کیا آپ پکے مسلمان ہیں؟

چوہدری صاحب ہماری طرف ابھی بھی اِسلام کا بول بالا لاؤڈ سپیکر کے ذریعے ہی کیا جا رہا ہے۔ ہمارے علاقے میں اِتنے نمازی نہیں ہیں کہ ماشاء اللہ جتنی مسجدیں ہیں۔ آپ یقین کریں کہ آذان جیسے خوبصورت عمل کو ایسے طریقے سے سرانجام دیا جاتا ہے کہ ہر روز پانچ مرتبہ علاقہ میدانِ جنگ کا نقشہ پیش کرتا ہے ۔ساتھ ساتھ موجود گلیوں میں تقریبا" ہر گلی اپنی مسجد رکھتی ہے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایک مسجد کی لاؤڈ سپیکر سے آذان مقامی آبادی کی اطلاع کے لیے کافی و شافی ہو گی کوئی مسجد بھی لاؤڈ سپیکر استعمال کرنے کے ثواب سے محروم نہیں رہتی۔ ختمِ قُرآن کی رات مرے پر سو دُرے کے مصادق ایک اور امتحان ہے جِس میں لاؤڈ سپیکر پر فاسٹ فارورڈ موڈ میں تلاوت کی جاتی ہے اور ایک ہی رات میں قُرآنِ پاک ختم کرنے کی اور اہلِ علاقہ کو سُننے کی فضیلت سے شادکام کیا جاتا ہے۔ ہفتے کے سات دِن چندے کی وصولی کا باہمی مقابلہ بھی چلتا ہے اور چندہ دینے والے خوش نصیبوں کے نام اوّل و آخر طویل دُعائیہ سلسلے کے پُکارے جاتے ہیں اور عطیہ کی گئی رقم بھی ساتھ ہی اعلان کر دی جاتی ہے تاکہ دیگر سامعین بھی اپنے سوئے بخت جگا سکیں۔ ایک دو امام مسجد تہجد کی آذان کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ گیارہویں شریف کا چندہ اور لنگر ایک علیحدہ مضمون کا متقاضی ہے۔ ہم آپ جیسے احباب اور میڈیا سے بڑی حسرت سے ایسی خبریں سُنتے ہیں کہ لاؤڈ سپیکر کا جن بوتل میں بند ہو گیا ہے لیکن دیگر علاقوں میں اگر ایسا ہوا ہے تو بڑی بات ہے ہمارے تو سب مولوی صاحبان ایسی غیر شرعی قانون سازی کے خلاف گویا الٰہ دین کا چراغ رکھتے ہیں :)
اذان اور خطبہ جمتہ المبارک کے علاوہ اگر سپیکر کا بے جا استعمال عام ہے اور اگر آپ کے علاقے میں کونسلر صاحبان آ چکے ہیں تو ان سے معتبرین محلہ کے ساتھ مل کر ایک ملاقات کا اہتمام کیجیے اور اپنی ساری معروضات و تکلیفات و تجویزات کہہ ڈالیے۔
بصورت دیگر علاقہ کے ایس ایچ او کو ایک درخواست بهیج دیجیے وہ کچھ نا کچھ ضرور کریں گے۔
باقی اذان ایک ہو یہ ناممکن سی بات لگتی کہ ایسا تو سعودیہ میں بهی نہیں ہوتا جہاں ہر گلی میں مسجد ہے اور وہاں مکمل نماز بهی سپیکر میں پڑهی جا رہی ہوتی
 
سمجھ نہیں آیا اس بات میں اتنی بحث مباحثے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے ... یہ دلیل کافی نہیں ہے کیا ...؟
اور بہتر نہیں ہے کھ ..

"سب سے پہلے ابن آدم کے کان میں وہ کلمات پہنچیں جن میں اللہ کی کبریائی اور عظمت ہو ،۔ ۔ جیسے آخری سانس کے وقت اسے کلمۂ توحید کی تلقین ہوتی ہے۔"
صحيح
 
اب معلومات ہی ناقص ہیں تو بندہ....کیا جواب دے ....( یا ایک عالمانہ سی انکساری ہے یہ...)
عالمانہ انکساری بھائی میں کیا اور میری بساط کیا عالموں کی محفل میں ہوں اپنے حصے کا علم سمیٹنے کی کوشش کر رہی ہوں باقی آپس کی بات ہے معلومات تو میری ناقص ہی ہیں لیکن محفل میں آکر میری معلومات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے
 
نومولود کے کان میں اذان دینا احادیث کی روشنی میں
شرَع کی رُو سے نومُولود کے کانوں میں اذان دینا جائز اور مسنون عمل ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے :
ابو رافع رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ
میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب حضرت حسن پیدا ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کان میں اذان دی ۔

ترمذی ، كتاب الاضاحى عن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم ، باب : الاذان في اذن المولود ، حدیث : 1596
مسند احمد ، المجلد السادس ، حديث ابي رافع رضي الله عنه ، حدیث : 22749
ابو داؤد ، كتاب الادب ، باب : في الصبي يولد فيؤذن في اذنه ، حدیث : 5107
تخریج :
- امام ترمذی نے "حسن صحیح" کہا
- شیخ شعیب الارنؤوط نے حاشیہ "شرح السنة" میں "قوی" کہا۔

امام حسین رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’جس کے ہاں بچے کی ولادت ہو تو وہ اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اِقامت کہے، اس کی برکت سے بچے کی ماں کو کوئی چیز نقصان نہ پہنچا سکے گی۔‘‘
ابو یعلی، المسند، 12 : 150، رقم : 6780

نومولود کے کان میں اذان دینے کا فلسفہ کیا ہے اِس پر ابنِ قیم کا قول نقل کر رہا ہوں۔
امام ابن قیم نے اپنی کتاب "تحفة المودود باحکام المولود" میں ، نومولود کے کان میں اذان دینے کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
أول ما يقرع سمع الإنسان كلماته المتضمنة لكبرياء الرب وعظمته والشهادة التي أول ما يدخل بها في الإسلام فكان ذلك كالتلقين له شعار الإسلام عند دخوله إلى الدنيا كما يلقن كلمة التوحيد عند خروجه منها۔
سب سے پہلے ابن آدم کے کان میں وہ کلمات پہنچیں جن میں اللہ کی کبریائی اور عظمت ہو ، وہ شہادت جو انسان کو اسلام میں داخل ہونے کے لیے ضروری ہے۔ گویا یہ اس کے لیے دنیا میں پہلا سانس لیتے وقت اسلام کی تلقین ہے جیسے آخری سانس کے وقت اسے کلمۂ توحید کی تلقین ہوتی ہے۔
حوالہ :
الباب الرابع : في استحباب التأذين في أذنه اليمنى والإقامة في أذنه اليسرى
تحفة المودود بأحكام المولود
ابن قيم الجوزية
گُزارش
گُزارش ہے کہ جب بھی کسی اسلامی عقیدے یا عمل کے بارے میں لکھنا ہو تو فقظ اپنی رائے کا اظہار کرنے یا سُنی سُنائی بات کو تحریر کی زینت بنانے کی بجائے پہلے خود اُس مسئلہ پر پوری تحقیق کر لیا کریں، تا کہ غلطی کا امکان کم سے کم ہو۔کیونکہ تحریر اشاعت کے بعد آپ کی دسترس سے نکل کر قارئین کے ذہن تک پہنچ چُکی ہوتی ہے۔ آپ نے جس مصری عورت سے شرعی مسئلہ دریافت کیا تھا وہ خود لا علم تھی اور اُس نے آپ کو غلط معلومات فراہم کیں، اور آپ نے اُس کے عربی النسل ہونے کی وجہ سے اُس کی بات پر یقین کر لیا۔ ضروری نہیں کہ عربوں میں سارے پڑھے لکھے ہوں، وہاں بھی اَن پڑھ موجود ہیں، کسی کی انگریزی سے واقفیت اُس کے علمِ دین میں مستند ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ خود سے کی ہوئی تحقیق انسان کو نا صرف علمی طور پر فائدہ دیتی ہے بلکہ پڑھنے والے کا بھی بھلا ہوتا ہے۔
بھائی مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی کہ میری تحریر کو ایک دینی مسئلہ بنانے کی کیا ضرورت ہے میری اور مصری خاتون کی بات چیت کوئی شرعی مسئلے پر نہیں تھی وہ تو روزمرہ باتوں کے درمیان میں ایک بات نکل آئی خیر جب قرآن پاک اور حدیثِ نبوی موجود ہے تو مجھے کسی اور کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے ہے شرعی مسئلے کے لیے
 

اکمل زیدی

محفلین
عالمانہ انکساری بھائی میں کیا اور میری بساط کیا عالموں کی محفل میں ہوں اپنے حصے کا علم سمیٹنے کی کوشش کر رہی ہوں باقی آپس کی بات ہے معلومات تو میری ناقص ہی ہیں لیکن محفل میں آکر میری معلومات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے

اررے..معذرت میں تو یوں ہی۔۔۔ مذاق میں کہھ رہا تھا ..لیکن حقیقت ہے ..یہاں واقعی سیکھنے کو مل رہا ہے ... اور ...آپ کا شوق اور ذوق ... ماشا الله
 

اکمل زیدی

محفلین
بھائی مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی کہ میری تحریر کو ایک دینی مسئلہ بنانے کی کیا ضرورت ہے میری اور مصری خاتون کی بات چیت کوئی شرعی مسئلے پر نہیں تھی وہ تو روزمرہ باتوں کے درمیان میں ایک بات نکل آئی خیر جب قرآن پاک اور حدیثِ نبوی موجود ہے تو مجھے کسی اور کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے ہے شرعی مسئلے کے لیے

یہاں ایک وضاحت ...جب میں دین کی بات آئے گی یا باتوں میں دین آئے گا ...(چاہے روز مرّہ کی ہی ہو ) اس کے تقاضے کو بہر حال ملحوظ رکھنا پڑے گا اور یہ کہنا کے قرآن اور حدیث ہے تو مجھے کسی کے پاس جانے کی کیا ضرورت تو یہ ایک غلط رجحان ہے ( جب بیمار ہونے پر ہم دوا خود سے نہیں لے سکتے ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں) تو دینی معاملات کو اتنا ہلکا کیوں لیتے ہیں ہم ..تو دینی معاملات میں بہر حال علماء سے ضرور رابطہ کرنا چاہیے ( آن لائن علماء سے بہتر ہے بالمشافہ پوچھا جائے ).
 

آوازِ دوست

محفلین
یہاں آذان کے شور پر میرے ذہن میں اک خیال آیا ہے
آپ کی اِس بات سے مجھے بھی ایک خیال آیا ہے بلکہ کُچھ یاد آیا ہے کسی جگہ پڑھا تھا کہ مرحومہ بے نظیر بھٹو صاحبہ ایک مرتبہ حاضرین کو اپنے جذبہء ایمانی کی جھلک دکھانے کے لیے آذان کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتی ہیں " خاموش ہو جائیں، آذان بج رہا ہے " :)
آذان مذہبی تقدیس کے علاوہ بھی ایک خوبصورت چیز ہےلیکن شرط یہ ہے کہ یہ کام اُسے ہی سونپا جائے جو اِسے کماحقہ نبھا سکے اور اگر لاؤڈ سپیکر پر آذان دی جا رہی ہو تو اِس کا والیم مناسب حد تک رکھا جائے اور ایک ہی علاقے میں زیادہ مساجد ہوں تو بیک وقت آذان پڑھنے یا ایک لمبی قطار میں باری باری پڑھنے کی بجائے مساجد میں اوقات یا دِن تقسیم کر کے پڑھی جائے۔ وہ کہتے ہیں نا " ایکسس آف ایوری تھنگ اِز بیڈ" :)
 
یہاں ایک وضاحت ...جب میں دین کی بات آئے گی یا باتوں میں دین آئے گا ...(چاہے روز مرّہ کی ہی ہو ) اس کے تقاضے کو بہر حال ملحوظ رکھنا پڑے گا اور یہ کہنا کے قرآن اور حدیث ہے تو مجھے کسی کے پاس جانے کی کیا ضرورت تو یہ ایک غلط رجحان ہے ( جب بیمار ہونے پر ہم دوا خود سے نہیں لے سکتے ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں) تو دینی معاملات کو اتنا ہلکا کیوں لیتے ہیں ہم ..تو دینی معاملات میں بہر حال علماء سے ضرور رابطہ کرنا چاہیے ( آن لائن علماء سے بہتر ہے بالمشافہ پوچھا جائے ).
اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ شراب حرام ہے احادیث مبارکہ میں بھی اس کی ممانعت ہے اور یہ بات اگر 3 یاں 4 مولویوں سے دریافت کریں تو ہر ایک کی بات میں تضاد نظر آئے گا کوئی بولے گا دوا کے طور پر جائز ہے اور چند قطروں کو جائز بولے گا اس لیے میرا نہیں خیال کہ ہمیں ایسا کرنا چاہیے
 

آوازِ دوست

محفلین
اذان اور خطبہ جمتہ المبارک کے علاوہ اگر سپیکر کا بے جا استعمال عام ہے اور اگر آپ کے علاقے میں کونسلر صاحبان آ چکے ہیں تو ان سے معتبرین محلہ کے ساتھ مل کر ایک ملاقات کا اہتمام کیجیے اور اپنی ساری معروضات و تکلیفات و تجویزات کہہ ڈالیے۔
بصورت دیگر علاقہ کے ایس ایچ او کو ایک درخواست بهیج دیجیے وہ کچھ نا کچھ ضرور کریں گے۔
باقی اذان ایک ہو یہ ناممکن سی بات لگتی کہ ایسا تو سعودیہ میں بهی نہیں ہوتا جہاں ہر گلی میں مسجد ہے اور وہاں مکمل نماز بهی سپیکر میں پڑهی جا رہی ہوتی
اسلام آباد میں تو سُنا ہے آذان کا ایک وقت مقرر ہونے جا رہا ہے باقی شہروں میں بھی یہ کام کسی قواعد و ضوابط کے تحت آئیں تو اچھا ہے تراش خراش اور ضروری روک ٹوک تہذیب کی ضرورت ہے ورنہ تو معاشرتی نقشہ ایک خود رو جھاڑی کا سا ہی بنے گا :)
 

اکمل زیدی

محفلین
اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ شراب حرام ہے احادیث مبارکہ میں بھی اس کی ممانعت ہے اور یہ بات اگر 3 یاں 4 مولویوں سے دریافت کریں تو ہر ایک کی بات میں تضاد نظر آئے گا کوئی بولے گا دوا کے طور پر جائز ہے اور چند قطروں کو جائز بولے گا اس لیے میرا نہیں خیال کہ ہمیں ایسا کرنا چاہیے
میں نے بہر حال اور آل بات کی تھی.... مگر جب آپ کو "اپنا خیال " ہی مقدم رکھنا ہے تو ....... :)
 
آپ کی اِس بات سے مجھے بھی ایک خیال آیا ہے بلکہ کُچھ یاد آیا ہے کسی جگہ پڑھا تھا کہ مرحومہ بے نظیر بھٹو صاحبہ ایک مرتبہ حاضرین کو اپنے جذبہء ایمانی کی جھلک دکھانے کے لیے آذان کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتی ہیں " خاموش ہو جائیں، آذان بج رہا ہے " :)
آذان مذہبی تقدیس کے علاوہ بھی ایک خوبصورت چیز ہےلیکن شرط یہ ہے کہ یہ کام اُسے ہی سونپا جائے جو اِسے کماحقہ نبھا سکے اور اگر لاؤڈ سپیکر پر آذان دی جا رہی ہو تو اِس کا والیم مناسب حد تک رکھا جائے اور ایک ہی علاقے میں زیادہ مساجد ہوں تو بیک وقت آذان پڑھنے یا ایک لمبی قطار میں باری باری پڑھنے کی بجائے مساجد میں اوقات یا دِن تقسیم کر کے پڑھی جائے۔ وہ کہتے ہیں نا " ایکسس آف ایوری تھنگ اِز بیڈ" :)
ایک بات اور بھائی مسجدوں میں جو خادم حضرت اذان دینے کے لیے مقرر کئے گئے ہیں یاں تو اتنے چھوٹے ہوتے کہ اذان کے الفاظ کا تلفط کیا بول رہے ہیں کچھ پتا نہیں یاں اتنے پرانے ہوں گے کہ کانپتی ہوئی آواز میں کب اذان ختم ہو گئی یہ بھی پتا نہیں چلا بوڑھے حضرت جو بچپن اور جوانی اپنی شرائط پر گزار کر آتے ہیں لیکن بڑھاپا مسجدوں کے سپرد کر دیتے ہیں
 
اسلام آباد میں تو سُنا ہے آذان کا ایک وقت مقرر ہونے جا رہا ہے باقی شہروں میں بھی یہ کام کسی قواعد و ضوابط کے تحت آئیں تو اچھا ہے تراش خراش اور ضروری روک ٹوک تہذیب کی ضرورت ہے ورنہ تو معاشرتی نقشہ ایک خود رو جھاڑی کا سا ہی بنے گا :)
میں یہ سمجهتا ہوں کہ دنیا کے ہر مسئلے کا حل بات چیت اور مزاکرات کرنے میں ہے۔

ایک اشتہار آتا تها۔۔۔۔۔۔۔۔تها تو ایک مخصوص پیغام کے لیے, ;)لیکن اس کا اختتام کچھ یوں ہوتا تها۔

بات کرو گے تو بات بنے گی
 

آوازِ دوست

محفلین
میں یہ سمجهتا ہوں کہ دنیا کے ہر مسئلے کا حل بات چیت اور مزاکرات کرنے میں ہے۔

ایک اشتہار آتا تها۔۔۔۔۔۔۔۔تها تو ایک مخصوص پیغام کے لیے, ;)لیکن اس کا اختتام کچھ یوں ہوتا تها۔

بات کرو گے تو بات بنے گی
اُس اشتہار کے حالات میں تو شائد لوگ بات کرتے ہی اِس لیے نہیں ہیں کہ بات کرنے سے کہیں بات مزید نہ بگڑ جائے اور معاملہ کم و بیش مذکورہ حالات کا بھی یہی ہے۔ خواہ کسی کو پہلے کلمہ کا مطلب معلوم نہ ہو وہ ایک منٹ میں آپ کو سکہ بند کافر، فاجر ، ملحد و ملعون وغیرہ کی سند پکڑا دے گا تو بعض ضروری مذاکرات اِن جان لیوا خدشات کی بناء پر زیرِ التوا رہتے ہیں :)
 

آوازِ دوست

محفلین
ایک بات اور بھائی مسجدوں میں جو خادم حضرت اذان دینے کے لیے مقرر کئے گئے ہیں یاں تو اتنے چھوٹے ہوتے کہ اذان کے الفاظ کا تلفط کیا بول رہے ہیں کچھ پتا نہیں یاں اتنے پرانے ہوں گے کہ کانپتی ہوئی آواز میں کب اذان ختم ہو گئی یہ بھی پتا نہیں چلا بوڑھے حضرت جو بچپن اور جوانی اپنی شرائط پر گزار کر آتے ہیں لیکن بڑھاپا مسجدوں کے سپرد کر دیتے ہیں
بالکل ہمارے مذہبی حالات دگرگوں ہونے کی وجہ یہی ہے کہ مولوی بننے کے لیے آپ کو سی ایس ایس یا پبلک سروس کمیشن کا کوئی مقابلے کا امتحان پاس نہیں کرنا پڑتا بلکہ عمومی کوالیفیکیشن یہی ہے کہ آپ اگر دنیا کے کسی بھی کام کے لیے ان فٹ ہیں تو جھٹ سے سُنتِ رسول چہرے پر سجائیں اور پھر کوئی مسجد منبر سنبھال کر ساری عمر کے لیے بےفکر ہو جائیں یقینا" استثنائی مثالیں موجود ہیں اور اچھے اہل لوگ بھی نظر آجاتے ہیں مگر عمومی صورتِ حال اتنی ہی خراب ہے۔
 

اکمل زیدی

محفلین
بالکل ہمارے مذہبی حالات دگرگوں ہونے کی وجہ یہی ہے کہ مولوی بننے کے لیے آپ کو سی ایس ایس یا پبلک سروس کمیشن کا کوئی مقابلے کا امتحان پاس نہیں کرنا پڑتا بلکہ عمومی کوالیفیکیشن یہی ہے کہ آپ اگر دنیا کے کسی بھی کام کے لیے ان فٹ ہیں تو جھٹ سے سُنتِ رسول چہرے پر سجائیں اور پھر کوئی مسجد منبر سنبھال کر ساری عمر کے لیے بےفکر ہو جائیں یقینا" استثنائی مثالیں موجود ہیں اور اچھے اہل لوگ بھی نظر آجاتے ہیں مگر عمومی صورتِ حال اتنی ہی خراب ہے۔
سو فیصد ...متفق ...ایسا ہی ہے ... حالاں کہ ..دنیاوی اعتبار سے جتنی اہم جاب ہوتی ہے اتنا ھی بڑا اور کٹھن امتحان ہوتا ہے ..
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اس دھا گے سے متعلق شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو گا جس کے کان میں پیدائشی اذان نہ دی گئی ہو ۔:)۔ یقین نہ آئے تو اپنے والدین یا بڑوں سے تصدیق کروالیں بسا اوقات توموذن تک کا پتہ چل جائے گا:)۔
اگر احآدیث میں اتنا بھی تذکرہ موجود ہے ۔ تو اس کے ہونے اور کرنے میں کیا قباحت ہے ۔ خواہ مخواہ کسی چیز کو مسئلہ بنانے سے کچھ مثبت حاصل نہیں ہوتا ۔
 

اکمل زیدی

محفلین
اس دھا گے سے متعلق شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو گا جس کے کان میں پیدائشی اذان نہ دی گئی ہو ۔:)۔ یقین نہ آئے تو اپنے والدین یا بڑوں سے تصدیق کروالیں بسا اوقات توموذن تک کا پتہ چل جائے گا:)۔
اگر احآدیث میں اتنا بھی تذکرہ موجود ہے ۔ تو اس کے ہونے اور کرنے میں کیا قباحت ہے ۔ خواہ مخواہ کسی چیز کو مسئلہ بنانے سے کچھ مثبت حاصل نہیں ہوتا ۔
سر جی ...چلنے دیں ایک صحت مند ..موضوع ..چل نکلا ہے ...اور یہاں کوئی کسی کو نیگیٹو ریٹنگ بھی نہیں دے رہا ..."چھوٹی چھوٹی" ..." بڑی" باتیں پتا چل جائینگی اس دھاگے میں ....
 
Top