کیا آپ پکے مسلمان ہیں؟

رحمن ملک

محفلین
اسی عالمانہ چشمک اور بحث برائے بھتری کے لیے اس فورم میں آمد ھوئی ۔ھے ۔اللہ ھم سب کو دین کی سمجھ عطا فرمایئے ۔امین ۔ کیونکہ اللہ پاک جس کی بھلائی چاھتے ھیں۔اس کو دین کی سمجھ عطا کر دیتے ھیں۔
 

عادل اسحاق

محفلین
آپ کی اِس بات سے مجھے بھی ایک خیال آیا ہے بلکہ کُچھ یاد آیا ہے کسی جگہ پڑھا تھا کہ مرحومہ بے نظیر بھٹو صاحبہ ایک مرتبہ حاضرین کو اپنے جذبہء ایمانی کی جھلک دکھانے کے لیے آذان کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتی ہیں " خاموش ہو جائیں، آذان بج رہا ہے " :)
آذان مذہبی تقدیس کے علاوہ بھی ایک خوبصورت چیز ہےلیکن شرط یہ ہے کہ یہ کام اُسے ہی سونپا جائے جو اِسے کماحقہ نبھا سکے اور اگر لاؤڈ سپیکر پر آذان دی جا رہی ہو تو اِس کا والیم مناسب حد تک رکھا جائے اور ایک ہی علاقے میں زیادہ مساجد ہوں تو بیک وقت آذان پڑھنے یا ایک لمبی قطار میں باری باری پڑھنے کی بجائے مساجد میں اوقات یا دِن تقسیم کر کے پڑھی جائے۔ وہ کہتے ہیں نا " ایکسس آف ایوری تھنگ اِز بیڈ" :)

اچھی ترکیب ہے لیکن ایسے تو نمازوں کے اوقات میں بہت گڑبڑ ہو جائے گی ۔
اور
معذرت میں کسی کو نشانہ نہیں بنا رہا لیکن ایک حدیث کے مطابق اذان و نماز کا عمل منافقین پر بھاری گزرتا ہے ۔

دوسری بات یہ کہ اذان ایک فرض کفایہ ہے ۔ جیسا کہ

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ احادیث سے ثابت ہے ۔

اس ضمن میں کچھ احادیث پڑھ لیں بہتر ہو گا

صحیح البخاری حدیث نمبر 604
جامع ترمذی حدیث نمبر 205
سنن نسائی حدیث نمبر 634

دین بہت آسان ہے لیکن ہم خود مشکل بنا چکے ہیں ۔
 

آوازِ دوست

محفلین
اچھی ترکیب ہے لیکن ایسے تو نمازوں کے اوقات میں بہت گڑبڑ ہو جائے گی ۔
اور
معذرت میں کسی کو نشانہ نہیں بنا رہا لیکن ایک حدیث کے مطابق اذان و نماز کا عمل منافقین پر بھاری گزرتا ہے ۔

دوسری بات یہ کہ اذان ایک فرض کفایہ ہے ۔ جیسا کہ

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ احادیث سے ثابت ہے ۔

اس ضمن میں کچھ احادیث پڑھ لیں بہتر ہو گا

صحیح البخاری حدیث نمبر 604
جامع ترمذی حدیث نمبر 205
سنن نسائی حدیث نمبر 634

دین بہت آسان ہے لیکن ہم خود مشکل بنا چکے ہیں ۔
عادل صاحب عدل کا تقاضا تو یہ ہے کہ آپ دی گئی تجاویز سے مدلل اختلاف کریں اور اگر ممکن ہو تو بہتر تجاویزعنائت کریں۔ فرضِ کفایہ کا جو مطلب مجھے معلوم ہے وہ تو میری بات کی تائید ہی کر رہا ہے۔ باقی احادیث ہم نے زیادہ نہیں پڑھی ہوئیں لیکن جو چند ایک پڑھی ہیں اُن میں سے ایک کے مطابق تو آپ صلی اللّہ و علیہِ وسلم نے صحابہ کرام کو پڑوس کی مشترکہ دیوار کے ساتھ بیٹھ کر باآوازِ بلند قرآنِ پاک کی تلاوت سے بھی منع فرمایا ہے کہ مبادا" ہمسایہ کو بلند آواز سے تکلیف ہو۔ رہی بات منافقت کی توجیسے ہم آپ جیسے اچھے مومن نہ بن سکے ہیں ایسے ہی اُمید تو ہے کہ ہمیں اچھے منافقین میں بھی کسی قابل نہ سمجھا جائے گا :)
 
اپنے اپنے مشاہدے کی بات ہے ۔ ورنہ میں نے الحمدللہ حفظ کیا ہے تجوید پڑھی ہے اور قرأت میں بھی کچھ ماہ پڑھتا رہا
کچھ
عجیب محسوس کریں گی آپ یہ جان کر کہ مجھے تقریباً اس دینی تعلیم کے لگ بھگ تین سالہ عرصہ میں دو بار مار پڑی ہے اور وہ بھی میری غلطی کی بناء پہ ۔

دوسرا آپ کا اعتراض یہاں کا اسلام اور وہاں کا اسلام ۔ تو میری بہنا یہ
ہماری ایک بے حد بری عادت کہہ لیں یا کچھ اور کہ ہمارے ہاں مدرسہ میں دینی تعلیم کے لیے اس بچے کو کوداخل کرواتے ہیں جو کند ذہن ہو یا جسے سکولنگ کروانے کے لیے پیسے نا ہوں تو آپ سوچ سکتی ہیں کہ مستقبل میں وہ کند ذہن بچہ کیسے ایک محقق ایک اسکالر بنے گا نہیں وہ بس اپنے استاد کے پیچھے لکیر کا فقیر بنے گا ۔

اب آپ سے میرا ایک سوال ۔ آپ کیا اپنے بچوں کو دینی سکالر بنائیں گی ۔ نہیں کیونکہ وہ تو ملا ہوتا ہے اورہمارے ہاں تو افسری چاہیے سب کو ۔
ماشاءاللہ یہ تو بڑی اچھی بات ہے تجوید بھی پڑھی اور حافظ بھی ہیں اللہ آپ کو باعمل حافظ بنائے آمین.
میرا خیال ہے ہے جس مدرسے سے آپ نے تعلیم حاصل کی ہے ویسے مدرسوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے سو میں سے کوئی دس یاں پندرہ مدرسے ایسے ہوں گے
بات وہاں کے اسلام کی یاں یہاں کے اسلام کی نہیں ہے میرا خود کا مشاہدہ ہے پاک و ہند میں بہت سی چیزیں اسلام میں صرف اس لیے داخل کی گئی ہیں کہ اپنا مولانا حضرت کی روزی روٹی کا ذریعہ بنا رہے.
آپ یقین کریں میرے بیٹے کے لیے میری تفصیل کے ساتھ بات چیت ہوئی ہے عدنان سے انہوں نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ ڈاکٹر کا بیٹا بھی ڈاکٹر ہی بنے گا وہ تو کہتے ہیں جب تک وہ اپنے فیصلے خود نہیں کرتا تب تک ہم اس کی مدد کریں گے اگر وہ دین کی طرف راغب ہوتا ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا
 

عادل اسحاق

محفلین
عادل صاحب عدل کا تقاضا تو یہ ہے کہ آپ دی گئی تجاویز سے مدلل اختلاف کریں اور اگر ممکن ہو تو بہتر تجاویزعنائت کریں۔ فرضِ کفایہ کا جو مطلب مجھے معلوم ہے وہ تو میری بات کی تائید ہی کر رہا ہے۔ باقی احادیث ہم نے زیادہ نہیں پڑھی ہوئیں لیکن جو چند ایک پڑھی ہیں اُن میں سے ایک کے مطابق تو آپ صلی اللّہ و علیہِ وسلم نے صحابہ کرام کو پڑوس کی مشترکہ دیوار کے ساتھ بیٹھ کر باآوازِ بلند قرآنِ پاک کی تلاوت سے بھی منع فرمایا ہے کہ مبادا" ہمسایہ کو بلند آواز سے تکلیف ہو۔ رہی بات منافقت کی توجیسے ہم آپ جیسے اچھے مومن نہ بن سکے ہیں ایسے ہی اُمید تو ہے کہ ہمیں اچھے منافقین میں بھی کسی قابل نہ سمجھا جائے گا :)

محترم میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ میں کسی کو بھی نشانہ نہیں بنا رہا میں نے بات کی دلیل دی تھی
دوئم ۔ اذان کا لغوی معنی اعلام کے ہیں یعنی معلوم کروانے کے ۔
اذان شرع میں کس طرح سے آئی اس کا بیک گراؤنڈ یہ ہے کہ اذان کے مسئلہ پہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو واضح ہدایت نا ملی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ ناقوس پہ متفق ہوے اگرچہ یہ عمل عیسائیت سے ملتا جلتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پہ خوش بھی نا تھے تو لمبی حدیث روایت کی گئی ہے یہ بہر حال ایک صحابی کو اذان خواب میں سکھلائی گئی اگلے دن فجر میں صحابی نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح کا ایک اپنا خواب بیان کیا ۔
مختصراً یہ کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن زید بن عبدالرب رضی اللہ عنہ کو کہا کہ یہ کلمات بلال رضی اللہ عنہ کو سکھلا دو وہ زیادہ بلند آواذ والا ہے

حوالہ جات : سنن ترمذی حدیث نمبر 189
سنن ابوداؤد 499
سنن ابن ماجہ 706

احادیث میں اذان کا بلند آواذ میں کہنا ہی ثابت ہے۔ اور پھر کچھ احادیث میں آتا ہے کہ جہاں جہاں موذن کی اذان پہنچتی ہے ہر سننے والی چیز اس کی گواہی دے گی تو بھائی اس لیے اذان کو بلند آواذ میں کہا جاتا ہے ۔
باقی
اس بات سے میں بھی متفق ہوں کہ بے جا لاؤڈ سپیکر کا استعمال مساجد کے قریبی گھروں میں سمعی تکلیف کا باعث ہے لیکن
یہ طریقہ شرع سے بھی ثابت نہیں ۔
میں خود اکثر حیران ہوتا ہوں جب ہمارے علماء ایک گھنٹے کا جمعہ پڑھاتے ہیں جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی مختصر جمعہ پڑھاتے تھے حتی کہ جمعہ کی نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ سے لمبی ہوتی تھی ۔

بہرحال وہ بات میں نے آپ کے لیے ہرگز نہیں کہی تھی برا لگا تو معذرت ۔
 

عادل اسحاق

محفلین
ماشاءاللہ یہ تو بڑی اچھی بات ہے تجوید بھی پڑھی اور حافظ بھی ہیں اللہ آپ کو باعمل حافظ بنائے آمین.
میرا خیال ہے ہے جس مدرسے سے آپ نے تعلیم حاصل کی ہے ویسے مدرسوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے سو میں سے کوئی دس یاں پندرہ مدرسے ایسے ہوں گے
بات وہاں کے اسلام کی یاں یہاں کے اسلام کی نہیں ہے میرا خود کا مشاہدہ ہے پاک و ہند میں بہت سی چیزیں اسلام میں صرف اس لیے داخل کی گئی ہیں کہ اپنا مولانا حضرت کی روزی روٹی کا ذریعہ بنا رہے.
آپ یقین کریں میرے بیٹے کے لیے میری تفصیل کے ساتھ بات چیت ہوئی ہے عدنان سے انہوں نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ ڈاکٹر کا بیٹا بھی ڈاکٹر ہی بنے گا وہ تو کہتے ہیں جب تک وہ اپنے فیصلے خود نہیں کرتا تب تک ہم اس کی مدد کریں گے اگر وہ دین کی طرف راغب ہوتا ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا

جی ہاں میرے اساتذہ کو اللہ لمبی اور صحت والی زندگی عطا فرمائے
وہ واقعی تھوڑا مختلف ہیں۔
اور
آپ کی اس بات سے صد فیصد متفق ہوں کہ پاک و ہند میں بہت کچھ صرف اپنی جیب کے لیے کیا جاتا ہے اسلام کی آڑ میں ۔
جیسے کہ میلے ۔ عرس ۔ قوالی ۔ پکی قبریں ۔ مجاوری ۔ گدی نشینی وغیرہ وغیرہ
 

عادل اسحاق

محفلین
ماشاءاللہ یہ تو بڑی اچھی بات ہے تجوید بھی پڑھی اور حافظ بھی ہیں اللہ آپ کو باعمل حافظ بنائے آمین.

اللھم آمین ۔لیکن میرے خیال میں قرآن یاد کرنا ایک طرح سے ہمیں خود پہ فرض سمجھنا چاہیے ۔
کیونکہ اللہ فرماتے ہیں ۔ ولقد یسرنا القران للذکر فھل من مدکر۔
 

عادل اسحاق

محفلین
حمیرا عدنان سس آپکی تحریر آج پڑھنے کا موقع ملا
آپ نے کئی مسائل پہ بات کی ہے
ویسے تو میری کوشش ہوتی ہے کہ مذہبی و سیاسی لڑیوں سے سے دور رہوں کیوں کہ اکثر ایک بات بہت دور تک چلی جاتی ہے اور اکثر اوقات تو اچھی خاصی بدمزگی پیدا ہوتے ہوتے رہ جاتی ہے یا پیدا ہو جاتی ہے اس لیے اپنے مزاج کے مطابق زیادہ تر میں ان بحث مباحثوں میں اسی وجہ سے کچھ پوسٹ نہیں کرتی
آپ کی اس تحریر نے مجبور کیا کہ میں یہاں اس تھریڈ پہ آئی
مجھے آپ کی اس بات سے اتفاق ہے یا یوں کہہ لیتے ہیں کہ میں یہ سمجھتی ہوں کہ ہمارا مذہب اتنا خوفناک اتنا سفاک اور اتنا اذیتناک اور اتنا ڈراؤنا نہیں ہے اتنا تو کیا بلکہ بالکل بھی نہیں ہے جتنا کہ مذہب کے کچھ ٹھکیداروں نے بنا رکھا ہے
ہمارے مذہب میں حلم رحم پیار محبت نرمی شفقت اور بہت آسانی اور سہولت ہے لیکن اس سراپا سلامتی والے مذہب کی خوبیاں جاننے سے پہلے پہلے یہ خود ساختہ ٹھکیداران مذہب لوگوں کے دلوں میں مذہب اسلام مذہب امن و سلامتی کا ایسا سخت گیر چہرہ دکھاتے ہیں کہ اللہ کی پناہ
میری اس رائے سے مراد تمام مولوی تمام مذہبی پیشوا و رہنما ہرگز نہیں کہ وہ بزرگ ہستیاں فابل صد احترام ہیں لیکن جن کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے ایسے لوگ مذہب اسلام کی خدمت اور تشہیر کی بجائے لوگوں کو مذہب سے دور کر رہے ہیں
اگر میری اس پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو میں پیشگی معذرت خواہ ہوں

اسلام میں نرمی اور سختی دونوں موجود ہیں اسی لیے تو اللہ پاک نے فرمایا کہ
یا ایھا الذین امنو ادخلو فی السلم کافۃ ۔

مثال کے طور پہ تارک نماز و جمعہ کے لیے سخت احکامات ہیں
تارک زکوۃ کے خلاف سخت احکامات ہیں
زانی ، شرابی ، چور اور تہمت بہتان بازی کے لیے سخت احکامات ہیں اسی طرح اور بہت سی مثالیں ہیں
دوسری طرف اسلامی شریعہ بردباری نرمی کی اپنی مثال آپ ہے
مثلا حقوق العباد ۔ پڑوسی کے متعلق ازحد تلقین حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ کلمات کہ مجھے پڑوسیوں کے متعلق اتنی تلقین کی گئی کہ خدشہ ہوا کہیں پڑوسی وراثت میں حقدار نا ٹھہر جائے ۔
والدین کے لیے بڑھاپے میں سلوک ۔ اخوت معاشرہ ۔ کیا ان سب چیزوں کی مثال کہیں اور ملتی ہے ۔ مجھے تو نہیں ۔
 
جی ہاں میرے اساتذہ کو اللہ لمبی اور صحت والی زندگی عطا فرمائے
وہ واقعی تھوڑا مختلف ہیں۔
اور
آپ کی اس بات سے صد فیصد متفق ہوں کہ پاک و ہند میں بہت کچھ صرف اپنی جیب کے لیے کیا جاتا ہے اسلام کی آڑ میں ۔
جیسے کہ میلے ۔ عرس ۔ قوالی ۔ پکی قبریں ۔ مجاوری ۔ گدی نشینی وغیرہ وغیرہ
محترم عادل اسحاق صاحب، یہ اُردو کی ترویج کا ایک انتہائی متوازن اور کُھلا فورم ہے اور یہاں ہر مکتبِ فکر اور ہر مسلک کو محفلین موجود ہیں۔ آپ یہاں پر ابھی ابھی وارد ہوئے ہیں اس لیے آپ کے لیے تنبیہ ہے کہ کسی بھی قسم کی فرقہ ورانہ بحث اور الفاظ
جیسے کہ میلے ۔ عرس ۔ قوالی ۔ پکی قبریں ۔ مجاوری ۔ گدی نشینی وغیرہ وغیرہ
سے پرہیز کریں، تا کہ فورم کا ماحول آلودہ نہ ہو۔ اگر آپ کو انہیں مسائل پر بحث کرنی ہے تو اور بہت سے فورم موجود ہیں۔
 
اس بات سے میں بھی متفق ہوں کہ بے جا لاؤڈ سپیکر کا استعمال مساجد کے قریبی گھروں میں سمعی تکلیف کا باعث ہے لیکن
یہ طریقہ شرع سے بھی ثابت نہیں ۔
میں خود اکثر حیران ہوتا ہوں جب ہمارے علماء ایک گھنٹے کا جمعہ پڑھاتے ہیں جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی مختصر جمعہ پڑھاتے تھے حتی کہ جمعہ کی نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ سے لمبی ہوتی تھی ۔
کوئی بات نہیں اگر اذان کے لیے لاؤڈ سپیکر بہت ہی ضروری ہے تو سب مساجد میں ایک ہی وقت مکرر کر دیا جائے تاکہ سننے محلے والوں کو بھی تکلیف نہ ہو اور سب کویہ بھی پتا ہو کے اذان ہو چکی ہے یاں ہونے والی ہے اگر آپ ظہر کی اذان کی سماعت کریں تو کم سے کم ڈیڑھ گھنٹہ تک آپ کو ظہر کی اذان آواز سنائی دئے گی ظہر کی اذان کی بازگشت ابھی آپ کی سماعت سے ختم نہیں ہوتی کہ عصر کا وقت ہو جاتا ہے خیر اللہ کی ذات پاکستان کے علماء کو ہدایت دیں
یہاں بھی جمعہ کا خطبہ انتہائی چھوٹا ہوتا ہے زیادہ سے زیادہ 15 منٹ کا اور نماز اور اذان کا ٹائم بھی ایک ہی ہے سب مساجد میں
 

عادل اسحاق

محفلین
کوئی بات نہیں اگر اذان کے لیے لاؤڈ سپیکر بہت ہی ضروری ہے تو سب مساجد میں ایک ہی وقت مکرر کر دیا جائے تاکہ سننے محلے والوں کو بھی تکلیف نہ ہو اور سب کویہ بھی پتا ہو کے اذان ہو چکی ہے یاں ہونے والی ہے اگر آپ ظہر کی اذان کی سماعت کریں تو کم سے کم ڈیڑھ گھنٹہ تک آپ کو ظہر کی اذان آواز سنائی دئے گی ظہر کی اذان کی بازگشت ابھی آپ کی سماعت سے ختم نہیں ہوتی کہ عصر کا وقت ہو جاتا ہے خیر اللہ کی ذات پاکستان کے علماء کو ہدایت دیں
یہاں بھی جمعہ کا خطبہ انتہائی چھوٹا ہوتا ہے زیادہ سے زیادہ 15 منٹ کا اور نماز اور اذان کا ٹائم بھی ایک ہی ہے سب مساجد میں
سنا تو تھا کہ حکومت وقت اذان کے اوقات مقرر کرنے والی ہے لیکن وہ صرف اعلانات تک ہی رہا سب ۔
 
مانئے احادیث، بالکل مانئے ۔ لیکن پہلے سب سے بڑی سنت 11 شادیوں کی بات کیجئے ، 11 نا سہی 4 ہی سہی ، لوٹ پھر کر قرآن حکیم پر آجاتے ہیں ۔ بات ہو رہی ہے ہے من پسند سنتوں کی ، کہ جو پسند آیا لے لیا اور جو نہیں وہ چھوڑ دیا ۔
کوئی بات نہیں اگر اذان کے لیے لاؤڈ سپیکر بہت ہی ضروری ہے تو سب مساجد میں ایک ہی وقت مکرر کر دیا جائے تاکہ سننے محلے والوں کو بھی تکلیف نہ ہو اور سب کویہ بھی پتا ہو کے اذان ہو چکی ہے یاں ہونے والی ہے اگر آپ ظہر کی اذان کی سماعت کریں تو کم سے کم ڈیڑھ گھنٹہ تک آپ کو ظہر کی اذان آواز سنائی دئے گی ظہر کی اذان کی بازگشت ابھی آپ کی سماعت سے ختم نہیں ہوتی کہ عصر کا وقت ہو جاتا ہے خیر اللہ کی ذات پاکستان کے علماء کو ہدایت دیں
یہاں بھی جمعہ کا خطبہ انتہائی چھوٹا ہوتا ہے زیادہ سے زیادہ 15 منٹ کا اور نماز اور اذان کا ٹائم بھی ایک ہی ہے سب مساجد میں

در اصل یہ معاملہ علما یا مساجد انتظامیہ سے زیادہ حکومت وقت کا ہے اگر حکومت اوقات مقرر فرما دے تو اس معاملے کو قانونی شکل حاصل ہو جاوے گی .....
جہاں تک میرا مشاہدہ ہے حنفی مساجد (دیوبندی ، بریلوی) کی اذان کے اوقات یکساں ہیں اور ان کا دورانیہ ١٥ منٹ سے زیادہ نہیں ہوتا حد سے حد ٢٠ منٹ میں تمام مساجد کی اذانیں مکمل ہو جاتی ہیں دوسری طرف چونکہ اہل حدیث مکتب فکر عصر (مثل اول ) پر ادا کرتے ہیں اسلیے اگر انکی کوئی مسجد قریب ہو تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اذان جلد ہو گئی ......
بہر حال ایسے تمام انتظامی معاملات اس وقت تک حل نہ ہونگے جب تک معاشرہ اسلام کے رنگ میں نہ رنگ جاوے .......
 
محترم فاروق سرور خان صاحب شاید سنت کے حوالے سے کچھ ابہام کا شکار ہیں اس حوالے سے کچھ عرض کر دوں ...........


پہلی بات تو یہ کہ سنت کہتے کسے ہیں اس سے مراد کیا ہے

سنت سے مراد ہے طریقہ راستہ عادت

دوسری جانب اس کے اصلاحی معنی ہیں نبی کریم صل الله علیہ وسلم کا اختیار کردہ طریقہ و راستہ

امام کسائی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ اس کے معنی میں دوام کی کیفیت ہے:"یقال سنت الماء اذاوالیت فی صبہ" امام خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب مطلق طور پر سنت کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے طریقہ محمود مراد ہوتا ہے اور کبھی سنت سے غیر محمود طریقہ بھی مراد ہوتا ہے،
جیسے قرآن مجید میں ہے: اچھے طریقے کے بارے میں: سُنَّةَ مَن قَد أَرسَلنا قَبلَكَ مِن رُسُلِنا ۖ ...{17:77} تم سے پہلے جو رسول ہم نے بھیجے ان کی سنت (یعنی ان کا قابل_پیروی طریقہ رہ_حق پر ثابت قدمی ہے)
برے طریقے میں استعمال: كَذٰلِكَ نَسلُكُهُ فى قُلوبِ المُجرِمينَ {15:12} لا يُؤمِنونَ بِهِ ۖ وَقَد خَلَت سُنَّةُ الأَوَّلينَ {15:13} اسی طرح ہم اس (تکذیب وضلال) کو گنہگاروں کے دلوں میں داخل کر دیتے ہیں. سو وہ اس پر ایمان نہیں لاتے اور پہلوں کی روش بھی یہی رہی ہے .

اب یہ تو امر لازم ہے کہ انبیاء کا طریقہ و راستہ یعنی انبیاء کی سنت وحی الہی سے ماخوز ہوگی نہ کہ اپنی مرضی و منشا سے لیکن کہ کہیں بھی مذکور نہیں کہ انبیاء کی ہر سنت من و عن امتی پر بھی لازم ہو جاوے بلکہ اس میں درجات کے اعتبار سے فرق ہے ..........

خود قرآن کریم متعدد مقامات پر سنت ابراہیمی علیہ سلام کی پیروی کا حکم دیتا ہے

سورہ آلِ عمران ہی میں ایک اور جگہ فرمایا:

( قُلْ صَدَقَ اللَّهُ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ)

ترجمہ: آپ ان سے کہئے کہ اللہ نے (جو کچھ فرمایا ہے) سچ فرمایا ہے لہذا تمہیں ابراہیم کے طریقہ کی پیروی کرنا چاہیے جو ہر باطل سے منہ موڑ کر اللہ ہی کے ہوگئے تھے اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھے۔ آل عمران/95.

سورہ نساء میں فرمایا:

( وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا)

ترجمہ: اور اس شخص سے کس کا دین بہتر ہوسکتا ہے جس نے اللہ کے سامنے اپنا سرتسلیم خم کردیا ہو، وہ نیکو کار بھی ہو اور یکسو ہوجانے والے ابراہیم کے طریقہ کی پیروی کر رہا ہو، اس ابراہیم کی جسے اللہ نے اپنا مخلص دوست بنالیا تھا۔ النساء/125.

لیکن مشاہدہ یہ ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم کی شریعت اور شریعت ابراہیمی علیہ سلام میں فرق ہے
اور اسی جانب قرآن کریم بھی متوجہ کرتا ہے ....

﴿شَرَ‌عَ لَكُم مِنَ الدّينِ ما وَصّىٰ بِهِ نوحًا وَالَّذى أَوحَينا إِلَيكَ وَما وَصَّينا بِهِ إِبر‌ٰ‌هيمَ وَموسىٰ وَعيسىٰ ۖ أَن أَقيمُوا الدّينَ وَلا تَتَفَرَّ‌قوا فيهِ......١٣ ﴾.... سورة شورىٰ
"اس نے تمہارے لئے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح علیہ السلام کو دیا تھا اور جسے (اے محمد ا) اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم اور موسیٰ اور عیسٰی علیہم السلام کو دے چکے ہیں، اس تاکید کے ساتھ کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا"

شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے دین اسلام کے پس منظر کے حوالے سے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں بیان کیا ہے کہ اصل دین ہمیشہ سے ایک ہی رہا ہے ۔ تمام انبیا نے بنیادی طور پر ایک ہی جیسے عقائد اور ایک ہی جیسے اعمال کی تعلیم دی ہے۔ شریعت کے احکام اور ان کی بجا آوری کے طریقوں میں حالات کی ضرورتوں کے لحاظ سے ، البتہ کچھ فرق رہا ہے۔ سر زمین عرب میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو اس موقع پر اس دین کے احوال یہ تھے کہ صدیوں کے تعامل کے نتیجے میں اس کے احکام دینی مسلمات کی حیثیت اختیار کر چکے تھے اورملت ابراہیم کے طور پر پوری طرح معلوم و معروف تھے، تاہم بعض احکام میں تحریفات اور بدعات داخل ہو گئی تھیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد ہوا:’ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا‘ یعنی ملت ابراہیم کی پیروی کرو۔ آپ نے یہ پیروی اس طریقے سے کی کہ اس ملت کے معلوم و معروف احکام کو برقرار رکھا، بدعات کا قلع قمع کیااور تحریف شدہ احکام کو ان کی اصل صورت پر بحال فرمایا۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں:

اصل الدین واحد اتفق علیہ الانبیاء علیہم السلام، وانما الاختلاف فی الشرائع والمناہج. تفصیل ذلک انہ اجمع الانبیاء علیہم السلام علی توحید اللّٰہ تعالٰی عبادۃ واستعانۃ،... وانہ قدر جمیع الحوادث قبل ان یخلقہا، وان للّٰہ ملائکۃ لا یعصونہ فیما امر، ویفعلون ما یؤمرون، وانہ ینزل الکتاب علی من یشاء من عبادہ، ویفرض طاعتہ علی الناس، وان القیامۃ حق، والبعث بعد الموت حق، والجنۃ حق، والنار حق. وکذلک اجمعوا علی انواع البر من الطہارۃ والصلٰوۃ والزکٰوۃ والصوم والحج والتقرب الی اللّٰہ بنوافل الطاعات من الدعاء والذکر وتلاوۃ الکتاب المنزل من اللّٰہ، وکذلک اجمعوا الی النکاح وتحریم السفاح واقامۃ العدل بین الناس وتحریم المظالم واقامۃ الحدود علی اہل المعاصی والجھاد مع اعداء اللّٰہ والاجتہاد فی اشاعۃ امر اللّٰہ ودینہ، فھذا اصل الدین، ولذلک لم یبحث القرآن العظیم عن لمیۃ ہذہ الاشیاء الا ما شاء اللّٰہ، فانہا مسلمۃ فیمن نزل القرآن علی السنتہم. وانما الاختلاف فی صور ہذہ الامور واشباحہا.(حجۃ اللہ البالغہ۱ / ۱۹۹۔۲۰۰)
’’اصل دین ایک ہے، سب انبیا علیہم السلام نے اسی کی تبلیغ کی ہے۔ اختلاف اگر ہے تو فقط شرائع اور مناہج میں ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ سب انبیا نے متفق الکلمہ ہو کر یہ تعلیم دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید دین کا بنیادی پتھر ہے۔ عبادت اور استعانت میں کسی دوسری ہستی کو اس کا شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ ... ان کا یہ پختہ عقیدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے سب حوادث اور واقعات کو وقوع سے پہلے ازل میں مقدر کیا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ایک پاک مخلوق ہے جس کو ملائکہ کہتے ہیں۔ وہ کبھی اس کے حکم سے سرتابی نہیں کرتے اور اس کے احکام کی اسی طرح تعمیل کرتے ہیں، جس طرح ان کو حکم ہوتا ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے کسی ایک کو چن لیتا ہے جس پر وہ اپنا کلام نازل فرماتا ہے اور لوگوں پر اس کی اطاعت فرض کر دیتا ہے۔ موت کے بعد زندہ ہونا اور قیامت کا قائم ہونا حق ہے، جنت اور دوزخ کا ہونا حق ہے۔جس طرح ہر دین کے عقائد ایک ہیں، اسی طرح بنیادی نیکیاں بھی ایک جیسی ہیں۔ چنانچہ دین میں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے، طہارت، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کو فرض قرار دیا گیا ہے۔نوافل عبادات کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اقدس میں قرب حاصل کرنے کی تعلیم ہر دین میں موجود ہے۔ مثلاًمرادوں کے پورا ہونے کے لیے دعا مانگنا، اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول رہنا نیز کتاب منزل کی تلاوت کرنا۔ اس بات پر بھی تمام انبیا علیہم السلام کا اتفاق ہے کہ نکاح جائز اور سفاح۳؂ حرام اور ناجائز ہے۔ جو حکومت دنیا میں قائم ہو عدل اور انصاف کی پابندی کرنا اور کمزوروں کو ان کے حقوق دلانا اس کا فرض ہے۔ اسی طرح یہ بھی اس کا فرض ہے کہ مظالم اور جرائم کے ارتکاب کرنے والوں پر حد نافذ کرے، دین اور اس کے احکام کی تبلیغ اور اشاعت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے۔ یہ دین کے وہ اصول ہیں جن پر تمام ادیان کا اتفاق ہے اور اس لیے تم دیکھو گے کہ قرآن مجید میں ان باتوں کو مسلمات مخاطبین کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے اور ان کی لمیت سے بحث نہیں کی گئی۔ مختلف ادیان میں اگر اختلاف ہے تو وہ فقط ان احکام کی تفاصیل اور جزئیات اور طریق ادا سے متعلق ہے۔‘‘

اب یہاں پلٹ پلٹ کر یہ سوال کرنا کہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے تو گیارہ شادیاں کی تھیں آپ کیوں نہیں کرتے تو جناب من وہ معاملہ الله کے رسول صل الله علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا ہمارے لیے اس کی اتباع نہیں ہے ہمیں محدود کر دیا گیا چار بیویوں تک نفقے کی شرائط کے ساتھ ......
 

شزہ مغل

محفلین
جہاں آذان دی جاوے وہاں شیطان بھاگ جاوے ہے ۔ بچے کے کان میں اذان لازم ہے
دوسرے اپنے میاں سے کہیں کہ داڑھی رکھ لیں۔ سنت ہے۔ ویسے شریعی طور پر تمام مبتدیوں کو نماز لوٹانا لازم ہے جن نے بھی ان کے پیچھے پڑھی ہے۔ ہمارے یہاں تو داڑھی والا شخص بھی موزے پر مسح کرکے نماز پڑھاتا ہے تو نمازی بھاگ جاویں ہیں
تیسرے رفع یدین کا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے ۔ بریلوی اور دیوبندی ایک ہی امام کو فالو کرتے ہیں ۔ البتہ اہلحدیث کوئی مسلک ہی نہیں ہے۔ یہاں خلیج میں فرقہ واریت اس لیے نہیں ہے کہ ایک فرقے والوں نے باقیوں کو مار مار کر بھگادیا ہے
پاکستان میں تمام ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ البتہ کچھ فرقے صرف شور کرتے ہیں کہ تعداد میں کم ہیں۔ کیا کریں
برادرِمحترم میرے خیال میں حمیرا عدنان آپی نے یہ تحریر اس لیے لکھی کہ ہم سب فرقہ پرستی چھوڑ کر اولادِ آدم کی حیشیت سے ایک دوسرے کے ساتھ اتفاق قائم کریں۔ یہ میرا ذاتی خیال ہے
 

شزہ مغل

محفلین
شرعی طور پر فرض نہیں ہے۔ البتہ بہتر ہے کہ آذان دیں
داڑھی بھی فرض نہیں ہے بلکہ سنت ہے۔ سنت پر عمل تو ہر سنی کرتا ہے ۔ ورنہ لوگ کہیں کہ سن سن کر سنی ہوا ہے بلکہ سن ہوگیاہے۔ اپ اپنے شوہر سے کہیں سنت پر عمل کرے۔ اللہ ہم سب کو سنت پر عمل کی توفیق دیوے
سنت پر عمل کرنے کی توفیق بھی اور واجبات و فرائض ادا کرنے کی توفیق بھی دے۔ آمین
 

شزہ مغل

محفلین
چوہدری صاحب ہماری طرف ابھی بھی اِسلام کا بول بالا لاؤڈ سپیکر کے ذریعے ہی کیا جا رہا ہے۔ ہمارے علاقے میں اِتنے نمازی نہیں ہیں کہ ماشاء اللہ جتنی مسجدیں ہیں۔ آپ یقین کریں کہ آذان جیسے خوبصورت عمل کو ایسے طریقے سے سرانجام دیا جاتا ہے کہ ہر روز پانچ مرتبہ علاقہ میدانِ جنگ کا نقشہ پیش کرتا ہے ۔ساتھ ساتھ موجود گلیوں میں تقریبا" ہر گلی اپنی مسجد رکھتی ہے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایک مسجد کی لاؤڈ سپیکر سے آذان مقامی آبادی کی اطلاع کے لیے کافی و شافی ہو گی کوئی مسجد بھی لاؤڈ سپیکر استعمال کرنے کے ثواب سے محروم نہیں رہتی۔ ختمِ قُرآن کی رات مرے پر سو دُرے کے مصادق ایک اور امتحان ہے جِس میں لاؤڈ سپیکر پر فاسٹ فارورڈ موڈ میں تلاوت کی جاتی ہے اور ایک ہی رات میں قُرآنِ پاک ختم کرنے کی اور اہلِ علاقہ کو سُننے کی فضیلت سے شادکام کیا جاتا ہے۔ ہفتے کے سات دِن چندے کی وصولی کا باہمی مقابلہ بھی چلتا ہے اور چندہ دینے والے خوش نصیبوں کے نام مع اوّل و آخر طویل دُعائیہ سلسلے کے پُکارے جاتے ہیں اور عطیہ کی گئی رقم بھی ساتھ ہی اعلان کر دی جاتی ہے تاکہ دیگر سامعین بھی اپنے سوئے بخت جگا سکیں۔ ایک دو امام مسجد تہجد کی آذان کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ گیارہویں شریف کا چندہ اور لنگر ایک علیحدہ مضمون کا متقاضی ہے۔ ہم آپ جیسے احباب اور میڈیا سے بڑی حسرت سے ایسی خبریں سُنتے ہیں کہ لاؤڈ سپیکر کا جن بوتل میں بند ہو گیا ہے لیکن دیگر علاقوں میں اگر ایسا ہوا ہے تو بڑی بات ہے ہمارے تو سب مولوی صاحبان ایسی غیر شرعی قانون سازی کے خلاف گویا الٰہ دین کا چراغ رکھتے ہیں :)
آپ کس علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں؟؟؟
 
Top