ہے ؟ اب آپ کہہ دیں گے کہ گندم کی قدر بھی بدلتی رہتی ہے۔ چلیں پھر ایک کلو سونے سے جو زمین 10 برس قبل خریدی جا سکتی تھی اسکا موازنہ کریں؟ آپ کہیں گے اسکی قدر بھی تبدیل ہوتی رہی ہے۔ سو یہ ایک مغالطہ ہے کہ صرف کاغذی نوٹ کی قدر تبدیل ہو رہی ہے۔ ہر شئے کی قدر تبدیل ہو رہی ہے۔ یہ تو ہوا اس بات کا ایک پہلو۔

اب دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ کاغذی نوٹ اسلام کی کمزوری کے ساتھ نمودار ہوئے کیونکہ جنگیں زیادہ ہونے لگیں سو لینے دینے کے لیے سونا چاندی ناکافی پڑ گیا۔ لیکن یہ میرا ایک قیاس ہے جو ہو سکتا ہے کہ غلط ہو۔

تیسرا یہ کہ جو لوگ اس وقت حکمران ہیں دنیا میں وہ طویل اور بڑی بڑی جنگیں کرا کر اس کاغذی ہرے ڈالر تک پہنچیں ہیں۔ آپ ڈالر کی ہسٹری دیکھ لیں۔

چوتھا یہ کہ گاڑی گھر ضرورت کا سودی قرض پر بحالت مجبوری لے لیا تو فقہا اسکی اجازت دیتے ہیں۔ اب تو خیر بینک میں کام کرنے کی بھی اجازت ہے ۔

پانچواں یہ کہ یہ حالت کبھی نہ ہوئی تھی کہ ہر قوم ہی قرض دار ہے۔ جیسے کہ امریکہ ٹرلین ڈالر کی۔ انکے یہاں اکنامک ببل آتے ہیں۔

یہ سب کہنے کے بعد میں یہ کہوں گا کہ ابھی اس سے آگے یہ ہونے جا رہا ہے کہ باوجود لوگ خوب محنت کر رہے ہیں۔ 2030 تک صرف ایک فیصد لوگوں کے پاس دنیا کی دولت کا دو تہائی ہو گا۔ سو کر آپ کچھ لیں اسلامک بینک یا مضاربہ ہونا وہی ہے جو طے ہے۔ اسلام قرض خواہ کو مہلت اور ہوسکے تو معاف ہی کر دینے کا حکم دیتا ہے۔ آیات آزمائش کا عندیہ ہوتیں ہیں۔ قرض ایک حسین عبادت اور آزمائش تھا جو آج کل قرقی رہن اور بینک رپٹ ہونے پر منتہج ہوا ہے۔ سنا ہے ایمان میں آخری گراوٹ شرک کرنا نارمل بات ہو گی۔ ہرج بڑھ جائے گا۔ قربت فٹ پاتھ پر ہو گی۔ جو لوگ اس وقت مغالطے میں رہ گئے ان کے بچے آگے یہی جراثیم لے کر جائیں گے۔ اگر آپ کی نظر سے کوئی اور تحریر ایسی ہو جس میں معاشی نظام کا تفصیلی جائزہ ہو تو بھجیں۔ ابھی تو ایسا ہی لگتا ہے کہ گناہ ہو گا اگر کار یا گھر کے لیے سودی قرض لیا۔ واللہ اعلم
 

محمداحمد

لائبریرین
سود سے متعلق اسلامی احکامات زمانی نہیں ہیں بلکہ قیامت تک کے لئے ہیں ۔ جو سود چودہ پندرہ سو سال پہلے حرام تھا۔ آج بھی حرام ہے۔

پاکستان میں معاشی نظام کو بہتر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے درامدات کو محدود کیا جائے اور برامدات میں اضافے کی کوشش کی جائے۔ اور افرادی قوت کو کام میں لا کر مقامی صنعتوں کو فروغ دیا جائے۔ آج اگر برامدات بڑھ جائیں اور درامدات محدود ہو جائیں تو پھر ملکی کرنسی ترقی کی طرف مائل ہوگی اور افراط زر میں بہتری دیکھنے کو ملے گی۔
 

سید رافع

محفلین
سود سے متعلق اسلامی احکامات زمانی نہیں ہیں بلکہ قیامت تک کے لئے ہیں ۔ جو سود چودہ پندرہ سو سال پہلے حرام تھا۔ آج بھی حرام ہے۔
متفق

آج اگر برامدات بڑھ جائیں اور درامدات محدود ہو جائیں تو پھر ملکی کرنسی ترقی کی طرف مائل ہوگی اور افراط زر میں بہتری دیکھنے کو ملے گی۔
برآمدات سے قبل امن کی ضرورت ہے۔ اور آج امن کا دوسرا نام سیکولرازم ہے جس کی عمارت ہی سود پر کھڑی ہے۔ آپ ملائشیا یا دبئی جیسے اسلامی ممالک کی ترقی ہی دیکھ لیں ان کی سوسائٹی نے کھل کر سودی قرضے استعمال کرنا شروع کیے تو وہ وہاں ہیں جہاں آج ہیں۔ دونوں ہی کئی بار سود کی بودی عمارت لرزنے کی وجہ سے گرنے کے قریب ہوئے۔
 

ہادیہ

محفلین
بنکنگ سسٹم سارے کا سارا انٹرسٹ ریٹ (شرح سود)پہ اپنا کاروبار کرتا۔۔ پہلے شرح سود کیا تھی۔۔اب دیکھ لیجیے کیا ہے۔۔ پہلے اگر قرض لیا جاتا تھا تو شرح سود 10 فیصد تھی اور اب بیس سے تیس فیصد۔۔ اور یہ لوگ اس سسٹم کو جائز سمجھتے ہیں۔۔۔ جبکہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں واضح طور پہ کہہ دیا کہ کاروبار الگ چیز ہے اور سود الگ۔۔ کاروبار نفع دیتا اور سود تباہ کرتا۔۔ اور سود لینے اور دینے والوں دونوں کو جہنمی قرار دیا گیا ہے۔۔بلکہ اللہ پاک کے ساتھ کھلی جنگ کا کہا گیا ہے۔۔ اللہ ہم سب کو معاف فرمائے ۔۔آمین۔۔
جب فرسٹ ایر میں اکنامکس کا مضمون پڑھا تو اس میں ایک بات پڑھی کہ علم معاشیات کو شیطانی علم قرار دیا گیا ہے۔۔ مجھے بڑا تعجب ہوا۔ یہ کیسا علم ہے ۔ چونکہ یہ مضمون زبردستی رکھوایا گیا تھا میرا پہلے اس میں کوئی انٹرسٹ نہیں تھا۔ لیکن یہ تعریف پڑھنے کے بعد میری دلچسپی تھوڑی بڑھ گئی کہ اس کا تنقیدی اور تعریفی جائزہ لینا چاہیئے ایسا کیوں ہے۔۔ پھر جیسے جیسے اس مضمون کو پڑھتی گئی ۔۔اس کے فوائد کے ساتھ ساتھ کچھ باتیں بھی سمجھ میں آئیں جو اس تصویر کا دوسرا رخ۔۔اور شاید سب سے بھیانک رخ ۔۔
اب دیکھیں ایک علم ہمیں ایک طرف اگر یہ سیکھا رہا ہے کہ ہم اپنی ضروریات کو کس طرح اپنی کم آمدنی میں پورا کرسکتے ہیں ۔اپنی ترجیحات کا تعین کس طرح سے بہتر انداز میں کرسکتے ہیں۔۔ کہ ہمارے اخراجات اور ضروریا ت کم از کم برابری کی سطح پہ آ سکے۔۔ کس طرح معاشی وسائل کا بہتر استعمال کرکے ملک و قوم کو مستحکم بناسکتے ہیں۔ اپنی فیملی کو بہتر طرز زندگی دے سکتے ہیں تو دوسری طرف اس میں خواہشات کو ابھارنا اور انہیں کس طرح سے پورا کرنا ہے ۔۔اس کے لیے جائز و ناجائز کی تمیز بھی ختم کردی گئی ۔۔ جیسے اجارہ داری اور امتیاز قیمت وغیرہ۔۔ اور ہمیں سیکھایا گیا کہ کس طرح سے ہم نے ہر حال میں اپنی خواہشات کو پورا کرنا ہے۔۔ اور یہی بڑھتی ہوئی خواہشات ہمیں کہاں سے کہاں لے گئیں ہیں۔۔ افراط زر کی بدترین سطح پہ۔۔ سرمایہ درانہ نظام یعنی کیپٹلزم سسٹم۔۔ اب اس نظام نے کیا خواب دکھائے۔۔ کہ ہر انسان آزاد ہے ۔ وہ جیسے چاہے جو چاہے کاروبار کرے اور منافع کمائے۔ اور اس کے لیے یہ اصول بھی وضع کیا گیا کہ گورنمنٹ انٹرسپشن کم سے کم ہو۔۔بلکہ بالکل ہی عدم مداخلت۔۔ وہیں یہ بنکنگ سسٹم بھی اسی نظام کے تحت چلنے لگا۔۔ سود سود اور صرف سود۔۔
ایک طرف تو ہم اللہ کو مانتے ہیں اور دوسری طرف اللہ کی ایک نہیں مانتے۔۔ آج کل بہت سے لوگ بنک سے قرضہ لیتے ہیں ۔ اپنی زمین وغیرہ گرہوی رکھوا کر۔۔اور پھر سود کی وجہ سے ساری عمر قرض کی ادائیگی کے لیے خوار ہوتے ہیں۔۔ ہم اپنے مسائل کے خود ذمہ دار ہیں۔۔اپنی خواہشات کو اس قدر بڑھا لیا ہے کہ مہنگائی یعنی افراط زر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک اور وجہ پرائس ڈسکریمینیشن (امتیازی قیمت۔۔ مطلب مختلف قیمتیں اپنی مرضی سے اشیاء و خدمات کی صورت میں اپلائی کرنا اپنے کسٹمرز پر)۔۔مقصد صرف نفع کمانا۔۔۔
اور سود کا نظام صرف بنکوں کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ اب تو اکثر لوگ "منافع" کمانے کے چکر میں اس کو باقاعدہ ایک کاروبار کے طور پہ چلا رہے ہیں۔۔ آپ بتائیں ایک ملک میں سود کو جائز سمجھ کر منافع حاصل کیا جاتا ہو۔۔وہاں کیا خاک برکت آئے گی۔ آج ہماری روزی میں برکت کیوں نہیں ہے ۔۔کاروبار کرتے ہیں تو کچھ نا کچھ جھوٹ کی ملاوٹ کرکے۔۔ بھئی اب اس کے بغیر گاہک مطمئن نہیں ہوتا نا۔۔اپنی مرضی سے قیمتیں وصول کرتے ہیں۔۔ بازار سے سودا سلف لینے جائیں وہاں بھی یہی کچھ دیکھنے کو ملتا۔۔ ایک دکان سے جوتا خریدا گیا۔۔ دو دن سکول پہن کرگئی تیسرے دن اس کا سٹیپ ٹوٹ گیا۔۔ کلیم کیا تو جواب ملا "باجی یہ پاکستان ہے یہاں کسی بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی"۔۔ پھر اس کے بعد جو اس کو سنا کر آئی وہ ایک الگ کہانی۔۔ مطلب ہم خود کو پارسا سمجھتے ۔۔ایک لیبل لگایا ہوا ہے کہ پاکستان میں یہ سب ہوتا وغیرہ وغیرہ۔۔ بھئی تو کون ذمہ دار ہے۔۔ اس کا کبھی جائزہ لینے کی کوشش کی کسی نے۔۔ کاروبار کرتے ہیں سود پہ، مہنگائی کا رونا تو روتے ہیں مگر خود کیفے میں جاکر فاسٹ فوڈ کھاتے ہیں اور ساتھ ہمسایہ چاہے بھوکا سویا ہو ۔۔پھر کیسے بہتری آئے گی ۔۔۔۔ اگر کھانا بالفرض (الگ سے کیا دینا) بچ بھی جائے تو اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ کسی کو کھلا دیں۔۔ اسے بھی فریز کرلیا جاتا ہے۔۔ اور اگر کسی کو کھلا دیں تو جب تک دس بندوں کو اپنا یہ "کارنامہ" نا بتا دیں اور ان سے داد وصول نا کرلیں تب تک ہمیں "روحانی" خوشی ہی نصیب نہیں ہوتی۔
خیر بات کہیں اور چلی گئی ہے۔۔ عرض صرف اتنی سی ہے۔ حرام حرام ہی رہتا چاہے آپ اسے جس بھی شکل میں کرنا چاہیں۔۔ بشرطیکہ ہمیں اس بات کا احساس بھی ہوجائے۔۔
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
بنکنگ سسٹم سارے کا سارا انٹرسٹ ریٹ (شرح سود)پہ اپنا کاروبار کرتا۔۔ پہلے شرح سود کیا تھی۔۔اب دیکھ لیجیے کیا ہے۔۔ پہلے اگر قرض لیا جاتا تھا تو شرح سود 10 فیصد تھی اور اب بیس سے تیس فیصد۔۔ اور یہ لوگ اس سسٹم کو جائز سمجھتے ہیں۔۔۔ جبکہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں واضح طور پہ کہہ دیا کہ کاروبار الگ چیز ہے اور سود الگ۔۔ کاروبار نفع دیتا اور سود تباہ کرتا۔۔ اور سود لینے اور دینے والوں دونوں کو جہنمی قرار دیا گیا ہے۔۔بلکہ اللہ پاک کے ساتھ کھلی جنگ کا کہا گیا ہے۔۔ اللہ ہم سب کو معاف فرمائے ۔۔آمین۔۔
جب فرسٹ ایر میں اکنامکس کا مضمون پڑھا تو اس میں ایک بات پڑھی کہ علم معاشیات کو شیطانی علم قرار دیا گیا ہے۔۔ مجھے بڑا تعجب ہوا۔ یہ کیسا علم ہے ۔ چونکہ یہ مضمون زبردستی رکھوایا گیا تھا میرا پہلے اس میں کوئی انٹرسٹ نہیں تھا۔ لیکن یہ تعریف پڑھنے کے بعد میری دلچسپی تھوڑی بڑھ گئی کہ اس کا تنقیدی اور تعریفی جائزہ لینا چاہیئے ایسا کیوں ہے۔۔ پھر جیسے جیسے اس مضمون کو پڑھتی گئی ۔۔اس کے فوائد کے ساتھ ساتھ کچھ باتیں بھی سمجھ میں آئیں جو اس تصویر کا دوسرا رخ۔۔اور شاید سب سے بھیانک رخ ۔۔
اب دیکھیں ایک علم ہمیں ایک طرف اگر یہ سیکھا رہا ہے کہ ہم اپنی ضروریات کو کس طرح اپنی کم آمدنی میں پورا کرسکتے ہیں ۔اپنی ترجیحات کا تعین کس طرح سے بہتر انداز میں کرسکتے ہیں۔۔ کہ ہمارے اخراجات اور ضروریا ت کم از کم برابری کی سطح پہ آ سکے۔۔ کس طرح معاشی وسائل کا بہتر استعمال کرکے ملک و قوم کو مستحکم بناسکتے ہیں۔ اپنی فیملی کو بہتر طرز زندگی دے سکتے ہیں تو دوسری طرف اس میں خواہشات کو ابھارنا اور انہیں کس طرح سے پورا کرنا ہے ۔۔اس کے لیے جائز و ناجائز کی تمیز بھی ختم کردی گئی ۔۔ جیسے اجارہ داری اور امتیاز قیمت وغیرہ۔۔ اور ہمیں سیکھایا گیا کہ کس طرح سے ہم نے ہر حال میں اپنی خواہشات کو پورا کرنا ہے۔۔ اور یہی بڑھتی ہوئی خواہشات ہمیں کہاں سے کہاں لے گئیں ہیں۔۔ افراط زر کی بدترین سطح پہ۔۔ سرمایہ درانہ نظام یعنی کیپٹلزم سسٹم۔۔ اب اس نظام نے کیا خواب دکھائے۔۔ کہ ہر انسان آزاد ہے ۔ وہ جیسے چاہے جو چاہے کاروبار کرے اور منافع کمائے۔ اور اس کے لیے یہ اصول بھی وضع کیا گیا کہ گورنمنٹ انٹرسپشن کم سے کم ہو۔۔بلکہ بالکل ہی عدم مداخلت۔۔ وہیں یہ بنکنگ سسٹم بھی اسی نظام کے تحت چلنے لگا۔۔ سود سود اور صرف سود۔۔
ایک طرف تو ہم اللہ کو مانتے ہیں اور دوسری طرف اللہ کی ایک نہیں مانتے۔۔ آج کل بہت سے لوگ بنک سے قرضہ لیتے ہیں ۔ اپنی زمین وغیرہ گرہوی رکھوا کر۔۔اور پھر سود کی وجہ سے ساری عمر قرض کی ادائیگی کے لیے خوار ہوتے ہیں۔۔ ہم اپنے مسائل کے خود ذمہ دار ہیں۔۔اپنی خواہشات کو اس قدر بڑھا لیا ہے کہ مہنگائی یعنی افراط زر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک اور وجہ پرائس ڈسکریمینیشن (امتیازی قیمت۔۔ مطلب مختلف قیمتیں اپنی مرضی سے اشیاء و خدمات کی صورت میں اپلائی کرنا اپنے کسٹمرز پر)۔۔مقصد صرف نفع کمانا۔۔۔
اور سود کا نظام صرف بنکوں کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ اب تو اکثر لوگ "منافع" کمانے کے چکر میں اس کو باقاعدہ ایک کاروبار کے طور پہ چلا رہے ہیں۔۔ آپ بتائیں ایک ملک میں سود کو جائز سمجھ کر منافع حاصل کیا جاتا ہو۔۔وہاں کیا خاک برکت آئے گی۔ آج ہماری روزی میں برکت کیوں نہیں ہے ۔۔کاروبار کرتے ہیں تو کچھ نا کچھ جھوٹ کی ملاوٹ کرکے۔۔ بھئی اب اس کے بغیر گاہک مطمئن نہیں ہوتا نا۔۔اپنی مرضی سے قیمتیں وصول کرتے ہیں۔۔ بازار سے سودا سلف لینے جائیں وہاں بھی یہی کچھ دیکھنے کو ملتا۔۔ ایک دکان سے جوتا خریدا گیا۔۔ دو دن سکول پہن کرگئی تیسرے دن اس کا سٹیپ ٹوٹ گیا۔۔ کلیم کیا تو جواب ملا "باجی یہ پاکستان ہے یہاں کسی بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی"۔۔ پھر اس کے بعد جو اس کو سنا کر آئی وہ ایک الگ کہانی۔۔ مطلب ہم خود کو پارسا سمجھتے ۔۔ایک لیبل لگایا ہوا ہے کہ پاکستان میں یہ سب ہوتا وغیرہ وغیرہ۔۔ بھئی تو کون ذمہ دار ہے۔۔ اس کا کبھی جائزہ لینے کی کوشش کی کسی نے۔۔ کاروبار کرتے ہیں سود پہ، مہنگائی کا رونا تو روتے ہیں مگر خود کیفے میں جاکر فاسٹ فوڈ کھاتے ہیں اور ساتھ ہمسایہ چاہے بھوکا سویا ہو ۔۔پھر کیسے بہتری آئے گی ۔۔۔۔ اگر کھانا بالفرض (الگ سے کیا دینا) بچ بھی جائے تو اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ کسی کو کھلا دیں۔۔ اسے بھی فریز کرلیا جاتا ہے۔۔ اور اگر کسی کو کھلا دیں تو جب تک دس بندوں کو اپنا یہ "کارنامہ" نا بتا دیں اور ان سے داد وصول نا کرلیں تب تک ہمیں "روحانی" خوشی ہی نصیب نہیں ہوتی۔
خیر بات کہیں اور چلی گئی ہے۔۔ عرض صرف اتنی سی ہے۔ حرام حرام ہی رہتا چاہے آپ اسے جس بھی شکل میں کرنا چاہیں۔۔ بشرطیکہ ہمیں اس بات کا احساس بھی ہوجائے۔۔

قریبا سات ارب انسان دنیا میں ہیں اور شاید سات ارب ہی سود سے بلواسطہ جڑے ہوئے ہیں۔ ہر ہر درآمدات، برآمدات اور کھیت کھلیان اور بزنس کے لیے قرضہ سودی ہی ہے۔ کیا یہ مبالغہ ہو گا اگر کہیں کہ محفل کے سو فیصد اراکین بھی سود کی علت میں مبتلا ہیں؟
 
آخری تدوین:

ہادیہ

محفلین
قریبا سات ارب انسان دنیا میں ہیں اور شاید سات ارب ہی سود سے بلواسطہ جڑے ہوئے ہیں۔ ہر ہر درآمدات، برآمدات اور کھیت کھلیان اور بزنس کے لیے قرضہ سودی ہی ہے۔ کیا یہ مبالغہ ہو گا اگر کہیں کہ محفل کے سو فیصد اراکین بھی سود کی علت میں مبتلا ہیں؟
"عرض صرف اتنی سی ہے۔ حرام حرام ہی رہتا چاہے آپ اسے جس بھی شکل میں کرنا چاہیں۔۔ بشرطیکہ ہمیں اس بات کا احساس بھی ہوجائے۔۔"
میں نے بات "ہم" کہہ کر کی۔۔ ہم سے مراد ہم سب۔۔ چاہے سات ارب ہوں یا اس سے بھی زائد۔۔
 

ہادیہ

محفلین
اس بات کو مبالغہ آرائی مت سمجھیے گا۔۔فرق اس سے اتنا نہیں پڑتا کہ کرکون رہا۔۔ فرق اس سے زیادہ پڑنا چاہیئے کیوں کررہے (سودی کاروبار)۔۔ کب سے کررہے ہیں۔۔ ہمیں اس سے بچنا چاہیے یا جو جیسا ہے ویسے کی بنیاد پہ جاری رکھنا چاہیئے۔۔؟؟؟
 

ہادیہ

محفلین
یہ ظن ہو گا۔ جس سے بچنا چاہیے۔
متفق۔۔ اب اصل بات کو چھوڑ کر یہ بات لے کر بیٹھ جائیں کہ کون کون کررہا ہے۔۔ اور محفلین کا ذکر کرنا مجھے بالکل پسند نہیں آیا۔۔ یہ تو ڈائریکٹ پرسنلی اٹیک ہوگیا۔۔ جبکہ بات عمومی رائے کے طور پہ کررہی تھی میں۔۔ کہ ہمارے ملک میں یہ سسٹم چل رہا ہے۔۔ پھر ہم الزام دوسروں کو دیتے ہیں اپنی بدحالی کا۔۔معاشی عدم استحکامی کا۔۔
 
قریبا سات ارب انسان دنیا میں ہیں اور شاید سات ارب ہی سود سے بلواسطہجڑے ہوئے ہیں۔ ہر ہر درآمدات، برآمدات اور کھیت کھلیان اور بزنس کے لیے قرضہ سودی ہی ہے۔ کیا یہ مبالغہ ہو گا اگر کہیں کہمحفل کے سو فیصد اراکین بھی سود کی علت میں مبتلا ہیں؟
کمال کی سوچ ہے!
 

سید رافع

محفلین
بشرطیکہ ہمیں اس بات کا احساس بھی ہوجائے۔۔"

آپ نے دین کو بالکل صحیح سمجھا۔ سود سے بچنا دینی حکم میں سے ہے اور عمل کا مدار نیت پر ہے نہ کہ عمل کر ہی جانے پر۔

(امیر المومنین ابو حفص عمر بن الخطاب سے روایت ہے فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اعمال کا دارومدار نیتوں ہی پر ہے۔ اور ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہےجس کی اس نے نیت کی۔ پس جس کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی جانب ہے تو اس کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ ہی کی جانب ہے۔ اور جس کی ہجرت دنیا کےلیے ہے کہ اسےکمائے یا عورت کے لیے ہے کہ اس سے نکاح کرے تو اس کی ہجرت انہی کی جانب ہے)

(اسے محدثین کے امام ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن المغیرہ بن بردزبہ البخاری الجعفی رح اور ابو الحسین مسلم بن الحجاج بن مسلم القشیری النیشاپوری رح نے اپنی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے، اور یہ دونوں کتب تمام تصنیف کردہ کتب میں سے صحیح ترین کتب ہیں)
 

سید رافع

محفلین
متفق۔۔ اب اصل بات کو چھوڑ کر یہ بات لے کر بیٹھ جائیں کہ کون کون کررہا ہے۔۔ اور محفلین کا ذکر کرنا مجھے بالکل پسند نہیں آیا۔۔ یہ تو ڈائریکٹ پرسنلی اٹیک ہوگیا۔۔ جبکہ بات عمومی رائے کے طور پہ کررہی تھی میں۔۔ کہ ہمارے ملک میں یہ سسٹم چل رہا ہے۔۔ پھر ہم الزام دوسروں کو دیتے ہیں اپنی بدحالی کا۔۔معاشی عدم استحکامی کا۔۔

ہادیہ بہنا، محفلین کے سو فیصد سود میں مبتلا ہونے کی طرف توجہ دلانہ محض مثال کے لیے تھا۔ اصل مقصد یہ تھا کہ آپ کے ذہن میں کوئی ترکیب ہو تو عرض کر دیں۔ سب کو فائدہ ہو۔

بدحالی کا سود سے جو تعلق آپ نے عرض کیا ہے میں اس سے متفق ہوں۔
 

جاسمن

لائبریرین
ہائے میں نے اتنا بڑا مضمون لکھا اپنے موبائل پہ اور نجانے اسے کیا ہوگیا ہے کہ وہ سب ختم اور زمرہ کی فہرست سامنے آگئی۔۔ہک ہا!
بہرحال اللہ اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہم تو جنگ کرنے کی ہمت تو کیا نیت بھی نہیں کر سکتے۔ اللہ ہمیں اور ہماری نسلوں کو سود سے پناہ دے۔ ہماری حلال روزی میں برکتیں عطا فرمائے۔ اور ہمارے اسلامی ممالک میں ایسا زبردست نظامِ معیشت جاری کرے کہ جو سود سے پاک ہو۔ آمین!
 

سید رافع

محفلین
ہائے میں نے اتنا بڑا مضمون لکھا اپنے موبائل پہ اور نجانے اسے کیا ہوگیا ہے کہ وہ سب ختم اور زمرہ کی فہرست سامنے آگئی۔۔ہک ہا!
بہرحال اللہ اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہم تو جنگ کرنے کی ہمت تو کیا نیت بھی نہیں کر سکتے۔ اللہ ہمیں اور ہماری نسلوں کو سود سے پناہ دے۔ ہماری حلال روزی میں برکتیں عطا فرمائے۔ اور ہمارے اسلامی ممالک میں ایسا زبردست نظامِ معیشت جاری کرے کہ جو سود سے پاک ہو۔ آمین!

آمین۔

یہ لکھ کر ضایع ہونے کی کیفیت میں سمجھ سکتا ہوں۔
 
Top