کیا آپ پکے مسلمان ہیں؟

جاسمن

لائبریرین
پلندری میں ایک مدرسہ دیکھا جو بہت جدید ہے اور وہاں کی انتظامیہ بہت روشن خیال۔ لاہور میں بھی چند مدرسے جدید ہیں۔ اگر کچھ ایسے لوگ جنہوں نے دینی اور دنیاوی تعلیم دونوں حاصل کی ہیں،وہ اسی طرز کے مدارس قائم کریں تو آئیندہ سالوں میں یہاں سے جو قاری،امام،مولوی،حافظ،مؤذن صاحبان نکلیں گے یقیناَ وہ آج سے بہت مُختلف ہوں گے انشاءاللہ۔
لیکن جو لوگ دنیاوی تعلیم حاصل کر لیتے ہیں،وہ سکول،کالج تو کھولنا چاہتے ہیں،مدرسوں کی طرف کم ہی آتے ہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
حیرت ہے کہ قاری سے بچوں کو نہ مارنے پر بحث کی ضرورت پڑی۔ چاہے ایسا قاری مارے یا نہ مارے اس سے دور بھاگنا چاہئیے کہ جس کا یہ کانسیپٹ غلط ہے اس کے باقی خیالات کا کیا حال ہو گا اور وہ بچے کو کیا سکھائے گا
قاری و حافط صاحبان سے صرف قرآنِ پاک ناظرہ پڑھنے یا حفظ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ قُرآنِ پاک نہیں سیکھا جاتا۔
اسی لئے ہم اُن سے دور نہیں بھاگ سکتے نہ ہی بھاگنا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اُنہیں معاشرے کا فعال حصہ بنائیں۔اس کے لئے میں نے اپنے حصے کا کام کرنا شروع کیا ہے۔
1:قاری صاحبان نے چونکہ قرآنِ پاک نہیں سیکھا ہوتا اس لئے اُن کی معلومات عجیب سی ہوتی ہیں۔ میرے بچے ناظرہ کے علاوہ کوئی بات قاری صاحب سے سُن کے آتے تھے/ہیں تو میں فوری اُن کو اصل بات بتاتی ہوں۔
2:قاری صاحب کے بچے سکول نہیں جاتے تھے۔ ماشاءاللہ اُن کے چار بچے اور ایک چھوٹی بہن سکول جانے کے لائق ہیں۔ اُن میں سے ایک بیٹا حفظ کے لئے مدرسہ جاتا ہے۔ پہلے اُنہیں سکول کی تعلیم کے لئے بھی قائل کیا کہ ساتھ ساتھ دونوں ہو سکتی ہیں۔ وہ حفظ والے بیٹے کے لئے نہیں مانے لیکن باقی کے لئے مان گئے۔ میں نے خود اُن کے گھر گئی۔نزدیک ترین سکولوں کا وزٹ کیا۔ بچوں کو داخل کروایا۔ حفظ والے بیٹے کے لئے اُنہیں قائل کیا کہ حفظ کے فوراََ بعد اُسے بھی داخل کرائیں۔
3: قاری صاحب نے ایک پرائیویٹ سکول میں چوکیدار کی ملازمت حاصل کی۔اور اب ماشاءاللہ وہاں سے آمدنی کے ساتھ مثبت اثرات بھی لے رہے ہیں۔
اِس کے علاوہ بھی جو جو کر سکتی تھی/ہوں۔۔۔اللہ کا شکر ہے۔۔۔اللہ کا بہت ہی شکر ہے۔
 
اپنے بچوں کے قاری صاحب سے میں نے ایک لمبی بحث اس بات کے لئے کی تھی کہ بچوں کو پیار سے پڑھائیں۔ یہ بات چیت بہت ادب کے دائرے میں تھی۔ پہلے انہیں بتایا کہ آپ کا بچوں پہ بہت حق ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔پھر پیارے نبیﷺ کی مثالیں دے کے انہیں قائل کیا کہ بچوں کو پیار سے پڑھائیں تاکہ قرآنِ پاک سے محبت اُن کے دلوں میں راسخ ہو جائے۔مجھےنہیں معلوم کہ وہ قائل ہوئے یا نہیں لیکن بچوں کو انہوں نے مارا کبھی نہیں۔میں نے انہیں یہ بھی کہا تھا کہ ہمیں مقدار نہیں ،قرآنِ پاک سے محبت اور صحیح تجوید سے تلاوت چاہیے۔
مجھے بھی آپ کی بات سے مکمل اتفاق ہے آپی اگر بچوں کو قرآن کی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے تو ہمیں بچوں کو قاری صاحبان کے سپرد ہی کرنا پڑے گا میں نے خود قرآن مجید پڑھا ہے ترجمہ اور تجوید کے ساتھ اگر میں آیان کو پڑھانے بیٹھو تو وہ میرے پاس بیٹھ کر یاں تو توجہ نہیں دیتا یاں نخرے کرنے لگتا ہے اس لیے عدنان کے کہنے پر قاری صاحب کو بولا ہے ماشاءاللہ ابھی جب قاری صاحب کے آنے کا ٹائم ہوتا ہے تو خود سے ہی قائدہ پکڑ کر چلا جاتا ہے
 
حمیرا صاحبہ اور جاسمن جی
روشن خیال ہیں آپ دونوں کے .
ہمارے یہاں قاری بہت کم ہیں ، قسمت والے ہو کہ قاریوں سے بچوں کو پڑھاتے ہو .
ہم قاریوں کا دل سے احترام کرتے ہیں ۔
 

آوازِ دوست

محفلین
پکے (یا پکے ہوئے) مسلمانو۔۔۔ تهک گئےاو !
کوئی اور پوائینٹ ہے تو بتائیں, پهر کسی 7 سٹار لبرل سے ایم این اے کا منت ترلہ کر کے کوئی قانون سازی کروائیں یا ایتهے ای رو پٹ کے چپ کر گئے او ?
ہم پر جتنی محنت کی گئی ہے میرا خیال ہے کہ اب کم ہی لوگ ہم سے زیادہ پکے مسلمان ہوں گے۔ اچھے مسلمان بنانے سے زیادہ پکے مسلمان بنانے والوں نے سارا زور پختگی پر ہی لگا دیا ہے۔ ہمارے ایم این اے بے چارے بھی بدمعاشی اور برادری کی طاقت کے فرق کے علاوہ ہم جیسے ہی ہیں جنہوں نے اچھائی نہ لبرلز کی اپنانی ہے نہ کنزرویٹوز کی اور خرابی کسی بھی طرف سے ہو اُسے جانے نہیں دینا۔ وہ عوام کے لیے کیا قانون سازی کریں گے اُنہیں بحیثیت شہری اپنے حقوق کا پتا نہیں ہو گا۔ مال لگاؤ اور مال بناؤ۔ لگانے سے ملے گا، ایک کے چار :)
 
ہم پر جتنی محنت کی گئی ہے میرا خیال ہے کہ اب کم ہی لوگ ہم سے زیادہ پکے مسلمان ہوں گے۔ اچھے مسلمان بنانے سے زیادہ پکے مسلمان بنانے والوں نے سارا زور پختگی پر ہی لگا دیا ہے۔ ہمارے ایم این اے بے چارے بھی بدمعاشی اور برادری کی طاقت کے فرق کے علاوہ ہم جیسے ہی ہیں جنہوں نے اچھائی نہ لبرلز کی اپنانی ہے نہ کنزرویٹوز کی اور خرابی کسی بھی طرف سے ہو اُسے جانے نہیں دینا۔ وہ عوام کے لیے کیا قانون سازی کریں گے اُنہیں بحیثیت شہری اپنے حقوق کا پتا نہیں ہو گا۔ مال لگاؤ اور مال بناؤ۔ لگانے سے ملے گا، ایک کے چار :)

جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے ممبران اسمبلی ازکم کرپشن سے پاک ہیں
ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ کراچی سے تعلق ہو
 

آوازِ دوست

محفلین
جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے ممبران اسمبلی ازکم کرپشن سے پاک ہیں
ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ کراچی سے تعلق ہو
کرپشن کی اگر کوئی خاص تعریف کر دی گئی ہو تو آپ کی بات سے اتفاق کرنا پڑے گا لیکن پھر بھی ایک مسئلہ حل طلب رہے گا کہ پھر آخر کرپٹ ہے کون؟ :)
 
کرپشن کی اگر کوئی خاص تعریف کر دی گئی ہو تو آپ کی بات سے اتفاق کرنا پڑے گا لیکن پھر بھی ایک مسئلہ حل طلب رہے گا کہ پھر آخر کرپٹ ہے کون؟

اپنے خودہی تعریف کی ہےکہ مال لگاو مال بناو
ایم کیو ایم اورکراچی سے جماعت اسلامی کے ممبران اسمبلی کے علاوہ سب یہ کام کرتے ہیں سب کرپٹ ہیں
 

آوازِ دوست

محفلین
اپنے خودہی تعریف کی ہےکہ مال لگاو مال بناو
ایم کیو ایم اورکراچی سے جماعت اسلامی کے ممبران اسمبلی کے علاوہ سب یہ کام کرتے ہیں سب کرپٹ ہیں
آپ جانتے ہیں کراچی میں پیسہ بنانے کے اور ہی راستے ہیں اور اُنہیں دیکھیں تو پھر اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
 
میری ناقص معلومات کے مطابق ہم میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا تھا کہ اسے دنیا میں بھیجا جائے اور اگر بھجوانا ہی مقصود ہے تو کم سے کم ہم سے رائے تو لی جائے کہ یہ فلاں شخص تمہارے باپ کی حیثیت سے ٹھیک رہے گا یہ فلاں عورت تمہاری ماں کی حیثیت سے ٹھیک رہے گئی یہ بہت نیک ہے خوبصورت ہے... معاذاللہ میں کوئی شکوہ نہیں کر رہی یہ تو ایک سوچ ہے اگر ہم سب کو اختیار دیا جاتا کہ تم کس کے گھر پیدا ہونا چاہتی ہو یاں چاہتے ہو تو جناب میرا نہیں خیال کہ کوئی غریب صاحبِ اولاد ہوتا لیکن غریب ہوتا ہی کون وہ تو پہلے ہی کسی بادشاہ کے یاں کسی امیر کے گھر پیدا ہو کے زندگی کے سکھ لے رہا ہوتا
یہ تو خداوند تعالٰی کا قائم کردہ نظام ہے اللہ کے ہر فیصلے میں کوئی نا کوئی مصلحت ہوتی ہے جو ہمیں سمجھ نہیں آتی..
پاک و ہند میں بچے کی پیدائش ہوئی تو باپ کو فکر لگ جاتی ہے کہ بچے کے کان میں اذان دینی ہے اگر تو باپ تھوڑی بہت دینی تعلیم رکھتا ہو گا تو خود سے کوشش کرتا ہے نہیں تو کسی مولانا بفضلِ اولانہ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں تاکہ بچے کو باور کرایا جائے کہ وہ مسلمان کے گھرانے میں پیدا ہوا ہے میرا نہیں خیال کہ اتنے چھوٹے بچے پر اذان کی آواز کا کوئی اثر ہوتا ہو گا اب تو بڑے لوگوں پر بھی اذان کا اثر ہوتا وہ تو بچہ ہے.
مجھے کو چھ سال ہوگئے ہیں خلیج میں سکونت اختیار کئے ہوئے جس بلڈنگ میں ہم رہتے ہیں ہمارے ساتھ والے اپارٹمنٹ میں ایک مصری نزد خاتون ہیں لگ بگ میری ہی عمر کی تعلیم یافتہ ہے اور انگلش بھی کافی اچھی بول لیتی ہے وہ اکثر ہمارے گھر آجاتی ہے میں نے اس سے پوچھا کہ مصر میں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو کیا اس کے کان میں اذان دی جاتی ہے تو اس بڑے عجیب سے انداز میں میری طرف دیکھا نہیں میں سر ہلاتے ہوئے پوچھا کیا پاکستان میں ایسا ہوتا ہے میں نے ہاں میں سر ہلا دیا اس نے مجھے بتایا کے نبی کریم ص کے زمانے میں یاں صحابہ کرام رضی اللہ کے زمانے میں کسی کے عمل سے یہ ثابت نہیں... واللہ اعلم
بچہ تھوڑا بڑا ہوا تو فکر پڑ جاتی ہے کہ اب اس کو قرآن پاک کی تعلیم کے لیے مدرسے میں یاں مسجد میں داخل کروا دیا جاتا ہے جہاں جلالی سے چہرے والے قاری صاحب ا ب سے ابتداء کرواتے ہیں مانو نرم لہجہ یاں شائستگی تو قریب سے بھی نہیں گزری بچہ جو سبق رات کو اچھے سے ماں سے یاد کر کے سویا تھا صبح قاری صاحب کا جلالی چہرہ دیکھ کر بھول جاتا ہے تھوڑے دن اور گزرے جب قاری صاحب کو احساس ہو گیا اب یہ بچہ پکا ہو گیا ہے اور ماں باپ کو بچہ کا قرآن پاک ختم کرونا ہے تو سزا دینے کا طریقے بھی بدل گے کبھی بچے کی انگلیوں کےدرمیان میں پنسلیں رکھ کر آگے سے انگلیوں کو دبانے اور کبھی بچے کو کرسیی کی شکل میں کھڑے رہنے کو کہنا آئے دن بچے کی کمر پر بید کی چھڑی کے نشانات اور کبھی پانی والے پائپ کے نشان بچے کی کمر نہ ہوئی قاری صاحب کی تجربہ گا ہو گئی دیکھیں نشان پڑتا ہے کے نہیں اللہ اللہ کرتا بچہ قرآن پاک ختم کر لیتا ہے تو کہیں جا کر بچے کو سکون ملتا ہے..
میرا بات کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ آپ بچے کو دینی تعلیم سے آراستہ نہ کریں لیکن اتنا ضرور کہوں گئی خدارا آپ بچے کی نگرانی بھی کریں اب وہ دور نہیں ہے ہم پرانے تکیہ نویسی طریقہ کار سے ہی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں آج کل تو موبائل آپس میں بھی قرآن پاک دستیاب ہیں ایک ایک آیت کو ترجمہ اور تجوید کے ساتھ جتنی مرتبہ مرضی سن سکتے ہیں...
اگر آپ کسی ایسی گلی میں رہائش پذیر ہیں جس میں الگ الگ مکتبہ فکر کی دو مسجدیں ہیں تو آپ پھر ایک کام کریں یاں تو وہ مکان بیچ کر بھاگ جائیں نہیں تو میرے جیسے پکے مسلمان بن جائیں جی جی پکے مسلمان جب ہفتے میں دوبار آپ کو وعظ سننے کو ملے وعظ کم اور ایک دوسرے پر الزام تراشیاں زیادہ تو آپ ہوگئے نا پکے مسلمان مجھ پر جمعرات کی رات اور سوموار کی رات بہت بھاری گزارتی تھی اگر کبھی سخت نید آ رہی ہوتی روئی کانوں میں ڈالنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا جب تک مسجد کے اسپیکر سے آواز آنا بند نہیں ہو جاتی اگر کوئی مہمان آ جائے خدانخواستہ انہی دنوں میں تو وہ بیچارہ بھی ساری رات جگراتے میں گزار دیتا ہے مجھے سب سے زیادہ مشکل امتحانات کے دنوں میں ہوتی تھی میں اپنا کپڑے وغیرہ اٹھا کر چاچا کے ہاں چلی جاتی تھی یقین مانیں آج بھی ان دنوں مکتبہ فکر کے علماء کرام کے اختلافات کے بارے میں سوچتی ہوں تو بہت چھوٹے چھوٹے اختلافات ہیں کوئی بولتا کہ بغیر ڈارھی کے نماز نہیں ہوتی دوسرا کہتا کہ ننگے سر نماز نہیں ہوتی خیر کس کی نماز قبول ہوتی ہے کس کی نہیں یہ تو اللہ کی ذات بہتر جانتا ہے ہم کون ہوتے ہیں کسی کو غلط کہنے والے.
عدنان مجھے اکثر بتاتے ہیں کہ آج انھوں نے مغرب کی جماعت کی امامت کروئی آج ظہر کی نماز کی نماز کی امامت کروئی میں بہت حیران ہوئی کہ آپ کی تو ڈاڑھی بھی نہیں ہے تو آپ کیسے جماعت کروا سکتے ہیں آپ نے تو اکثر پینٹ شرٹ پہنی ہوتی ہے تب مجھے بتایا کے یہاں پاکستان والا حساب نہیں ہے میں نے فٹ سے پوچھا کیا یہاں پاکستان والا اسلام نہیں ہے تو مجھے کہتے ہیں ہاں یہاں پاکستان والا سلام نہیں ہے ہاں البتہ پاکستان میں یہاں والا اسلام ہے لیکن فرقہ واریت میں بٹا ہوا یہاں کوئی دیوبندی مسلک نہیں ہے کوئی بریلوی مسلک نہیں ہے کوئی اھلِحدیث مسلک نہیں ہے سب مسلمان ہیں ایک ہی امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں چاہے کوئی بھی ہو کوئی آمین اونچی آواز میں کہتا ہے اور کوئی دیہمی آواز میں کوئی رفعدین کرتا ہے کوئی نہیں کرتا اس لیے یہاں سب مسلمان ہیں...
دور جدید کے مسلمانوں کا مزاج یہ ہے کہ وہ حکم لگانے میں دیر نہیں کرتے پہلے یہ کام علما سر انجام دیتے تھے اب ہر فرد میر و غالب ہے .....

جہاں تک معاملہ ہے نو مولود کے کان میں اذان دینے کا جی ہاں یہ فرائض یا اصول دین میں سے نہیں لیکن یہ دین میں ہے ہی نہیں یہ کہنا اعتدال سے ہٹنا ہے امور دینیہ میں کچھ فرائض ہیں کچھ کی حیثیت سنن کی پھر سنن میں بھی کچھ تاکیدی ہیں اور کچھ اختیاری .......

امام ابن قیم نے اپنی کتاب “تحفة المودود باحکام المولود” میں ، نومولود کے کان میں اذان دینے کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
أول ما يقرع سمع الإنسان كلماته المتضمنة لكبرياء الرب وعظمته والشهادة التي أول ما يدخل بها في الإسلام فكان ذلك كالتلقين له شعار الإسلام عند دخوله إلى الدنيا كما يلقن كلمة التوحيد عند خروجه منها
اردو ترجمہ (مولانا محمد ھود) :
سب سے پہلے ابن آدم کے کان میں وہ کلمات پہنچیں جن میں اللہ کی کبریائی اور عظمت ہو ، وہ شہادت جو انسان کو اسلام میں داخل ہونے کے لیے ضروری ہے۔ گویا یہ اس کے لیے دنیا میں پہلا سانس لیتے وقت اسلام کی تلقین ہے جیسے آخری سانس کے وقت اسے کلمۂ توحید کی تلقین ہوتی ہے۔

حوالہ :
الباب الرابع : في استحباب التأذين في أذنه اليمنى والإقامة في أذنه اليسرى
تحفة المودود بأحكام المولود
ابن قيم الجوزية

اب یہاں ایک روحانی حکمت بھی جان لیجئے جب بچہ اس دنیا میں آتا ہے تو یہ ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف چھلانگ ہے یعنی عالم ارواح سے عالم دنیا کی جانب ایک روحانی سفر وہ وعدہ کہ جو خالق حقیقی نے عالم ارواح میں ہم سے لیا تھا اس عظیم روحانی تغیر کی وجہ سے لاشعور کے خانوں سے محو ہونے کا خطرہ موجود رہتا ہے یہ اذان دراصل روحانی اعتبار سے ایک یاد دہانی ہے چونکہ بچے کی مادی عقل کے در ابھی وا نہیں ہوتے اسلیے اسکی روح اس نورانی پیغام کو با آسانی قبول کر لیتی ہے لیکن ایک پختہ کار شخص پر اس کا اثر اتنا نہیں ہوتا کہ اس کی روحانیت مادیت کے پردوں تلے کہیں پوشیدہ ہو چکی ہوتی ہے ..........
 
میری ناقص معلومات کے مطابق ہم میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا تھا کہ اسے دنیا میں بھیجا جائے اور اگر بھجوانا ہی مقصود ہے تو کم سے کم ہم سے رائے تو لی جائے کہ یہ فلاں شخص تمہارے باپ کی حیثیت سے ٹھیک رہے گا یہ فلاں عورت تمہاری ماں کی حیثیت سے ٹھیک رہے گئی یہ بہت نیک ہے خوبصورت ہے... معاذاللہ میں کوئی شکوہ نہیں کر رہی یہ تو ایک سوچ ہے اگر ہم سب کو اختیار دیا جاتا کہ تم کس کے گھر پیدا ہونا چاہتی ہو یاں چاہتے ہو تو جناب میرا نہیں خیال کہ کوئی غریب صاحبِ اولاد ہوتا لیکن غریب ہوتا ہی کون وہ تو پہلے ہی کسی بادشاہ کے یاں کسی امیر کے گھر پیدا ہو کے زندگی کے سکھ لے رہا ہوتا
یہ تو خداوند تعالٰی کا قائم کردہ نظام ہے اللہ کے ہر فیصلے میں کوئی نا کوئی مصلحت ہوتی ہے جو ہمیں سمجھ نہیں آتی..
پاک و ہند میں بچے کی پیدائش ہوئی تو باپ کو فکر لگ جاتی ہے کہ بچے کے کان میں اذان دینی ہے اگر تو باپ تھوڑی بہت دینی تعلیم رکھتا ہو گا تو خود سے کوشش کرتا ہے نہیں تو کسی مولانا بفضلِ اولانہ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں تاکہ بچے کو باور کرایا جائے کہ وہ مسلمان کے گھرانے میں پیدا ہوا ہے میرا نہیں خیال کہ اتنے چھوٹے بچے پر اذان کی آواز کا کوئی اثر ہوتا ہو گا اب تو بڑے لوگوں پر بھی اذان کا اثر ہوتا وہ تو بچہ ہے.
مجھے کو چھ سال ہوگئے ہیں خلیج میں سکونت اختیار کئے ہوئے جس بلڈنگ میں ہم رہتے ہیں ہمارے ساتھ والے اپارٹمنٹ میں ایک مصری نزد خاتون ہیں لگ بگ میری ہی عمر کی تعلیم یافتہ ہے اور انگلش بھی کافی اچھی بول لیتی ہے وہ اکثر ہمارے گھر آجاتی ہے میں نے اس سے پوچھا کہ مصر میں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو کیا اس کے کان میں اذان دی جاتی ہے تو اس بڑے عجیب سے انداز میں میری طرف دیکھا نہیں میں سر ہلاتے ہوئے پوچھا کیا پاکستان میں ایسا ہوتا ہے میں نے ہاں میں سر ہلا دیا اس نے مجھے بتایا کے نبی کریم ص کے زمانے میں یاں صحابہ کرام رضی اللہ کے زمانے میں کسی کے عمل سے یہ ثابت نہیں... واللہ اعلم
بچہ تھوڑا بڑا ہوا تو فکر پڑ جاتی ہے کہ اب اس کو قرآن پاک کی تعلیم کے لیے مدرسے میں یاں مسجد میں داخل کروا دیا جاتا ہے جہاں جلالی سے چہرے والے قاری صاحب ا ب سے ابتداء کرواتے ہیں مانو نرم لہجہ یاں شائستگی تو قریب سے بھی نہیں گزری بچہ جو سبق رات کو اچھے سے ماں سے یاد کر کے سویا تھا صبح قاری صاحب کا جلالی چہرہ دیکھ کر بھول جاتا ہے تھوڑے دن اور گزرے جب قاری صاحب کو احساس ہو گیا اب یہ بچہ پکا ہو گیا ہے اور ماں باپ کو بچہ کا قرآن پاک ختم کرونا ہے تو سزا دینے کا طریقے بھی بدل گے کبھی بچے کی انگلیوں کےدرمیان میں پنسلیں رکھ کر آگے سے انگلیوں کو دبانے اور کبھی بچے کو کرسیی کی شکل میں کھڑے رہنے کو کہنا آئے دن بچے کی کمر پر بید کی چھڑی کے نشانات اور کبھی پانی والے پائپ کے نشان بچے کی کمر نہ ہوئی قاری صاحب کی تجربہ گا ہو گئی دیکھیں نشان پڑتا ہے کے نہیں اللہ اللہ کرتا بچہ قرآن پاک ختم کر لیتا ہے تو کہیں جا کر بچے کو سکون ملتا ہے..
میرا بات کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ آپ بچے کو دینی تعلیم سے آراستہ نہ کریں لیکن اتنا ضرور کہوں گئی خدارا آپ بچے کی نگرانی بھی کریں اب وہ دور نہیں ہے ہم پرانے تکیہ نویسی طریقہ کار سے ہی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں آج کل تو موبائل آپس میں بھی قرآن پاک دستیاب ہیں ایک ایک آیت کو ترجمہ اور تجوید کے ساتھ جتنی مرتبہ مرضی سن سکتے ہیں...
اگر آپ کسی ایسی گلی میں رہائش پذیر ہیں جس میں الگ الگ مکتبہ فکر کی دو مسجدیں ہیں تو آپ پھر ایک کام کریں یاں تو وہ مکان بیچ کر بھاگ جائیں نہیں تو میرے جیسے پکے مسلمان بن جائیں جی جی پکے مسلمان جب ہفتے میں دوبار آپ کو وعظ سننے کو ملے وعظ کم اور ایک دوسرے پر الزام تراشیاں زیادہ تو آپ ہوگئے نا پکے مسلمان مجھ پر جمعرات کی رات اور سوموار کی رات بہت بھاری گزارتی تھی اگر کبھی سخت نید آ رہی ہوتی روئی کانوں میں ڈالنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا جب تک مسجد کے اسپیکر سے آواز آنا بند نہیں ہو جاتی اگر کوئی مہمان آ جائے خدانخواستہ انہی دنوں میں تو وہ بیچارہ بھی ساری رات جگراتے میں گزار دیتا ہے مجھے سب سے زیادہ مشکل امتحانات کے دنوں میں ہوتی تھی میں اپنا کپڑے وغیرہ اٹھا کر چاچا کے ہاں چلی جاتی تھی یقین مانیں آج بھی ان دنوں مکتبہ فکر کے علماء کرام کے اختلافات کے بارے میں سوچتی ہوں تو بہت چھوٹے چھوٹے اختلافات ہیں کوئی بولتا کہ بغیر ڈارھی کے نماز نہیں ہوتی دوسرا کہتا کہ ننگے سر نماز نہیں ہوتی خیر کس کی نماز قبول ہوتی ہے کس کی نہیں یہ تو اللہ کی ذات بہتر جانتا ہے ہم کون ہوتے ہیں کسی کو غلط کہنے والے.
عدنان مجھے اکثر بتاتے ہیں کہ آج انھوں نے مغرب کی جماعت کی امامت کروئی آج ظہر کی نماز کی نماز کی امامت کروئی میں بہت حیران ہوئی کہ آپ کی تو ڈاڑھی بھی نہیں ہے تو آپ کیسے جماعت کروا سکتے ہیں آپ نے تو اکثر پینٹ شرٹ پہنی ہوتی ہے تب مجھے بتایا کے یہاں پاکستان والا حساب نہیں ہے میں نے فٹ سے پوچھا کیا یہاں پاکستان والا اسلام نہیں ہے تو مجھے کہتے ہیں ہاں یہاں پاکستان والا سلام نہیں ہے ہاں البتہ پاکستان میں یہاں والا اسلام ہے لیکن فرقہ واریت میں بٹا ہوا یہاں کوئی دیوبندی مسلک نہیں ہے کوئی بریلوی مسلک نہیں ہے کوئی اھلِحدیث مسلک نہیں ہے سب مسلمان ہیں ایک ہی امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں چاہے کوئی بھی ہو کوئی آمین اونچی آواز میں کہتا ہے اور کوئی دیہمی آواز میں کوئی رفعدین کرتا ہے کوئی نہیں کرتا اس لیے یہاں سب مسلمان ہیں...
جہاں تک بات ہے قاری حضرات کی تو یہ ایک معاشرتی مسلہ ہے ایک جانب قرآنی تعلیم ایک مسلمان کی زندگی کے لوازمات میں سے ہے تو دوسری جانب اس امر کو سر انجام دینے سے اکثر والدین قاصر ہیں اچھے بھلے تعلیم یافتہ لوگ قرآن کریم کو مجھول پڑھتے ہیں اور بعض اوقات یہ جہالت اس درجے کی ہوتی ہے کہ مطالب قرآنی ہی تبدیل ہو جاتے ہیں .......

دوسری طرف ایک طبقے کی روزی ہی اس فن سے منسلک ہے پچلے ادوار میں حکومت اسلامیہ یا شاہان و نوابین ان لوگوں کے معاشی مسائل کو دیکھتے تھے لیکن اسلامی جمہوریتوں میں اسلام کی جانب اتنی توجہ نہیں دی جاتی ....

اس کا ایک انتہائی قابل عمل طریقہ جو ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ جہاں بچے انتہائی بھاری فیسوں کے ساتھ نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں تو والدین (اگر انھیں اس تجارتی تعلیم کے دور میں صارفین کہا جاوے تو کچھ غلط نہ ہوگا ) تعلیمی اداروں کو مجبور کریں کہ وہ ناظرہ کی تعلیم کو لازم قرار دیں اور مستند قاری حضرات کو روزگار بھی فراہم کریں تو اس سے چند بنیادی فوائد حاصل ہونگے .....

١. قاری حضرت کے روزگار کا مسلہ حل ہوگا
٢. اسکول انتظامیہ کی نگرانی میں بچوں کی تعلیم ہوگی
٣. بچوں کے اوپر سے تعلیمی اوقات کا بوجھ کم ہوگا
٤. والدین کیلئے نگرانی آسان ہوگی
٥.قرآنی تعلیم کا رواج ہوگا .
 
میری ناقص معلومات کے مطابق ہم میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا تھا کہ اسے دنیا میں بھیجا جائے اور اگر بھجوانا ہی مقصود ہے تو کم سے کم ہم سے رائے تو لی جائے کہ یہ فلاں شخص تمہارے باپ کی حیثیت سے ٹھیک رہے گا یہ فلاں عورت تمہاری ماں کی حیثیت سے ٹھیک رہے گئی یہ بہت نیک ہے خوبصورت ہے... معاذاللہ میں کوئی شکوہ نہیں کر رہی یہ تو ایک سوچ ہے اگر ہم سب کو اختیار دیا جاتا کہ تم کس کے گھر پیدا ہونا چاہتی ہو یاں چاہتے ہو تو جناب میرا نہیں خیال کہ کوئی غریب صاحبِ اولاد ہوتا لیکن غریب ہوتا ہی کون وہ تو پہلے ہی کسی بادشاہ کے یاں کسی امیر کے گھر پیدا ہو کے زندگی کے سکھ لے رہا ہوتا
یہ تو خداوند تعالٰی کا قائم کردہ نظام ہے اللہ کے ہر فیصلے میں کوئی نا کوئی مصلحت ہوتی ہے جو ہمیں سمجھ نہیں آتی..
پاک و ہند میں بچے کی پیدائش ہوئی تو باپ کو فکر لگ جاتی ہے کہ بچے کے کان میں اذان دینی ہے اگر تو باپ تھوڑی بہت دینی تعلیم رکھتا ہو گا تو خود سے کوشش کرتا ہے نہیں تو کسی مولانا بفضلِ اولانہ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں تاکہ بچے کو باور کرایا جائے کہ وہ مسلمان کے گھرانے میں پیدا ہوا ہے میرا نہیں خیال کہ اتنے چھوٹے بچے پر اذان کی آواز کا کوئی اثر ہوتا ہو گا اب تو بڑے لوگوں پر بھی اذان کا اثر ہوتا وہ تو بچہ ہے.
مجھے کو چھ سال ہوگئے ہیں خلیج میں سکونت اختیار کئے ہوئے جس بلڈنگ میں ہم رہتے ہیں ہمارے ساتھ والے اپارٹمنٹ میں ایک مصری نزد خاتون ہیں لگ بگ میری ہی عمر کی تعلیم یافتہ ہے اور انگلش بھی کافی اچھی بول لیتی ہے وہ اکثر ہمارے گھر آجاتی ہے میں نے اس سے پوچھا کہ مصر میں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو کیا اس کے کان میں اذان دی جاتی ہے تو اس بڑے عجیب سے انداز میں میری طرف دیکھا نہیں میں سر ہلاتے ہوئے پوچھا کیا پاکستان میں ایسا ہوتا ہے میں نے ہاں میں سر ہلا دیا اس نے مجھے بتایا کے نبی کریم ص کے زمانے میں یاں صحابہ کرام رضی اللہ کے زمانے میں کسی کے عمل سے یہ ثابت نہیں... واللہ اعلم
بچہ تھوڑا بڑا ہوا تو فکر پڑ جاتی ہے کہ اب اس کو قرآن پاک کی تعلیم کے لیے مدرسے میں یاں مسجد میں داخل کروا دیا جاتا ہے جہاں جلالی سے چہرے والے قاری صاحب ا ب سے ابتداء کرواتے ہیں مانو نرم لہجہ یاں شائستگی تو قریب سے بھی نہیں گزری بچہ جو سبق رات کو اچھے سے ماں سے یاد کر کے سویا تھا صبح قاری صاحب کا جلالی چہرہ دیکھ کر بھول جاتا ہے تھوڑے دن اور گزرے جب قاری صاحب کو احساس ہو گیا اب یہ بچہ پکا ہو گیا ہے اور ماں باپ کو بچہ کا قرآن پاک ختم کرونا ہے تو سزا دینے کا طریقے بھی بدل گے کبھی بچے کی انگلیوں کےدرمیان میں پنسلیں رکھ کر آگے سے انگلیوں کو دبانے اور کبھی بچے کو کرسیی کی شکل میں کھڑے رہنے کو کہنا آئے دن بچے کی کمر پر بید کی چھڑی کے نشانات اور کبھی پانی والے پائپ کے نشان بچے کی کمر نہ ہوئی قاری صاحب کی تجربہ گا ہو گئی دیکھیں نشان پڑتا ہے کے نہیں اللہ اللہ کرتا بچہ قرآن پاک ختم کر لیتا ہے تو کہیں جا کر بچے کو سکون ملتا ہے..
میرا بات کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ آپ بچے کو دینی تعلیم سے آراستہ نہ کریں لیکن اتنا ضرور کہوں گئی خدارا آپ بچے کی نگرانی بھی کریں اب وہ دور نہیں ہے ہم پرانے تکیہ نویسی طریقہ کار سے ہی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں آج کل تو موبائل آپس میں بھی قرآن پاک دستیاب ہیں ایک ایک آیت کو ترجمہ اور تجوید کے ساتھ جتنی مرتبہ مرضی سن سکتے ہیں...
اگر آپ کسی ایسی گلی میں رہائش پذیر ہیں جس میں الگ الگ مکتبہ فکر کی دو مسجدیں ہیں تو آپ پھر ایک کام کریں یاں تو وہ مکان بیچ کر بھاگ جائیں نہیں تو میرے جیسے پکے مسلمان بن جائیں جی جی پکے مسلمان جب ہفتے میں دوبار آپ کو وعظ سننے کو ملے وعظ کم اور ایک دوسرے پر الزام تراشیاں زیادہ تو آپ ہوگئے نا پکے مسلمان مجھ پر جمعرات کی رات اور سوموار کی رات بہت بھاری گزارتی تھی اگر کبھی سخت نید آ رہی ہوتی روئی کانوں میں ڈالنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا جب تک مسجد کے اسپیکر سے آواز آنا بند نہیں ہو جاتی اگر کوئی مہمان آ جائے خدانخواستہ انہی دنوں میں تو وہ بیچارہ بھی ساری رات جگراتے میں گزار دیتا ہے مجھے سب سے زیادہ مشکل امتحانات کے دنوں میں ہوتی تھی میں اپنا کپڑے وغیرہ اٹھا کر چاچا کے ہاں چلی جاتی تھی یقین مانیں آج بھی ان دنوں مکتبہ فکر کے علماء کرام کے اختلافات کے بارے میں سوچتی ہوں تو بہت چھوٹے چھوٹے اختلافات ہیں کوئی بولتا کہ بغیر ڈارھی کے نماز نہیں ہوتی دوسرا کہتا کہ ننگے سر نماز نہیں ہوتی خیر کس کی نماز قبول ہوتی ہے کس کی نہیں یہ تو اللہ کی ذات بہتر جانتا ہے ہم کون ہوتے ہیں کسی کو غلط کہنے والے.
عدنان مجھے اکثر بتاتے ہیں کہ آج انھوں نے مغرب کی جماعت کی امامت کروئی آج ظہر کی نماز کی نماز کی امامت کروئی میں بہت حیران ہوئی کہ آپ کی تو ڈاڑھی بھی نہیں ہے تو آپ کیسے جماعت کروا سکتے ہیں آپ نے تو اکثر پینٹ شرٹ پہنی ہوتی ہے تب مجھے بتایا کے یہاں پاکستان والا حساب نہیں ہے میں نے فٹ سے پوچھا کیا یہاں پاکستان والا اسلام نہیں ہے تو مجھے کہتے ہیں ہاں یہاں پاکستان والا سلام نہیں ہے ہاں البتہ پاکستان میں یہاں والا اسلام ہے لیکن فرقہ واریت میں بٹا ہوا یہاں کوئی دیوبندی مسلک نہیں ہے کوئی بریلوی مسلک نہیں ہے کوئی اھلِحدیث مسلک نہیں ہے سب مسلمان ہیں ایک ہی امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں چاہے کوئی بھی ہو کوئی آمین اونچی آواز میں کہتا ہے اور کوئی دیہمی آواز میں کوئی رفعدین کرتا ہے کوئی نہیں کرتا اس لیے یہاں سب مسلمان ہیں...
جہاں تک معاملہ ہے مساجد کے لاؤڈ اسپیکرز سے بلند ہوتی آوازیں سو یہ خرابی مساجد یا مدارس کی نہیں بلکہ عمومی معاشرتی رویے کی ہے آپ کے گھر میں شادی ہے پریشانی میرا مقدر ہوگی کوئی سیاسی جلسہ ہے خوار پوری عوام ہوگی کوئی وی آئی پی موو منٹ ہے ذلت تمام لوگوں کا مقدر ٹھہرے گی .......

شور شرابے والی بر صغیر کی فطرت نے زندگی کے ہر ہر شعبے کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے ......

جہاں تک تعلق ہے نماز کی امامت کا کوئی بھی با شعور مسلمان یہ فریضہ سر انجام دے سکتا ہے اسلام کوئی پابندی نہیں لگاتا اور جہاں تک معاملہ ہے امامت کے لیے مخصوص استعداد کے حامل افراد کا تقرر تو یہ عمل الله کے رسول صل الله علیہ وسلم کی حیات مبارکہ سے جاری و ساری ہے .......

ایک امام کا تقرر در اصل اپنی ذمہ داری کسی قابل فرد کو تفویض کرنا ہے تاکہ یہ عمل تسلسل کے ساتھ جاری رہے ..........

دوسری جانب زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح دین بھی اس بات کا طالب ہے کہ عبادت کو مخصوص اہتمام کے ساتھ کیا جاوے خاص کر وہ اہتمام جو ہمیں الله کے رسول صل الله علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ان اعمال سے متعلق ملتا ہے ........
 
دور جدید کے مسلمانوں کا مزاج یہ ہے کہ وہ حکم لگانے میں دیر نہیں کرتے پہلے یہ کام علما سر انجام دیتے تھے اب ہر فرد میر و غالب ہے ..
محترم آج کا مسلمان سوال کرتا ہے آپ آنکھ بند کر کے تو کسی کی بات نہیں مان سکتے بلکہ میں تو یہ کہتی ہوں کے اگر آپ کوئی بھی مسئلہ کسی عالم سے یاں کسی مولوی سے دریافت کریں تو آنکھیں بند کر کے اعتبار مت کر لیں آپ سوال کریں.
کیوں؟
کیوں میں آپ کی بات مانوں کیوں اس بات پر عمل کروں کوئی دلیل ہے آپ کے پاس اس بات کی کیا نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کہ سے یہ بات ثابت ہے کیا صحابہ کرام رضی اللہ میں سے کسی نے بھی اس بات پر عمل کیا ہےاگر آپ مطمئن ہو تو اس بات پر عمل کریں.
 
اب یہاں ایک روحانی حکمت بھی جان لیجئے جب بچہ اس دنیا میں آتا ہے تو یہ ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف چھلانگ ہے یعنی عالم ارواح سے عالم دنیا کی جانب ایک روحانی سفر وہ وعدہ کہ جو خالق حقیقی نے عالم ارواح میں ہم سے لیا تھا اس عظیم روحانی تغیر کی وجہ سے لاشعور کے خانوں سے محو ہونے کا خطرہ موجود رہتا ہے یہ اذان دراصل روحانی اعتبار سے ایک یاد دہانی ہے چونکہ بچے کی مادی عقل کے در ابھی وا نہیں ہوتے اسلیے اسکی روح اس نورانی پیغام کو با آسانی قبول کر لیتی ہے لیکن ایک پختہ کار شخص پر اس کا اثر اتنا نہیں ہوتا کہ اس کی روحانیت مادیت کے پردوں تلے کہیں پوشیدہ ہو چکی ہوتی ہے
حسیب صاحب، دورِ حاضر میں سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ اکثر لوگ روحانیت کو اہمیت ہی نہیں دینا چاہتے۔ اگر کوئی دینی اُمور میں دلچسپی رکھتا ہے تو وہ بھی ظاہری اعمال پر ہی زیادہ زور دیتا ہے۔ گو کہ ظاہری اعمال بھی بہت ضروری ہیں اور اِن کے بغیر دین نامکمل ہے لیکن دیکھنا یہ بھی چاہیے کہ کیا اِن ظاہری اعمال کے ہماری روحانی حیثیت پر بھی کچھ مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں یا نہیں۔ مثلاََ اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ
اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنۡکَرِؕ وَلَذِکْرُ اللہِ اَکْبَرُؕ وَاللہُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوۡنَ﴿۴۵﴾
بیشک نماز منع کرتی ہے بے حیائی اور بُری بات سے اور بیشک اللّٰہ کا ذکر سب سے بڑا اور اللّٰہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو (العنکبوت-45)
لیکن کچھ لوگ نماز بھی پڑتے ہیں لیکن اُس کے باوجود بُرے کام کرتے ہیں، تو اِس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ قرآن کے فرمان میں کوئی کمی بیشی ہے بلکہ اُس نمازی کی نماز میں کمی بیشی ہے، اُس کے رزق میں کمی بیشی ہے جس کی وجہ سے وہ نماز تو ادا کر رہا ہے لیکن اُس کی نماز روحانی طور پر اُس کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہو رہی۔ جب اُس کی نماز اور اُس کا رزق ٹھیک ہوں گے تو پھر اُسے اپنی نماز سے روحانی بالیدگی حاصل ہو گی جو خود بخود اُسے گناہوں کی زندگی سے نفرت دلا کر سچی توبہ کی طرف مائل کر گی۔
نفسِ امّارہ کے خلاف جنگ بڑی ہی صبر آزما ہوتی ہے۔
 
جہاں تک بات ہے قاری حضرات کی تو یہ ایک معاشرتی مسلہ ہے ایک جانب قرآنی تعلیم ایک مسلمان کی زندگی کے لوازمات میں سے ہے تو دوسری جانب اس امر کو سر انجام دینے سے اکثر والدین قاصر ہیں اچھے بھلے تعلیم یافتہ لوگ قرآن کریم کو مجھول پڑھتے ہیں اور بعض اوقات یہ جہالت اس درجے کی ہوتی ہے کہ مطالب قرآنی ہی تبدیل ہو جاتے ہیں .......

دوسری طرف ایک طبقے کی روزی ہی اس فن سے منسلک ہے پچلے ادوار میں حکومت اسلامیہ یا شاہان و نوابین ان لوگوں کے معاشی مسائل کو دیکھتے تھے لیکن اسلامی جمہوریتوں میں اسلام کی جانب اتنی توجہ نہیں دی جاتی ....

اس کا ایک انتہائی قابل عمل طریقہ جو ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ جہاں بچے انتہائی بھاری فیسوں کے ساتھ نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں تو والدین (اگر انھیں اس تجارتی تعلیم کے دور میں صارفین کہا جاوے تو کچھ غلط نہ ہوگا ) تعلیمی اداروں کو مجبور کریں کہ وہ ناظرہ کی تعلیم کو لازم قرار دیں اور مستند قاری حضرات کو روزگار بھی فراہم کریں تو اس سے چند بنیادی فوائد حاصل ہونگے .....

١. قاری حضرت کے روزگار کا مسلہ حل ہوگا
٢. اسکول انتظامیہ کی نگرانی میں بچوں کی تعلیم ہوگی
٣. بچوں کے اوپر سے تعلیمی اوقات کا بوجھ کم ہوگا
٤. والدین کیلئے نگرانی آسان ہوگی
٥.قرآنی تعلیم کا رواج ہوگا .
بلکل ٹھیک کہا آپ نے محترم اکثر والدین کے ساتھ یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ قرآن پاک کو مجھول پڑھتے ہیں میرے خیال میں بچوں کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی اس قرآن پاک پڑھنے کی تعلیم لینی چاہیے.
میرے بڑے بھائی ماشاءاللہ سے حافظے قرآن ہیں لیکن بچوں کے معاملے میں تھوڑے سے لاپرواہی کر رہے ہیں ان کو ایک قاری کے سپرد کر دیا ان کے بڑے بیٹے کی عمر اب 14 سال ہو گئی ہے لیکن قرآن پاک ابھی تک ختم نہیں ہوا 8 سال سے قاری صاحب باقاعدہ گھر پر آ کر تعلیم دے رہیے ہیں 3 بچوں کے ماہانہ 15 سو روپے ادا کرتے ہیں اور قاری صاحب صرف 15 منٹ کے لیے آتے ہیں جب میں پاکستان گئی اور کچھ دن بھائی کے گھر پر روکی تو پتہ چلا کے وہ تو صرف اس لیے توجہ نہیں دے رہے کہ ان اگر بچوں کا قرآن ختم ہو گیا تو ان کے 15 سو روپے جاتے رہیں گے..
آپ یقین مانے ماشاءاللہ سے سب بچے زہین ہے مجھے خود سے سبق سناتے تھے
میں نے جب قرآن مجید پڑھا تھا تو اس وقت میری عمر 8 سال کی تھی...
خیر اگر آپ اس بات کو لیتے ہیں ماں باپ بچوں کی دنیاوی تعلیم پر زیادہ خرچ کرتے ہیں لیکن دینی تعلیم پر کچھ خرچ نہیں کرتے تو یہ بات بھی غلط ہے مثال آپ کے سامنے ہے.
 
ما شاءاللہ بڑی پر رونق محفل تھی،چند معروضات پیشں ہیں
1- حدیث شریف جب پیش کی جائے، اس کا احترام لازم ہے۔
2- اسلام دینِ فطرت ہے، نیت صاف ہو تو ایک تنکا بھی رہبری کر سکتا ہے۔
3- دین سیکھنے میں عاجزی اختیار کرنی چاہئے، اس میں کوئی چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔
4- اور دین سیکھنے کے لئے ایک ڈاکٹر یا انجینئر سے زیادہ باریک بیں ہونا شرط ہے۔
واللہ و اعلم و با الصواب
 
محترم آج کا مسلمان سوال کرتا ہے آپ آنکھ بند کر کے تو کسی کی بات نہیں مان سکتے بلکہ میں تو یہ کہتی ہوں کے اگر آپ کوئی بھی مسئلہ کسی عالم سے یاں کسی مولوی سے دریافت کریں تو آنکھیں بند کر کے اعتبار مت کر لیں آپ سوال کریں.
کیوں؟
کیوں میں آپ کی بات مانوں کیوں اس بات پر عمل کروں کوئی دلیل ہے آپ کے پاس اس بات کی کیا نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کہ سے یہ بات ثابت ہے کیا صحابہ کرام رضی اللہ میں سے کسی نے بھی اس بات پر عمل کیا ہےاگر آپ مطمئن ہو تو اس بات پر عمل کریں.
درست فرمایا سوال ضرور کرنا چاہئیے اس میں کوئی قباحت نہیں لیکن اس سے آگے بڑھ کر حکم لگانے سے گریز کرنا چاہئیے ............
 

arifkarim

معطل
اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ شراب حرام ہے احادیث مبارکہ میں بھی اس کی ممانعت ہے اور یہ بات اگر 3 یاں 4 مولویوں سے دریافت کریں تو ہر ایک کی بات میں تضاد نظر آئے گا کوئی بولے گا دوا کے طور پر جائز ہے اور چند قطروں کو جائز بولے گا اس لیے میرا نہیں خیال کہ ہمیں ایسا کرنا چاہیے
پہلے یہ علماء مسلمان ہونے کی تعریف پر تو اجماع کر لیں۔ پھر باقی چیزوں کا سوچیں گے۔

بالکل ہمارے مذہبی حالات دگرگوں ہونے کی وجہ یہی ہے کہ مولوی بننے کے لیے آپ کو سی ایس ایس یا پبلک سروس کمیشن کا کوئی مقابلے کا امتحان پاس نہیں کرنا پڑتا بلکہ عمومی کوالیفیکیشن یہی ہے کہ آپ اگر دنیا کے کسی بھی کام کے لیے ان فٹ ہیں تو جھٹ سے سُنتِ رسول چہرے پر سجائیں اور پھر کوئی مسجد منبر سنبھال کر ساری عمر کے لیے بےفکر ہو جائیں یقینا" استثنائی مثالیں موجود ہیں اور اچھے اہل لوگ بھی نظر آجاتے ہیں مگر عمومی صورتِ حال اتنی ہی خراب ہے۔
کچھ مسلمان ممالک جیسے ترکی، ایران اور ملائیشیا نے اس سلسلہ میں حکومتی لیول پر اسٹینڈرڈائزڈ ٹیسٹ بنائے ہوئے ہیں۔ جنہیں پاس کئے بغیر آپ کسی مسجد کی امامت نہیں کروا سکتے۔
 

آوازِ دوست

محفلین
پہلے یہ علماء مسلمان ہونے کی تعریف پر تو اجماع کر لیں۔ پھر باقی چیزوں کا سوچیں گے۔


کچھ مسلمان ممالک جیسے ترکی، ایران اور ملائیشیا نے اس سلسلہ میں حکومتی لیول پر اسٹینڈرڈائزڈ ٹیسٹ بنائے ہوئے ہیں۔ جنہیں پاس کئے بغیر آپ کسی مسجد کی امامت نہیں کروا سکتے۔
پاکستانی فیصلہ ساز دیکھیں اس طرح کے غیر اہم امور کے لیے کب اپنا قیمتی وقت نکال پاتے ہیں :)
 
شرعی طور پر فرض نہیں ہے۔ البتہ بہتر ہے کہ آذان دیں
داڑھی بھی فرض نہیں ہے بلکہ سنت ہے۔ سنت پر عمل تو ہر سنی کرتا ہے ۔ ورنہ لوگ کہیں کہ سن سن کر سنی ہوا ہے بلکہ سن ہوگیاہے۔
خان صاحب، سر جی آپ کس کس سنت پر عمل کرتے ہیں۔ نبی اکرم نے گیارہ شادیاں کی ۔۔ آپ یہاں سے شروع کیجئے ، اپنے گیارہ ولیمہ پر سب اہل محفل کو دعوت دیجئے تب تلقین کیجئے۔ میں آپ کی من پسند ، جی "من پسند" سنتوں کا بہت ہی مخالف ہوں۔ اپ دونوں نکات قرآن حکیم سے ثابت کیجئے۔ یہ سنی سنائی کہانیوں پر مذہب کی داغ بیل کیوں ڈالتے ہیں ؟ زیاد تر سنی اللہ کے فرمان قرآن کے احکام جانتے سب ہیں لیکن مانتے کچھ نہیں -- قرآن پڑھئے اور اس کے سنہری اصولوں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کیجئے۔ آپ خود ہی ڈاڑھی، پتلون کے پیر پھیر سے باہر آجائیں گے اور سچے مسلمان بن جائیں گے ۔

والسلام
 
Top